نقطہ نظر

سی پیک سیاحت: گلگت شہر اور وادی غذر (آٹھویں قسط)

بلند و بالا پہاڑوں، دریاؤں، ندی نالوں، ٹھنڈے میٹھے چشموں اور انواع و اقسام کے پھلوں سے لدی ہوئی یہ سرسبز وادیاں دنیا میں ہی جنت کا منظر پیش کرتی ہیں۔

اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


دریائے گلگت پر راجا بازار پل کے برابر سے درختوں میں گھری ہوئی ایک خاموش سڑک دریا کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ آگے جا رہی تھی۔ ہم بھی خاموشی سے اس سڑک پر چل دیے اور چلتے چلتے دریا کنارے چنار باغ تک پہنچ گئے۔ دریائے گلگت کا پانی اپنے طویل پاٹ میں شور مچاتا بہے جارہا تھا۔ دریا کے پرلے کنارے پر ایک پہاڑ پھیلا ہوا تھا اور ہمارے کنارے پر چنار باغ پھیلا ہوا تھا۔ باغ کے دائیں حصے میں سرخ چھت والی ایک خوبصورت عمارت تھی جبکہ بائیں جانب کچھ بلندی پر ایک یادگار۔

ہم بائیں طرف بڑھے اور سیڑھیاں چڑھ کر یادگار تک پہنچ گئے۔ ایک ہشت پہلو چبوترے کے بیچ میں ایک ہشت پہلو ستون، جس کے اوپر والا سِرا ایک پگڑی کی طرح ہے اور اس پگڑی پر تانبے سے ڈھلا ہوا ایک مارخور کا مجسمہ جو اپنے چاروں پاؤں جمائے، سر اوپر کی طرف اٹھائے، ایک شانِ بے نیازی سے کھڑا تھا۔ یہ مجسمہ گلگت اسکاؤٹس کا نشان تھا۔

تقسیمِ ہند سے قبل گلگت، ریاست جموں وکشمیر کے ڈوگرہ راج کے زیر انتظام تھا۔ 1947ء میں جب پاکستان وجود میں آیا تو گلگت بلتستان کے مسلمانوں نے اپنا علاقہ پاکستان میں شامل کرنے کے لیے جدوجہد تیز کردی۔ ڈوگرہ فوج اور گلگت اسکاؤٹس کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی۔ اسکاؤٹس نے اپنی جانوں کے نذرانے دےکر گلگت و بلتستان کو ڈوگرہ راج سے آزاد کروایا اور قائداعظم کو پیغام بھجوایا کہ آئیے ہم آپ کے منتظر ہیں۔ اس ستون پر مضبوطی سے جما ہوا یہ مارخور اُنہی شہدا کی یادگار ہے۔ ستون کے پہلوؤں پر معرکۂ آزادی کے شہدا کے نام کندہ ہیں۔ چنار اور سفیدے کے درختوں میں گھری اس یادگار کو اطراف کے پہاڑ بھی جھک کر سلام کرتے رہتے ہیں۔

باغ سے دریا کے پانی تک جانے کے لیے ایک پُل نما راستہ تھا جو دریا کے پاٹ میں کافی اندر تک چلا گیا تھا۔ ہم اس پل پر چلتے ہوئے دریا کے جوشیلے بہاؤ کے اوپر تک آگئے۔ یہاں سے دائیں سمت جس طرف دریا بہہ کر جارہا تھا وہاں دور دو معلق پل نظر آرہے تھے۔ ان میں سے ایک تو قدیم چوبی پل تھا اور دوسرا جدید آہنی پل۔ ایک آنے والی ٹریفک کے لیے جبکہ دوسرا جانے کے لیے استعمال ہورہا تھا۔ جب کوئی گاڑی پُل پر چڑھتی ہے تو رسوں کے ذریعے معلق یہ بے ستون پل جھولنے لگتے تھے۔ اس مقام پر دریا بائیں طرف سے ایک موڑ لےکر گھومتا ہوا اچانک سامنے آجاتا ہے اور چنار باغ کے قدموں میں سے بہتا ہوا ان جڑواں پلوں کی طرف چلا جاتا ہے۔

