’تخلیقی سواری‘: خواتین کو خود مختار بنانے کا منفرد منصوبہ
اسکول، کالج، دفتر یا کاروبار کی غرض سے گھروں سے باہر نکلنے والے افراد کو منزل پر پہنچنے کے لیے کسی نہ کسی سواری کی لازمی ضرورت ہوتی ہے لیکن آج ہم جس سواری کے بارے میں بات کریں گے وہ دیکھنے میں تو ایک بس ہے لیکن یہ معاشی طور پر خواتین کو مضبوط اور خودمختار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پیلے رنگ کی اس بس کو ’تخلیقی سواری‘ کا نام دیا گیا ہے۔
نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو ہنر مند بنانے کا منصوبہ چلانے والے نجی ادارے ’الف لیلیٰ بُک بس سوسائٹی‘ کا عزم ہے کہ وہ اس بس میں موجود سہولیات کے ذریعے گھریلو خواتین سمیت نوجوان لڑکیوں کو ایسا ہنر سکھانا چاہتے ہیں جس سے وہ گھر بیٹھے کچھ پیسے کما کر ناصرف اپنے خاندان کی کفالت کرسکیں بلکہ معاشی طور پر خود کو مضبوط بنا سکیں۔
’تخلیقی سواری‘ کا آغاز کیسے ہوا؟
1986ء میں لاہور کی رہائشی سیدہ بصارت کاظمی نے پوش علاقے مین مارکیٹ گلبرگ ٹو میں ’ہوبی کلب‘ کے نام سے منصوبہ شروع کیا جہاں مختلف سرکاری اسکولوں کی طالبات کو الف لیلیٰ بُک سوسائٹی کے دفتر میں 3 ماہ کے کورس میں مختلف تخلیقی ہنر سکھائے جاتے تھے اور یہ ہنر سیکھنے والی لڑکیوں کو ڈپلوما کی سند بھی دی جاتی تھی۔ طویل عرصے تک یہ سلسلہ جاری رہا لیکن پھر دنیا بھر میں اچانک پھوٹنے والی کورونا وبا کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن اور اسکولوں کی بندش نے بصارت کاظمی اور ان کی ٹیم کو تربیت جاری رکھنے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا کردیا۔
اسی دوران عہدیداروں کو خیال آیا کہ جیسے ہی کورونا وبا کی پابندیاں کم ہوں گی، الف لیلیٰ بُک سوسائٹی، حکومت پنجاب کی جانب سے عطیہ کی جانے والی بس کو ’تخلیقی سواری‘ کے طور پر استعمال کرے گی جس میں 6 مختلف کورسز کروانے کے انتظامات کیے جائیں گے۔
اس پائلٹ پروجیکٹ کے لیے پہلے بس تیار کرنے کے بعد لاہور کے 5 سرکاری اسکولوں کا انتخاب کیا گیا جہاں ایک سال تک اس بس کی خدمات فراہم کی گئیں۔ بعد ازاں مختلف نجی تعلیمی اداروں کے تعاون سے لگائی گئی نمائش میں ہنر مند لڑکیوں کی جانب سے تیار کردہ مصنوعات کو فروخت بھی کیا گیا۔ تجربہ کامیاب ہونے کے بعد فیصلہ ہوا کہ تخلیقی سواری شہر کی ایسی 5 مختلف آبادیوں میں جائے گی جہاں متوسط طبقہ یا غریب گھرانوں کے لوگ بستے ہیں۔ ان آبادیوں کی خواتین اور اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جانے والی لڑکیوں کو تربیت دی گئی تاکہ ان میں کاروباری سوچ کو فروغ مل سکے اور وہ ہنر سیکھ کر ذاتی کاروبار شروع کرسکیں۔
اس وقت یہ سواری لاہور کی جی او آر ٹو کمیونٹی، نشاط کالونی اور کبوتر پورہ سمیت دیگر کل 5 آبادیوں میں ہفتے میں 5 دن جاتی ہے جہاں ایک آبادی سے تعلق رکھنے والی 15 سے 20 خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ یوں مجموعی پر 80 کے لگ بھگ خواتین 3 ماہ کا کورس مکمل کرتی ہیں۔
