نقطہ نظر

سی پیک سیاحت: راکاپوشی کے سائے میں (دسویں قسط)

دنیا کی مشہور اور خوبصورت چوٹی راکاپوشی ریاست نگر کی حدود میں آتی ہے اور ہنزہ والوں کی خوش قسمتی ہے کہ اس چوٹی کا واضح اور خوبصورت منظر دریا پارہنزہ کریم آباد سے نظر آتا ہے۔

اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


شام گئے دینیور سے گلگت واپسی ہوئی۔ گلگت کی سیر تقریباً پوری ہوئی۔ اب صبح ہمیں ہنزہ کے لیے نکلنا تھا اس لیے ہم ایک ریسٹورنٹ سے جلدی کھانا کھا کر اپنے ہوٹل واپس پہنچے اور سو گئے۔ اگلے دن صبح سویرے گلگت کے ویگن اڈے پہنچے اور ہنزہ جانے والی وین میں سوار ہوگئے۔ ہنزہ جانے کے لیے ہمیں آج دوبارہ شاہراہ قراقرم پر دینیور سے گزرنا تھا لیکن آج دینیور کے لیے ہمیں سرنگ والے پل کے راستے نہیں جانا تھا۔

ہمیں گلگت شہر سے پنڈی کی طرف جانے والے راستے پر اُس پل تک جا کر شاہراہ قراقرم پر چڑھنا تھا جو دریائے گلگت کو عبور کرکے دینیور کی طرف جاتی ہے۔ اس پل سے کچھ پہلے دریائے ہنزہ اور دریائے گلگت آپس میں مل چکے ہوتے ہیں اور ان دونوں دریاؤں کا مشترک پانی یہاں پل کے نیچے سے گزرتا ہے۔ گلگت شہر سے باہر آنے والی یہ سڑک اس پل سے ذرا پہلے پنڈی سے آنے والی شاہراہ قراقرم سے مل جاتی ہے اور پل عبور کرکے تھوڑا ہی آگے بڑھیں تو پہلے دائیں ہاتھ پر چینی شہدا کی یادگار آتی ہے اور پھر دینیور شروع ہوجاتا ہے۔ ہماری گاڑی مسافروں سے بھری ہوئی تھی اس لیے دینیور میں رکے بغیر آگے نکلتی چلی گئی اور دریائے ہنزہ کے کنارے کنارے بلندیوں کی طرف دوڑنے لگی۔

تھوڑی دیر میں ہم نومل کے قصبے تک پہنچ گئے۔ نومل میں شاہراہ قراقرم سے بائیں ہاتھ کو ایک سڑک نیچے دریائے ہنزہ کی طرف اترتی ہے جو گہرائی میں دریا تک جا کر اسے ایک پل سے عبور کرکے دوسری طرف کے بلند و بالا پہاڑوں میں چھپی حسین وادی ’نلتر‘ کی طرف چلی جاتی ہے۔ وادی نلتر جو گرمیوں میں سیاحوں کے لیے سرسبز و دل فریب ہوتی ہے اور سردیوں میں اس کی برف پوش ڈھلوانیں اسکی اِنگ کے لیے دلکش ہوجاتی ہیں۔

اس وقت تو ہماری گاڑی نومل میں رکے بغیر سیدھی ہنزہ کی طرف دوڑتی چلی گئی لیکن اس کے 16 سال بعد 2002ء میں مجھے وادی نلتر جانے کا بھی موقع ملا۔ اس وقت میں اسلام آباد سے اپنے دوستوں ڈاکٹر قیصر اور ڈاکٹر اکرم کے ساتھ آیا تھا اور ہماری جیپ یہاں نومل میں شاہراہ قراقرم کو چھوڑ کر نیچے دریائے ہنزہ کی طرف اتر گئی تھی۔

