نقطہ نظر

جسٹس عمر عطا بندیال جو ججز کی تقسیم اور سیاسی تنازعات سے بچ نہ سکے

اگر چیف جسٹس صاحب چاہتے تو تمام اداروں کے اپنے اپنے اختیارات استعمال کرنے کے حوالے سے کردار ادا کرسکتے تھے لیکن انہوں نے سب سے اہم اپنے کردار کو رکھا جو بدقسمتی سے دوسرے اداروں میں مداخلت کا کردار تھا۔

’ناانصافی کہیں بھی ہو لیکن وہ انصاف کے لیے ہر جگہ پر خطرہ ہے‘، یہ امریکا میں انسانی حقوق کے بڑے علمبردار اور سیاہ فام سیاست دان مارٹن لوتھر کنگ کا قول ہے۔ ہرکیولس کا ماننا تھا کہ ’اگر ناانصافی نہ ہوتی تو لوگوں کو انصاف کا علم بھی نہ ہوتا‘۔ انگریزی کا ایک اور مشہور قول ہے جس کے معنیٰ ہیں کہ ’انصاف وہ تلوار ہے جس کی کوئی میان نہیں ہوتی‘۔۔۔ یہ سب اقوال مجھے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر یاد آرہے ہیں۔

ان تمام اقوال کو ذہن میں رکھ کر منصف اعلیٰ کے دور کے فیصلوں کو پڑھنے والے خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ منصف کہاں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے اٹھائیسویں چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کرنے کے بعد 16 ستمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں، ان کی جگہ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی سربراہ ہوں گے جن کی نامزدگی وقت سے پہلے ہوچکی ہے۔ وہ 18 ستمبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھال لیں گے۔

سابق چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کے بعد 2 فروری 2022ء کو جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے، جسٹس عمر عطا بندیال ایک سال سات ماہ 14 دن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے اور 65 برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد عدالتی سربراہ کے عہدے سے ریٹائر ہورہے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا بطور ایک جج عدالتی کردار لاہور ہائیکورٹ سے شروع ہوا۔ وہ 2004ء میں لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے، عدالت عالیہ میں ایک جج کی حیثیت سے اپنے فرائض تب تک ادا کرتے رہے جب تک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء میں ایمرجنسی پلس مسلط کرکے ججوں کو پی سی او کے تحت اپنی وفاداری کا حلف لینے پر مجبور نہ کیا، اس غیر آئینی صورتحال میں جسٹس عمر عطا بندیال ان ججوں میں شامل ہوگئے جنہوں نے ایک آمر سے وفاداری کا حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔

3 نومبر 2007ء سے سپریم کورٹ کے سربراہ جسٹس عبدالحمید ڈوگر بن چکے تھے جبکہ ایوان صدر کی باگ ڈور صدر آصف علی زرداری کے ہاتھ میں آنے کے بعد ججز اور وکلا دونوں افتخار چوہدری کو پرانی مسند پر بٹھانے کا مطالبہ کررہے تھے۔ صدر زرداری جسٹس ڈوگر کو ہٹانے کو تیار نہیں تھے، انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جسٹس چوہدری کے عزائم سیاسی ہیں اور وہ سیاسی حکومت کے لیے مسائل پیدا کریں گے، آخرکار وہ خدشے درست ثابت ہوئے۔

عدالتی انصاف کے مطالبات اپنی جگہ لیکن ججوں کی بحالی ایک سیاسی نعرہ بن گیا۔ مارچ، دھرنے، جلوس جلسے شروع ہوچکے تھے۔ میاں نواز شریف نے افتخار چوہدری کو مسند انصاف پر بٹھانے کے لیے لاہور سے لانگ مارچ شروع کردیا۔ یوں 16 مارچ 2009ء کو ایک بڑی گارنٹی پر افتخار چوہدری و دیگر معزول ججوں کو پیپلز پارٹی حکومت نے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بحال کردیا۔ اس طرح جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی اپنے باقی ساتھیوں سمیت لاہور ہائیکورٹ میں مائے لارڈ کی کرسی سنبھال لی اور پھر وہاں کے چیف جسٹس بنے۔