’تخلیقی سواری‘ میں کون کون سے ہنر سکھائے جاتے ہیں؟
آمنہ کاظمی نے الف لیلیٰ بُک بس سوسائٹی میں بطور انسٹرکٹر کام کا آغاز کیا اور اب وہ گزشتہ ایک برس سے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’خواتین کو تخلیقی سواری کے ذریعے 6 مختلف اقسام کے ہنر سکھائے جاتے ہیں جن میں فوٹوگرافی، دست کاری، مصوری، کچن گارڈننگ، کمپیوٹر کورس اور الیکٹرانکس کا ابتدائی کورس شامل ہے۔ اس مقصد کے لیے پہلے ادارہ اچھے ماہرین کو تلاش کرتا ہے جو متعلقہ شعبے میں قابلیت رکھتے ہوں۔ اس کے بعد وہ بس میں سوار ہوکر منتخب کردہ آبادیوں میں جاتے ہیں اور خواتین کو متعلقہ ہنر سکھاتے ہیں۔ ماہرین کے انتخاب میں خواتین کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے لیکن الیکٹریشن اور فوٹوگرافی جیسے کورسز کے لیے مرد حضرات کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔
اس منصوبے سے وابستہ خواتین کتنی پُرامید ہیں؟
جی او آر ٹو کمیونٹی کی رہائشی نویں جماعت کی طالبہ علیزہ رحمت کے والد شہر کی مختلف مارکیٹیوں میں پھیری لگتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’والدین اور خاندان کے دیگر افراد نے پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ میں بارہویں جماعت کے بعد اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتی اور کہا گیا کہ اگر کچھ سیکھنا یا کرنا ہے تو وہ میں گھر بیٹھ کر کروں۔ جب تخلیقی سواری میرے علاقے میں آئی تو میرے جذبات ناقابلِ بیان تھے کیونکہ اس میں آرٹس کی تربیت بھی دی جاتی تھی اور میں بچپن سے ہی مختلف رنگوں سے تصاویر بنانے کی شوقین تھی۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران میں نے آرٹس میں بہت کچھ سیکھا ہے اور میں اُمید کرتی ہوں کہ 3 ماہ کے بعد میں اس قابل بن جاؤں گی کہ پڑھائی مکمل ہونے کے بعد گھر پر مختلف آرٹ ورکس بنا کر چند پیسے کما سکوں اور اپنے والد کا سہارا بن سکوں‘۔
جی او آر کمیونٹی میں الیکٹرانکس کی تربیت لینے والی نوجوان لڑکی نوشین نے بتایا کہ آغاز میں انہیں بجلی کے تار پکڑتے ہوئے خوف محسوس ہوتا تھا کہ کہیں انہیں کرنٹ نہ لگ جائے لیکن تربیت حاصل کرنے کے بعد وہ اب اس قابل ہوگئی ہیں کہ گھر میں کوئی بلب وغیرہ خراب ہوجائے تو وہ اسے باآسانی تبدیل کرسکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’الیکٹریشن کے کورس میں اتنا کچھ سیکھنا چاہتی ہوں کہ میں اپنی خود کی موبائل ورکشاپ کھول سکوں۔ ساتھ ہی میں الیکٹریشن کا کام اس لیے بھی سیکھ رہی ہوں کیونکہ کچھ ایسے گھر ہیں جہاں خواتین اکیلی رہتی ہیں اور وہ گھر میں انجان مردوں کو بلانا نہیں چاہتیں، میں ان خواتین کے لیے الیکٹریشن کی ضرورت پوری کرنا چاہتی ہوں‘۔