گلگت شہر دو دریاؤں یعنی دریائے گلگت اور دریائے ہنزہ کے مقام اتصال پر آباد ہے۔ دریائے گلگت شندور اور وادی یاسین کی طرف سے بہتا ہوا آتا ہے جبکہ دریائے ہنزہ خنجر اب اور ہنزہ کی طرف سے آتا ہے۔ یہ دونوں دریا گلگت شہر کے قریب باہم مدغم ہوکر مزید آگے بڑھتے ہیں اورتقریباً 30 کلومیٹر آگے جا کر جگلوٹ کے قریب دریائے سندھ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ وادی نلتر انہی دونوں دریاؤں یعنی دریائے گلگت اور دریائے ہنزہ کے درمیان والے پہاڑوں میں ایک سر سبز و شاداب وادی ہے جو اپنی بلند و بالا ست رنگی جھیل اور اپنے ’اسکی اِنگ ریزورٹ‘ کی وجہ سے مشہور ہے۔

وہ 2002ء کا جون تھا جب طے پایا کہ اس دفعہ ہم وادی نلتر جائیں گے۔ ڈاکٹر اکرم نے تجویز دی تھی کہ وادی نلتر میں ہم کسی ہوٹل کے کمرے میں رکنے کی بجائے وہاں کسی سبز ڈھلوان پر خیمہ لگائیں گے۔ اس مقصد کے لیے وہ کہیں سے ایک خاکی خیمہ بھی لے آئے۔ میں نے اور قیصر نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور ہم سفر کی تیاریوں میں لگ گئے۔ ڈاکٹر قیصر شہزاد اور ڈاکٹر اکرم اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے اساتذہ ہیں اور میں اُس وقت شفا اسپتال میں ملازم تھا۔ ہم سِلک روٹ ٹرانسپورٹ کی بس میں 18 گھنٹے کا سفر کرکے اسلام آباد سے گلگت پہنچ گئے۔

اگلے دن صبح سویرے ایک جیپ ہمیں وادی نلتر لے جانے کے لیے تیار تھی۔ ہمیں لے کر جیپ گلگت سے باہر نکلی اور شاہراہِ قراقرم پر آگئی۔ دریائے گلگت کو عبور کرکے ہم دینیور سے گزرے اور دریائے ہنزہ کے کنارے کنارے آگے آئے اور یہاں نومل میں جیپ شاہراہ قراقرم کو چھوڑ کر بائیں ہاتھ ایک کچی سڑک پر اتر گئی۔ نیچے دریا تک پہنچ کر اسے ایک آہنی رسوں سے معلق پل سے عبور کیا اور دوسرے کنارے پر پہنچ کر ایک پہاڑی نالے کے ساتھ ساتھ بلندی کو جاتی ہوئی کچی سڑک پر چڑھنا شروع کردیا۔ یہ نالہ وادی نلتر ہی سے بہہ کر آتا ہے اور یہاں دریائے ہنزہ میں شامل ہوتا ہے۔ نالے کے ساتھ ساتھ بلندیوں کی طرف چڑھتا یہ ایک کچا اور تنگ راستہ تھا جس پر کہیں دور ہماری منزل ہمارا انتظار کر رہی تھی۔

گھنٹہ بھر تو یہ راستہ ویران رہا، پھر ایک پہاڑی گاؤں کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ ڈھلوانوں پر سیڑھی نما سرسبز کھیت، کچے پکے مکان، راستے کے دونوں اطراف جا بہ جا سرخ خوبانیوں سے لدے پھندے درخت جن کی شاخیں سڑک پر اس قدر جھکی ہوئی تھیں کہ کھلی جیپ میں سے لپک کر خوبانیاں توڑی جاسکتی تھیں۔ اکرم نے لپک جھپک کر کئی خوبانیاں توڑیں اور قیصر اور میں مزے لے لے کر کھاتے رہے۔ پھر نلتر آگیا اور ایک عارضی سے ہوٹل کے سامنے جیپ رک گئی۔ سامنے سڑک پر لکڑی کے بڑے بڑے شہتیروں سے ایک گیٹ بنایا گیا تھا جس پر ’ویلکم ٹونلتر‘ لکھا ہوا تھا۔ یہ ہوٹل صرف کھانا چائے وغیرہ کے لیے تھا۔