16 جون 2014ء کو جسٹس بندیال لاہور ہائیکورٹ سے ترقی پاکر سپریم کورٹ کے جج بن گئے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ سے 20 دن پہلے یعنی 13 جنوری 2022ء کو تحریک انصاف کی حکومت کی سفارش پر صدر مملکت عارف علوی نے جسٹس عمر عطا بندیال کو باضابطہ طور پر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس نامزد کردیا۔ اس طرح جسٹس عمر عطا بندیال 2 فروری 2022ء کو اپنے عہدے کا حلف لے کر سپریم کورٹ کے اٹھائیسویں سربراہ بن گئے۔

سپریم کورٹ میں اب تک رہنے والے چیف جسٹسز میں سے بیشتر ججز اپنی مدت ملازمت کے دوران اپنے ہی کچھ متنازع فیصلوں، عدلیہ کے مجموعی کردار اور التوا میں پڑے مقدمات کے سبب بار ایسوسی ایشنز ، سیاسی جماعتوں، صحافیوں اور تجزیے نگاروں سمیت مختلف مکتبہ فکر کے افراد کی طرف سے تنقید کی زد میں رہے ہیں لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر یہ مہربانی کچھ زیادہ ہی رہی۔صرف سیاسی جماعتیں یا بارز ہی نہیں بلکہ چیف جسٹس صاحب کی تو ان کے اپنے ساتھی ججوں سے بھی نہیں بن پائی۔

یہ ہی نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے بھی نام لیے بغیر ان کے ساتھ ان کے دیے گئے فیصلوں پر تنقید کے نشتر چھوڑے اور متنازع فیصلوں کے خلاف ایک سے زائد قراردادیں بھی منظور کیں۔ یہ جسٹس بندیال ہی تھے کہ جن کے دور میں دو ادارے یعنی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ بالکل آمنے سامنے آچکے تھے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کو متنازع فیصلوں، ججز کی تقسیم، ہم خیال ججز کو ساتھ ملاکر سینیئر ججز کو نظراندز کرنے، مخصوص جماعت یا ایک لیڈر کی طرف جھکاؤ، ذاتی پسند، ناپسند اور کچھ سیاسی جماعتوں کے خلاف محاذ آرائی اور شدید مخالفت کا دور کہا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال ہی وہ چیف جسٹس رہے جن کے دیے گیے فیصلوں پر سپریم کورٹ کے اہم ججوں نے زیادہ اور سخت ترین اختلافی نوٹ بھی لکھے۔ یہاں تک کہ ایک معزز جج جسٹس منصور علی شاہ نے لکھ دیا کہ بینچز بنانے کا چیف جسٹس کا اختیار ون مین شو جیسا ہے، اس فیصلے کے لکھاری جج نے تو کبھی اپنے نوٹ کی وضاحت نہیں کی البتہ جسٹس عمر عطا بندیال کو اس پر وضاحت دینی پڑی کہ انہوں نے جج صاحب سے معلوم کیا، وہ آبزرویشن ان کے لیے نہیں دی گئی بس ایک عمومی بات کی گئی تھی۔

کسی بھی مہذب معاشرے میں انصاف نظام عدل، انصاف کے عالمی اصولوں، ملکی آئین اور قوانین کے عین مطابق ہوتا ہے۔ ماتحت عدالت، عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ تک کسی بھی عدالت کا فیصلہ ملک کے آئین اور قوانین کی کھینچی گئی لکیر سے باہر نہیں جاسکتا، یہ مسلمہ اصول ہے جو کسی بھی عدالت کے جج سے لے کر چیف جسٹس تک سب پر لاگو ہوتا ہے۔ پاکستان میں نظام عدل کا سب سے بڑا نگہبان اور نگران آئین پاکستان کو مانا جاتا ہے اس کے بعد مقننہ کے منظور کیے ہوئے سیکڑوں قوانین ہیں، اور سب سے بڑی چیز وہ حلف ہے جو عدالت عالیہ و عظمیٰ کے ججز اٹھاتے ہیں، وہ حلف جسے آئین کا حصہ بنایا گیا ہے۔

