کیا زلزلوں کی پیش گوئی واقعی ناممکن ہے؟
’اگلے 48 سے 72 گھنٹوں میں پاکستان اور بھارت میں شدید نوعیت کے زلزلے کی پیش گوئیاں ہیں۔ برائے مہربانی اپنے تمام ملنے والوں کو یہ میسیج بھیجیں اور اللہ سے استغفار کرنے کی درخواست کریں‘۔
اگر یہ پیغام کسی عام واٹس ایپ گروپ میں آتا تو اسے باآسانی نظر انداز کیا جاسکتا تھا لیکن افسوس کہ یہ اور اس جیسے نہ جانے کتنے ہی پیغامات ’پڑھے لکھے‘ اور ’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ پاکستانیوں کی طرف سے دھڑا دھڑ فارورڈ کیے جارہے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ یورپ کے ’سولر سسٹم جیومیٹری سروے‘ (SSGEOS) سے تعلق رکھنے والے یورپی سائنسدان فرینک ہوگربیٹس نے 3 فروری کو اپنی ایک ٹویٹ میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ جنوب وسطی ترکی، اردن، شام اور لبنان پر مشتمل علاقے میں ’جلد یا بدیر‘ 7.5 پیمائش (M 7.5) کا زلزلہ آسکتا ہے۔ لیکن پورا سچ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی اس ٹویٹ میں کہیں بھی یہ نہیں کہا تھا کہ فلاں دن، اتنے بج کر اتنے منٹ پر فلاں جگہ زلزلہ آئے گا بلکہ صرف ’خدشے‘ کا اظہار کیا تھا۔
6 فروری کو ترکی اور شام میں 7.8 پیمائش کا زلزلہ آنے کے بعد جہاں اس ٹویٹ کے بہت چرچے ہوئے اور سوشل میڈیا پر اس ’خدشے‘ کو ’پیش گوئی‘ بنا دیا گیا، وہیں سوشل میڈیا کی افواہ ساز فیکٹریوں نے پاکستان اور ہندوستان کے بارے میں بھی ’پیش گوئیاں‘ اُگلنا شروع کردیں۔ ظاہر ہے کہ ان افواہوں کے پیچھے کوئی ٹھوس اور قابلِ بھروسہ سائنسی تحقیق نہیں کیونکہ اب تک ہم زلزلوں کے بارے میں اس انداز سے پیش گوئی کرنے کے قابل ہی نہیں ہوسکے ہیں کہ جس طرح ہم اگلے چند دنوں میں موسم کی پیش گوئی کرسکتے ہیں۔
زلزلوں کی پیش گوئی اور سائنس
زلزلوں کی پیش گوئی درحقیقت ہماری سوچ سے بھی زیادہ پیچیدہ کام ہے۔ ماہرین اپنی بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ زلزلوں کی پیش گوئی کرسکیں لیکن اب تک اس ضمن میں ان کے پاس نہ تو کوئی ٹھوس سائنسی نظریہ ہے اور نہ ہی کوئی ایسا طریقہ کہ جسے استعمال کرتے ہوئے یہ بتایا جاسکے کہ فلاں علاقے میں فلاں دن اور فلاں وقت کوئی زلزلہ آئے گا۔
آگے بڑھنے سے پہلے کچھ نکات کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پیش گوئیاں بھی کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ وقت کے تناظر میں بات کریں تو پیش گوئی کی ایک قسم ’طویل مدتی‘ (لانگ ٹرم) اور دوسری ’قلیل مدتی‘ (شارٹ ٹرم) کہلاتی ہے۔ یعنی ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اب تک زلزلوں کی طویل مدتی پیش گوئی خاصی حد تک بہتر ہوگئی ہے لیکن قلیل مدتی پیش گوئی اب تک ممکن نہیں ہوسکی ہے۔
سرِدست سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ کرۂ ارض پر موجود براعظمی پلیٹوں (ٹیکٹونک پلیٹس) میں سال بہ سال صرف چند سینٹی میٹر کی حرکت کا تفصیلی مشاہدہ کرکے یہ بتایا جاسکے کہ دنیا کے کن کن مقامات پر آئندہ چند سال کے دوران زیادہ شدید زلزلے آنے کا امکان ہے۔ اس نوعیت کی پیش گوئیاں (جنہیں آپ اندازے بھی کہہ سکتے ہیں) ’طویل مدتی پیش گوئیوں‘ کے ذیل میں شمار ہوتی ہیں۔
