نقطہ نظر

آرہوس: ایک نئی منزل سے ملاقات کی خوشی

یورپ کو بحیثیت مجموعی دیکھیں تو لگتا ہے کہ جیسے اسے ایک ہی مستری نے بنایا ہو۔

آرہوس ڈنمارک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ وائکنگ کے ابتدائی دور میں اس شہر کی بنیاد رکھی گئی اور دریا کنارے ہونے کی وجہ سے یہ جلد ہی ایک اہم تجارتی مرکز بنتا چلا گیا۔ 12 سال سے زائد عرصہ ڈنمارک میں رہتے ہوئے بھی کبھی مجھے اس شہر میں آنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ میرے بڑے بھائی پاکستان میں انڈسٹریل کمپریسر کی پاکستان سپلائیز کے حوالے سے آرہوس میں ایک مقامی کمپنی سے ملنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ سو ہم نے بھی ساتھ ہولینے کو سعادت سمجھا۔

کوپن ہیگن جس جزیزے پر واقع ہے اس کا نام شی لینڈ ہے اور آرہوس جس جزیرے پر واقع ہے اس کا نام یولینڈ ہے۔ شی لینڈ سے یولینڈ آنے کے لیے اوڈنسے شہر کے پاس ایک بڑا پل ہے جبکہ شی لینڈ سے بذریعہ فیری بھی آرہوس آیا جاسکتا ہے۔ اوڈنسے شہر سے پل کے ذریعے تو آپ ملاقات پہلے ہی کر چکے ہیں اس لیے ہم نے فیری کے ذریعے جانے کا فیصلہ کیا۔ شی لینڈ سے ہر گھنٹے بعد آرہوس کے لیے فیری چلتی ہے اور فیری کا یہ سفر ایک گھنٹہ 20 منٹ کا ہے۔

ارادہ تو یہی تھا کہ ہم فیری میں بیٹھ کر ڈھلتے ہوئے سورج کا نظارہ کریں گے اسی لیے ہم نے شام 8 بج کر 10 منٹ والی فیری کی بکنگ کروائی۔ لیکن گھر سے فیری تک کا یہ سفر ہماری توقع سے کم نکلا اور ہم 6 بجے ہی فیری ٹرمینل پر جا پہنچے، لہٰذا ہم 7 بجے والی فیری لےکر آرہوس چلے آئے۔ آپ نے 8 بجے والی شام کا تذکرہ اسکینڈے نیویا کے ذکر کے ساتھ جڑا ہوا پہلے بھی سنا ہوگا کیونکہ آج کل غروبِ آفتاب رات کے ساڑھے 9 بجے کے قریب ہوتا ہے اور یہ آنے والے مہینوں میں 10 بجے کے قریب ہوتا چلا جائے گا۔

ہمارا قیام شہر کے مرکز میں ہی ایک ہوٹل میں تھا۔ چیک اِن کیا اور سوچا کہ رات کے کھانے کا بندوبست کرلیا جائے۔ ابھی شام کے ساڑھے 9 ہی بجے تھے لیکن کھانے پینے کی اکثر دکانیں بند ہو چکی تھیں۔ کچھ ایک دو جگہیں 10 بجے تک کھلی تھیں لیکن ان کے پاس بھی اس وقت بیچنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ خیر 10 بجے کے قریب ایک ترک بھائی کی برگر شاپ سے ہمیں گزارے کا سامان مل ہی گیا۔

اگلی صبح ناشتے کے بعد ہم نے شہر کی سیر کا فیصلہ کیا۔ ہمارا ہوٹل آرہوس کانگریس سینٹر کے اندر ہی واقع تھا۔ یہ کانفرنسز اور میٹنگ کے لیے ایک بڑی جگہ ہے جہاں 4 ہزار لوگوں کی گنجائش موجود ہے۔ اس سینٹر کے اندر چند نمائشی شو روم بھی بنائے گئے ہیں۔

اس کانفرنس سینٹر کا نزدیک ترین ہمسایہ میوزک ہاؤس آرہوس ہے۔ آپ اسے ایک تھیٹر بھی کہہ سکتے ہیں جہاں مقامی سے لےکر بین الاقوامی فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ گزشتہ شام بھی درجنوں لوگ میوزک ہاؤس کے باہر موجود تھے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ جگہ آباد ہے۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق اس جگہ پر سال میں 15 سو سے زائد تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔

کانگریس سینٹر کی عمارت کے اندر سے گزرتے ہوئے ہم آرہوس آرکٹیکٹ اسکول کی طرف نکل آئے۔ یہاں ریل کی پٹری کا اختتام ہو رہا تھا۔ آگے جائیں تو دائیں طرف ایک بڑی دیوار پر شوخ رنگوں سے پینٹنگز کی گئی ہیں یہاں سے گزرتے ہوئے دائیں جانب گلی میں داخل ہوں تو سامنے ایک گلی کا آغاز ہوتا ہے جس کے دونوں اطراف پھولوں کی جھاڑیاں لگی ہوئی ہیں۔

یہ جھاڑیاں آج کل پورے جوبن پر ہیں۔ شہر کے اندر پھولوں والی گلیاں، لکھنے والوں اور دیکھنے والوں کو ہمیشہ سے ہی اپنی جانب کھینچتی چلی آئیں ہیں۔ یہاں سے شہر کے مرکز کو تصور کرتے ہوئے دائیں طرف جاتے جائیں تو ایک سڑک شروع ہوتی ہے جہاں سائیکل گننے والی ڈیجیٹل اسکرین نصب ہے۔ سائیکل سواروں کے لیے الگ راستے تو پہلے ہی ڈنمارک کی پہچان ہیں، اب اس طرز کے ڈیجیٹل ڈسپلے کا مقصد دیگر لوگوں کو سائیکل سواری کی طرف راغب کرنا ہوسکتا ہے۔

میں نے پہلے بھی اپنے بلاگ میں لکھا تھا کہ یورپ کو بحیثیت مجموعی دیکھیں تو لگتا ہے کہ جیسے اسے ایک ہی مستری نے بنایا ہو۔ شہر کے اندر ایک کینال بہت سارے بڑے شہروں کا مشترکہ فیچر ہے یہاں پر بھی ایک مرکزی نہر ہے جو شہر کے مرکز کے آس پاس بہتی ہے یا یہ کہہ لیں کہ شہر کا مرکز ایک نہر کے کنارے واقع ہے۔ ہم بھی اس نہر کے ساتھ ساتھ ہو لیے۔

ایک اور بات جو مجھے ڈنمارک کے حوالے سے صادق لگتی ہے یا پھر شاید دوسرے ممالک میں بھی ایسا ہی ہو، وہ بات یہ ہے کہ یہاں گلیوں کے نام ایک جیسے ہیں بس پوسٹ کوڈ کا فرق ہے۔ جیسے پارک ایلی اور پارک وائے کے نام سے سڑک آپ کو درجنوں شہروں میں ملے گی۔ سٹرانڈ وائے یعنی ساحل والا راستہ بھی درجنوں شہروں میں ملیں گے۔ ایسے ہی نہر کنارے چلتے چلتے ہم نے کئی گلیوں کے نام کوپن ہیگن کی گلیوں سے ملتے جلتے پائے۔

ہم نہر کنارے ایک نخلستان میں پہنچے جس کا نام ملاپارکن ہے اور اس سے آگے شہر کی طرف جانے والی گلی کا نام او بلیوارڈ ہے۔ اسی نام سے مرکزی کوپن ہیگن میں ایک بڑی سڑک اور پارک کے نام جیسا ایک مشہور محلہ بھی ہے۔ اس طرز کے بہت سے شہری نخلستان یورپی ممالک کے لینڈ اسکیپ کا لازمی حصہ ہیں۔ گنجان شہروں میں اس طرز کے گھنے قطعات بنانا انسانوں اور قدرتی ماحول کے لیے یکساں مفید ہیں۔ اس چھوٹے سے قطعے میں چہچہاتے پرندوں کی آوازیں آپ کو قدرت کے مسکرانے کا پتا دیتی ہے۔