ہم جانے والے چیف جسٹس کے فیصلوں، ان کی شخصیت، آبزرویشن اور رویے پر بحث سے پہلے ایک لمحے کے لیے ججوں کے اس حلف کو دیکھ لیں جو کہتا ہے کہ میں اپنے فرائض و کارہائے منصبی ایمان داری، اپنی انتہائی صلاحیت و وفاداری کے ساتھ دستور پاکستان اور قانون کے مطابق سرانجام دوں گا، عدالتی کونسل کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کروں گا، اور یہ کہ ذاتی مفادات کو اپنے سرکاری فرائض یا اپنے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا، اور یہ کہ میں جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا، ہر حالت میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق، بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔ اللہ تعالیٰ میری رہنمائی فرمائے۔

مجھے وہ دن یاد ہے جب ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس گلزار احمد کے اعزاز میں دیے گیے ریفرنس میں جسٹس عمر عطا بندیال بطور سینیئر جج خطاب فرما رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلوں پر تنقید کرنے کے بجائے ججوں کو بدنام کرنا غیر مہذب، نان پروفیشنل اور غیر آئینی عمل ہے جسے روکنے کے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر بیٹھے کچھ مبصرین ججز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جس کا تدارک کرنا ہوگا۔

یہ آنے والے چیف جسٹس کا خطاب تھا اور مجھے محسوس یوں ہورہا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر ججز یا عدالتوں کے متعلق تنقید سے خائف بھی ہیں اور بار سے مل کر معاملے کا حل بھی چاہتے ہیں لیکن انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں ان کے فیصلے سوشل میڈیا پر ایک ہیجانی کیفیت برپا کردیں گے۔

چیف جسٹس بننے سے پہلے جسٹس عمر عطا بندیال اکثر جسٹس گلزار احمد کے ساتھ بینچ میں شامل ہوتے تھے اور بڑے بڑے فیصلے بھی انہوں نے تحریر کیے، پھر جب جسٹس بندیال خود چیف جسٹس بنے تو انہوں نے سینیئر ججز کے بجائے جونیئر ججز کو ساتھ بٹھایا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا اپنے وقت کا سب سے بڑا فیصلہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی عدم اعتماد پر رولنگ کو کالعدم کرنا اور تحلیل شدہ قومی اسمبلی کی بحالی کا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ ججز پر مشتمل بینچ نے 7 اپریل 2022 کو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور صدر مملکت کے اٹھائے گئے اقدمات کو کالعدم قرار دے کر اسمبلی کو بحال کردیا جس کے نتیجے میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد منظور ہوگئی۔

Title of the document

اسمبلی بحال کرکے اس میں عدم اعتماد تحریک پر ووٹنگ کا فیصلہ تو ہوا لیکن ڈپٹی اسپیکر اور صدر مملکت کو آنکھوں دیکھی آئین شکنی کے باوجود بخشش کا دان دیا گیا اور دونوں کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں ہوئی۔

اس تحریک عدم اعتماد کو ناکام کرنے کے لیے تحریک انصاف نے باقی حربے استعمال کیے لیکن سب سے اہم وہ ریفرنس تھا جو صدر پاکستان نے آئین کی شق 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ کو بھیجا۔ اس میں باقی نکات کے ساتھ یہ بھی استدعا کی گئی کی منحرف اراکین کی اسمبلی ممبرشپ معطل کی جائے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 ججز نے اس ریفرنس پر یہ رائے دی کہ منحرف اراکین ووٹ کر سکتے ہیں لیکن ان کے ووٹ کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ 5 رکنی بینچ میں 3 ججوں کی اس رائے پر یہ تنقید ہوئی کہ عدالت عظمیٰ نے آئین کو از سر نو لکھ دیا ہے، اسی بینچ میں شامل دو ججز جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اختلافی نوٹ دیتے ہوئے فرمایا کہ آئین نے آرٹیکل 63 اے کا مکمل کوڈ دیا ہوا ہے جو منحرف اراکین کے خلاف کارروائی کا مکمل طریقہ کار بتاتا ہے، یہاں تک کہ ان ججز حضرات نے یہ بھی لکھا کہ اس شق کی مزید تشریح آئین کو نئے سرے سےلکھنے کے برابر ہوگی۔

تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے اور وزیراعظم کو پارلیمنٹ کے ذریعے گھر بھیجنے کے فیصلے کے عمران خان اور تحریک انصاف پر خاصے اثرات ہوئے۔ جماعت نے فوری انتخابات کے مطالبے کے لیے پشاور سے اسلام آباد لانگ مارچ کی کال دے دی جس پر سپریم کورٹ نے ان کو ڈی چوک آنے سے روکنے اور سیکٹر جی 9 اور ایچ 9 میں احتجاج کرنے کے لیے جگہ مختص کرنے کا حکم دیا لیکن عمران خان نے کارکنان کو 25 مئی 2022ء کو ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کردی۔ اس کے نتیجے میں کارکن ڈی چوک پہنچے، امن و امان میں خلل ڈالا گیا، پولیس اہلکار زخمی ہوئے ڈی چوک اور شاہراہ دستور پر لگے درختوں کو آگ لگائی گئی اور جب عدالتی حکم سے انحراف پر تحریک انصاف کے سربراہ کے خلاف حکومت نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی تو چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں چار ہم خیال ججوں اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل بینچ بنا دیا۔

حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیے کہ عدالتی احکامات کی کھلم کھلی خلاف ورزی ہوئی ہے، عدالتی احکامات کو پس پشت ڈالا گیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ عین ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ تک عدالت کا پیغام درست نہ پہنچا ہو، سپریم کورٹ نے حکومت کی ابتدائی استدعا خارج کردی جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سفارش کی عمران خان نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی ہے جو کہ ثابت شدہ ہے اس لیے ان پر توہین عدالت کی کارروائی کرکے شوکاز نوٹس جاری کیا جائے، لیکن اکثریتی ججز کا فیصلہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا، یہاں تک کہ پولیس، وزارت داخلہ، ایجنسیوں اور دوسرے اداروں کی رپورٹس آنے کے بعد بھی وہ مقدمہ آج تک زیر التوا ہے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا پورا دور سیاسی چپلقش کا دور رہا، اگر تحریک انصاف کوئی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کرتی تو چیف جسٹس اپنی سربراہی میں بنے بینچ میں وہ درخواست سماعت کے لیے مقرر کرتے اگر کوئی تحریک انصاف کے خلاف سائل آتا تو بھی بینچ ایک ہی قسم کا دستیاب ہوتا، جس کی تشکیل کو دیکھ کر عام لوگ بھی نتیجے پر پہنچ جاتے تھے۔

پنجاب میں عثمان بزدار کے بعد حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ بنے تو معاملہ سپریم کورٹ میں آگیا، جہاں چیف جسٹس بندیال نے اس درخواست کو خود سننا پسند فرمایا اور حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کے انتخابات پر آئین کے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا جس کے نتیجے میں وزارت اعلیٰ کی کرسی پرویز الہٰی کے پاس چلی گئی۔ وہ جب تک وزیراعلٰی رہے تب تک انہیں عدالتی وزیراعلیٰ کہا جاتا رہا۔

Title of the document

کچھ عرصے بعد تحریک انصاف کے سربراہ کی منشا پر انہوں نے پنجاب اسمبلی تحلیل کردی۔ دو اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد معاملہ پھر سپریم کورٹ میں آگیا۔ تحریک انصاف نے دونوں صوبوں میں فوری ضمنی انتخابات کا مطالبہ لے کر سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی۔ دونوں صوبوں میں ضمنی انتخابات کے مطالبے پر ازخود عدالتی نوٹس جس انداز سے لیا گیا وہ بھی قابل ذکر ہے۔