یہاں کھڑے ہوکر پیچھے کی طرف نظر دوڑائیں تو دور دور تک گلگت کے درو بام نظر آتے ہیں اور ان پر مسجدوں کے مینار سایہ فگن ہیں۔ میناروں کے پس منظر میں پہاڑ ہیں جن کی چوٹیوں پر برف چاندی کے تاروں کی مانند اٹکی ہوئی ہے۔

شام ہونے لگی تو ہم دوبارہ شہر کی جانب پلٹے۔ تھوڑی دیر میں اندھیرا چھا گیا جس کا مقابلہ ایئرپورٹ روڈ کی پیلی کمزور بتیاں بمشکل کرنے لگیں۔ ایئرپورٹ روڈ اور راجہ بازار کے سنگم پر ایک بوسیدہ سا ریسٹورنٹ تھا لیکن اس میں خوب رونق تھی۔ ہم بھی اس میں گھس گئے اور باورچی خانے کے قریب ایک ٹیبل پر قبضہ جمایا۔ ہوٹل میں گاہکوں کی گفتگو، بیروں کی چیخ پکار اور برتنوں کی کھنکناہٹ کا شور برپا تھا۔ کچھ ہی دیر میں ایک بیرا ہماری ٹیبل پر بھی آگیا۔

’جی صاحب ؟‘ وہ ہم سے گویا ہوا۔

’کھانے میں کیا کیا ہے کپتان؟‘ باسط بولا۔ کپتان لفظ پر بیرے نے اسے چونک کر دیکھا تو ہم ہنسنے لگے۔ ’کپتان‘ باسط کا تکیہ کلام تھا۔

’صاحب سادہ گوشت، بھونا گوشت، آلو گوشت، بھنڈی گوشت، پالک گوشت، دال گوشت، سبزی، دال ماش، دال چنا، لوبیہ، انڈہ ٹماٹر‘۔ وہ فراٹے دار بولتا چلا گیا۔

’دوبارہ بتانا بھائی‘ وسیم بولا۔ بیرے نے پھر وہی آموختہ دہرا دیا۔

’اچھا ایسا کرو کہ ایک بھنڈی گوشت، ایک آلو گوشت اور ایک دال گوشت لے آؤ‘۔ میں جلدی سے بولا۔

بیرا فوراً پلٹ کر ہمارے سامنے ہی اوپن ایئر باورچی خانے میں گھس گیا۔ اس نے تین خالی پلیٹیں اٹھائیں۔ ایک پلیٹ میں ایک دیگچے سے دال، دوسری پلیٹ میں دوسرے دیگچے سے آلو اور تیسری پلیٹ میں تیسرے دیگچے سے بھنڈی کا سالن ڈالا اور پھر چوتھے دیگچے کی طرف بڑھا جس میں گوشت کا سالن تھا۔ اس میں سے دو دو بوٹیاں نکال کر ہر پلیٹ میں ڈالیں اور سیدھا ہماری طرف واپس آکر تینوں پلیٹیں ہماری ٹیبل پر پٹخ دیں۔

’لو صاحب، بھنڈی گوشت، آلو گوشت اور دال گوشت۔۔۔ روٹیاں ابھی لایا‘۔ یہ کہہ کر وہ تندور کی طرف دوڑ گیا۔

ہم چاروں نے ایک دوسرے کی طرف کچھ مایوسی سے دیکھا اور پھر یہ اداسی محسوس کی کہ ہم اپنے شہر اور اپنے گھر سے بہت دور ہیں۔

کھانا کھا کر نکلے اور نیم اندھیری ایئرپورٹ روڈ پر ٹامک ٹوئیاں کرتے اپنے ہوٹل پہنچ کر سوگئے۔

