نقطہ نظر

تیراندازی: ’دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں یہ کھیل نیا ہے‘

اس کھیل میں طاقت پر ہرگز انحصار نہیں کیا جاتا بلکہ مہارت اور تکنیک ہی سب کچھ ہیں۔

’جب سے میں اپنے برج سے واقف ہوا ہوں تب سے میں نے تیرانداز بننے کا خواب دیکھا ہے‘۔ یہ کہنا تھا راشد مسعود کا جن کا شمار ملک کے قابل تیراندازوں میں ہوتا ہے۔

26 سالہ راشد مسعود کی پیدائش 24 نومبر کی ہے جس کی وجہ سے وہ برج قوس ہیں۔ لاطینی زبان میں قوس کے معنیٰ تیرانداز کے ہیں۔ برج قوس کی علامت میں ایک تیر ہے جس میں ایک لکیر ہے، جوکہ تیر اور کمان کی عکاسی کرتا ہے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ ’میں علمِ نجوم کا مداح نہیں ہوں۔ مجھے بس اس علامت سے پیار ہوگیا تھا‘۔

راشد مسعود نے کہا کہ ’میں بچپن میں کرکٹ، ہاکی اور فٹبال کھیلا کرتا تھا۔ انہیں کھیلنے میں مزا آتا تھا لیکن ان میں سے کوئی وہ کھیل نہیں تھا جس کی مجھے تلاش تھی۔ میں کسی منفرد کھیل کی تلاش میں تھا۔ تیراندازی ایک انتہائی مختلف کھیل ہے‘۔

لیکن گھر میں ان کے خوابوں اور تمناؤں کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ ’میری والدہ کا خیال تھا کہ تیراندازی ایک خطرناک کھیل ہے۔ اس کے علاوہ میں اس بات سے بھی واقف نہیں تھا کہ تیراندازی میں ابتدا کیسے کرنی ہے‘۔

سال 2019ء میں راشد مسعود نے بطور طالب علم جامعہ کراچی داخلہ لیا۔ وہاں انہوں نے تیراندازی کے لیے مختص جگہ دریافت کی تو ان کے اندر دوبارہ تیراندازی کا شوق پیدا ہوا۔

جامعہ میں تیراندازی کا ایک کلب تھا جس میں انہوں نے فوری شمولیت اختیار کرلی۔ کلب ابتدائی مرحلے کی تربیت کے لیے سامان بھی مہیا کرتا ہے تو اس کلب میں شامل ہوکر آغاز کرنا کچھ مشکل نہیں تھا۔ چونکہ کلب سے لیا گیا تربیتی سامان کلب میں ہی رہتا ہے اس لیے راشد مسعود کے گھر والوں کو ابتدائی طور پر ان کی اس سرگرمی کے حوالے سے اندازہ ہی نہیں ہوا۔ پھر جب انہوں نے اپنے گھر والوں کو اس متعلق بتایا تو انہوں نے راشد مسعود کو محتاط رہنے کی تنبیہہ کی۔

اس حوالے سے راشد مسعود نے بتایا کہ ’میں غیرذمہ دار شخص نہیں ہوں۔ میں کافی احتیاط سے کام لے رہا تھا۔ اب میرے پاس ذاتی کمان اور تیر ہیں جنہیں میں گھر پر تالا لگا کر رکھتا ہوں تاکہ وہ بچوں کی پہنچ سے دور رہیں کیونکہ میرے بھائی شادی شدہ ہیں اور ان کے بچے ابھی چھوٹے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے گھر والے بھی اس حوالے سے مجھ پر اعتماد کرنے لگے ہیں‘۔

راشد مسعود جامعہ کراچی کے شعبہِ وژول اسٹڈیز میں آرکیٹیکچر کے طالب علم ہیں۔ اپنی پڑھائی کو نظرانداز کیے بغیر انہوں نے جامعہ میں تیراندازی کے لیے مختص حلقے میں روزانہ کی بنیاد پر مشق کی جس کی وجہ سے آج ان کا سندھ کے ماہر تیراندازوں میں شمار ہوتا ہے۔ سال 2021ء میں انہوں نے نیشنل گیمز میں حصہ لیا جس میں انہوں نے 10واں رینک حاصل کیا۔ اگلے ماہ منعقد ہونے والے 34ویں نیشنل گیمز میں وہ پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ ’میں اپنی تعلیم میں کافی مصروف ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میں اس کھیل کو وہ توجہ نہیں دے پایا جو مجھے دینی چاہیے تھی۔ لیکن میں کافی سخت محنت کررہا ہوں اور اس بار کے لیے اچھے کی امید کرتا ہوں‘۔