یاد رہے کہ زلزلے زمین کی بہت زیادہ گہرائی میں بڑی بڑی چٹانوں کے بہت وسیع پیمانے پر ٹوٹنے پھوٹنے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ ماہرین جنہیں ’اُتھلے زلزلے‘ (یعنی کم گہرائی میں آنے والے زلزلے) کہتے ہیں، وہ بھی سطح زمین سے ’صرف‘ چند کلومیٹر سے لے کر 70 کلومیٹر تک گہرائی میں آتے ہیں۔ 6 فروری کو ترکی میں آنے والے زلزلے کی گہرائی 18 کلومیٹر تھی۔ اوسط گہرائی والے زلزلے 70 سے 300 کلومیٹر گہرائی میں واقع ہوتے ہیں جبکہ ’گہرے‘ زلزلے 300 سے 700 کلومیٹر تک گہرائی میں آتے ہیں۔
آپ کے ذہن میں ضرور یہ سوال موجود ہوگا کہ ہم موسم کی طرح زلزلوں کی پیش گوئی کیوں نہیں کرسکتے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ فضا اور خلا کی طرح ہم زمین کے اندر بہت زیادہ گہرائی میں جھانک کر نہیں دیکھ سکتے۔ اب تک کی بہترین ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم زیادہ سے زیادہ 12 ہزار 262 میٹر (سوا 12 کلومیٹر سے کچھ زیادہ) گہرائی تک ہی پہنچ سکے ہیں۔ مزید گہرائی تک پہنچنا فی الحال ہمارے لیے ممکن نہیں۔
اسی تسلسل میں دوسری بڑی وجہ کا تعلق زمین کے اندر موجود چٹانوں کی غیرمعمولی وسعت اور پیچیدگی سے ہے۔ براعظمی پلیٹوں میں حرکت کو دیکھتے ہوئے ہم یہ اندازہ تو لگاسکتے ہیں کہ فلاں علاقے میں ٹیکٹونک پلیٹوں کے درمیان دباؤ بڑھ رہا ہے جو ’جلد یا بدیر‘ وہاں کی زیرِ زمین چٹانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوسکتا ہے اور کسی بڑے زلزلے کی وجہ بن سکتا ہے، لیکن ہم یہ نہیں بتاسکتے کہ اُن چٹانوں میں ٹوٹ پھوٹ کب شروع ہوگی، کیسے شروع ہوگی، اس کا پیمانہ کتنا بڑا یا چھوٹا ہوگا، اس ٹوٹ پھوٹ کی شدت کتنی ہوگی اور اس کے نتیجے میں آنے والا زلزلہ کس قدر شدید ہوگا۔ یہ پیش گوئی آج تک ہمارے بس سے باہر ہے۔ ہم اس بارے میں فی الحال صرف اندازے ہی لگاسکتے ہیں اور ’امکانات‘ ہی پر بات کرسکتے ہیں۔
ماہرین ارضیات کے اِنہی اندازوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے کسی بھی ملک کے مختلف علاقوں میں عمارت سازی کے قوانین (بلڈنگ کوڈز) ترتیب دیے جاتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ بلڈنگ کوڈز موجود ہیں لیکن صرف کاغذات کی حد تک۔ ’غریب ممالک‘ میں ان بلڈنگ کوڈز پر عمل درآمد نہ ہونے کی ایک عمومی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ شدید زلزلوں کے زیادہ امکانات والے علاقوں میں مضبوط اور ’زلزلے سے محفوظ‘ (ارتھ کویک پروف) عمارتیں بنانا بہت مہنگا سودا ہے جو ایک غریب اور پسماندہ ملک کے لیے بے حد مشکل ہے۔ اس کے باوجود ایسے علاقوں میں کثیر المنزلہ عمارتیں بنانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
