جسٹس عمر عطا بندیال جو ججز کی تقسیم اور سیاسی تنازعات سے بچ نہ سکے
’ناانصافی کہیں بھی ہو لیکن وہ انصاف کے لیے ہر جگہ پر خطرہ ہے‘، یہ امریکا میں انسانی حقوق کے بڑے علمبردار اور سیاہ فام سیاست دان مارٹن لوتھر کنگ کا قول ہے۔ ہرکیولس کا ماننا تھا کہ ’اگر ناانصافی نہ ہوتی تو لوگوں کو انصاف کا علم بھی نہ ہوتا‘۔ انگریزی کا ایک اور مشہور قول ہے جس کے معنیٰ ہیں کہ ’انصاف وہ تلوار ہے جس کی کوئی میان نہیں ہوتی‘۔۔۔ یہ سب اقوال مجھے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر یاد آرہے ہیں۔
ان تمام اقوال کو ذہن میں رکھ کر منصف اعلیٰ کے دور کے فیصلوں کو پڑھنے والے خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ منصف کہاں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے اٹھائیسویں چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کرنے کے بعد 16 ستمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں، ان کی جگہ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی سربراہ ہوں گے جن کی نامزدگی وقت سے پہلے ہوچکی ہے۔ وہ 18 ستمبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھال لیں گے۔
سابق چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کے بعد 2 فروری 2022ء کو جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے، جسٹس عمر عطا بندیال ایک سال سات ماہ 14 دن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے اور 65 برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد عدالتی سربراہ کے عہدے سے ریٹائر ہورہے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا بطور ایک جج عدالتی کردار لاہور ہائیکورٹ سے شروع ہوا۔ وہ 2004ء میں لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے، عدالت عالیہ میں ایک جج کی حیثیت سے اپنے فرائض تب تک ادا کرتے رہے جب تک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء میں ایمرجنسی پلس مسلط کرکے ججوں کو پی سی او کے تحت اپنی وفاداری کا حلف لینے پر مجبور نہ کیا، اس غیر آئینی صورتحال میں جسٹس عمر عطا بندیال ان ججوں میں شامل ہوگئے جنہوں نے ایک آمر سے وفاداری کا حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔
3 نومبر 2007ء سے سپریم کورٹ کے سربراہ جسٹس عبدالحمید ڈوگر بن چکے تھے جبکہ ایوان صدر کی باگ ڈور صدر آصف علی زرداری کے ہاتھ میں آنے کے بعد ججز اور وکلا دونوں افتخار چوہدری کو پرانی مسند پر بٹھانے کا مطالبہ کررہے تھے۔ صدر زرداری جسٹس ڈوگر کو ہٹانے کو تیار نہیں تھے، انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جسٹس چوہدری کے عزائم سیاسی ہیں اور وہ سیاسی حکومت کے لیے مسائل پیدا کریں گے، آخرکار وہ خدشے درست ثابت ہوئے۔
عدالتی انصاف کے مطالبات اپنی جگہ لیکن ججوں کی بحالی ایک سیاسی نعرہ بن گیا۔ مارچ، دھرنے، جلوس جلسے شروع ہوچکے تھے۔ میاں نواز شریف نے افتخار چوہدری کو مسند انصاف پر بٹھانے کے لیے لاہور سے لانگ مارچ شروع کردیا۔ یوں 16 مارچ 2009ء کو ایک بڑی گارنٹی پر افتخار چوہدری و دیگر معزول ججوں کو پیپلز پارٹی حکومت نے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بحال کردیا۔ اس طرح جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی اپنے باقی ساتھیوں سمیت لاہور ہائیکورٹ میں مائے لارڈ کی کرسی سنبھال لی اور پھر وہاں کے چیف جسٹس بنے۔
16 جون 2014ء کو جسٹس بندیال لاہور ہائیکورٹ سے ترقی پاکر سپریم کورٹ کے جج بن گئے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ سے 20 دن پہلے یعنی 13 جنوری 2022ء کو تحریک انصاف کی حکومت کی سفارش پر صدر مملکت عارف علوی نے جسٹس عمر عطا بندیال کو باضابطہ طور پر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس نامزد کردیا۔ اس طرح جسٹس عمر عطا بندیال 2 فروری 2022ء کو اپنے عہدے کا حلف لے کر سپریم کورٹ کے اٹھائیسویں سربراہ بن گئے۔
سپریم کورٹ میں اب تک رہنے والے چیف جسٹسز میں سے بیشتر ججز اپنی مدت ملازمت کے دوران اپنے ہی کچھ متنازع فیصلوں، عدلیہ کے مجموعی کردار اور التوا میں پڑے مقدمات کے سبب بار ایسوسی ایشنز ، سیاسی جماعتوں، صحافیوں اور تجزیے نگاروں سمیت مختلف مکتبہ فکر کے افراد کی طرف سے تنقید کی زد میں رہے ہیں لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر یہ مہربانی کچھ زیادہ ہی رہی۔صرف سیاسی جماعتیں یا بارز ہی نہیں بلکہ چیف جسٹس صاحب کی تو ان کے اپنے ساتھی ججوں سے بھی نہیں بن پائی۔
