سری لنکن کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھنے والے پاکستانی شہری
بچپن سے ہی آنکھوں کی پتلی کی کمزوری کا شکار بلوچستان کا محمد رضوان نامی نوجوان اُس وقت بہت خوش ہوا جب اسے معلوم ہوا کہ زندگی بھر بینائی سے محروم رہنے کا دکھ جھیلنے کے بجائے آنکھ کی پتلی کا آپریشن کروا کر دنیا کے رنگ دیکھنا اس کے لیے ممکن ہے اور اس کے لیے اسے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔
رضوان کی امیدوں کا ضامن پاکستان میں سری لنکا کا ہائی کمیشن بنا جو سری لنکن شہریوں کی جانب سے عطیہ کی گئی آنکھیں پاکستان میں مستحق افراد کو لگانے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں کم و بیش 85 افراد کی بینائی واپس لانے کے لیے سری لنکا سے حاصل کی گئی آنکھوں کا کامیاب آپریشن کیا جاچکا ہے۔
’ہیومین آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی‘ کے این او سی کے حامل پنجاب کے تین اسپتالوں، بہاولپور وکٹوریہ اسپتال، مغل آئی اسپتال لاہور اور ڈی ایچ کیو اسپتال گجرانوالہ میں سری لنکن ہائی کمیشن کے تعاون سے آنکھوں کے آپریشن کیےجاتے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستانی شہری اپنے دوست ملک کے شہریوں کی جانب سے عطیہ کی گئی آنکھوں سے دنیا کو دیکھ پاتے ہیں۔
سری لنکا سے آنکھیں کون اور کیسے فراہم کرتا ہے؟
سری لنکا میں بدھ مت کو ماننے والے اپنی زندگی میں یہ وصیت کرکے جاتے ہیں کہ ان کی موت کے بعد آنکھیں ضرورت مند کو عطیہ کردی جائیں۔ جب کوئی شہری حادثے یا طبی موت کا شکار ہوجاتا ہے تو اس کے اہل خانہ ایک گھنٹے کے دورانیہ میں ہی سری لنکن آئی بینک کو آگاہ کرتے ہیں جو متوفی کی آنکھیں نکال کر محفوظ کر لیتے ہیں۔ سری لنکا سے آنکھ پاکستان منتقل کرنے اور مریض کا آپریشن کرنے کا یہ دورانیہ 72 گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ سال 2023ء میں اب تک پاکستان کو 35 آنکھیں بطور عطیہ وصول ہوچکی ہیں۔ ماہ اگست کے بارے میں بہالپور وکٹوریہ اسپتال میں 34 برس سے 53 برس کے پانچ سری لنکن شہریوں کی آنکھیں عطیہ کی گئیں۔
پاکستان آنکھیں بھجوانے کے اس مشن پر سری لنکا میں معروف کاروباری شخصیت افتخار عزیز کا اہم کردار ہے جنہوں نے سری لنکا میں ’گیوونگ سائٹس‘ نامی فاؤنڈیشن بنا رکھا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ’کورنیا ڈپلومیسی‘ کے تحت پاکستانی شہریوں کے لیے آنکھیں عطیہ کرنے کا انتظام کرتی ہے۔ افتخار عزیز کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں 2016ء میں تمغہ خدمت سے بھی نوازا ہے اور وہ اس عزم کو آگے بڑھاتے ہوئے خدمات کے شعبے میں مصروفِ عمل ہیں۔ سری لنکن عوام اپنے پاکستانی بھائیوں کے لیے بہت محبت رکھتے ہیں اور اسی جذبے کے تحت وہ بینائی سے محروم افراد کے لیے جتنا ممکن ہوسکے گا، کام کریں گے۔
آنکھ کی پتلی کے ناکارہ ہونے کے اسباب کیا ہیں؟
