’ اگر ڈاکٹر آپریشن کے بعد بتا دیتی آنت کٹ گئی ہے تو ہم 21 دن انتظار نہ کرتے’
’ہمارے پاس ہر طرح کے آپریشن کی سہولت موجود ہے۔ ہر اتوار شہر سے قابل اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہمارے اسپتال آتے ہیں جو بڑی سے بڑی رسولی آسانی سے نکال دیتے ہیں۔ بلڈ بینک بھی ہے اور باقی سہولیات بھی۔ پھر کیا ضرورت ہے شہروں کی طرف جانے کی؟‘
یہ وہ کہانی ہے جو کسی اور کی زبانی سنی سنائی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی اور اپنے ہی کانوں سے سنی ہے۔
ہمیں علم نہیں تھا کہ زندگی اس سفر میں ہمیں کہاں کہاں سے گزارے گی کہ کچھ منظر ہمارے دل پر ایسے نقش ہوں گے کہ چاہیں بھی تو کھرچ نہیں سکتے۔
ایسے بہت سے واقعات ہم نے لکھے جن میں ڈاکٹرز کی محنت، لگن اور کوشش قارئین کے سامنے لائی گئی۔ لیکن تصویر کا اور رُخ بھی ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بھی دکھایا جائے۔ کہتے ہیں کہ اپنے پیٹ سے کوئی کپڑا نہیں اٹھاتا لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ کسی بھی سڑاند زدہ زخم سے جب تک پیپ نہ نکالی جائے، بہتری کی صورت نہیں نکلتی۔
دیہی علاقوں میں کام کرنے کا موقع ملا تو وہاں کے عام انسان کی زندگی کیڑے مکوڑوں کی طرح پائی جنہیں کوئی بھی کبھی بھی مسل دیتا ہے۔ حکومتی سطح پر ان لوگوں کے لیے چھوٹے موٹے اسپتال بناکر سمجھ لیا جاتا ہے کہ ذمہ داری ختم ہوئی۔ تب چاندی ہوتی ہے ان لوگوں کی جو وہاں پرائیویٹ اسپتال کھول کر دھندا کرتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے لیکن ڈاکٹر بھی اس بھیانک نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایم بی بی ایس کی ڈگری کے بعد پرائیویٹ اسپتال چلانا ایسا ہی ہے جیسے کسی بس ڈرائیور کو جہاز اڑانے کی اجازت دے دی جائے۔
دولت کمانے کی ہوس میں انسانی زندگی کی اہمیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں رہتی۔ ایسا ہی ایک کیس سامنے آیا جس نے ہمیں لرزنے پر مجبور کر دیا۔ اپنے آپ سے سوال پوچھا، کیا کوئی ڈاکٹر اتنا سنگ دل بھی ہوسکتا ہے؟
فیصل آباد کے الائیڈ اسپتال کی رپورٹ ہمارے سامنے ہے جو ہم آپ کو مریض بیتی کے بعد سنائیں گے۔
24، 25 برس کی لڑکی زیادہ ماہواری آنے سے مشکلات کا شکار ہے۔ الٹراساؤنڈ کے بعد علم ہوتا ہے کہ بچے دانی میں فائبراؤڈ نامی رسولی ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نواحی دیہات میں رہنے والوں کی پہنچ قریبی قصبے پیر محل تک ہے سو بچی کو وہیں پرائیویٹ اسپتال میں لے جایا جاتا ہے۔ آپریشن ہونے کے بعد کی کہانی لڑکی کی چھوٹی بہن سے سنیے:
’میری بہن کی بچے دانی میں رسولیاں تھیں ہم ان کو پیرمحل کی مشہور لیڈی ڈاکٹر کے پاس لےکرگئے۔ آپریشن کے دن ڈاکٹر نے دوسرے ڈاکٹرز کو ساتھ لگا کر آپریشن کیا جو کہ تقریباً تین گھنٹے جاری رہا۔ پھر ہمیں 21 دن لگاتار اسپتال میں رکھا گیا جس دوران میری بہن سخت تکلیف سے گزری۔ ان کا پیٹ سینے سے لے کر پیٹ کے نچلے حصے تک ڈاکٹرز نے کاٹا ہوا تھا۔ روز پٹی بدلی جاتی جو خون میں بھری ہوتی۔ ساتھ میں بخار بھی ہونا شروع ہوگیا۔ بہن کی حالت روز بروز بگڑتی گئی۔
