گیس کی قلت: بجلی کے آلات کے استعمال میں اضافہ اور حفاظتی تدابیر
کوئٹہ سے چلنے والی سرد ہواؤں کی وجہ سے اس وقت کراچی شہر شدید سردی کی لپیٹ میں ہے اور درجہ حرارت تیزی سے گررہا ہے۔ جمعرات اور جمعے کی درمیانی رات موجودہ سیزن کی سرد ترین رات قرار پائی۔ ایسے میں ہیٹر جلانے، گیزر اور کھانا پکانے کے لیے گیس کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ مگر پائپ میں گیس آنا کراچی سمیت پورے پاکستان کے لیے ایک خواب بنتا جارہا ہے۔
پاکستان میں گیس کا بحران تیزی سے سر اٹھا رہا ہے اور گیس کی قلت کی وجہ سے پاکستانیوں کو زندگی کے تمام شعبوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ صنعتوں کے علاوہ گھریلو اور کمرشل استعمال کے لیے بھی گیس کی فراہمی نہیں ہو پارہی ہے۔
سوئی سدرن اور سوئی نادرن جو ملک بھر میں قدرتی گیس پائپ لائن کے ذریعے فراہم کرنے والی بڑی کمپنیاں ہیں انہوں نے گیس کی فراہمی کا شیڈول جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صبح، دوپہر اور رات کو ان اوقات میں جب گھروں میں کھانا بنایا جاتا ہے، گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ مگر یہ اعلان بھی حکومتی وعدہ ہی ثابت ہورہا ہے اور اب تقریباً ہر شہری ہی گیس کی قلت کا شکار ہے۔ یعنی قدرتی گیس اب ہر وقت دستیاب نہیں ہوگی کہ جب دل کیا چولہا جلا لیا، یا پھر سرد موسم کے آتے ہی گیزر آن کیا اور گرمیاں آنے پر ہی گیزر کو بند کیا۔
یہ سال 2002ء یا 2003ء کی بات ہوگی جب منور بصیر کو ایم ڈی سوئی سدرن گیس کمپنی بنایا گیا تو انہوں نے گیس کی فراہمی کے حوالے سے میڈیا کو ایک طویل بریفنگ دی۔ اس بریفنگ میں کہا گیا تھا کہ ملک میں نئی گیس دریافت نہیں ہورہی ہے اور موجودہ ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ اس لیے اب گھریلو صارفین کو قدرتی گیس کا استعمال ٹائم ٹیبل کےمطابق کرنا پڑے گا۔ اس وقت یہ بات ہمیں ایک مذاق لگی تھی اور ہم صحافی کسی قدر حیران تھے کہ یہ کیا ناقابلِ یقین بات کررہے ہیں۔ مگر اب یہ بات حقیقت بن گئی ہے۔ گیس کی قلت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب قدرتی گیس گرمیوں میں بھی اکثر دستیاب نہیں ہوتی ہے۔
گیس کی قلت کی وجہ سے اب عوام نے متبادل ذرائع کا استعمال شروع کردیا ہے۔ کراچی جیسے گنجان آباد شہر میں لکڑیاں یا کوئلے کو جلاکر کھانا پکانے یا پانی گرم کرنے کا اہتمام تو ہو نہیں سکتا ہے جبکہ ایل پی جی کی کمپنی سپلائی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سردی زیادہ ہو یا قیمت میں اضافہ متوقع ہو تو ایل پی جی کی بھی قلت کا سامنا کرتا پڑتا ہے۔ اس لیے اب عوام اپنی روزمرہ زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے بجلی سے چلنے والے گھریلو آلات کا استعمال بڑھا رہے ہیں۔