زلزلے تو آتے ہیں اور آتے رہیں گے لیکن بلڈنگ کوڈز پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی ایسے علاقے میں کمزور عمارت بنائی جائے گی کہ جہاں شدید زلزلہ آنے کے امکانات زیادہ ہیں، تو وہ اس طرح کے کسی بھی زلزلے کو کیسے جھیل پائے گی؟
یادش بخیر، 2001ء میں ایک بین الاقوامی ارضیاتی کانفرنس کے دوران ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے انتہائی شمالی علاقوں میں کسی بھی وقت شدید زلزلہ آسکتا ہے کیونکہ ہندوستان کی ٹیکٹونک پلیٹ مسلسل شمال کی طرف کھسکتے ہوئے یورپی ٹیکٹونک پلیٹ پر دباؤ بڑھاتی جارہی ہے۔ تقریباً ساڑھے 4 کروڑ سال پہلے انہی دونوں پلیٹوں میں تصادم کے نتیجے میں دنیا کا عظیم ترین پہاڑی سلسلہ ’کوہِ ہمالیہ‘ وجود میں آنا شروع ہوا تھا۔ جب ماہرین ارضیات ’ہمالیہ، ہندوستان کو کھا رہا ہے‘ کہتے ہیں، تو اِس سے ان کی یہی مراد ہوتی ہے۔ خیر، اس تنبیہ پر پاکستانی حکام نے کوئی توجہ نہ دی اور آخرکار 8 اکتوبر 2005ء کے روز وہی ہوا جس کا خدشہ تھا یعنی پاکستان کی تاریخ کا بھیانک ترین زلزلہ رونما ہوگیا۔
بے چین جانور
اب آتے ہیں زلزلوں کی قلیل مدتی پیش گوئی کی طرف۔ یہ بات درست ہے کہ اب تک ہمارے پاس ایسا کوئی باضابطہ اور منظم سائنسی طریقہ موجود نہیں کہ ہم زلزلہ آنے سے چند دن، چند گھنٹے یا پھر صرف چند منٹ پہلے ہی یہ بتاسکیں کہ فلاں فلاں علاقے میں اتنی دیر بعد شدید زلزلہ آنے والا ہے۔ البتہ، زلزلوں پر تحقیق کے دوران یہ بات ضرور سامنے آچکی ہے کہ جانوروں (خاص کر جنگلی جانوروں) میں قدرتی طور پر ایسا کوئی نظام موجود ہوتا ہے جو انہیں زلزلہ آنے سے پہلے ہی خبردار کردیتا ہے اور وہ تیزی سے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوجاتے ہیں۔
1931ء میں کوئٹہ زلزلے کے بعض عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ انہوں نے شہر کے آوارہ کتوں کو (زلزلے سے کچھ دیر پہلے) بڑی تیزی سے شہر کے باہر کی سمت دوڑتے ہوئے دیکھا تھا۔ اسی طرح 2004ء کے سونامی (جو بذاتِ خود بحرہند کی تہہ میں زلزلے کا نتیجہ تھی) سے متعلقہ علاقوں کے تمام جنگلی جانور حیرت انگیز طور پر محفوظ رہے۔ جانوروں کی اسی خداداد لیکن اب تک ناقابلِ فہم صلاحیت کی بنا پر بعض تجربہ گاہوں میں کچھ مخصوص جنگلی جانور اور پرندے بھی رکھے جاتے ہیں۔ ان میں بھی زلزلے سے کچھ پہلے بے چینی دیکھی جاچکی ہے لیکن تاحال ہم جانوروں کے طرزِ عمل میں تبدیلی کی بنیاد پر زلزلوں کی قلیل مدتی پیش گوئی کا کوئی نظام وضع نہیں کرسکے ہیں۔
زلزلوں کی ’غیر روایتی‘ پیش گوئیاں
زلزلوں کی قلیل مدتی پیش گوئی کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ماہرینِ ارضیات کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آچکا ہے جسے بعض ناقدین ’غیر روایتی زلزلیات دان‘ (unorthodox seismologists) بھی کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم آسمان پر دکھائی دینے والی پُراسرار روشنیوں سے لے کر کرۂ روانی (ionosphere) میں ہونے والی بظاہر معمولی تبدیلیوں تک کی بنیاد پر زلزلوں کی قلیل مدتی پیش گوئی کرسکتے ہیں اور یہ پیش گوئی چند گھنٹوں سے لے کر چند دنوں تک پر محیط ہوسکتی ہے۔