ان دنوں نلتر میں رہائشی ہوٹل کوئی بھی نہیں تھا، بس ایک سرکاری ریسٹ ہاؤس تھا جس کی بکنگ گلگت سے ہی کروانا پڑتی تھی لیکن ہمیں تو کوئی پروا نہیں تھی کیونکہ ہمارے پاس ایک عدد خیمہ تھا۔ جیپ کچھ اور آگے چلی اور نالا عبور کرکے دوسری طرف ایک دل فریب لینڈ اسکیپ میں داخل ہوگئی۔ یہاں پہاڑ کے دامن میں ایک گھنا جنگل تھا جس کے سامنے ایک وسیع سرسبز میدان تھا اور اس میدان کے ایک طرف ریسٹ ہاؤس کی عمارت نظر آرہی تھی۔ سرسبز گھاس کے اس وسیع میدان کے بیچوں بیچ ایک گول فرش تھا جس پر بڑا سا ’H‘ کا حرف پینٹ کیا گیا تھا۔ یعنی یہ ہیلی پیڈ تھا جہاں برف میں اسکی اِنگ کے شائقین وزرا و سفرا کے ہیلی کاپٹر اترتے ہوں گے۔

سبز میدان کے کنارے کنارے ایک شفاف پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا۔ ہم نے اسی چشمے کے کنارے خیمہ نصب کرنے کا فیصلہ کیا۔ جیپ کے ڈرائیور اور ریسٹ ہاؤس کے چوکیدار نے بھی ہماری مدد کی اور ہمارا مختصر سا خاکی خیمہ ایستادہ ہوکر ڈھلتے سورج کی پیلی روشنی میں چمکنے لگا۔ ریسٹ ہاؤس کے چوکیدار نے مناسب معاوضے پر چکن کڑاہی اور روٹیاں فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ ڈرائیور رخصت ہوگیا۔ اب ہم تھے اور ہماری پہلی کیمپنگ کے سنسنی خیز جذبات۔ ہم خواہ مخواہ بار بار خیمے کے اندر جاتے اور باہر آتے۔ مغرب کی نماز پڑھ کے خیمے میں گھسے ہی ہوں گے کہ کھانا آگیا۔ بھوک شدید اور سماں سہانا، بس کھانے کا مزا ہی آگیا۔

لیکن کھانا کھا کر باہر نکلے تو سماں دیکھ کر چونک گئے۔ آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ سب کچھ گھپ اندھیرے میں گم تھا، بس دور ایک زرد روشن نقطہ نظر آتا تھا جو ریسٹ ہاؤس کے دروازے کا بلب تھا۔ جنگل کی طرف سے سائیں سائیں کی آوازیں آ رہی تھیں اور نیچے گہرائی سے نلتر نالے کا شور بھی کانوں تک پہنچ رہا تھا۔ ایک نامعلوم سی گھبراہٹ نے ہمیں فوراً واپس خیمے میں جانے پر مجبور کردیا۔ اندر ایمرجنسی لائٹ کی روشنی بہرحال کچھ رونق تھی۔

خیمے کا نچلا حصہ پیراشوٹ کلاتھ سے بنے ہوئے فرش پر مشتمل تھا جس پر ہم نے اپنے سلیپنگ بیگ بچھا رکھے تھے اور اپنے تھیلے بطور تکیہ پیچھے جمائے ہوئے تھے۔ بلند پہاڑوں کی ایک پوشیدہ وادی میں سنسان جنگل کے کنارے ایک خیمے میں موجودگی کی سنسنی کا مزہ لیتے ہوئے ہم اپنے اپنے سلیپنگ بیگ میں زور زور سے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ایک زور دار دھماکا ہوا۔ اگلے ہی لمحے ایک خیرہ کن چمک نے خیمے کی دیواروں کویکبارگی روشن کردیا۔ ہم اچھل پڑے۔ بادلوں نے گرجنا چمکنا شروع کردیا تھا اور بارش کسی بھی لمحے متوقع تھی۔