گلگت میں وہ رات بہت ڈراؤنی تھی۔ میں نیم غنودگی میں بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا۔ رات کے 3 بج رہے ہوں گے کہ اچانک یہاں تک آنے والا دریا کی لہروں کا مدھم شور تیز ہوتا چلا گیا اور کچھ ہی دیر میں اتنا شدید ہوگیا کہ سارا ماحول اس کی لپیٹ میں آگیا۔ میں خوفزدہ ہوکر اُٹھ بیٹھا۔ یوں لگتا تھا جیسے باہر کی ساری چیزیں اُڑ اُڑ کر کمرے کی کھڑکیوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ یہ شور دریا کی لہروں کا نہیں بلکہ ہوا کے طوفان کا ہے جو دریا کے شور پر حاوی ہوچکا ہے۔ ایک وحشی ہوا تھی کہ جس نے ہر طرف اودھم مچا رکھا تھا۔

درختوں کے پتوں میں سیٹیاں بج رہی تھیں اور لگتا تھا کہ پہاڑوں سے اترنے والی یہ سر پھری ہوا ہمیں در و دیوار سمیت کہیں دور اُڑا لے جائے گی۔ اچانک بجلی کڑکی اور کھڑکیوں کے شیشے آنکھوں کو خیرہ کردینے والی سفید روشنی سے یک بارگی چمک اٹھے۔ بادل گرج رہے تھے اور بجلی چمک رہی تھی۔ چند لمحوں میں ٹپا ٹپ بوندیں گرنا شروع ہوگئیں اور آندھی کا شور مدھم پڑ کر بارش کی بوچھاڑ میں بدل گیا۔ میں جو چند لمحے پہلے اپنے اُڑ جانے کے اندیشے میں مبتلا ہوگیا تھا، اب بھیگ جانے کے خیال سے ہراساں ہوکر دوبارہ غنودگی میں چلا گیا۔

اگلی صبح البتہ بڑی روشن تھی۔ سورج کی شفاف شعاعوں میں سارا ماحول نکھر رہا تھا۔ رات کی بارش نے ہر چیز کو دھو دھو کر چمکادیا تھا۔ سبزہ و گل ایک نئی صورت میں جلوہ گر ہوگئے تھے۔ چاروں طرف کے پہاڑ ہلکی دھند میں ڈوبے ہوئے تھے۔ نیلے آسمان پر بادلوں کے روئی جیسے گالے آوارہ بھیڑوں کی طرح ادھر ادھر بھٹک رہے تھے۔ ہوٹل کے خوبصورت لان میں گھاس اور پتوں پر بارش کے قطرے موتیوں کی طرح مسکرا رہے تھے۔

ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں انڈا آملیٹ، جام اور خمیری پراٹھوں کا ناشتہ کرکے ہم باہر نکل آئے۔

چنار باغ کے سامنے سے بائیں طرف مڑ کر ہم ان کھیتوں میں آگئے جن کے سبز پھیلاؤ میں جا بہ جا چھوٹے چھوٹے مکانات گڑیا کے گھروندوں کی طرح نظر آرہے تھے۔ یہ مکانات تھے تو بڑے بڑے ہی مگر چھوٹے اس لیے لگتے تھے کیونکہ ان کے اطراف والے پہاڑ کچھ زیادہ ہی بلند تھے۔ پہاڑوں کی بلندی کے سامنے مکانوں اور انسانوں کی حیثیت کم ہورہی تھی۔ کھیتوں اور درختوں سے پرے دریائے گلگت کی لہریں جھلک دکھا رہی تھیں۔ ہم کافی دیر تک چلتے رہے اور پھر بائیں طرف ایک پتلی سی سٹرک پر سے ہوتے ہوئے ایئرپورٹ روڈ پر نکل آئے۔