ہوم اکنامکس کالج گلبرگ سے فارغ التحصیل آرٹس اینڈ کرافٹ کی تربیت دینے والی خاتون نیلم جلال نے ہمیں بتایا کہ ’میرا خواب تھا کہ میں نے جو کچھ سیکھا ہے وہ دیگر لڑکیوں کو بھی سکھا سکوں تاکہ وہ معاشی طور پر خود مختار بن سکیں۔ میں ہینڈی کرافٹس اور آرٹس کے علاوہ ری سائیکل شدہ مواد سے لڑکیوں کو بہت سی کار آمد اشیا بنانا سکھا چکی ہوں جس سے وہ باآسانی اپنا روزگار کما سکتی ہیں‘۔
ڈپلوما ہولڈر محمد آصف الیکٹرانکس کی تربیت دیتے ہیں اور اپنی ذاتی ورکشاپ بھی چلاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’تربیت حاصل کرنے والی لڑکیاں بے خوف ہوکر اب بجلی کے تار کا جوڑ لگا لیتی ہیں۔ گھروں میں فریج، ٹیلی ویژن یا کسی اور مشین کا سوئچ خراب ہو جائے تو بغیر کسی بیرونی مدد کے وہ اسے خود بھی تبدیل کرسکتی ہیں‘۔
’تخلیقی سواری‘ کے مستقبل کے عزائم
آمنہ کاظمی کے بقول ’تخلیقی سواری کا حقیقی مقصد خواتین کو کامیاب بنانا ہے جبکہ اس سے وابستہ ایسی متعدد خواتین کی کامیابیوں کی بے شمار کہانیاں موجود ہیں جنہوں نے تخلیقی سواری سے ہنر سیکھنے کے بعد اپنا کاروبار شروع کیا۔ آمنہ نے ایک خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے سلائی کڑھائی کا کام سیکھا اور اب وہ کڑھائی والے کپڑے آن لائن فروخت کرتی ہیں۔ جب ہمیں بھی کچھ بنوانا یا سلوانا ہوتا ہے تو ہم ان سے رابطہ کر لیتے ہیں‘۔
آمنہ نے مزید بتایا کیا کہ فیض فیسٹیول میں ان کی تربیت یافتہ دو لڑکیوں کے ہاتھ سے تیار کردہ مختلف مصنوعات اچھے داموں پر فروخت ہوئیں۔ تخلیقی سواری ان لڑکیوں کو مزید 3 ماہ تربیت دینے اور ان کی مالی معاونت کا بھی ارادہ رکھتی ہے تاکہ وہ مزید سازوسامان خرید کر چھوٹی سطح پر کاروبار شروع کرسکیں۔
آمنہ کاظمی نے مستقبل کے عزائم پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ الف لیلیٰ بُک بس سوسائٹی پہلے ہی پورے پاکستان میں موبائل لائبریریوں سمیت بچوں کی کتابوں کی چھپائی اور دیگر منصوبوں میں سرگرم ہے لیکن لاہور میں تخلیقی سواری کی کامیابی کے بعد رواں برس کے اختتام تک تخلیقی سواری کی سرگرمیوں کا دائرہ کار ملک کے دیگر شہروں تک پھیلانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
اگرچہ تمام علاقوں کے لیے اتنی بڑی بس استعمال نہیں کی جائے گی بلکہ مختلف آبادیوں اور اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے رکشوں میں ورکشاپس تیار کی گئی ہیں تاکہ نقل و حمل میں آسانی ہو۔ خواتین کی سہولت کے لیے انہیں آن لائن شاپنگ اسٹورز، بینک اکاؤنٹس سمیت موبائل فون کے ذریعے رقم وصول کرنے کے انہیں اکاونٹس بھی بنا کر دیے جائیں گے۔
لکھاری ڈان نیوز سے وابستہ ہیں۔ سیاست، سماجی مسائل اور دیگر اہم امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