یہ ہی نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے بھی نام لیے بغیر ان کے ساتھ ان کے دیے گئے فیصلوں پر تنقید کے نشتر چھوڑے اور متنازع فیصلوں کے خلاف ایک سے زائد قراردادیں بھی منظور کیں۔ یہ جسٹس بندیال ہی تھے کہ جن کے دور میں دو ادارے یعنی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ بالکل آمنے سامنے آچکے تھے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کو متنازع فیصلوں، ججز کی تقسیم، ہم خیال ججز کو ساتھ ملاکر سینیئر ججز کو نظراندز کرنے، مخصوص جماعت یا ایک لیڈر کی طرف جھکاؤ، ذاتی پسند، ناپسند اور کچھ سیاسی جماعتوں کے خلاف محاذ آرائی اور شدید مخالفت کا دور کہا گیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال ہی وہ چیف جسٹس رہے جن کے دیے گیے فیصلوں پر سپریم کورٹ کے اہم ججوں نے زیادہ اور سخت ترین اختلافی نوٹ بھی لکھے۔ یہاں تک کہ ایک معزز جج جسٹس منصور علی شاہ نے لکھ دیا کہ بینچز بنانے کا چیف جسٹس کا اختیار ون مین شو جیسا ہے، اس فیصلے کے لکھاری جج نے تو کبھی اپنے نوٹ کی وضاحت نہیں کی البتہ جسٹس عمر عطا بندیال کو اس پر وضاحت دینی پڑی کہ انہوں نے جج صاحب سے معلوم کیا، وہ آبزرویشن ان کے لیے نہیں دی گئی بس ایک عمومی بات کی گئی تھی۔
کسی بھی مہذب معاشرے میں انصاف نظام عدل، انصاف کے عالمی اصولوں، ملکی آئین اور قوانین کے عین مطابق ہوتا ہے۔ ماتحت عدالت، عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ تک کسی بھی عدالت کا فیصلہ ملک کے آئین اور قوانین کی کھینچی گئی لکیر سے باہر نہیں جاسکتا، یہ مسلمہ اصول ہے جو کسی بھی عدالت کے جج سے لے کر چیف جسٹس تک سب پر لاگو ہوتا ہے۔ پاکستان میں نظام عدل کا سب سے بڑا نگہبان اور نگران آئین پاکستان کو مانا جاتا ہے اس کے بعد مقننہ کے منظور کیے ہوئے سیکڑوں قوانین ہیں، اور سب سے بڑی چیز وہ حلف ہے جو عدالت عالیہ و عظمیٰ کے ججز اٹھاتے ہیں، وہ حلف جسے آئین کا حصہ بنایا گیا ہے۔
ہم جانے والے چیف جسٹس کے فیصلوں، ان کی شخصیت، آبزرویشن اور رویے پر بحث سے پہلے ایک لمحے کے لیے ججوں کے اس حلف کو دیکھ لیں جو کہتا ہے کہ میں اپنے فرائض و کارہائے منصبی ایمان داری، اپنی انتہائی صلاحیت و وفاداری کے ساتھ دستور پاکستان اور قانون کے مطابق سرانجام دوں گا، عدالتی کونسل کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کروں گا، اور یہ کہ ذاتی مفادات کو اپنے سرکاری فرائض یا اپنے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا، اور یہ کہ میں جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا، ہر حالت میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق، بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔ اللہ تعالیٰ میری رہنمائی فرمائے۔
مجھے وہ دن یاد ہے جب ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس گلزار احمد کے اعزاز میں دیے گیے ریفرنس میں جسٹس عمر عطا بندیال بطور سینیئر جج خطاب فرما رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلوں پر تنقید کرنے کے بجائے ججوں کو بدنام کرنا غیر مہذب، نان پروفیشنل اور غیر آئینی عمل ہے جسے روکنے کے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر بیٹھے کچھ مبصرین ججز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جس کا تدارک کرنا ہوگا۔
یہ آنے والے چیف جسٹس کا خطاب تھا اور مجھے محسوس یوں ہورہا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر ججز یا عدالتوں کے متعلق تنقید سے خائف بھی ہیں اور بار سے مل کر معاملے کا حل بھی چاہتے ہیں لیکن انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں ان کے فیصلے سوشل میڈیا پر ایک ہیجانی کیفیت برپا کردیں گے۔
چیف جسٹس بننے سے پہلے جسٹس عمر عطا بندیال اکثر جسٹس گلزار احمد کے ساتھ بینچ میں شامل ہوتے تھے اور بڑے بڑے فیصلے بھی انہوں نے تحریر کیے، پھر جب جسٹس بندیال خود چیف جسٹس بنے تو انہوں نے سینیئر ججز کے بجائے جونیئر ججز کو ساتھ بٹھایا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا اپنے وقت کا سب سے بڑا فیصلہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی عدم اعتماد پر رولنگ کو کالعدم کرنا اور تحلیل شدہ قومی اسمبلی کی بحالی کا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ ججز پر مشتمل بینچ نے 7 اپریل 2022 کو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور صدر مملکت کے اٹھائے گئے اقدمات کو کالعدم قرار دے کر اسمبلی کو بحال کردیا جس کے نتیجے میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد منظور ہوگئی۔