سابق سی سی پی لاہور غلام محمود ڈوگر کے سروس میٹر کے مقدمے میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نے چیف الیکشن کمشنر کو طلب کرکے دو صوبوں میں ضمنی انتخابات پر رائے مانگ لی پھر دو ججز نے اسی مقدمے کو انتخابات کا مقدمہ بنا کر چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لینے کی سفارش کردی۔ حالانکہ وہ معاملہ لاہور اور پشاور ہائیکورٹ میں زیر سماعت بھی تھا۔ لیکن چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں لارجر بینچ تشکیل دے کر اس مقدمے کی سماعت شروع کردی۔

اسی مقدمے میں بینچ میں شامل اکثریتی 4 ججز نے یہ واضح کردیا کہ یہ نوٹس اس لیے نہیں بنتا کہ معاملہ ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے،جس کے بعد تین چار ججز کے فیصلے کا تنازع شروع ہوا جس کی کئی مرتبہ چیف جسٹس کو وضاحتیں دینی پڑیں لیکن حقیقت حقیقت ہوتی ہے۔ اس مقدمے میں حتمی فیصلہ یہ ہوا کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی ضمنی انتخابات کے لیے مقرر کردہ تاریخ 8 اکتوبر کو اڑا کر رکھ دیا اور چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے14 مئی کو انتخابات کروانے کا حکم دے دیا۔ اس سے یہ تاثر سامنے آیا کہ سپریم کورٹ نے ایک آئینی ادارے کے اختیارات خود استعمال کیے ہیں۔

Title of the document

پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کے حوالے سے فیصلے پر بھی بڑی تنقید ہوئی کہ اصل میں سپریم کورٹ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں اس مقدمے میں الیکشن ایکٹ کی تشریح کرنے کے بجائے اسے از سر نو لکھ دیا ہے۔ اس مقدمے کے فیصلے کا اثر یہ ہوا کہ فیصلہ آیا فیصلہ گیا کوئی عمل نہ ہو سکا۔ یہ ہی فیصلہ تھا جس میں کچھ دنوں کے بعد سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا کی حد تک فیصلے میں تصحیح کرلی تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت نے جلد بازی میں فیصلہ دیا۔

چیف جسٹس نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کو بھی اپنے ساتھی ججوں کے اتفاق سے اڑا کر رکھ دیا۔ اس ایکٹ میں ازخود نوٹس کے متاثر فریقین کو ایک نظرثانی کا حق دیا گیا تھا لیکن چیف جسٹس اور ساتھی ججز نے اس قانون کو آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم کردیا۔

نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف عمران خان کی ایک درخواست کا معاملہ بھی چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ہاتھ میں لے لیا، اس مقدمے کو سننے والے بینچ میں شامل سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ بار بار یہ آبزرویشن دے چکے ہیں کہ جب ایک پارٹی پارلیمنٹ سے نکل چکی تو پارلیمنٹ سے منظور شدہ قوانین کو ہم کیوں مسترد کریں؟ تحریک انصاف کو چاہیے تھا کہ وہ ان قوانین کے خلاف پارلیمنٹ میں آواز بلند کرتے۔ نیب ترامیم پر قانون سازی پر کئی سماعتوں کے باوجود سپریم کورٹ نے تادم تحریر اس پر فیصلہ نہیں سنایا ہے۔

پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ 2023ء کو چیف جسٹس عمر عطا کی سربراہی میں 8 ججز پر مشتمل بینچ نے سنا اور پارلیمنٹ کے منظور شدہ ایک قانون کو پہلی ہی سماعت پر ایک پارٹی کو سن کر معطل کردیا گیا۔ اس قانون کے حوالے سے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ پارلیمنٹ کا پاس کردہ قانون یا بحال ہوتا ہے یا کالعدم ہوتا ہے سپریم کورٹ اسے معطل نہیں کر سکتی۔ یہ مشق عام رہی ہے کہ دونوں فریقین کو سننے کے بعد کسی مقدمے میں اسٹے آرڈر جاری ہوتا ہے لیکن یہاں اہم نوعیت کے مقدمے میں عام نوعیت کا اسٹے آرڈر جاری کردیا گیا۔