ایئرپورٹ روڈ گلگت کی مرکزی سڑک ہے بالکل ویسے ہی جیسے کراچی میں شارعِ فیصل ہے۔ گلگت ایئرپورٹ روڈ کے دونوں طرف پھیلا ہوا ہے۔ ہوٹل، بیکریاں، چینی سازو سامان، کپڑے اور ڈرائی فروٹ کی دکانیں سڑک کی رونقیں بڑھاتی ہیں۔ گلگت ایک قدیم شہر ہے جہاں اکثر مکانات پتھروں سے بنے ہوئے ہیں۔ البتہ جدید دور کی خوشحالی کے سبب ان کچے پکے مکانات میں سے جدید عمارتیں بھی سراٹھا رہی ہیں۔ راولپنڈی سے اگر گلگت شہر میں داخل ہوں تو سب سے پہلے ’جوٹیال‘ کا محلہ آتا ہے۔ جوٹیال کے ساتھ ہی ’خومر‘ محلہ ہے۔ خومر سے آگے آئیں تو سیدھے ہاتھ پر گلگت ایئرپورٹ کا مختصر رن وے دکھائی دیتا ہے اور یہاں سے ایئر پورٹ روڈ شروع ہوجاتی ہے۔

شہر کے زیادہ تر محلے ایئرپورٹ روڈ کے اطراف میں ہی واقع ہیں۔ سونی کوٹ، کشروٹ اور مجینی کے بڑے محلے اسی سڑک پر ہیں۔ ایئرپورٹ روڈ کے متوازی دریائے گلگت بہہ رہا ہے۔ دریائے گلگت اورایئرپورٹ روڈ کے درمیان زرعی زمینیں اور آبادیاں ہیں۔ راجہ بازار اور جماعت خانہ بازار سے آگے گلگت کی مضافاتی آبادیاں آمپھری، نپورہ، بیسن اور جاگیر واقع ہیں جبکہ دریا کے پار کونوداس کالونی اور سکارکوئی محلے آباد ہیں۔

گلگت کا قدیم راجہ بازار، جماعت خانہ بازار اور صدر بازار ایئرپورٹ روڈ کے اختتام پر شروع ہوتے ہیں۔ آمپھری محلہ ان بازاروں سے آگے ہے جہاں شہر ختم ہونے لگتا ہے۔ وہاں پہاڑوں پر سے نیلے شفاف پانی کا ایک جھرنا شور مچاتا نیچے بہتا آرہا ہے۔ یہ کارگاہ نالا ہے۔ اس جگہ کی شہرت کی ایک وجہ یہاں پہاڑ پر کندہ ساتویں صدی عیسوی کی مہاتما بدھ کی شبیہہ ہے جو ’کارگاہ بدھا‘ کے نام سے مشہور ہے۔ کارگاہ سے مزید آگے بڑھیں تو سڑک دریائے گلگت کے کنارے کنارے چلتی ہوئی وادی غذر کی طرف بڑھ جاتی ہے۔

گلگت اور چترال کے درمیان 12 ہزار فٹ بلند مشہور درّہ شندور تک بھی یہی راستہ جاتا ہے۔ دریائے گلگت بھی شندور جھیل سے نکلتا ہے اور وادی غذر میں سے بہتا ہوا گلگت شہر تک آتا ہے۔ وادی غذر شمال میں تاجکستان سے ملتی ہے۔ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان صرف افغانستان کے علاقے واخان کی تنگ پٹی حائل ہے جس کی اوسط چوڑائی تقریباً 15 کلومیٹر ہے۔ یعنی یہاں پاکستان اور تاجکستان کا درمیانی فاصلہ صرف 15 کلومیٹر ہے۔

مجھے بہت بعد میں 1999ء میں وادی غذر جانے کا موقع ملا۔ ہم نے یہاں ایک فلاحی تنظیم کے ساتھ شیر قلعہ، گاہکوچ، گوپس کے قصبوں اور وادی اشکومن، وادی یاسین اور وادی طاؤس میں فری میڈیکل کیمپ منعقد کیے تھے۔ بلند و بالا پہاڑوں، دریاؤں، ندی نالوں، ٹھنڈے میٹھے چشموں اور انواع و اقسام کے پھلوں سے لدی ہوئی یہ سرسبز وادیاں دنیا میں ہی جنت کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اس لیے وادی غذر کا وہ سفر بڑا یادگار رہا۔ وہ 1999ء کا جون تھا جب میں کراچی کی ایک این جی او کارساز ٹرسٹ کے ساتھ اس کے فلاحی کاموں کی دستاویزی فلم بنانے کے سلسلے میں یہاں آیا۔