’یار یہ خیمہ واٹر پروف ہے نا؟‘ میں نے تشویش سے پوچھا۔

’ہاں ہے تو!‘ اکرم نے یقین اور بے یقینی کے ملے جلے لہجے میں کہا اور خیمے کی اندرونی سطح پرہاتھ پھیرنے لگا۔ ہماری لاپروا گپ شپ کی شگفتگی میں کچھ کمی سی آگئی۔ اچانک ٹپاٹپ کی تیز آواز نے ماحول کو گرفت میں لے لیا اور پھر گرج، چمک اور چنگھاڑتی ہوا کے شور نے اپنے اپنے مورچے سنبھال لیے۔ اچانک لائٹ کی بیٹری نے بھی کام چھوڑ دیا اور ہم گھپ اندھیرے میں گم ہو کر رہ گئے۔

اسی وقت طوفانی ہوا کا ایک ایسا زور دار جھکڑ آیا کہ یوں لگا جیسے خیمہ ہم تینوں کو ساتھ لیتا ہوا نلتر نالے کی گہرائیوں میں جا پڑے گا۔ ہم نے گھبرا کر خیمے کے کناروں پر پیر جمادیے کہ کہیں خیمے کی میخیں ہی نہ اکھڑ جائیں۔ میں نے خیمے کی زپ ذرا سی کھول کر باہر دیکھا تو اندھیرے کی ایک مہیب دیوار آنکھوں کے آگے کھڑی تھی۔ ریسٹ ہاؤس کا زرد بلب بھی بجلی بند ہونے سے گم گشتہ ہوچکا تھا اور اب باہر تیز ہوا اور موسلادھار بارش کے سوا کچھ نہ تھا۔

اچانک بجلی کا ایک کوندا لپکا۔ میدان، ہیلی پیڈ اور ریسٹ ہاؤس کی عمارت اس جھماکے میں یکبارگی نمودار ہوئی اور آنکھوں پر نیگیٹیو فوٹو جیسا عکس چھوڑ کر پھر اندھیرے میں گم ہوگئے۔ میں نے جلدی سے منہ اندر کرکے زپ چڑھا دی۔ اکرم اور قیصر اب بالکل چپ تھے۔ اندھیرے کے باوجود ہم ایک دوسرے کی آنکھوں میں خوف کی پرچھائیاں دیکھ سکتے تھے۔ ہوا کا ایک اور زوردار جھکڑ آیا اور خیمے کا چوتھا کونا، فٹ بھر زمین سے اوپر اٹھ کر دوبارہ نیچے آیا۔

’یا اللہ خیر۔۔۔‘ قیصر گھبرا کر بولا۔

اب ہم تینوں نے اس طرح پوزیشنز سنبھالنے کی کوشش کی کہ خیمے کے چاروں کونے زمین سے لگ جائیں اور ہوا انہیں دوبارہ زمین سے اوپر نہ اٹھاسکے کیونکہ اگر خیمہ اکھڑ جاتا تو پھر یہ طوفانی رات ہمیں نازک کھلونوں کی طرح توڑ مروڑ کر رکھ دیتی۔ کچھ ہی دیر میں خیمہ ٹپکنے لگا۔ بارش کے ٹھنڈے قطرے خیمے کی اندرونی سطح پر تیرتے ہوئے وقفے وقفے سے ہمارے چہروں پر گرنے لگے۔ یہ ایک نئی مصیبت تھی۔

ہم نے تھیلوں میں ٹٹول ٹٹول کر اپنے اپنے تولیے نکالے اور بار بار خیمے کی اندرونی سطح پر پھیرنے لگے۔ ہوا کا ہر جھکڑ ہمیں خیمے سمیت اچھال دینا چاہتا تھا اور ہم مضبوطی سے زمین سے چپکے ہوئے تھے۔ خدانخواستہ خیمہ گر جانے کی صورت میں بھی ہم نے اسی طرح زمین سے چمٹے رہنے کا فیصلہ کیا۔