کراچی کے علاقے صدر میں واقع الیکٹرانک مارکیٹ میں بجلی سے چلنے والے ایسے گھریلو آلات میں اب تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو اس سے قبل گیس سے چلا کرتے تھے۔ الیکٹرانک مارکیٹ میں سب سے زیادہ فروخت بجلی کے گیزر کی ہے۔ جن کی قیمت 16 ہزار روپے سے لے کر 50 ہزار روپے کے درمیان ہے۔ ان گیزروں میں پانی گرم کرنے کی گنجائش کے علاوہ ان میں لگے حفاظتی آلات کی وجہ سے بھی قیمت کا تعین ہوتا ہے۔
اسی طرح بجلی سے چلنے والے چولہے بھی فروخت ہورہے ہیں۔ ان میں چھوٹے چولہے 3 ہزار روپے میں بھی دستیاب ہیں۔ مگر اپنی سیفٹی اور گنجائش کے حوالے سے ان کا استعمال محدود پیمانے پر ہی ہوسکتا ہے۔ جبکہ اچھے سیفٹی فیچرز والا بجلی کا چولہا 10 ہزار روپے سے شروع ہورہا ہے۔
بجلی کے چولہے دو اقسام کے مل رہے ہیں، ایک ہاٹ پلیٹ جس میں چولہے کی سطح گرم ہوتی ہے اور اس حدت سے کھانا پکاتا ہے۔ دوسری قسم کے انڈکشن کوکر کھلاتے ہیں جس میں چولہے کی اوپری سطح گرم نہیں ہوتی بلکہ وہ منقاطیسی انڈکشن کے ذریعے برتن کو گرم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹوسٹر، الیکٹرک کیٹل اور مائیکرو ویو اوون پہلے ہی سے مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
کھانا پکانے اور پانی گرم کرنے کے آلات میں 1500 سے لے کر 2500 واٹ بجلی کا استعمال ہوتا ہے اور اگر ایک گھر میں متعدد الیکٹرانک آلات ایک ہی وقت میں استعمال ہورہے ہوں تو وہاں پر کسی بھی غفلت یا کوتاہی کی صورت میں حادثہ ہونے، کرنٹ لگنے یا آگ لگنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان میں تجارتی عمارتوں میں اکثر بجلی کی ناقص وائرنگ کی وجہ سے ہونے والا شارٹ سرکٹ آگ لگنے کی اہم وجہ بنتا ہے۔
اب جدید طرزِ زندگی کو واپس لکڑی کے چولہے کے زمانے میں تو لے جا نہیں سکتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ بجلی کے آلات کے استعمال میں احتیاط برتی جائے تاکہ اس کی وجہ سے حادثات، آگ لگنے یا اموات سے بچا جاسکے۔
برقی آلات کا ہدایات کے مطابق استعمال
بجلی کے آلات کی تنصیب اور استعمال سے قبل متعلقہ کمپنی کا جاری کردہ ہدایت نامہ ضرور پڑھ لیں اور اس بات کی تصدیق کرلیں کہ وائرنگ، ہوا اور حفاظت کے حوالے سے جن معیارات کا ذکر ہدایت نامے میں ہے ان پر سختی سے عمل کیا جائے۔ اس سے حادثات میں کمی کے علاوہ ان آلات کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی۔
اگر ان آلات کے استعمال کے دوران بجلی کا جھٹکا لگتا ہے تو پھر ان کی مناسب جانچ کے بغیر استعمال نہ کیا جائے۔
معیاری ساکٹ اور سوئچ کا استعمال
معیاری ساکٹ اور سوئچ کی وجہ سے بہت سے حادثات سے بچا جاسکتا ہے۔ اگر ساکٹ درست طور پر پلگ ان نہیں ہوں گے یا ڈھیلے ہوں گے تو اس کی وجہ سے حادثات ہوسکتے ہیں۔ ڈھیلے ساکٹس کی وجہ سے اکثر اسپارک (شعلہ) ہوتا ہے اور یہ کسی بھی وقت آگ لگنے کا باعث بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اگر ساکٹ یا سوئچ میں بجلی کا لوڈ گزارنے کی بھی ایک صلاحیت ہوتی ہے اس لیے برقی آلات کی صلاحیت کے حوالے سے ساکٹس اور سوئچ کا استعمال ہونا چاہیے۔