راشد مسعود سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا تیراندازی کے مالی فوائد ہیں تو انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔ انہوں نے بتایا کہ ’تیراندازی کے کوئی مالی فوائد نہیں ہیں‘۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’یہ صرف ہمارا اس کھیل کے لیے جنون ہے جس کی وجہ سے ہم اس کھیل کا حصہ ہیں۔

’تیر اکثر ٹوٹ جاتے ہیں۔ درحقیقت اگر تیراندازی کے لیے درکار کسی سامان کا کوئی حصہ یا ٹکڑا ٹوٹ جاتا ہے تو اس کے لیے ہمیں 4 یا 5 ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یہ تمام سامان درآمد کیا جاتا ہے اس لیے ہمیں بیرونِ ملک سے متبادل سامان آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

’چونکہ روپے کے مقابلے میں ڈالر مہنگا ہورہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک درجن تیروں کے سیٹ کی قیمت جہاں ماضی میں 45 ہزار روپے ہوا کرتی تھی، اب وہ ہمیں 85 ہزار میں خریدنا پڑتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر، خاص طور پر میرے جیسے طلبہ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے۔ ہمارے کوچ قسطوں پر ادائیگی کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں‘۔

راشد مسعود کہتے ہیں ’ہم تیراندازی کے شوق کی خاطر کافی قربانیاں دیتے ہیں‘۔

ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت آپ کی مدد کرتی ہے؟ اس پر راشد مسعود نے موقف اپنایا کہ دیگر ممالک کے برخلاف پاکستان میں تیراندازی کے کھیل کو نیا تصور کیا جاتا ہے اور یہاں لوگوں کو اس حوالے سے زیادہ آگاہی بھی نہیں ہے تو فی الوقت تیراندازوں کو حکومت کی کوئی توجہ حاصل نہیں ہے۔

راشد مسعود نے بتایا کہ ’4 سال قبل جب میں نے جامعہ کراچی میں تیراندازی کی مشق شروع کی تو اس وقت صرف ملک بھر میں صرف 20 تیرانداز موجود تھے۔ یہ اس وقت اور اب بھی ایک نیا کھیل تصور کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل تیراندازی کی مشق صرف پاک فوج میں کی جاتی تھی۔ میرے کوچ حسن عبداللہ، عام شہریوں کو تیراندازی سکھانے والے پہلے شخص تھے۔ انہوں نے سال 2011ء میں اس کا آغاز کیا تھا۔ آج وہ تیراندازی سکھانے کے معاملے میں پاکستان معروف نام بن چکے ہیں۔

’اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تیر اور کمان ہتھیار ہیں، یہ شکار کرنے کے ہتھیار ہیں۔ لیکن ہم انہیں کھیل میں استعمال کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ہم تمام حفاظتی تدابیر اپناتے ہیں۔ اب بھی۔۔۔‘ یہ کہہ کر وہ ہنس پڑے اور مزید بتایا کہ ’میرے گھروالے خاص طور پر میری والدہ مجھے بار بار کہتی ہیں کہ اگر میں نے تیر سے کسی کو زخمی کیا تو یہ بہتر ہوگا کہ میں گھر واپس آنے کا خیال دل سے نکال دوں‘۔

انہوں نے بتایا کہ تیراندازی میں بعض ایسی چیزیں تھیں جن کی وجہ سے وہ بھی ابتدائی دنوں میں گھبرا گئے تھے۔ اس حوالے سے راشد مسعود نے بتایا کہ ’کبھی کبھار آپ تیر چلاتے ہیں اور وہ پلٹ جاتا ہے۔ تاہم اس کی رفتار ایسی نہیں ہوتی جس سے کسی کو نقصان پہنچے لیکن یہ میرے دل کی دھڑکن تیز کردینے کے لیے کافی تھا‘۔

انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ’ہم بھی نئے تیراندازوں کو یہ کہہ کر خوفزدہ کرتے ہیں کہ اگر ان کا تیر ہدف پر نہیں لگتا تو وہ تیر بومرانگ کی طرح واپس بھی آسکتا ہے، تو بہتر یہی ہے کہ خیال رکھا جائے‘۔

