’ہمیں اپنی معاشی حقیقت تسلیم کرنے کی ضرورت ہے‘
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ملک ڈیفالٹ نہیں ہورہا، وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے واضح کیا ہے کہ حکومت بیرونی قرضوں کے معاملے پر مذاکرات کررہی ہے۔ اس سے ہمیں ان کے اس دلیرانہ دعوے پر حیرت ہوتی ہے کہ ملک قرضوں کی ادائیگیاں بروقت کرے گا۔
توقعات کے مطابق اسحٰق ڈار کی بجٹ تقریر کھوکھلے دعووں سے بھرپور تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس وقت جب ملک کو تاریخ کے بدترین بحران کا سامنا ہے، ایسے میں انہوں نے عوام دوست یا مقبول بجٹ پیش کیا۔ تاہم بجٹ میں آنے والے معاشی بحران کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا۔ بجٹ پیش کرنے کے بعد ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کے سخت موقف کو جغرافیائی سیاست سے منسوب کیا۔ وہ ابھی تک یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے آئی ایم ایف ان پر اعتماد کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔
زیادہ تر اقتصادی ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ اس عوامی بجٹ میں سخت اصلاحاتی اقدامات نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے قرضے واپس لوٹانا مزید مشکل ہوجائے گا۔ یہ بجٹ ایک ایسی حکومت نے پیش کیا ہے جس کی آئینی مدت صرف 2 ماہ رہ گئی ہے۔ لیکن اسحٰق ڈار اب بھی خوابوں کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ ووڈو اکنامکس پر ان کا یقین غیرمتزلزل ہے، اور ان کے اسی یقین نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
معروف ماہرِ معیشت اور پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر عاطف میاں نے پاکستان کی صورتحال کا سری لنکا اور گھانا سے موازنہ کیا ہے۔ یہ دونوں ایسے ممالک ہیں جو ڈیفالٹ ہوچکے ہیں۔ اس پر اسحٰق ڈار نے کافی سخت ردعمل دیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرض لوٹانے کی تاریخ کو ری شیڈول کرنے سے آخر کیا حاصل ہوگا۔ ہم ابھی باضابطہ طور پر ڈیفالٹ نہیں ہوئے لیکن ہم اس کے بہت قریب ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم آنے والی مشکلات سے نبردآزاما ہونے کے لیے تیار ہیں۔ جب کوئی حقیقت تسلیم کرنے سے انکاری ہوتا ہے تب زیادہ دشوار صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔
ہمارے پاس ایسے بہت سے ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اس سے بھی بدتر مالیاتی حالات کا سامنا کیا لیکن پہلے اپنی مالی حالات کی حقیقت کو تسلیم کرکے اور پھر اپنی گرتی ہوئی معیشت کے حوالے سے سخت اصلاحاتی اقدامات کرکے، وہ اپنی مشکلات کو موقع میں بدلنے میں کامیاب ہوئے۔ مثال کے طور پر بھارت نے 1991ء میں اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کیا تھا جب ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز سے بھی کم رہ گئے تھے اور بیرونی ادائیگیوں کے وعدوں کی وجہ سے ڈیفالٹ ہونے سے صرف چند ہفتوں کی دوری پر تھا۔
آئی ایم ایف نے اپنا قرض پروگرام معطل کردیا اور عالمی بینک نے بھی تعاون کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ڈیفالٹ ہونے سے بچنے کے لیے حکومت نے متعدد اقدامات لیے جیسے اپنے سونے کے ذخائر کا بڑا حصہ بینک آف انگلیند اور یونین بینک آف سویٹزرلینڈ کو بطور ضمانت دیا ہوگا تاکہ قرضے کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے زرِمبادلہ حاصل کیا جاسکے۔
1991ء میں بھارتی وزیرِ خزانہ من موہن سنگھ کی جانب سے کی جانے والی بجٹ تقریر یادگار ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے جس طویل اور دشوار سفر کا آغاز کیا ہے اس میں آگے والی مشکلات کو میں کم نہیں کرسکتا۔ لیکن جیسا وکٹر ہوگو نے ایک بار کہا تھا ’زمین پر موجود کوئی بھی طاقت اس خیال کو نہیں روک سکتی جس کا وقت آچکا ہوتا ہے‘۔
