نقطہ نظر

کیا سستے تیل کے لیے پاکستان کے روس سے معاملات طے ہوگئے؟

روسیوں کے لیے یہ کمائی ضروری ہے تو ہماری بھی اپنی مجبوریاں ہیں کہ ہمیں سستی توانائی درکار ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹر نے خبر دی ہے کہ ایک روسی آئل ریفائنری نے ہزار ٹن تیل بیچا ہے۔ یہ تیل ایک ٹریڈر نے پاکستان بھیجنے کے لیے خریدا ہے۔ اورسک شہر میں قائم اس ریفائنری سے تیل قازقستان سے ریل کے راستے افغانستان بھیجا جائے گا اور پھر وہاں سے ٹرکوں پر لوڈ کرکے آگے پاکستان پہنچا دیا جائے گا۔

آئل انڈسٹری کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان سے پیٹرول، ڈیزل اور ایل پی جی کے مزید آرڈر اسی ریفائنری کو ملے ہیں۔

روسی تیل کے حوالے سے یہ خبر آتے ہی وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو کے اچانک دورہ روس کی اطلاع بھی آجاتی ہے۔ وہ اس خبر کی اشاعت کے 2 دن بعد ہی 29 جنوری کو روس پہنچ جاتے ہیں جہاں اہم بات چیت ہونے کا امکان ہے۔

ماسکو کے اس دورے کی جو خبر ڈان اخبار میں چھپی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ بلاول بھٹو امریکا کے ساتھ ری انگیجمنٹ کے لیے جلد واشنگٹن کا دورہ کریں گے اور وزیرِ تجارت سید نوید قمر بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔

اسی خبر میں یہ بتایا گیا ہے کہ بلاول بھٹو کو روسی دورے کی دعوت روسی وزیرِ خارجہ نے دی ہے۔

بلاول بھٹو کے اس دورے کو روس کے وزیرِ توانائی کے دورہ پاکستان سے جوڑا جارہا ہے۔ روسی تیل اور توانائی سے جڑی خبروں اور بلاول بھٹو کے ماسکو دورے میں ایک دورے کا ذکر رہ گیا۔ افغانستان کے لیے روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف 25 جنوری کو اسلام آباد میں موجود تھے اور ان کی حنا ربانی کھر سے ملاقات ہوئی تھی۔

اس ملاقات کے حوالے سے جو ٹوئٹ ہمیں دیکھنے کو ملی اس میں کہا گیا کہ دونوں ملکوں نے خطے میں امن و استحکام کی ضرورت پر زور دیا۔ افغان حکومت سے ایسی کوششوں پر زور دیا جو مسائل کے حل کا سبب بنے۔ اس حل میں ماسکو فارمیٹ کے مطابق افغانستان کے ہمسائے شامل ہوں۔

اس شعر میں شاعر جو عرض کر رہا ہے اس کی روشنی میں ہم روسی آئل ریفائنری سے بہتے ہوئے تیل کو قازقستان، ازبکستان اور افغانستان سے ہوکر پاکستان آتا دیکھ رہے ہیں۔

اوپر جو سید نوید قمر کا ذکر ہوا کیا یہ بلاوجہ ہی ہوگیا ؟ ہرگز نہیں، معاملہ یہ ہے کہ 23 فروری کو واشنگٹن میں تجارت اور سرمایہ کاری فریم ورک معاہدے پر وزارتی سطح پر مذاکرات دوبارہ بحال کیے جائیں گے۔ اگر امریکا سے تجارت میں کچھ رعایتیں ملنی ہیں تو اسی میٹنگ سے راستہ کھلے گا۔

اس حوالے سے آخری بیٹھک 2016ء میں ہوئی تھی۔ سابق وزیرِاعظم عمران خان کے پورے دور میں یہ میٹنگ نہیں ہوسکی تھی۔ اس اہم اجلاس سے پہلے امریکی حکومت کے اعلیٰ حکام پاکستان کا چکر لگا چکے ہیں۔ اس امریکی وفد نے جس پیار اور محبت سے اسلام آباد میں ڈار صاحب کو سمجھایا ہے اس کے بعد ہی ڈالر اور تیل کی قیمتوں کو آگ لگی ہے۔ یہ حرارت اب آئی ایم ایف پہنچے گی تو ہمیں قسط کا اجرا بھی ہوجائے گا۔

ضمیر کابلوف جب پاکستان آئے تھے تو وہ کابل سے ہوکر آئے تھے۔ جب افغانستان کے راستے تیل پاکستان آئے گا تو افغان حکومت کی آمدن بھی بڑھے گی اور یہ آمدن پکی کرنے کے لیے امن و امان یقینی بنانا ہوگا۔ روسی تیل کے لیے مارکیٹ محدود ہو رہی ہے۔ وہ اپنا رخ یورپ سے ایشیا کی طرف کررہا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا جو حجم ہے اس کی روشنی میں ہم ہر کھانے پینے اور جلانے والی شے کے ایک بڑے گاہک ہیں۔

روسیوں کے لیے یہ کمائی اب ضرورت بھی ہے اور اہم بھی جبکہ دوسری طرف ہماری بھی اپنی مجبوریاں ہیں کہ ہمیں سستی توانائی درکار ہے۔

پاکستان اپنی ضرورت کا 35 فیصد خام تیل روس سے رعایتی نرخوں پر خریدے گا۔ پاکستان کی درآمدات میں سب سے بڑا بل اسی کا ہوتا ہے۔ روس سے اس ڈیل کے بعد درآمدی بل بھی کم ہوجائے گا۔

پاکستان اور روس کے مابین ہونے والے اس معاہدے کی امریکی مخالفت نہیں کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے کئی حوصلہ افزا بیان بھی وہاں سے آچکے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے اہم بات سپلائی روٹ کی سیکیورٹی ہے۔

اس بدلتی نئی صورتحال میں امریکا کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان نے جرمنی، پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے دورے کا اعلان کردیا ہے اور وہ 29 جنوری کو پاکستان پہنچے۔

ایسے وقت میں جب پاکستان کو سخت معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور مخلوط حکومت ریلیف حاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔ اس سب میں جو اچھی بات ہے وہ یہ کہ سفارتی توازن لانے کے لیے کام وہیں ہو رہا ہے جہاں اسے ہونا چاہیے۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں وزارتِ خارجہ حساس معاملات پر اسٹیئرنگ پنڈی سے پکڑ کر واپس اسلام آباد لانے میں کسی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔

یہ حقیقت ہے یا خیال اس کے جواب میں ہی ہماری آئندہ مشکلات اور آسانیوں کا اشارہ ملے گا۔

وسی بابا

دیس دیس کی اپنے دیس سے جڑی باتیں دیسی دل سے کرتے ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: WisiBaba. انہیں ٹوئیٹر پر فالو کریں WisiBaba.

آپ کا ای میل ایڈریس wisinewsviews@gmail.com ہے

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