زمین کا مقناطیسی میدان کسی غلاف کی مانند زمین کے گرد لپٹا ہوا ہے جو ہمیں خلا سے آنے والی خطرناک ریڈیو لہروں سے بھی بچاتا ہے۔ زمین کے اسی مقناطیسی میدان میں زمینی کرۂ ہوائی کا وہ حصہ بھی ہے جسے ’کرۂ روانی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ سطح زمین سے تقریباً 35 میل (58 کلومیٹر) کی بلندی سے شروع ہوکر 500 میل (825 کلومیٹر) سے بھی کچھ زیادہ اونچائی تک چلا جاتا ہے۔ اس میں باردار ذرّات/ چارجڈ پارٹیکلز (بشمول الیکٹرون، پروٹون، باردار ایٹم اور سالمات) بکثرت ہوتے ہیں جو اسے کرۂ ہوائی کے دوسرے حصوں سے ممتاز کرتے ہیں۔
پُراسرار روشنیاں اور شدید زلزلے
8 اکتوبر 2005ء کے بعد، جب پاکستان کی پوری شمالی پٹی کو بھیانک زلزلے نے متاثر کیا، تو بعض محب وطن دانشوروں نے اپنے کالموں میں برملا امریکا پر الزام لگایا کہ اس نے ’تھرمو ٹیکنالوجی‘ کی مدد سے یہ زلزلہ پیدا کیا تھا۔ اپنے اس الزام کی دلیل میں انہوں نے لکھا تھا کہ آزاد کشمیر کے کچھ دیہی علاقوں میں (جو زلزلے کے مرکز سے قریب واقع تھے) مقامی لوگوں نے زلزلے سے ایک رات پہلے آسمان پر عجیب و غریب روشنیاں دیکھی تھیں۔ ایسا ہی کچھ 2008ء میں سنچوان (چین) کے مقام پر اور 2010ء میں ہیٹی اور چلی کے ہلاکت خیز زلزلوں کے بعد کہا گیا۔
لیکن جاپان میں اس طرح کے مشاہدات عشرہ 1960ء سے اب تک متعدد بار (زلزلوں سے پہلے) کیے جاچکے ہیں۔ ایسا ہی ایک مشاہدہ کینیڈا میں بھی 1988ء کے ایک طاقتور زلزلے سے پہلے ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں 17 جنوری 1995ء کے روز جاپانی شہر کوبے سے ایسی 23 اطلاعات ریکارڈ پر ہیں جن میں لوگوں نے سفید، نیلی اور نارنجی روشنیاں دیکھنے کے بارے میں بتایا تھا۔ یہ روشنیاں سطح زمین سے لے کر تقریباً 200 میٹر بلندی تک پھیلی ہوئی تھیں جبکہ ایک کلومیٹر سے 8 کلومیٹر جتنی وسیع تھیں۔ ان مشاہدات کے صرف چند گھنٹوں بعد ہی کوبے میں 6.9 شدت کا ایک خوفناک زلزلہ آیا جس کے باعث ساڑھے 5 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
زلزلوں سے پہلے ان پُراسرار روشنیوں کی سائنسی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ شدید زلزلے سے قبل، زیرِ زمین موجود چٹانیں شدید دباؤ کا شکار ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ ’داب برق‘ (پیزو الیکٹرک) چٹانوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