ہم اسلام آباد سے براستہ شاہراہ قراقرم 18 گھنٹے کا طویل سفر طے کرکے گلگت آئے تھے۔ اس بار فلاحی کام کے لیے دریائے گلگت کے کنارے کنارے گلگت سے وادی یاسین تک کا علاقہ منتخب کیا گیا تھا۔ چنانچہ ہم وادی غذر کے چھوٹے بڑے قصبوں اور دیہات میں کیمپ لگاتے ہوئے آہستہ آہستہ وادی یاسین کی طرف بڑھ رہے تھے۔

میرے ہم سفر کارساز ٹرسٹ کے سربراہ اخلاق احمد (مرحوم) کے علاوہ اس وقت ماہنامہ رابطہ کے ایڈیٹر عبدالسلام سلامی بھی تھے۔ چند رضاکاروں سمیت یہ قافلہ دو جیپوں پر مشتمل تھا۔ ہمارا پروگرام غذر روڈ پر مختلف قصبوں اور دیہات میں کیمپنگ کرتے ہوئے واد یاسین تک جانے کا تھا۔ آخری کیمپ دریائے یاسین کے کنارے طاؤس نامی گاؤں میں ہونا تھا۔ ان کیمپوں میں ضرورت مندوں میں دواؤں، کپڑوں، سلائی مشین وغیرہ کی تقسیم ہونا تھی اور آئی کیمپ کا انعقاد تھا۔

گلگت سے دریا کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس راستے پر چلیں تو کچھ ہی دیر میں شہر پیچھے رہ جاتا ہے۔ گلگت سے نصف گھنٹہ سفر کرکے ہم ایک پل کے قریب پہنچے جہاں دریا کے پار والے پہاڑوں کے دامن میں ایک سرسبز اور خوبصورت قصبہ نظر آرہا تھا۔ یہ ’شیر قلعہ‘ تھا جہاں ہمارا پہلا پڑاؤ تھا۔ جیپوں نے پل پر سے دریا کو عبور کیا اور دوسرے کنارے پر پہنچ کر قصبے میں داخل ہوگئیں۔ یہاں لوگوں کو ہمارے آنے کی اطلاع پیشگی دی جاچکی تھی اس لیے وہ ہمارے منتظر تھے۔ میزبان ہمیں اپنے گھر کے ایک صاف ستھرے اور خنک کمرے میں لے گئے جہاں فرش پر اونی نمدے بچھے ہوئے تھے اور دیواریں روایتی دستکاریوں سے سجی ہوئی تھیں۔ میزبان و مہمان کچھ دیر تک ایک دوسرے سے خیریت دریافت کرتے رہے۔ پھر میزبان اٹھ کر چلے گئے اور ایک لوٹا پانی اور چلمچی لےکر واپس آگئے۔

’آئیں جی ہاتھ دھولیں‘۔ انہوں نے چلمچی میرے سامنے رکھ دی۔

’لیکن ابھی کھانے کا وقت تونہیں ہوا‘۔ میں نے حیرت سے کہا کیونکہ اس وقت صبح کے 10، 11 بج رہے تھے۔

’نہیں جی ابھی تو چائے پئیں گے‘۔ میزبان نے جواب دیا۔

تو یہاں چائے پینے کے لیے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں؟

میں نے دل ہی دل میں سوچا اور کنکھیوں سے سلامی صاحب کی طرف دیکھا۔ وہ بھی میری طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔

باری باری سب نے ہاتھ دھوئے اور گیلے ہاتھ دھونے کے لیے تولیہ پیش کیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد میزبان ایک بڑا سا دسترخوان لے آیا اور ہمارے سامنے بچھا دیا۔ ہم پھر اچنبھے میں پڑ گئے۔ چائے کے لیے اتنے بڑے دسترخوان کی کیا ضرورت تھی؟۔۔۔ میزبان پھر اندر گیا اور واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک چنگیر تھی جس میں رکھی گندم کی مکھن لگی گرم تندوری روٹیاں اشتہا انگیز خوشبو بکھیر رہی تھیں۔ روٹیوں کے ساتھ پیالیوں میں شہد اور مکھن بھی تھا۔ اس نے یہ لوازمات ہمارے سامنے رکھ دیے۔