بیٹھے بیٹھے صدیاں گزر گئیں۔ میں نے وقت دیکھنے کے لیے بیگ میں سے موبائل فون نکال کر آن کیا تو خیمے میں ہلکی ہلکی روشنی پھیل گئی۔ اکرم اور قیصر کے دھندلے نظر آنے والے چہرے پریشان تھے۔ ان کو دیکھ کرمجھے اپنے چہرے پر عیاں دہشت کا بھی اندازہ ہورہا تھا۔ اس وقت رات کا ایک بج رہا تھا۔ ابھی نصف شب بھی نہیں گزری تھی مگر ہمیں یوں لگ رہا تھا جیسے ہم کئی دنوں سے اس خیمے میں بند ہیں۔

رات آہستہ آہستہ رینگتی رہی۔ خدا جانے کس وقت بارش بند ہوئی اور ہوا کا زور ٹوٹا۔ ہم بیٹھے بیٹھے نیند کی وادیوں میں جاچکے تھے۔ پرندوں کی آواز نے سماعت پر دستک دی تو میں چونکا اور خیمے سے باہر نکل آیا۔ سورج طلوع ہورہا تھا اور ایک دُھلی ہوئی، نکھری نکھری شفاف وادی ہمارے سامنے پھیلی ہوئی تھی۔ رات بھر گرجنے، چمکنے اور برسنے والے بادل دور ایک برف پوش چوٹی کی طرف سمٹ رہے تھے۔ اکرم اور قیصر بھی باہر نکل آئے۔ ہم اپنے نازک مگر پامردی سے ایستادہ خیمے کو الوداعی نظروں دیکھا۔ بے چارہ ننھا سا خیمہ۔ اب اس کے نصیب میں کم از کم ہمارے ہاتھوں دوبارہ ایستادہ ہونا نہیں لکھا تھا۔ ہم نے توبہ کر لی تھی کہ آئندہ کبھی پہاڑی علاقوں میں کیمپنگ نہیں کریں گے۔

لیکن یہ تو میں نے کئی سال بعد کا قصہ بیان کردیا۔ اس وقت تو ہماری گاڑی نومل سے آگے چھلت اور وادی نگر کی طرف دوڑی جا رہی تھی۔ چھلت سے وادی نگر کی حدود شروع ہوتی ہیں جو شاہراہ قراقرم پر 105 کلومیٹر آگے پسن کے قصبے پر ختم ہوتی ہیں جہاں دریائے ہنزہ کو عبور کرکے مسافر دوسرے کنارے پر وادی ہنزہ میں داخل ہوجاتے ہیں۔

نگر قراقرم کی ایک قدیم ریاست ہے۔ دنیا کی مشہور اور خوبصورت چوٹی راکاپوشی بھی ریاست نگر کی حدود میں آتی ہے لیکن ہنزہ والوں کی خوش قسمتی ہے کہ اس چوٹی کا واضح اور خوبصورت منظر دریا پارہنزہ کریم آباد سے نظر آتا ہے، اس لیے راکاپوشی کو دیکھنے والے نگر میں رکنے کی بجائے سیدھے ہنزہ کریم آباد جاتے ہیں۔ ہماری وین بھی ہمیں اپنی آرام دہ نشستوں کی نرم آغوش میں سمیٹے فراٹے بھرتی ہنزہ کی جانب محو سفر تھی۔ سڑک پر تیزی سے بہتے ہوئے کسی جھرنے کا پانی اچانک ٹائروں کے نیچے آیا۔ ایک زوردار بوچھاڑ کی آواز پیدا ہوئی اور پانی کے لاکھوں قطرے فضا میں ابھر کر دوبارہ نیچے گرگئے۔ انجن کی یکساں آواز یکبارگی بدلی، مگر اگلے ہی لمحے میں پھر اسی یکساں زوں زوں میں بدل گئی۔