پیزو الیکٹرک وہ مادّے ہوتے ہیں جو میکانیکی دباؤ (مکینیکل اسٹریس) پڑنے پر برقی وولٹیج پیدا کرتے ہیں اور اگر انہیں برقی وولٹیج کا سامنا ہو تو یہ میکانیکی قوت پیدا کرتے ہیں۔ آج ماہرین اس پر تقریباً متفق ہیں کہ زلزلے کے مقام پر زیرِ زمین موجود چٹانیں (جو عام حالات میں داب برق نہیں ہوتیں) جب انتہائی شدید دباؤ میں مبتلا ہوتی ہیں تو ان میں بھی برقی وولٹیج اور برقی مقناطیسی میدان جنم لیتے ہیں۔ یہی وہ برقی وولٹیج اور برقی مقناطیسی میدان ہیں جو زلزلے والے مقام کے اوپر واقع کرۂ ہوائی تک پہنچ کر اس میں باردار ذرّات (ions) کی تعداد میں اچانک اضافہ کردیتے ہیں۔ باردار ذرّات کا آپس میں اور دوسرے معتدل (نیوٹرل) ذرّوں کے ساتھ عمل ہی ان پُراسرار روشنیوں کا سبب بنتا ہے جو طاقتور زلزلوں سے پہلے، آس پاس کے آسمان میں دیکھی جاتی ہیں۔
ریڈیو لہروں کا شور
زلزلوں اور کرۂ روانی میں ایک اور تعلق بھی سامنے آچکا ہے۔ کسی علاقے میں ریکٹر اسکیل پر 6.0 یا اس سے زیادہ پیمائش رکھنے والے زلزلے سے پہلے، اس علاقے کے اوپر واقع کرۂ روانی کے حصے میں برقی چارج نمایاں طور پر تبدیل ہوجاتا ہے جو زلزلے کے بعد معمول پر واپس آجاتا ہے۔ اسی طرح کسی مقام پر طاقتور زلزلہ آنے سے چند روز پہلے وہاں کا کرۂ روانی اپنی عام اونچائی سے تھوڑا سا نیچے کھسک آتا ہے اور یہ کیفیت بھی زلزلہ آنے تک مسلسل برقرار رہتی ہے۔ نتیجتاً ویری لو فریکوئنسی (وی ایل ایف) اور ہائی فریکوئنسی (ایچ ایف) بینڈ کی ریڈیو نشریات نمایاں طور پر صاف ہوجاتی ہیں۔ ٹی وی اور ریڈیو نشریات میں استعمال ہونے والے جدید آلات کی مدد سے یہ تبدیلی باآسانی معلوم کی جاسکتی ہے۔
علاوہ ازیں، پچھلے کئی عشروں سے ماہرین کو ریڈیائی لہروں کے بے ہنگم شور (ریڈیو نوائس) کی صورت میں بھی عجیب و غریب مظاہر کا مشاہدہ ہوتا رہا ہے جو زلزلوں سے چند ہفتوں، چند دن اور چند گھنٹے پہلے ظہور پذیر ہوتے ہیں، مگر ماہرین نے گزشتہ چند برسوں کے دوران ہی ان مظاہر کے منظم مطالعے اور زلزلوں سے ان کا تعلق جوڑنے پر کام کا آغاز کیا ہے۔ زلزلے کی آمد کا ایک اور اشارہ ’الٹرا لو فریکوئنسی‘ یعنی یو ایل ایف (ULF) بینڈ کی ریڈیو لہروں میں خلل پڑنا بھی ہے۔ یو ایل ایف بینڈ میں وہ ریڈیو لہریں آتی ہیں جن کی فریکوئنسی ایک ہرٹز یا اس سے بھی کم ہوتی ہے۔ یو ایل ایف لہروں میں خلل پڑنے کی ابتدا زلزلے سے چند ہفتے پہلے ہوتی ہے جبکہ زلزلے سے چند گھنٹے پہلے یہ خلل ڈرامائی طور پر بڑھ جاتا ہے۔
اسٹینفرڈ یونیورسٹی کیلیفورنیا کے تحقیق کاروں نے 1989ء میں لوماپریٹا کے مقام پر آنے والے زلزلے سے پہلے بھی اسی طرح کے یو ایل ایف ریڈیو خلل کا مشاہدہ کیا تھا۔ ریکٹر اسکیل پر 7.1 پیمائش والے اس زلزلے میں 63 افراد ہلاک ہوئے، سان فرانسیسکو بے ایریا مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور وہاں کی کم و بیش تمام عمارتیں زمین بوس ہوگئیں بلکہ شاہراہوں تک میں دراڑیں پڑگئیں۔
زلزلوں کی قلیل مدتی پیش گوئیوں کی کوششوں سے متعلق آئی ٹرپل ای اسپیکٹرم میں ’ارتھ کویک الارم‘ کے عنوان سے ایک مضمون اگرچہ دسمبر 2005ء میں شائع ہوا تھا لیکن اس میں بیان کی گئی بیشتر باتیں آج بھی بڑی حد تک وہی ہیں۔ اس کی مفت پی ڈی ایف ’ریسرچ گیٹ‘ پر موجود ہے۔ موقع ملے تو ضرور پڑھیے گا۔