ملٹری کورٹس کے مقدمے میں بھی کئی آبزر ویشنز اور ریمارکس سننے کو ملے۔ اس مقدمے میں عجب باتیں دیکھنے کو ملیں، جن ججوں کو چیف جسٹس صاحب نے کبھی کسی مقدمے میں اپنے ساتھ نہیں بٹھایا، جن ججوں کو اہم مقدمے سننے کو نہیں دیے، جن ججز کو سیاسی، آئینی یا قانونی سوالات والے مقدمے میں نزدیک آنے نہیں دیا، فوجی عدالتوں والے مقدمے میں ان کو بغیر رائے لیے ساتھ بٹھانے کے لیے بینچ بنالیے، آخر 9 ججز والا بینچ 5 ججز تک رہ گیا پھر درخواست گزار خود یہ استدعا کر رہے تھے کہ اس پر فل کورٹ بنایا جائے لیکن ان کی درخواست کو مسترد کیا گیا اور مقدمے کو ایسا طویل کردیا گیا کہ ان ملزموں کو امکانی طور پر جتنی سزا ملنی تھی وہ بغیر مقدمہ چلے بھگت چکے ہیں۔

ان متنازع قسم کے فیصلوں کے ساتھ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے سامنے سب سے بڑا چیلنج عدلیہ کے اندر ججز کی تقسیم کا تھا جس کو ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے بطور ادارے کے سربراہ کے ججز کو ایک ٹیبل پر بٹھانے کی کوشش نہیں کی۔

کئی مقدمات میں وکلا کی طرف سے جب بھی فل کورٹ کی تشکیل کی استدعا کی گئی چیف جسٹس نے وہ مسترد کردی، یہی نہیں بلکہ ان 18 ماہ میں چیف جسٹس نے ایک بار بھی فل کورٹ اجلاس طلب کرکے ادارے کے اندر ججوں کی تقسیم کے تاثر کو زائل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی، یوں کہا جاسکتا ہے کہ سابق چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک بار بھی سب ججوں کو اکٹھا کرنے کے لیے فل کورٹ اجلاس کی صدارت نہیں کی۔

جسٹس مقبول باقر 4 اپریل 2022ء کو بطور جج سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے، اسی دن اپنے اعزاز میں الوداعی فل کورٹ ریفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے بھی مقبول باقر نے فرمایا کہ اہم مقدمات میں مخصوص ججز کو شامل نہ کرنے سے عدالتی وقار مجروح ہوتا ہے۔ 15 ججز کے اس فل کورٹ ریفرنس میں جسٹس مقبول باقر کا خطاب چیف جسٹس کے خطاب سے پہلے تھا اس میں انہوں نے فرمایا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود عدالت سائلین کی توقعات پر پوری نہیں اترسکی، غیر متوازن جوڈیشل ایکٹوزم قانون کی حکمرانی کی موت ہے، انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ یہ سب سے زیادہ تباہ کن بات ہے کہ کسی جج کی مدت یا فیصلہ طاقتور لوگوں کی خوشنودی سے مشروط ہو۔

سپریم کورٹ میں یہ پرانی روایت رہی ہے کی چیف جسٹس ہمیشہ آنے والے چیف جسٹس یعنی ادارے کے سینیئر ترین جج سے مشاورت کرتے ہیں۔ یہاں سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں لیکن کسی موقع پر چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نہ کبھی اپنے ساتھ بینچ میں بٹھایا نہ کبھی آئینی و قانونی نکات والی درخواستوں پر بینچوں کی تشکیل کے معاملے پر کوئی مشاورت کرنے کی ضرورت محسوس کی۔

بار بار یاددہانی کے باوجود چیف جسٹس سینیئر ججز کے مشوروں کو نظرانداز کرتے رہے۔ ایک مقدمے میں ایسا بھی ہوا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عدالتی فیصلے کو رجسٹرار کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے ذریعے معطل کردیا گیا، ان کے اختلافی فیصلوں کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سربراہ اور ساتھی ججوں نے جو کچھ فرمایا اور ایک سینیئر ساتھی کی بیگم کو روسٹرم پر ملزم کی حیثیت میں جس طرح کھڑا کردیا گیا وہ ایک الگ ہی داستان ہے۔