ایک جانب وہ آنے والے چیلنجز سے خبردار کررہے تھے جبکہ دوسری جانب وہ پُراعتماد تھے کہ سخت لیکن ضروری اصلاحات کرکے وہ بھارتی معیشت کی صورتحال کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد بھارت نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اس وقت کی بھارتی حکومت کی جانب سے لیے جانے والے اصلاحاتی اقدامات کی وجہ سے بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن کر ابھرا۔ حکومتیں تبدیل ہونے کے باوجود پالیسیوں پر عمل درآمد کو جاری رکھا گیا اور اسی نے بھارت کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ہم بھی حالیہ بحران کو ایک موقع میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ بدقسمتی سے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے جن سخت اصلاحاتی اقدامات کی ضرورت ہے وہ اقدامات لینے کے حوالے سے نہ ہی حکومت پر عزم ہے اور نہ اس میں ایسے اقدامات لینے کی صلاحیت موجود ہے۔ بھارت نے ملک کو بحران سے باہر نکالنے کے لیے ماہرِ معیشت کی خدمات حاصل کیں جبکہ ہمارے ملک میں معیشت کا پہیہ ایک اکاؤنٹنٹ کے ہاتھ میں ہے جن کی واحد سند یہ ہے کہ ان کا تعلق ایک طاقتور حکمران جماعت سے ہے۔
ملک کو بگڑتی معیشت اور تیزی سے بڑھتی ہوئی افراطِ زر کے ذریعے جمود کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ بڑھتی ہوئی بےروزگاری کی وجہ سے سنگین معاشی اور سماجی مسائل نے جنم لیا ہے۔ سیاسی وجوہات کی بنا ہر سخت فیصلے لینے سے گریز کیا جارہا ہے، جس سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ رہا ہے۔ اسحٰق ڈار کا یہ دعویٰ کہ ملک ڈیفالٹ نہیں ہورہا، اس کھیل کی جانب اشارہ کرتا ہے جو معاشی انتظام کے نام پر کھیلا جارہا ہے۔
اسحٰق ڈار شاید معیشت کی موجودہ صورت حال کے پوری طرح ذمہ دار نہ ہوں، لیکن بحران کو حل کرنے میں ان کی نااہلی نے معاشی بحران کو مزید سنگین بنانے میں حصہ ضرور ڈالا ہے۔ عاطف میاں نے خبردار کیا ہے کہ ’پاکستان کی معیشت بحران سے تباہی کی طرف جارہی ہے جبکہ ملکی نظام بے قابو ہوتا جارہا ہے‘۔
عاطف میاں جنہیں آئی ایم ایف نے دنیا کے 25 ٹاپ نوجوان ماہرِ معیشت میں شامل کیا ہے، وہ اپنے حالیہ ٹوئٹس میں پی ڈی ایم حکومت کی بدانتظامی کو کچھ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ’اس حکومت نے کسی منصوبہ بندی کے بغیر مرکزی بینک کے گورنر کو تبدیل کردیا، اپنے ہی تعینات کردہ وزیرِ خزانہ کے خلاف ہوگئے اور آخر میں وزیرِاعظم کے قریبی رشتہ دار کو ان کی جگہ عہدے پر تعینات کردیا۔۔۔ اہلیت جائے بھاڑ میں‘۔
ملک میں جاری سیاسی افراتفری اور اقتدار کے کھیل نے معاشی عدم استحکام میں اضافہ کیا ہے، اس صورت حال میں ایسا بجٹ دینے کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ میں طے کیے جانے والے ریونیو اہداف کے حوالے سے بھی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ بہت سے ماہرِ معیشت اتفاق کرتے ہیں کہ یہ اہداف حقیقت کے منافی ہیں۔ ہمارے وزیرِخزانہ اعدادوشمار کے ساتھ کھیلنے کے پرانے کھلاڑی ہیں، یہ رویہ ملک کو مزید گہرے بحران میں دھکیل دے گا۔ ملک کو اس وقت بیان بازی کی نہیں بلکہ دلیرانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں ہوتے تو ان کے پاس اس حوالے سے پلان بی بھی موجود ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت میں بھی کسی کو اس خفیہ پلان کے حوالے سے علم نہیں ہے۔ اگر وزیرِ خزانہ کو یہ گمان ہے کہ وہ دوست ممالک سے پیسے حاصل کرسکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ کوئی بھی ملک مفت میں پیسے دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو یہ عارضی طور پر معیشت کو سہارا دے گا لیکن معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی ساختی مسائل کا حل ثابت نہیں ہوگا۔ موجودہ صورتحال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بلخصوص وزیرِخزانہ کو پتا نہیں ہے کہ ملک کس جانب جارہا ہے۔ لوگوں کا نظام پر سے بھروسہ اُٹھ گیا ہے اور بھروسہ کھوکھلے وعدوں سے بحال بھی نہیں جاسکتا۔ وقت تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔
یہ مضمون 14 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