حالیہ برسوں کے دوران ایک امریکی انجینیئر، ٹام بلائیر نے ’کویک فائنڈر‘ (Quake Finder) کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے جس کا مقصد مختلف طرح کی ریڈیو لہروں کے تفصیلی مشاہدات کو مؤثر طور پر زلزلوں کی قلیل مدتی پیش گوئی میں استعمال کرنا ہے۔
ناسا ایمز ریسرچ سینٹر کے فرائیڈمین فریونڈ بھی اِن کے ہم خیال اور شریکِ کار ہیں۔ ابتدا میں انہیں شدید تنقید کا سامنا تھا، لیکن جیسے جیسے ان کے پاس زیادہ تعداد میں مشاہدات جمع ہوتے جارہے ہیں، ویسے ویسے اِن کا اعتماد بھی بڑھتا جارہا ہے۔ (تاہم اب بھی وہ زلزلوں کی قابلِ بھروسہ قلیل مدتی پیش گوئی کے دعویدار نہیں)
ان کی توجہ صرف یو ایل ایف بینڈ تک محدود نہیں، بلکہ وہ زلزلوں کی مؤثر قلیل مدتی پیش گوئی ممکن بنانے کے لیے ای ایل ایف (ایکسٹرا لو فریکوئنسی)، وی ایل ایف (ویری لو فریکوئنسی)، ایل ایف (لو فریکوئنسی)، ایچ ایف (ہائی فریکوئنسی)، وی ایچ ایف (ویری ہائی فریکوئنسی) اور آئی آر (انفرا ریڈ) بینڈ تک کی ریڈیو لہروں میں پیدا ہونے والے غیر معمولی خلل سے مدد لینے میں مصروف ہیں۔
سردی میں گرمی کا مشاہدہ اور انفراریڈ لہریں
اگر کسی علاقے میں زلزلہ آنے والا ہو تو وہاں کی زمین سے (زلزلے سے چند روز پہلے) زیریں سرخ (انفرا ریڈ) لہروں کی زیادہ مقدار خارج ہونے لگتی ہے اور خلا میں موجود موسمیاتی سیارچے اس کا مشاہدہ ’گرمی میں غیر متوقع اضافے‘ کے طور پر کرتے ہیں۔ گزشتہ 25 سال سے بھی زیادہ کے عرصے میں چینی ماہرین ایسے کئی مشاہدات کرچکے ہیں کہ جب انہوں نے مصنوعی سیارچوں کے ذریعے کسی علاقے کے درجہ حرارت میں 4.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ غیر متوقع اضافہ ریکارڈ کیا، حالانکہ زمین پر ایسا کچھ نہیں تھا اور ان مشاہدات کے چند روز بعد ہی وہاں زلزلہ آگیا۔
ایسا ہی ایک مشاہدہ ناسا کے ’ٹیوس‘ (ٹیرا ارتھ آبزروِنگ سسٹم) سیارچے کو 21 جنوری 2001ء کے روز گجرات، ہندوستان سے ہوا۔ گجرات کی زمین سے غیر معمولی طور پر انفراریڈ لہریں اٹھتی دکھائی دے رہی تھیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ گجرات میں اچانک گرمیاں شروع ہوگئی ہیں لیکن وہاں سردیاں ہی تھیں۔ ان پیمائشوں کو ’ناقابلِ فہم‘ قرار دیتے ہوئے نظر انداز کردیا گیا۔ مگر 26 جنوری 2001ء کو، یعنی صرف 5 دن بعد گجرات میں قیامت صغریٰ برپا ہوگئی جس کے اثرات پورے پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے۔ 28 جنوری 2001ء تک، یعنی زلزلے کے 2 دن بعد انفراریڈ لہریں معمول پر واپس آچکی تھیں۔
یہ تمام ریڈیو لہروں کی وہ اقسام ہیں جو ماضی میں کئی بڑے زلزلوں سے پہلے خلل کا شکار دیکھی گئی ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس طرح کے مشاہدات صرف امریکی ماہرین کو نہیں ہوئے بلکہ ان میں چین، تائیوان، جاپان، فرانس اور روس کے سائنس دان بھی شامل ہیں جبکہ عین یہی مشاہدات زمینی اسٹیشنوں کے علاوہ مختلف مصنوعی سیارچوں سے بھی کیے جاچکے ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ہم پورے وثوق سے یہ تو نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، لیکن اتنا ضرور طے ہے کہ زلزلوں اور ریڈیو لہروں میں پڑنے والے خلل کا آپس میں کوئی نہ کوئی گہرا تعلق لازمی ہے اور یہی وہ تعلق ہے جو قدرت کی جانب سے ہمیں زلزلے سے خبردار کرنے کا کام کرسکتا ہے، بشرطیکہ ہم اسے سمجھ کر استعمال کرنے کے قابل ہوجائیں۔
