برطانیہ میں رمضان المبارک کے رنگ
اسلام اور مسلمان برطانیہ میں اجنبی نہیں ہیں۔ بلکہ 2021ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق، مسلمان انگلینڈ اور ویلز میں سب سے تیزی سے بڑھنے والی کمیونٹی میں شامل ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں موجود مسلمانوں کی تعداد 38 لاکھ 70 ہزار ہے۔ سال 2011ء میں ہونے والی مردم شماری میں یہ تعداد 27 لاکھ تھی۔ یعنی ان 10 سالوں میں مسلم آبادی میں 10 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہوا ہے۔
مسلمان برطانیہ کی کل آبادی کا 6.5 فیصد ہیں اور یوں مسیحی کمیونٹی کے بعد سب سے بڑی مذہبی اقلیت بھی۔ اسی مردم شماری کے مطابق برطانوی مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد برمنگھم میں رہتی ہے جبکہ اس کے بعد بریڈفورڈ، لندن کے علاقہ ٹاور ہیملٹ اور پھر مانچسٹر کی باری آتی ہے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ برطانوی مسلمانوں میں سب سے بڑی تعداد پاکستانی نژاد افراد کی ہے اور اس کے بعد بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے مسلمان شامل ہیں۔
اتنی بڑی اور واضح تعداد میں مسلم کمیونٹی ہونے کی وجہ سے برطانیہ بھر میں رمضان ایک بھرپور تہوار یا فیسٹیول کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں موجود مساجد کی رونق اسی طرح ہوتی ہے جیسے کسی بھی مسلم ملک میں ہوتی ہے۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل مساجد کو باقاعدہ سجایا جاتا ہے، خصوصی پروگرامز کا اہتمام کیا جاتا ہے اور تمام چھوٹی بڑی مساجد اپنے مقامی سحر و افطار کے اوقات پر مبنی کلینڈر چھپواکر تقسیم کرتی ہیں یا اپنی ویب سائٹ و سوشل میڈیا پر جاری کرتی ہیں۔ اکثر مساجد میں افطار کا انتظام ہوتا ہے جس میں خاص کر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو یہاں فیملی کے بغیر اکیلے یا دوستوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
خاص کر بڑی اور مرکزی مساجد میں افطار کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے اور رمضان کے دنوں میں روزانہ ہی یہاں خوب رونق رہتی ہے۔ مسجد انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے افطاری کے اہتمام کے علاوہ لوگ خود بھی افطار کا سامان بناکر لاتے ہیں اور مسجد میں آنے والے نمازیوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
افطار کے انتظامات صرف مساجد تک ہی محدود نہیں بلکہ مختلف عوامی مقامات پر بھی اوپن افطار کے نام سے افطار کا اہتمام کرنے کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔ اس میں شریک ہونے کے لیے مسلمان ہونے کی شرط نہیں بلکہ کوئی بھی ان عوامی دسترخوانوں سے مستفید ہوسکتا ہے۔ بلکہ مسلم کمیونٹی خاص طور پر علاقے کے غیر مسلم افراد، مقامی عوامی نمائندوں اور مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو شرکت کی دعوت دیتی ہے تاکہ وہ آئیں اور اسلام اور مسلمانوں کو قریب سے دیکھ سکیں۔
ہر گزرتے سال کے ساتھ، رمضان مسلمانوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں رہنے والے دیگر طبقات میں بھی مقبول ہورہا ہے اور مختلف ہمہ گیر سرگرمیوں کی بدولت عام برطانوی شہری، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں زیادہ جان رہے ہیں۔ یقیناً یہ بات اس حوالے سے بھی خوش آئند ہے کہ اس سے مغرب میں عام مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے والے منفی خیالات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