سڑک کے دائیں طرف پہاڑ تھے اور بائیں طرف ایک میلوں وسیع میدان پر دریا، دوسرے کنارے والے پہاڑوں تک چلا گیا تھا اور دریائے ہنزہ کا پانی دور اس وسیع میدان کے بیچ ایک چھوٹے برساتی نالے کی طرف بہتا نظر آتا تھا۔ شاہراہِ قراقرام اس میدانی پاٹ کے دائیں کنارے پر ایک کالی پٹی کی طرح میلوں دور تک چلی جارہی تھی۔ دریا کے پاٹ میں کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے سبز ٹکڑے بھی نظر آتے تھے مگر ان اکا دکا سبز نقطوں کے علاوہ ہرطرف ریت ہی ریت تھی۔ پہاڑوں پر بھی سبزہ نہیں تھا اور وہ لوہے کی زنگ آلود سطح کی مانند بھورے ہورہے تھے۔

اس یک رنگی و بدرنگی سے دل اوبنے لگا تو رحیم آباد آگیا جہاں سفر میں وقفہ تھا۔ گاڑی رک گئی اور مسافر باہر نکل آئے۔ سڑک کے دائیں طرف چند دکانیں اور چائے خانے تھے جن کے درمیان میں ایک جگہ پر سیب کے درختوں کا جھنڈ تھا۔ فضا میں پانی بہنے کا ہلکا ہلکا شور بھی شامل تھا۔ سیبوں کے جھنڈ میں یہ شور بڑھ گیا تھا کیونکہ یہاں ایک پہاڑی چشمے کا پانی پرنالے کی صورت میں گرتا اور شور مچاتا نیچے جا رہا تھا۔ سیبوں اور انگوروں کی میٹھی میٹھی خوشبو اس سبز چھاؤں والے ماحول کی تاثیر میں اضافہ کررہی تھیں۔ سیبوں کی چھاؤں میں آباد اس ہوٹل کی روٹیاں بڑی بڑی اور خوشبودار تھیں۔ لوبیہ کا سالن چٹ پٹا اور مزیدار تھا اور سبز چائے کی تو کیا ہی بات تھی۔

رحیم آباد سے چلے تو دریا کا پاٹ سمٹنے لگا اور دوسری طرف کے پہاڑ قریب آگئے۔ ان پہاڑوں کے دامن میں ہرے بھرے کھیت تھے۔ کھیتوں میں گھرے چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے جن کو شاہراہِ قراقرم سے ملانے کے لیے لکڑی کے قدیم معلق پل تھے۔

شاہراہِ قراقرام کی تعمیر سے پہلے گلگت اور ہنزہ کا رابطہ بس ایک پتلی سی پگڈنڈی کے ذریعے ہوا کرتا تھا جس پر مسافر خچروں اور گھوڑوں پرسوار ہفتوں بھٹکنے کے بعد کہیں جاکر منزل پر پہنچ پاتے تھے یا پھر کسی جگہ گھوڑے کا پاؤں رپٹ جاتا تھا تو وہ ہزاروں فٹ گہری کھائی میں گر کر اپنی آخری منزل پہنچ جاتے تھے۔

اس پگڈنڈی کو ’ہنزہ روڈ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ وہ راستہ شاہراہِ قراقرام کی بائیں طرف دریا کے پار والے پہاڑوں سے ہزاروں فٹ بلندی پر کسی منحنی لکیر کی مانند چمٹا ہوا نظر آتا تھا۔ ہنزہ روڈ کے ان شکستہ آثار سے اس کی ہیبت کا بھرپوراندازہ ہوتا تھا۔ اس ہیبت ناک راستے کو گاڑی کی کھڑکی میں سے سر کو عموداً اوپراٹھا کر ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس پر پڑنے والی پہلی ہی نظر دیکھنے والوں پر لرزہ طاری کردیتی ہے اور اسے شاہراہِ قراقرم فوراً ہی ایک نعمت محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہفتوں کا جان لیوا سفر شاہراہِ قراقرم کی تعمیر سے اب چند گھنٹوں کی راحت افزا مسافت میں بدل گیا ہے۔


ہیڈر: وکی پیڈیا

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