سیاروں کی ’خاص ترتیب‘ سے زلزلے؟
بلاگ کے آغاز میں ’سولر سسٹم جیومیٹری سروے‘ (ایس ایس جی ای او ایس) اور اس سے تعلق رکھنے والے سائنسدان فرینک ہوگربیٹس صاحب کا تذکرہ کیا گیا۔ زلزلوں کی قلیل مدتی پیش گوئی کے میدان میں یہ قدرے نیا کھلاڑی ہے جو 2014ء میں سامنے آیا ہے۔
آسان الفاظ میں کہا جائے تو یہ ادارہ ’نظامِ شمسی میں سورج، سیاروں اور زمینی چاند کی ترتیب کو مدِنظر رکھتے ہوئے، زلزلوں کے امکانات کا اندازہ لگاتا ہے‘۔ پڑھنے اور سننے میں یہ علمِ نجوم کی طرح لگتا ہے جس کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں۔ سنجیدہ سائنسدانوں کا بھی یہی کہنا ہے۔
زلزلوں کی قلیل مدتی پیش گوئی کے ضمن میں اب تک بیان کیے گئے دوسرے طریقوں کے مقابلے میں یہ واقعی بہت مختلف اور ناقابلِ فہم طریقہ ہے۔ اگرچہ ’ایس ایس جی ای او ایس‘ بھی صرف ’امکان‘ کی بات کرتا ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ اس کے پسِ پشت ’سائنس‘ کون سی ہے، وہ کیسے کام کرتی ہے اور یہ کہ سورج، سیاروں اور چاند کا تعلق کس طرح سے زمین پر آنے والے زلزلوں کے ساتھ (سائنسی طور پر) جوڑا جاسکتا ہے۔
جب بھی اس طرح کی خبریں نظر سے گزرتی ہیں تو مجھے بے اختیار جے بی ایس ہیلڈین کا مشہور قول یاد آجاتا ہے کہ ’قدرت صرف اس سے زیادہ پُراسرار نہیں کہ جتنا تم سوچتے ہو بلکہ یہ اس سے بھی کہیں زیادہ پُراسرار ہے کہ جتنا تم سوچ سکتے ہو!‘ لگتا ہے کہ قدرت واقعی ہمیں اپنی پُراسراریت سے ہمیشہ یونہی حیران اور پریشان کرتی رہے گی۔
علیم احمد نے 1987ء میں اردو ماہنامہ ’ سائنس میگزین’سے سائنسی صحافت کا آغاز کیا اور 1991ء میں اسی جریدے کے مدیر مقرر ہوئے۔ 1993ء سے 1995ء تک ریڈیو پروگرام’سائنس کلب’سے وابستہ رہے۔ 1997ء میں’سائنس ڈائجسٹ’کے مدیر کی ذمہ داری سنبھالی اور 1998ء میں ماہنامہ ’ گلوبل سائنس’شروع کیا، جو 2016ء تک جاری رہا۔ آپ کی حالیہ تصنیف’سائنسی صحافت: ایک غیر نصابی، عملی رہنما ’ ہے جو اردو زبان میں سائنسی صحافت کے موضوع پر پہلی کتاب بھی ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
علیم احمد نے 1987ء میں اردو ماہنامہ ’ سائنس میگزین’سے سائنسی صحافت کا آغاز کیا اور 1991ء میں اسی جریدے کے مدیر مقرر ہوئے۔ 1993ء سے 1995ء تک ریڈیو پروگرام’سائنس کلب’سے وابستہ رہے۔ 1997ء میں’سائنس ڈائجسٹ’کے مدیر کی ذمہ داری سنبھالی اور 1998ء میں ماہنامہ ’ گلوبل سائنس’شروع کیا، جو 2016ء تک جاری رہا۔ آپ کی حالیہ تصنیف’سائنسی صحافت: ایک غیر نصابی، عملی رہنما ’ ہے جو اردو زبان میں سائنسی صحافت کے موضوع پر پہلی کتاب بھی ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