وکٹوریہ اسپتال بہاولپور میں شعبہِ امراضِ چشم کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر صوفیہ فرخ نے بتایا کہ آنکھوں کی پتلی کے ناکارہ ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ فیملی میرج بھی شمار کی جاتی ہے جس میں جنیٹکلی یہ مرض قدرتی طور پر منتقل ہوسکتا ہے۔ جبکہ ایک خاص قسم کی الرجی ہونے کے باعث جب کوئی شخص مسلسل اپنی آنکھوں کو مسلتا ہے اور اس کا بروقت علاج نہیں کرواتا تو اس کی پتلی ناکارہ ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر آنکھ میں کوئی چیز لگ جائے تو انفیکشن کے باعث بھی پتلی ضائع ہوسکتی ہے۔
بعض اوقات مریض کسی اتائی یا کم تجربہ رکھنے والے ڈاکٹر سے رجوع کرلیتا ہے اور مناسب علاج نہ ہونے کے باعث بھی آنکھ کی پتلی ناکارہ ہوجاتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سری لنکا کی جانب سے دی گئی آنکھوں سے پتلی نکال کر گزشتہ ماہ چند افراد کا مفت کامیاب آپریشن کیا گیا ہے۔ اگر یہی آپریشن نجی اسپتال سے کروایا جائے تو ایک پتلی پر کم از کم ساڑھے چار لاکھ روپے خرچہ آتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس امریکا سے بھی پتلیاں آتی ہیں۔
ابھی تک ان کے شعبہ میں 340 افراد کا آپریشن ہوچکا ہے جبکہ 178 درخواستیں اب بھی ان کے پاس موجود ہیں۔ پاکستان میں آنکھیں عطیہ کرنے کا رواج بہت کم ہے حکومتی سطح پر فیصل آباد میں قائم آئی بینک سے متعلق ڈاکٹر صوفیہ نے بتایا کہ وہاں پر چند لاوارث میتوں کی آنکھیں نکال کر ضرورت مند مریضوں میں پیوند کاری کرنے کے بارے میں اطلاعات ملتی رہی ہیں باقی جہاں بھی اگر کوئی آئی بینک ہے تو وہ غیر فعال ہیں۔
بینائی واپس حاصل کرنے والے پاکستانیوں کے جذبات
15 برس کے نوجوان اعجاز کی خواہش تھی کہ وہ کمپیوٹر سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرے لیکن پانچ برس قبل اس کی ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ شاید وہ اب تمام عمر اسی معذوری میں گزارے گا۔ اعجاز کے قریبی رشتہ دار نے جب اسے بتایا کہ سری لنکا کی جانب سے پاکستانیوں کو آنکھوں کا عطیہ دیا جاتا ہے تو اس سلسلے میں اعجاز کے خاندان نے لاہور میں موجود اعزازی قونصل جنرل یاسین جوئیہ کے دفتر سے رابطہ کرکے تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد لنکن قونصل جنرل نے ہائی کمیشن کے ذریعے سری لنکا سے اعجاز کے لیے دائیں آنکھ کا بندوبست کیا اور چند ماہ قبل بہاولپور کے وکٹوریہ اسپتال میں کامیاب آپریشن کی صورت میں نوجوان کی بینائی لوٹ آئی۔ اب اعجاز کا ماننا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔
آنکھ کی بینائی سے محروم کوئٹہ کے رہائشی 32 برس کے محمد وسیم سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو ان کے جذبات ناقابل بیان تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمت ہار چکے تھے کہ جتنا مہنگا آنکھ کا آپریشن کروانا ہے، اس کے لیے تو ساری عمر بھی پیسے اکٹھے کرلیں تب بھی اس علاج کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔ لیکن رہتی زندگی تک دونوں آنکھوں کے ساتھ دنیا کی رونقیں دیکھنے کی امید اس وقت جاگ اٹھی جب انہیں معلوم ہوا کہ اس کا علاج بغیر کسی خرچے کے ممکن ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے کچھ وقت انتظار کرنا ہوگا۔ بلآخر 17 اگست 2023ء کا دن ان کی زندگی کا سب سے خوشگوار دن تھا جب وہ دونوں آنکھوں سے دنیا کے رنگ دیکھنے کے قابل ہوگئے۔ وہ دعاگو ہیں کہ ایسے مزید افراد جو مہنگا علاج برداشت نہیں کرسکتے ان کے لیے بھی کسی سری لنکن کی آنکھ دنیا کے بیش قیمتی خزانوں سے زیادہ قیمتی ثابت ہو۔