سپریم کورٹ میں ججز کی تقرریوں کا مروج اصول بھی پامال ہوا اس کا قصور صرف جسٹس عمر عطا بندیال کو نہیں دیا جاسکتا اس سے پہلے جسٹس ثاقب نثار، پھر جسٹس گلزار احمد اور ان کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال صاحب سب نے اس اصول کو توڑ کر چیف جسٹس کے ججز نامزدگی والے اختیارات کا خوب مزا لیا اور ججز تقرری میں اپنی اپنی تشریح کرتے رہے۔ ججز کی تقرریوں کے معاملے پر آنے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موقف بالکل واضح ہے کہ سپریم کورٹ پورے ملک کی عدالت ہے جس میں تمام صوبوں کی زبانیں بولنے والے ججز ہونے چاہئیں۔

لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس گلزار کی طرح سینیارٹی کے اصول کو پیچھے چھوڑ کر کارکردگی کی تشریح کو آگے بڑھا کر جونیئر ججز کو سپریم کورٹ میں بٹھا دیا۔ اس سے پہلے جسٹس ثاقب نثار نے سندھ ہائیکورٹ سے اپنے عزیز جج جسٹس منیب اختر کو سپریم کورٹ کا جج بنایا تھا، جسٹس گلزار احمد نے سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس و دیگر ججز کو نظرانداز کر کے جونیئر جج جسٹس محمد علی مظہر کو ترقی دے کر عدالت عظمیٰ کا جج بنایا اسی طرح جسٹس عائشہ ملک جج بنیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید جیسے جونیئر جج سپریم کورٹ میں لائے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جس طرح آنے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو ڈیل کیا اس پر بڑی تنقید ہوئی لیکن جب جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کے مابین مبینہ ٹیلی فونک گفتگو منظر پر آئی جس پر جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہوا تو چیف جسٹس صاحب نے متنازع جج کو بینچ میں ساتھ بٹھا لیا۔ یہی نہیں بلکہ ایک سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے فرمایا کہ جج کو ساتھ بٹھانے کا مقصد کسی کو پیغام دینا تھا۔ یہاں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا کسی چیف جسٹس کو اپنے عدالتی یا انتظامی قدم سے کسی کو کوئی بھی پیغام دینا چاہیے؟

بات یہاں بھی نہیں رکی، جج کے خلاف شکایت کی چیف جسٹس نے ایک نہیں بلکہ کئی مرتبہ صفائی دینے کی بھی کوشش کی مجھے یاد ہے ایک سماعت پر چیف جسٹس نے یہ بھی آبزرویشن دی کہ جب تک ریفرنس سماعت کے لیے مقرر نہ ہو تب تک اس کی کوئی اہمیت نہیں، نہ ہی اسی جج کو کام کرنے سے روکا جاسکتا ہے، مجھ سمیت اکثر ججز کے خلاف جوڈیشل کونسل میں شکایات آتی رہتی ہیں۔

آڈیو لیکس کے معاملے پر کوئی 5 آڈیو لیکس سامنے آئیں، جن میں ایک آڈیو چیف جسٹس کی خوش دامن اور تحریک انصاف کے وکیل کی بیگم صاحبہ کی تھی اس کے ساتھ سپریم کورٹ بار کے صدر کی آڈیو لیک آئی، سینئر صحافی اور عمران خان کے وکیل طارق رحیم کی آڈیو بھی آئی اس معاملے کی تحقیق کے لیے حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 ججوں پر مشتمل ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا۔ جج اپنے مقدمے میں جج نہیں ہوسکتا یہ انصاف کا عالمی اصول مانا جاتا ہے اور قانونی ماہرین نے اس اصول کا ڈھول تب پیٹنا شروع کیا جب حکومت کے بنائے ایک انکوائری کمیشن کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ختم کردیا۔ یہاں یہ سوال بار بار اٹھتا رہا ہے کہ اپنے مقاصد کے لیے کوئی کیسے جج بن سکتا ہے؟

