’ہم نے کیوی کپ لگانا اس کے موجد سے سیکھا ہے‘
طویل قطار تھی۔۔۔ لیکن ہم کہاں ہمت ہارنے والے تھے۔ ہر کوئی اپنی باری آنے پر میز تک پہنچتا جہاں ایک صاحب یہ تماشا سجائے بیٹھے تھے۔ امیدوار ہاتھ میں دستانے پہنتا اور وہ صاحب ایک پمپ سا ہاتھ میں پکڑا دیتے جسے سامنے رکھی ڈمی کے اوپر لگا کر کھینچنا ہوتا۔
آر یا پار کے مصداق امیدوار الٹا سیدھا کھینچتا مگر وہ صاحب بڑی خوش مزاجی سے ہاتھ پکڑ کر سمت درست کرواتے ہوئے ساتھ میں ہدایات دیتے جاتے۔ جب مشن پورا ہو جاتا تب اس کی باری ختم اور دوسرا امیدوار سامنے آ کھڑا ہوتا۔ نہ جانے کتنے گھنٹے گزر چکے تھے اور کتنے ہی امیدوار فارغ ہو چکے تھے مگر قطار ٹوٹنے میں نہیں آتی تھی۔
یہ 2009ء کا کیپ ٹاؤن تھا!
گائناکالوجی کی دنیا کی سب سے بڑی کانفرنس تھی اور بھانت بھانت کے گائناکالوجسٹ موجود تھے۔ پاکستان سے نامی گرامی پروفیسرز کے ساتھ بہت سے پرانے ساتھی بھی وہاں موجود تھے۔ سارا دن ہنسی کھیل کے ساتھ ساتھ نئی ریسرچ، انوکھی دریافت اور نئے آئیڈیاز پر بات ہوتی۔ بہت کچھ تھا سیکھنے اور سکھانے کو۔ ہم بھی وہاں موجود تھے، ہم بھی سب دیکھا کیے۔
ایسے ہی ایک اسٹال پر ہماری نظر پڑی جس پر ضرورت سے زیادہ رش تھا۔ فوراً اس طرف لپکے کہ کچھ تو انوکھا ہوگا وہاں۔ پتا چلا کہ نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ایلڈو ویکا موجود ہیں جنہوں نے برسہا برس پرانے اسٹیل کے بنے ویکیوم کو پلاسٹک کے ڈسپوزیبل کیوی کپ (kiwi cup) میں بدل دیا ہے جو زچگی میں استعمال ہوتا ہے۔ اسٹال پر ان کی بیگم بھی موجود تھیں اور وہ دونوں ایک ڈمی پر کیوی کپ لگانا سکھا رہے تھے جس کو لگانے، پریشر بنانے اور بچہ کھینچنے کی تکنیک پرانے روایتی کپ سے مختلف تھی۔
ہم بھلا کیوں پیچھے رہتے؟ ہم اور ڈاکٹر فرح بھی جا لگے قطار میں۔۔۔ قطار رینگ رینگ کر چل رہی تھی مگر ہمارے کون سے بچے رو رہے تھے جن کی فکر ہمیں لاحق ہوتی اور ہم جلدی کا شور مچاتے۔ خدا خدا کرکے ہم پروفیسر صاحب تک پہنچے جنہوں نے وہ تمام عمل ہمیں پھر سے کروایا جو وہ کئی گھنٹوں سے کروا رہے تھے اور جس کورس کے کرنے کی فیس کئی سو پاؤنڈز تھی۔
کیوی کپ پاکستان کے سرکاری اسپتالوں میں موجود نہیں تھا سو کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم سیکھ کر کیا کریں گے؟ مگر ہمارا خیال تھا کہ موقع ہاتھ آئے تو سیکھنا لازمی ہے۔
شکریہ کہہ کر اسٹال سے رخصت ہونے لگے تو خیال آیا کہ پروفیسر صاحب کا نمبر ہی لے لیا جائے شاید زندگی پھر کبھی ایک دوسرے کے سامنے لے آئے۔
کانفرنس کے فوراً بعد ہم پاکستان سے خلیج جا پہنچے اور ہماری سکھلائی کام آگئی کیوں کہ کیوی وہاں موجود تھا۔ ہم نے بھی خوب اٹھلا اٹھلا کر سب کو بتایا کہ ہم نے کیوی کپ لگانا اس کے موجد کے ہاتھ سے سیکھا ہے۔
آنے والے برسوں میں ہم نے کیوی کپ خوب استعمال کیا، خود لطف بھی اُٹھایا اور دوسروں کو بھی سکھایا۔
اور پھر 2013ء آ پہنچا۔
ہمیں اپنے اسپتال میں ایک ورک شاپ کروانی تھی۔ نہ جانے کیسے ہمیں خیال آیا کہ پروفیسر ایلڈو ویکا کو بلوایا جائے۔ اس خیال کے ساتھ دوسرے ہی لمحے ہم نے اس خیال کو رد کردیا۔ بھلا پروفیسر ایلڈو ویکا آسٹریلیا سے کیوں آئیں گے اتنی دور؟ جبکہ ہمارے پاس ان کو دینے کے لیے کوئی اعزاز یہ بھی نہیں۔ تیسرے ہی لمحے سوچا کہ پوچھ لینے میں کیا حرج ہے؟ سوال کرنے کا استحقاق ہے ہمیں۔۔۔ جواب اثبات میں ملے یا نہیں، یہ ان کی صوابدید۔