لندن میں موجود وکٹوریا اینڈ البرٹ میوزیم، دنیا بھر میں پائے جانے والے آرٹس میوزیمز میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ملکہ وکٹوریہ اور پرنس البرٹ کے نام سے موسوم اس تاریخی میوزیم میں رواں سال کے پہلے جمعے کو ایک زبردست افطار پارٹی کا اہتمام کیا گیا جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس کا بنیادی مقصد رمضان المبارک کا شاندار استقبال کرنا اور اس اہم مقام پر برطانیہ کے بااثر افراد کو افطار میں اپنے ساتھ شریک کرنا تھا۔
مغربی لندن سے تعلق رکھنے والے اور دنیائے فٹبال کے مایہ ناز کلب چیلسی نے بھی اس رمضان کے آغاز میں تاریخ رقم کی۔ چیلسی فاؤنڈیشن کی جانب سے کلب کے مسلم سپورٹرز اور مقامی مسلم کمیونٹی کے اعزاز میں افطار کا اہتمام کیا گیا جس میں سیکڑوں شائقین نے شرکت کی۔ افطار کی خاص بات یہ تھی کہ اسے چیلسی فٹبال کلب کے آفیشل اور تاریخی اسٹیڈیم اسٹیمفورڈ برج میں منعقد کیا گیا اور یوں چیلسی، انگلش پریمئیر لیگ کھیلنے والی ٹیمز میں وہ پہلی ٹیم بن گئی جس نے اپنے اسٹیڈیم میں مسلم کمیونٹی کے لیے افطار کا انعقاد کیا۔ اب اسی روایت کو آگے بڑھانے کے لیے ویسٹ ہیم یونائیٹڈ اور آسٹن ولا کی ٹیمز نے بھی پبلک افطار پروگرامز کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔
اس بار برطانیہ میں رمضان المبارک کا بہت خوبصورت آغاز یہاں خصوصی سجاوٹ اور لائٹس ڈسپلے سے کیا گیا۔ رمضان کی مناسبت سے چاند، ستارے، روشنیاں اور خصوصی فانوس سینٹرل لندن کے معروف علاقے پیکاڈیلی اور لیسٹر اسکوائر کے درمیان سجائے گئے ہیں۔ یہ صرف لندن اور برطانیہ ہی میں نہیں بلکہ یورپ کے کسی بھی شہر میں اس طرح کی پہلی سرگرمی ہے اور یقیناً متاثر کن ہے۔ برطانیہ میں رمضان کے اعلان کے فوری بعد، لندن کے مئیر صادق خان نے ان لائٹس کو روشن کرکے برطانیہ میں رمضان کی آمد کا باقاعدہ اعلان کیا اور اس ٹرینڈ کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔
یوں کرسمس کے بعد اب رمضان بھی ایک عالمی تہوار بنتا جارہا ہے جس میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں، مقامی کمیونٹی اور کاروباری افراد کی دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے۔ اکثر بڑی کمپنیاں رمضان المبارک میں اپنے مسلم اسٹاف کے لیے اوقات کار میں خصوصی نرمی کردیتی ہیں جبکہ کئی کمپنیوں کی جانب سے روزانہ افطار کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی طرح یہاں برطانیہ میں بھی رمضان کی آمد سے قبل ہی بڑے سپر اسٹورز خصوصی ’رمضان کارنرز‘ سجا دیتے ہیں جس میں رمضان کے دوران زیادہ استعمال ہونے والی اشیا رکھی جاتی ہیں۔ عموماً ان اشیا پر کچھ ڈسکاؤنٹ بھی دیا جاتا ہے۔
رائل منٹ برطانوی حکومت کا سرکاری ادارہ ہے اور تاریخی طور پر سکے بنانے، ان کی دیکھ بھال اور اس سے متعلقہ امور انجام دیتا ہے۔ یہ اب بھی ایک کمپنی کے طور پر سرگرم ہے۔ اس سال رائل منٹ نے ایک دلچسپ کام یہ کیا کہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل خانہ کعبہ کے نقش والے سونے کے بسکٹ جاری کیے۔ رائل منٹ کے مطابق خالص ترین سونے سے تیار کی گئی یہ گولڈ بارز ان افراد کے لیے پرکشش تحفہ ہیں جو اپنے رمضان کو یادگار بنانا چاہتے ہیں۔ رائل منٹ اس سے قبل مختلف مذاہب اور تہواروں کی مناسبت سے سونے کے بنے سوینئرز جاری کرتا رہا ہے لیکن اسلامی تہوار کے حوالے سے یہ اس کی پہلی کاوش ہے۔ رائل منٹ نے گولڈ بار کی آمدن کا ایک مخصوص حصہ، برطانیہ کی ایک معروف مسلم خیراتی ادارے کو بھی دینے کا اعلان کیا ہے۔
مذہبی طور پر شاید یہ چیز عجیب لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ماہ رمضان کی مقبولیت اور اس مہینے میں مسلم کمیونٹی کی جانب سے مسلسل سرگرم رہنے کی وجہ سے رمضان برطانوی معاشرے کا اہم حصہ بنتا جارہا ہے اور یوں معاشرے کا ہر اہم شعبہ اس مہینے کو اپنے انداز سے گزارنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کرتا ہے۔
برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں نے یہ سب بہت آسانی سے یا فوراً ہی حاصل نہیں کرلیا۔ اس کے پیچھے کئی دہائیوں کی انتھک محنت اور کوشش ہے۔ 50، 60 برس پیچھے چلیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں خاص کر جنوبی ایشیا سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے معاشی مجبوریوں کے تحت برطانیہ ہجرت کی جس میں مسلمان بھی شامل تھے۔ ان لوگوں نے یہاں روزی کمانے کے ساتھ ساتھ اپنی مذہبی ضروریات کا خیال رکھنے کے لیے عبادت گاہوں کو بھی قائم کیا، اگرچہ اس وقت یہ بہت مشکل کام تھا۔ پھر مقامی انگلش کمیونٹی کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی، انہیں اپنے مذہبی تہواروں میں شرکت کی دعوت دی اور ان کے تہواروں میں انہیں تحفے تحائف دیے۔ اس کی وجہ سے اسلام اور مسلمان آج برطانیہ میں اجنبی نہیں ہیں۔
مغربی لندن میں رہائش پزیر 70 سالہ شمسہ بچپن ہی میں اپنے خاندان کے ساتھ برطانیہ آگئی تھیں اور پھر یہیں تعلیم حاصل کی اور نوکری بھی کی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ہمارے بچپن میں روزہ رکھنا اتنا آسان نہ تھا، اسکول والوں کو اس کی وجہ سمجھانا بہت مشکل تھا۔ اساتذہ اور دیگر طالب علم حیران ہوتے تھے کہ کھانے پینے سے رکنے کا کسی مذہب سے کیا تعلق ہوسکتا ہے اور صحت کے معاملے کو لےکر اسکول انتظامیہ بھی والدین سے کہتی تھی کہ وہ بچوں کو روزہ نہ رکھوائیں۔ مگر آہستہ آہستہ شعور آنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے سے یہ سب تبدیل ہوگیا۔
اسی طرح لندن ہی کے ایک بزرگ رہائشی راجا اکرم صاحب بتاتے ہیں کہ شروع شروع میں تراویح کا اہتمام بہت مشکل ہوتا تھا۔ مساجد اتنی بڑی نہیں ہوتی تھیں اس لیے ہمیں اکثر جگہ پر کمیونٹی ہال کرائے پر لینے پڑتے تھے اور بعض جگہوں پر تو چرچ کے ہال کرائے پر لے کر جمعے کی نماز اور نمازِ تراویح کا اہتمام کیا جاتا تھا۔
بزرگ شہریوں کی یادیں اپنی جگہ لیکن حال ہی میں پاکستان سے تعلیم کی غرض سے برطانیہ آنے والی خدیجہ کو اس وقت خوش گوار حیرت ہوئی جب ان کی یونیورسٹی میں موجود اسلامک سوسائٹی کی جانب سے رمضان کی آمد پر انہیں گفٹ موصول ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ اپنے وطن سے دور ہوتے ہوئے بھی اپنے مذہب اور کلچر کو ہر وقت آس پاس محسوس کرنا یقیناً اچھا احساس ہے۔ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ان کی رہائش کے قریب ہی ایک مسجد موجود ہے جہاں خواتین کے لیے بھی تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے، یوں ان کا رمضان بہت بھرپور گزر رہا ہے۔
انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک رمضان المبارک ہر شعبے میں موجود مسلمانوں کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جاسکے۔ برطانوی مسلمان بھی انفرادی سطح پر اس ماہ مبارک میں عبادات و ریاضت کے ساتھ ساتھ اجتماعی سطح پر اس مہینے کو بھرپور انداز سے گزار رہے ہیں۔ خاص کر مغرب میں موجود طاقتور حلقوں اور عوام کو اپنے قریب آنے کا موقع فراہم کرکے اور ان تک اسلام کا خیر، بھلائی اور بھائی چارے پر مبنی اصل پیغام پہنچا کر یقیناً دنیا میں اسلاموفوبیا کے خطرے کو کم کرنے کی کاوشوں میں بھی حصہ ڈال رہے ہیں۔
لکھاری انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن کے ایک نجی اردو چینل کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