سری لنکا مزید کتنے افراد کی بینائی واپس لانے میں مدد کر سکتا ہے؟
جون 2021ء میں پاکستان میں سری لنکا کے ہائی کمیشن نے یاسین جوئیہ کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ رپبلک آف سری لنکا کا لاہور میں اعزازی قونصل جنرل تعینات کیا۔ پیشے کے اعتبار سے تو وہ ابلاغیات میں مہارت رکھتے ہیں لیکن ان کی انسانیت کے لیے کی جانے والی خدمات کے پیش نظر سری لنکا کے بڑے عوامی اعزازات میں سے یہ ایک انہیں دیا گیا ہے۔ چند برس قبل سیالکوٹ کی فیکٹری میں افسوس ناک واقع میں جان کی بازی ہارنے والے سری لنکن شہری ’پریانتھا کمارا‘ کی میت کو واپس بھجوانے اور اس کے خاندان کے لیے مالی امداد کے اعلان تک بھرپور کاوشوں کی بنیاد پر سری لنکن حکومت نے انہیں خوب سراہا۔
یاسین جوئیہ کا مشن ہے کہ وہ پاکستان میں بینائی سے محروم ایسے افراد جو مہنگا علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ان کے لیے جتنا ممکن ہوسکے علاج کے اقدامات کریں۔ اس کوشش میں وہ خود کو کسی حد تک کامیاب بھی سمجھتے ہیں کیونکہ ’آنکھوں کی سفارتکاری‘ کے ذریعے اب تک وہ 85 پاکستانیوں کے لیے آنکھوں کا بندوبست کروا کر ان کا مفت علاج کروا چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں آنکھوں کا یہ عطیہ بلا تفریق پاکستان کے شہریوں تک پہنچتا رہے۔
رواں برس انہوں نے افغانستان سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان لڑکی کی آنکھ کا آپریشن کروایا ہے جسے اس کے سسرال والوں نے بینائی جانے کے بعد گھر سے نکال دیا تھا۔ اب وہ دوبارہ اپنے سسرال میں خوشی سے زندگی بسر کررہی ہے۔ اسی طرح کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ایک حافظِ قرآن لڑکی کی بھی ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی تھی جسے کوئی رقم وصول کیے بغیر لاہور لایا گیا اور یہاں اس کا آپریشن کرکے اس کی بینائی لوٹائی گئی۔
یاسین جوئیہ کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی ان کے پاس 450 کے لگ بھگ افراد کی درخواستیں موجود ہیں لیکن سری لنکا سے انہیں ایک ماہ میں عطیہ کے طور پر تقریباً سات یا آٹھ آنکھیں وصول ہورہی ہیں۔ کوشش ہے کہ جلد از جلد ان تمام افراد کے لیے بھی آنکھوں کا بندوبست کیا جائے۔ انہوں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھی پاکستان میں ایک ’آئی بینک‘ تعمیر کرے جہاں پاکستان میں وفات پانے والے ایسے افراد جو آنکھوں کا عطیہ دینے کی وصیت کرچکے ہوں ان کی آنکھوں کو محفوظ کیا جاسکے اور بوقت ضرورت مستحق افراد کی بینائی لوٹائی جاسکے۔
لکھاری ڈان نیوز سے وابستہ ہیں۔ سیاست، سماجی مسائل اور دیگر اہم امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