بجلی کا نظام اور پانی سے دُوری
باورچی خانوں میں پانی کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے اور اب کھانا پکانے کے لیے مائیکرو ویو اوون اور ٹوسٹر کے علاوہ بجلی سے چلنے والے چولہے اور اوون کا استعمال بھی بڑھ گیا ہے۔ تو اس حوالے سے باورچی خانے میں پانی کے استعمال میں مزید احتیاط برتنی ہوگی۔
بجلی پانی کی جانب تیزی سے لپکتی ہے اور اسی لیے بارش کے موسم میں کرنٹ لگنے کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے باورچی خانے میں بجلی کے آلات کو گیلے ہاتھوں سے نہ چھوئیں۔ کوشش کریں کہ مناسب انسولیشن والے جوتے پہن کر کام کریں۔
چولہے اور اوون ایسی جگہ پر نصب کیے جائیں جہاں پر پانی سے براہ راست رابطہ نہ ہو یعنی سِنک کے نل سے دُور تنصیب ہو۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا جائے کہ جس جگہ سے بجلی کی وائرنگ کی گئی ہے اس سے پانی کے پائپ دُور ہوں۔
کوشش کی جائے کہ پانی کا زیادہ استعمال کرنے والے آلات جیسا کہ واشنگ مشین اور ڈش واشر کو نچلی سطح پر نصب کیا جائے جبکہ ان کو فراہم کی جانے والی بجلی کے ساکٹس اونچی جگہ پر نصب ہوں۔
اسی طرح غسل کے لیے گیزر کے استعمال میں بھی بہت احتیاط برتنی چاہیے۔ بجلی کے گیزر کی تنصیب شاور، باتھ ٹب اور واش بیسن سے دُور کیی جائے۔ جس وقت گیزر میں بجلی کا استعمال ہورہا ہو اس وقت شاور لینے سے گریز کیا جائے اور پانی گرم ہونے کے بعد گیزر کو بجلی سے منقطع کرکے شاور لیا جائے۔
استعمال کے بعد آلات کی بجلی منقطع کریں
جدید بجلی کے آلات اگر کام نہ بھی کررہے ہوں تو وہ اسٹینڈ بائی پر ہوتے ہیں یا پھر اگر موبائل فون اور لیپ ٹاپ کے چارجر سے آلات منسلک نہ بھی ہوں تو وہ بجلی کا کم سے کم استعمال تو کر ہی رہے ہوتے ہیں۔ اس سے بجلی ضائع بھی ہوتی ہے اور استعمال کردہ بجلی کا بل بھی آتا ہے۔
اس کے علاوہ بجلی کے سوئچ کے گرم ہونے کے خدشات بھی رہتے ہیں۔ اس لیے آلات کو استعمال کرنے کے بعد انہیں مناسب طریقہ سے بند کرنا اور بجلی منقطع کرنا ضروری ہے۔
تاروں کے استعمال میں احتیاط
گھروں میں خصوصاً باورچی خانے میں وائرنگ کرواتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ اس جگہ کتنے لوڈ کے آلات کی تنصیب ہوگی۔ اسی لوڈ کی مناسبت سے بجلی کے تاروں کی وائرنگ کروائی جائے۔ اگر کم گنجائش کی تاریں استعمال کی جائیں گی تو وہ گرم ہوجائیں گی جبکہ اگر زیادہ گنجائش کی تار استعمال ہوگی تو آلات کے جلنے کا خدشہ رہے گا۔ اس لیے وائرنگ کسی ماہر الیکٹریشن سے کروائیں۔
ایسی تاریں جو جلی ہوئی ہوں یا کہیں سے ٹوٹی ہوئی ہوں یا پھر الجھ گئی ہوں ان کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ اسی طرح تاروں کی مناسب وائرنگ کریں، انہیں فرنیچر کے پیچھے اور قالین کے نیچے سے گزارنے گریز کریں۔ اس عمل سے گرم ہونے یا رگڑ لگنے سے ان پر لگی حفاظتی سطح متاثر ہوسکتی ہے اور یہ کرنٹ لگنے یا آگ لگنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