نئے تیراندازوں کا ذکر کرتے ہوئے راشد مسعود کو وہ موقع یاد آیا جب تیراندازی میں ابتدائی دنوں میں ان کے کوچ نے ان پر مقابلوں میں شامل ہونے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا ’مجھے اس وقت خود پر اتنا اعتماد نہیں تھا اس لیے میں پہلے گھبرا گیا۔ لیکن یہ سچ ہے کہ مقابلوں میں حصہ لینے سے مجھ میں اعتماد پیدا ہوا‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’آپ جانتے ہیں کہ یہاں صرف ہم ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے 20 یا 21 سال کی عمر میں تیراندازی کا آغاز کیا۔ دیگر ممالک میں بچے 6 یا 7 سال کی عمر میں تیراندازی سیکھنے کا آغاز کردیتے ہیں۔ آپ بیرونِ ملک ایسے تیراندازوں سے ملیں گے جنہیں 14 سے 15 سال کا تجربہ حاصل ہے‘۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ’پھر بھی مسلسل ٹریننگ ہمیں بہتر بنانے میں مدد کرتی ہے۔ ہمارے کوچز کا بھی ہماری کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اپنا طریقہ کار ہوتا ہے تاکہ ہم عالمی معیار کے مطابق آسکیں، اگرچہ اس کے لیے ہمیں ابھی کافی وقت درکار ہے۔ پاکستان میں اس کھیل کے ھوالے سے ٹیلنٹ تو موجود ہے لیکن یہاں یہ کھیل ابھی بھی نیا تصور کیا جاتا ہے‘۔

اس کھیل میں راشد مسعود کے پسندیدہ بین الاقوامی کھلاڑی ترکیہ کے میتے گازوز ہیں جو ٹوکیو اولمپکس میں تیراندازی کے فاتح بھی تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ’تیراندازی میں مہارت اور تکنیک ہی سب کچھ ہیں۔ اس کھیل میں مہارت کا انحصار طاقت ہرگز نہیں ہے جیسا کہ میتے گازوز کو دیکھ کر واضح ہے۔ اچھا تیرانداز بننے کے لیے آپ کو توجہ، جسم کے اوپری حصے کا توازن اور سانس کو قابو کرنا ہوتا ہے اور آپ یہ تمام عناصر یوگا اور مراقبے کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں۔

’چونکہ تیراندازی مہارت پر مبنی کھیل ہے، اس لیے اس میں خواتین کی مکس کٹیگری کے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسی خواتین اور لڑکیاں بھی ہیں جو مردوں اور لڑکوں کو شکست دے سکتی ہیں۔ اس کھیل میں عمر کی کوئی حد نہیں ہے اگرچہ اس میں انڈر 18 اور انڈر 21 کے مقابلے بھی ہوتے ہیں‘۔

مستقبل کے ارادوں کے حوالے سے سوال پر راشد مسعود نے کہا کہ ان کی توجہ نیشنل گیمز پر مرکوز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اس مقابلے کے ٹاپ تیرانداز ایشین چیمپیئن شپ، پھر رینکنگ چیمپیئن شپ، آرچری ورلڈ کپ، کامن ویلتھ گیمز اور پھر اولمپکس میں بھی حصہ لے سکتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں بیرونِ ملک جا کر اچھی کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس طرح ہی ہم اپنے ملک میں تیراندازی کے حوالے سے آگاہی پیدا کرسکتے ہیں جس کے بعد ایک لمبے سفر کے بعد اس کھیل کو اس کی پہچان دلوا کر مقامی تیراندازوں کی سرپرستی کی جاسکتی ہے‘۔

اختتام پر انہوں نے کہا کہ ’آخرکار اولمپکس، ورلڈ ایتھلیٹکس اور کامن ویلتھ گیمز میں ارشد ندیم کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے ہی لوگوں میں آگاہی پیدا ہوئی کہ جیولن بھی ایک کھیل ہے، تیراندازی کے معاملے میں بھی ایسا ہوسکتا ہے‘۔


یہ مضمون 16 اپریل 2023ء کو ڈان ای او ایس میں شائع ہوا۔

شازیہ حسن

لکھاری ڈان اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