نو مئی 2023ء کو تحریک انصاف کے سربراہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا گیا، جس انداز سے عمران خان کو گرفتار کیا گیا اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایکشن لیا اور آئی جی اور سیکریٹری داخلہ کو نوٹس دیا لیکن اس گرفتاری کو قانونی قرار دیا گیا لیکن یہ ایک بڑی گرفتاری تھی تو سپریم کورٹ کو تو حرکت میں آنا ہی تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عدالت لگالی اور 11 مئی کو تحریک انصاف کے گرفتار سربراہ عمران خان کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ ان کی آمد کے موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں ’گڈ ٹو سی یو‘ کہہ کر خوش آمدید کہا چیف جسٹس کی کسی مقدمے کے ملزم کے حوالے سے ایسے جملوں کی ادائیگی پر بڑی تنقید ہوئی۔

عدالت کے اندر اور باہر گڈ ٹو سی یو کے جملے کے چرچے ہوتے رہے، چیف جسٹس کو کئی مرتبہ اس کی وضاحت کرنا پڑی۔ لیبل اتارنے کے لیے وہ کبھی اٹارنی جنرل تو کبھی ایڈووکیٹ جنرل کو گڈ ٹو سی یو کہہ کر پکارتے اور ہنستے کبھی کہتے یہ میری پرانی عادت ہے لیکن تمام وضاحتیں اس تاثر کو زائل نہیں کرسکیں کہ ایک بڑے ادارے کے سربراہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ سے ہمدردی رکھتے ہیں۔

ہر جانے والا چیف جسٹس ادارے کے لیے کچھ تلخ اور کچھ اچھی یادیں چھوڑ کر جاتا ہے لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال مسکرا مسکرا کر ایسی یادیں چھوڑے جارہے ہیں جن کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ملن سار، نرم لہجے اور مسکرا کرکے بات کرنے اور کم از کم ریمارکس دینے والے جج رہے۔ بار پالیٹکس کے اہم رہنما بھی اس بات پر تو متفق ہیں کہ جسٹس عمر عطا بندیال پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں اور انہوں نے وکلا سے کبھی تلخ لہجے میں بات نہیں کی لیکن بطور چیف جسٹس ان پر سب سے زیادہ تنقید ہوتی رہی۔

سپریم کورٹ کے فیصلوں پر گہری نگاہ رکھنے والے انگریزی اخبار کے ساتھ جڑے ہمارے سینیئر صحافی ٹیرنس جے سگمنی کا کہنا ہے کہ انہوں نے بینچ کی تشکیل کے معاملے میں کبھی انصاف نہیں کیا، سینیئر ترین ججز کو اپنے ساتھ بینچ میں نہ کبھی بٹھایا نہ ان کو اہم ترین قانونی، آئینی نکات یا سیاسی نوعیت کے مقدمات سونپے اور یوں یہ تنقید بڑھتے بڑھتے ہم خیال ججز کے بینچ کے فقرے تک آگئی۔

بطور عدالتی سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کی یکجہتی اور معزز ججز کی آپس کی رنجشوں کو ختم کرنے کے لیے اپنے دھیمے اور نرم لہجے کو کبھی بروئےکار نہ لائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا دور عدلیہ کی تقسیم اورمخصوص جماعت کے لاڈ اٹھانے کا دور رہا اور حکومت اور خصوصی طور پر پارلیمنٹ کے لیے مشکل ترین وقت رہا۔ اگر چیف جسٹس صاحب چاہتے تو تمام اداروں کے اپنے اپنے اختیارات استعمال کرنے کے حوالے سے کردار ادا کرسکتے تھے لیکن انہوں نے سب سے اہم اپنے کردار کو رکھا جو بدقسمتی سے دوسرے اداروں میں مداخلت کا کردار تھا۔

ابراہیم کنبھر

مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔

ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kumbharibrahim@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