خیر جناب ایک ای میل لکھی ہم نے اور بھیجنے کے بعد انتظار میں بیٹھ گئے۔ ابھی دو دن ہی گزرے تھے کہ ہمارے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔
نامانوس نمبر اور اجنبی آواز ۔۔۔ ’مجھے ڈاکٹر کاظمی سے بات کرنی ہے‘۔ ہم نے کہا ’جی فرمائیے‘۔ جواب آیا ’میں ایلڈو ویکا بول رہا ہوں‘۔ اگر آپ نزدیک ہوتے تو دیکھتے کہ ہم کیسے اپنی جگہ سے اُچھلے اور کیا حال ہوا ہمارا مارے خوشی کے۔
’بتاؤ مجھے کب آنا ہے؟ میری بیوی بچے اس کے حق میں نہیں ہیں لیکن مجھے ہر حال میں آنا ہے۔ تمہاری دعوت نے مجھے کچھ دن اور جینے کی آس دی ہے۔ میں پچھلے 4 ماہ سے بہت بیمار ہوں۔ کینسر کی تشخیص ہوئی ہے۔ کیمو تھراپی ہوئی کل ہی آخری خوراک ملی ہے اور کل ہی تمہاری ای میل موصول ہوئی۔ گو کہ میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے لیکن میں یہ ورکشاپ کروانا چاہتا ہوں۔ آسٹریلیا سے اپنے کام کو سکھانے دنیا کے دوسرے کونے جانے میں مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔
’مجھے علم ہے کہ تم مجھے پیسے نہیں دے سکتیں، سفر کا ٹکٹ بھی تمہاری پہنچ سے باہر ہے لیکن امید کرتا ہوں کہ رہنے کے لیے دو راتوں کی چھت ہمیں مہیا کر دو گی۔ شاید یہ میری زندگی کا آخری سفر اور آخری کام ہو‘۔
یہ کال تھی یا انسانی زندگی کا ایک ایسا پہلو جو انہونا بھی تھا اور غمگین بھی۔۔۔ انسان دوستی کے رنگ سمیٹے ہوئے، اپنے پروفیشن سے جنونی محبت کا عکاس بھی۔ گھر میں بستر پر موت کے انتظار کے بجائے اس سے کہیں بھی ملنے پر تیار۔ہم رو پڑے۔۔۔ ہم ہنس دیے۔
پروفیسر سے تاریخ طے کرنے کے بعد ورکشاپ کا اعلان کیا گیا جس میں تمام اسپتالوں کے ڈاکٹرز نے رجسٹریشن کروائی۔ ایک دن پہلے وہ اپنی بیگم کے ساتھ تشریف لائے۔ ہم انہیں ایئرپورٹ سے لے کر ہوٹل چھوڑنے گئے۔ وہ تھکے ہوئے تو تھے مگر اگلے دن ٹھیک 9 بجے کانفرنس ہال میں موجود تھے۔ انتہائی خوش مزاجی سے انہوں نے تمام ڈاکٹروں کو ہاتھ پکڑ پکڑ کر ویسے ہی سکھایا جیسے ہم نے کیپ ٹاؤن میں دیکھا تھا۔
دو دن صبح سے لے کر شام 4 بجے تک۔ پہلے دن شام کو ہم نے انہیں شہر میں گھمانا چاہا مگر انہوں نے معذرت کی کہ وہ نڈھال ہوچکے تھے مگر اگلے دن الوداعی ڈنر پر وہ آئے جہاں انہوں نے بار بار کہا کہ یہ سفر ان کی زندگی کے بہترین سفر میں سے ایک ہے۔ ہم نے ان کا بے انتہا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ایک انجان ڈاکٹر کی چھوٹی سی ای میل پر اتنا بڑا فیصلہ کیا تھا۔
اگلے دن وہ دونوں رخصت ہوئے۔ ہم انہیں خداحافظ کہتے ہوئے آبدیدہ تھے۔ کچھ روز بعد ہم نے انہیں سب تصاویر بھیجیں جس کا انہوں نے شکریہ ادا کیا۔
ڈیڑھ دو مہینے گزرنے کے بعد ہمارا جی چاہا کہ ہم ان کی خیریت دریافت کریں۔ ہم نے کال کی جو کسی نے اٹینڈ نہیں کی۔ دو دن کے بعد ہمارے فون کی اسکرین پر ان کے نمبر سے الفاظ موصول ہوئے کہ He is no more۔
کچھ دن بعد ان کی بیگم کی میل آئی جس میں انہوں نے ہمارا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ اس ورکشاپ نے پروفیسر کو ایسے لمحات میں بہت بڑی خوشی عطا کی تھی جب بیماری انہیں پچھاڑنے میں مصروف تھی۔
وہ آخری لمحات تک دنیا کے ایک اور کونے میں موجود ڈاکٹروں کو کیوی کپ سکھانے کے سرور میں رہےجو مستقبل میں نہ جانے کتنی عورتوں کی زندگی سہل کرے گا۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