قوانین کے تحت کسی بھی گھر، عمارت یا فیکٹری میں کی جانے والی وائرنگ کے معیار کی جانچ الیکٹریکل انسپکٹر سندھ کرتا ہے۔ ایک تو وائرنگ اچھے اور سرٹیفیائیڈ الیکٹریشن سے کرائیں اور ساتھ ہی اس کے معیار کی تصدیق کے لیے الیکٹریکل انسپکٹر سے سرٹیفکیشن ضرور کروائیں کیونکہ آپ اور آپ کے پیاروں کی زندگی اہم ہے۔
بجلی کے ایکسٹینشن کا محتاط استعمال
ویسے تو کوشش ہونی چاہیے کہ گھر میں بجلی کے ایکسٹینش کا استعمال نہ کیا جائے۔ اگر اس کا استعمال ضروری ہو تو اس کے لیے یہ دیکھا جائے کہ جس لوڈ کے آلات اس ایکسٹیشن پر استعمال کیے جارہے ہیں وہ اس کو اٹھانے کی صلاحیت رکھتی بھی ہے یا نہیں۔
اس کے علاوہ ایکسٹینشن ہو یا دیگر آلات، بجلی کے استعمال کے فوری بعد تار کو لپیٹنے سے گریز کریں اور اس کو ٹھنڈا ہونے کے لیے کچھ وقت دیں۔
برقی آلات کی صفائی
برقی آلات کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صفائی نہایت ضروری ہے۔ الیکٹرک گرل، اوون، الیکٹرک کوکر اور کھانا پکانے کے دیگر آلات کی مکمل اور باریک بینی سے صفائی کی جائے اور کہیں بھی چکنائی نہ رہنے دی جائے۔ کیونکہ چکنائی کی وجہ سے آگ لگ سکتی ہے۔
آلات کو اوور ہیٹنگ سے بچانے کے لیے ان کے اردگرد ہوا گزرنے کا مناسب بندوبست کریں کیونکہ ہوا کی بندش سے آلات کے ساتھ اردگرد کا ماحول بھی گرم ہوسکتا ہے جو کسی حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسی چیزیں جو آسانی سے آگ پکڑ سکتی ہیں انہیں الیکٹرک آلات سے دُور رکھا جائے۔
بعض بجلی کے آلات میں گرم ہوا باہر نکالنے کے لیے پنکھے لگے ہوتے ہیں، آلات کو استعمال کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ یہ پنکھے صاف رہیں تاکہ ہوا کا اخراج تواتر سے ہوتا رہے۔ اگر آلات سے گرم ہوا کا اخراج نہیں ہوگا تو یہ آگ لگنے کے علاوہ زہریلی گیسوں کے پیدا ہونے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ساکٹس کو اوور لوڈ ہونے سے بچائیں
بجلی کے آلات کے پلگ اور ساکٹس پر اوور لوڈنگ نہ ہونے دیں اور ایک بورڈ سے بہت سارے آلات چلانے سے گریز کریں۔ اس بات کا بھی دھیان رکھیں کہ استعمال کے دوران کوئی ایک سوئچ گرم نہ ہوجائے جس سے دیگر سوئچ پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایک وقت میں ایک بورڈ پر ایک ہی آلے کو لگایا جائے اور جو سوئچ اور پلگ گرم ہورہے ہوں انہیں تبدیل کردیا جائے۔
تبدیل ہوتے طرزِ زندگی میں بجلی کے آلات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس بڑھتے استعمال کے ساتھ ساتھ ہمیں بجلی کے استعمال میں احتیاط کو بھی فروغ دینا ہوگا۔ اس حوالے سے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی ان آلات کے محفوظ استعمال کا شعور اُجاگر کرنا ہوگا۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