یہاں سے او بلیوارڈ پر چلتے ہوئے ہم شہر کی جانب چل پڑے۔ آپ کو پتا ہی ہوگا کہ بلیوارڈ کا مطلب ہی ایسی سڑک ہوتا ہے جس کے ساتھ درختوں کی قطار ہو۔ ہم اسی بلیوارڈ اور نہر کے ساتھ چلتے واکنگ اسٹریٹ کی طرف چلے آئے۔ یہاں پر شناسا ناموں والی دکانیں موجود تھیں جوکہ ڈنمارک کے سب ہی بڑے شہروں میں پائی جاتی ہیں۔ یہاں سے کچھ آگے ایک راستہ اولڈ ٹاؤن کی طرف جا رہا تھا اور دوسرا واکنگ اسٹریٹ سے سینٹرل اسٹیشن کی طرف جاتا ہے۔ ہم نے اولڈ ٹاؤن کو دور سے ہی سلام کیا اور سینٹرل اسٹیشن کی طرف جاتی ہوئی واکنگ اسٹریٹ کی طرف مڑگئے۔

ابھی صبح کے تقریباً 10 بجے کا وقت ہوگا۔ کچھ دکانیں ابھی کھل رہی تھیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کی خاصی تعداد واکنگ اسٹریٹ پر موجود تھی۔ ویسے بھی ایسی خوبصورت دھوپ اسکینڈے نیویا کے باسیوں پر کم ہی اترتی ہے اسی لیے تو وہ اس دھوپ کے ذرے ذرے کو بدن میں اتار لینا چاہتے ہیں۔

پاکستان میں آج کل بازار جلد بند کرنے پر بحث جاری ہے جبکہ آرہوس میں دکانیں شام 8 بجے تک بند ہوجاتی ہیں۔ زندگی اور کام میں توازن کا اسکینڈے نیویا کا فلسفہ دیگر ممالک میں بھی رشک بھری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور ویسے عمل کرنے کو تو ہم بھی باآسانی پوری قوم کا راستہ تبدیل کرسکتے ہیں۔

لوگوں اور دکانوں کے ساتھ واکنگ اسٹریٹ میں چلتے چلتے ہم ایک قدیم چرچ کی عمارت کے پاس آ پہنچے۔ چرچ سے واکنگ اسٹریٹ سینٹرل اسٹیشن کے پاس جاکر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اسٹیشن سے دائیں طرف ایک چھوٹا سا چوراہا ہے یہاں سے واکنگ اسٹریٹ کے متوازی مڑیں تو ٹاؤن ہال کی عمارت نظر آتی ہے۔ یہ شہر کا نیا ٹاؤن ہال ہے جو تقریباً 41ء-1940ء میں مکمل ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی ساخت جدید زمانے کی عمارتوں جیسی ہے۔ رات کھانے کی تلاش میں ہم اسی جگہ تو بھٹک رہے تھے لیکن اب دن کی روشنی میں پتا چلا ہے کہ یہاں کا ٹاؤن ہال یہی ہے۔

ٹاؤن ہال کے ساتھ ایک چھوٹا سا باغیچہ ہے۔ شہر کی کسی کمپنی کا اسٹاف کارپوریٹ تصویر بنانے کے لیے یہاں موجود تھا۔ کچھ لوگ بینچوں پر بیٹھ کر موسم گرما کا لطف لے رہے تھے جبکہ یہاں سے 300 یا 400 میٹر کے فاصلے پر ہی ہمارا ہوٹل تھا۔ لہذا ہم نے واپسی کا سفر اختیار کیا۔ ڈنمارک کے دیگر شہروں کی طرح آرہوس میں بھی تقریبا ویسی ہی دکانیں اور عمارتیں ہیں جیسی باقی شہروں میں ہیں لیکن پھر بھی ایک نئی منزل سے ملاقات کی خوشی ہمارے دل میں تھی۔ اگر ایک اچھی ملاقات کا اختتام ایک اچھے کھانے سے ہو تو کیا ہی بات ہے۔ ایک دوست کے مشورے پر ہم سرے کباب جا پہنچے۔ گرم گرم کباب اور دیسی اسٹائل کی توے کی روٹی نے شہر کے رنگوں میں رس بھر دیا۔

واپسی کی فیری کا پتا کیا تو معلوم ہوا کہ اگلی فیری چلنے میں 2 گھنٹے باقی ہیں۔ بڑے بھائی نے کوپن ہیگن سے کچھ خریداری کرنی تھی اس لیے ہم نے بذریعہ پل واپسی کا سفر اختیار کیا اور ایک خوبصورت یاد کے ساتھ ہم شام تک اپنے گھر آ پہنچے۔


تصاویر بشکریہ لکھاری

رمضان رفیق

رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