’یہ چائے تو نہیں‘۔ میں مسکراکر بولا۔

’چائے بس ابھی آرہی ہے جی‘۔ میزبان فوراً بولا اور دوبارہ اندر چلا گیا۔

ابھی ہم نے روٹی کے چند نوالے ہی لیے ہوں گے کہ وہ دو پلیٹوں میں خشک خوبانیاں اور شہتوت لے آیا۔ ہم نے ان کے ساتھ بھی انصاف کیا۔ اب ہم چائے کے منتظر تھے لیکن کچھ اور ابھی باقی تھا۔ میزبان اب آیا توگھر کے بنے ہوئے بسکٹ اور مکئی کے آٹے کی سوندھی سوندھی خوشبو والی روٹیاں بھی ساتھ لایا۔ یہ تازہ، خستہ، مزیدار چیزیں کھا کھا کر جب ہم مکمل سیر ہوگئے تو کہیں جاکر چائے کا تھرماس اور کپ آئے۔ پہلے نوش جاں کی گئی اشیا کے بعد اب چائے تو ایک تہمت ہی لگ رہی تھی۔ اب تک ہمیں یہ بھی سمجھ آچکا تھا کہ چائے سے پہلے ہمارے ہاتھ کیوں دھلوائے گئے تھے۔ یہ چائے کوئی معمولی چائے نہیں تھی ’ہاتھ دھونے والی‘ چائے تھی۔

شیر قلعہ سے آگے ہماری منزلیں دریائے گلگت کے ساتھ وادی غذر میں سینگل، گاہکوچ اور گوپس کے قصبے تھے۔ آخری کیمپ وادئ طاؤس میں تھا۔ طاؤس جانے کے لیے ہمیں گوپس میں دریائے گلگت کو عبور کرکے پہاڑوں کے اندر سفر کرنا پڑا۔ یہ سفر ایک نسبتاً چھوٹے دریا، دریائے یاسین کے کنارے کنارے تھا جہاں سڑک کے دونوں اطراف بلند پہاڑ، سر سبز کھیت اور لہلہاتے درخت تھے۔ وادی کے بیچوں بیچ شفاف اور تیز رفتار دریائے یاسین ان مناظر کی جان تھا۔ وادی یاسین والی سڑک مزید آگے بڑھتے ہوئے درّہ درکوت کی طرف چلی جاتی ہے جس کے پار واخان اور تاجکستان ہے۔

وادی یاسین تک جاری رہنے والے اس سفر میں زیادہ تر مقامات پر اسی ’ہاتھ دھونے والی چائے‘ سے ہماری میزبانی کی گئی۔ حتیٰ کہ یہ چائے ہمارے منہ کو ایسی لگی کہ جب بھی کہیں ہم سے چائے کا پوچھا جاتا تو ہم فوراً کہہ اٹھتے کہ ’بھیا یہ ہاتھ دھونے والی چائے ہے یا صرف چائے ہے؟‘

یہ سن کر میزبان ہنستے اور جن کا ارادہ صرف چائے پیش کرنے کا ہوتا وہ کھسیانے ہوجاتے۔

شمالی علاقوں کے اس سہانے سفر سے کراچی آکر خاصا عرصہ اس ہاتھ دھونے والی چائے کا چرچا رہا اور ہم کراچی کے ’صرف اور صرف چائے‘ پیش کرنے والے میزبانوں کو اس ہاتھ دھونے والی چائے کا ذکر کرکے غیرت دلانے کی کوشش کرتے رہے۔

بہرحال یہ واقعات تو بعد میں ہونے تھے۔ اس وقت تو ہم چاروں گلگت کے ایئرپورٹ روڈ پر مٹرگشت کرتے ہوئے جماعت خانہ بازار تک پہنچ چکے تھے۔

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