’ہم نے فائل مانگی کہ کسی اور ڈاکٹر کو چیک کرواسکیں مگر ڈاکٹر نے انکار کر دیا۔ ایک رات ہم چھپ کر اپنی بہن کو چوری چوری کسی اور ڈاکٹرکے اسپتال لے گئے۔ انہوں نے میری بہن کے ناک میں نالی ڈالی اور ہمیں الائیڈ اسپتال فیصل آباد بھیج دیا۔ ہمارے پاس آپریشن کارڈ یا کوئی بھی اور کاغذ نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں داخل نہیں کر رہے تھے۔ میں، میری بیمار بہن، ابو اور بھائی سب زمین پر بیٹھے رو رہے تھے کہ ایک ڈاکٹر صاحب وہاں سے گزرے۔ مریضہ کی بری حالت دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ ہمارے بتانے پر انہوں نے فوراً ایمرجنسی میں بھیجا اور پھر آپریشن تھیٹر لے گئے‘۔
یہاں ضروری ہے کہ مریضہ کا خط روک کر الائیڈ اسپتال کے ڈاکٹر کی کیس ہسٹری آپ کو سناؤں کہ انہوں نے مریضہ کو کس حالت میں پایا۔
’27 اپریل: ایمرجنسی میں مریضہ پھولے ہوئے پیٹ کے ساتھ آئی۔ مریضہ کے پیٹ کا آپریشن دیہی علاقے میں ہوا تھا۔ آپریشن نوٹس ہمیں نہیں ملے۔
29 اپریل: ہم نے مریضہ کا پیٹ دوبارہ کھولا۔ آپریشن کے دوران استعمال ہونے والا کپڑا پیٹ کے دائیں حصے میں موجود تھا۔ بڑی آنت (sigmoid Colon) کا ایک بڑا حصہ کٹا ہوا تھا جس کی وجہ سے بڑی آنت گل سڑ چکی تھی۔ بچے دانی بھی انتہائی گلی سڑی حالت میں تھی۔ پیٹ میں ہر عضو آپس میں جڑ چکا تھا۔ ہم نے کپڑا نکال کر بڑی آنت کا گلا سڑا حصہ کاٹ کر علیحدہ کیا اور بچے دانی بھی نکال دی۔
5 مئی: مریضہ کا پیٹ دوبارہ کھولا۔ چھوٹی آنت (ileum) میں بھی سوراخ ہو چکا تھا جس کی مرمت کی گئی۔
25 مئی: ویجائنا کے راستے پاخانہ نکلنے لگا۔ پیٹ دوبارہ کھولا گیا۔ آنتوں میں جگہ جگہ سوراخ ہوچکے تھے اور وہ اتنا گل سڑ چکی تھیں کہ سینا ناممکن تھا۔ پیٹ کھلا چھوڑ دیا گیا کہ واش کرتے رہیں’۔
دل دہل گیا نا؟
اب مریضہ کی بہن کا بقیہ بیان
’میں اپنی بہن کے ساتھ اسپتال کے سیپٹک وارڈ میں رہتی تھی۔ ان کے کھلے پیٹ کو دیکھ کر دن رات روتی رہتی۔ پیٹ سے پیشاب اور پاخانہ نکلتا رہتا جس کی صفائی میں کرتی۔ انہیں 9 بار آپریشن تھیٹر لے کرگئے لیکن آنتیں گل چکی تھیں، ٹانکا لگنا ممکن ہی نہیں تھا۔
’ابّا سڑک پر رات گزارتے ۔بارش میں بھی باہر ہی بیٹھے رہتے۔ ایسے ہی 5 ماہ اور 19 دن گزرے۔ باجی کا پیٹ کھلا ہی رہا۔ آخر 6 ستمبر کو بہن کی میت لے کر گھر گئے۔ اس کے بعد میں اور ابّا ڈپریشن میں چلے گئے۔ جوان بیٹی کے غم سے ابّا کو شوگر ہوگئی اور پھر گردے فیل۔ لوگوں نے ہم سے کہا کہ ڈاکٹر پر کیس کرو۔ ابّا اخبار میں اشتہار دینا چاہتے تھے، جس رپورٹر کو کہا وہ بھی پیسے لے کر بھاگ گیا۔
’ڈاکٹر کو خبر ہوئی تو اس نے کہا 50 ہزار روپے لے لو اور کیس نہ کرو۔ میری بہن دنیا سے چلی گئی اور اس کی قیمت کچھ روپے؟ کیا وہ روپے میری بہن کو واپس لاسکتے ہیں؟‘
’کیا ڈاکٹر ایسے ہوتے ہیں ؟ اگر وہ ڈاکٹر ہمیں آپریشن کے بعد بتا دیتی کہ آنت کٹ گئی ہے تو ہم 21 دن اس اسپتال میں بیٹھے انتظار نہ کرتے۔ کیا وہ چاہتی تھی کہ بہن کا انتقال اسی کے اسپتال میں ہو اور کسی کو علم نہ ہو؟ میں چاہتی ہوں کہ اس ڈاکٹر کا سب کو علم ہو تاکہ پھر کوئی لڑکی جان سے نہ جائے‘۔
صاحب، الائیڈ اسپتال فیصل آباد کی رپورٹ ہمارے سامنے ہے جو اس کہانی کا ثبوت ہے۔ اس کہانی نے ہمارا جگر چیر دیا ہے۔ کوئی اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے؟
اس بچی کو ہم اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ ہم تمہاری بہن کو تو لوٹا نہیں سکتے لیکن تم سب بچیوں کو آگہی دے سکتے ہیں جس سے تم جان سکو کہ تمہاری زندگی قیمتی ہے اور تم نے اس کی حفاظت کیسے کرنی ہے۔
یہی ہے ہمارا گائنی فیمنزم !
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