نقطہ نظر

کراچی، جہاں زمین کاروبار کا ذریعہ تو بن گئی مگر غریب کا حق نہ بن سکی!

ریئل اسٹیٹ منصوبوں کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے وہاں بسنے والے مقامی لوگ اپنے ذریعہ معاش اور مکانات سے محروم ہوگئے ہیں۔

شہرِ کراچی میں لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا اب معمول کی بات بن چکی ہے۔ پھر چاہے وہ سڑکوں کی چوڑائی میں اضافہ کرنے کے لیے ہو، نالوں کی صفائی کے لیے یا پھر ریئل اسٹیٹ کاروبار کی خفیہ سہولت کاری کی صورت میں ہو، ہر مرتبہ پسماندہ افراد کے گھر کو سب سے پہلے ہدف بنایا جاتا ہے۔

اب حال ہی میں ناظم آباد کی حدود میں واقع علاقے مجاہد کالونی کے رہائشیوں کو انتظامیہ کے اس قہر کا سامنا کرنا پڑا۔ سول سوسائٹی کی تنظیموں کے مطابق تقریباً 600 گھروں کو مسمار کردیا گیا جبکہ مزید 400 مکانات کو بھی مسمار کیا جائے گا جس سے 2 ہزار سے زائد خاندان متاثر ہوں گے۔

کراچی کے نام نہاد ترقیاتی منصوبوں سے سب سے زیادہ نقصان کم آمدنی والی رہائشی بستیوں کو ہورہا ہے۔ مایوس کُن بات یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی کے علاوہ کوئی بھی سیاسی جماعت غریب آبادیوں کے حقوق کے حوالے سے آواز نہیں اٹھا رہی۔ شہری علاقوں کے غربا کو رہائشی زمین کی فراہمی تو طویل عرصے قبل ہی ختم ہوچکی ہے۔

رپورٹس کے مطابق کراچی کی 62 فیصد آبادی ایسی بستیوں میں مقیم ہے جنہیں حکومت رہائشی بستیوں کے طور پر تسلیم ہی نہیں کرتی۔ یہ صورتحال تب سامنے آئی جب ریاستی ادارے شہری علاقوں کے غربا کو سستی اور مناسب پناہ گاہیں فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہوگئے۔

یہ حقیقت ہے کہ سندھ کچی آبادی اتھارٹی ایکٹ 1987ء کے تحت غیر قانونی بستیوں کو قانونی دائرہ کار میں لانے کے لیے ایک ادارہ جاتی لائحہ عمل طے کیا گیا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں طے شدہ منصوبے کے معیار کو پورا کرتے ہوئے ان آبادیوں کو ہدف بنایا گیا اور سروے کیے گئے جن کے تحت ان بستیوں کی حیثیت کو قانونی طور پر تسلیم بھی کیا گیا تھا۔ اس جیسے بہت سے ابتدائی اقدامات نے انٹرپرائز ز کو تکنیکی رہنمائی بھی فراہم کی تھی۔ تاہم، غربا کے مفاد کے لیے بنائی گئی اس پالیسی کو دہائی کے اختتام پر بریک لگ گیا۔

2000ء کی دہائی میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں آمدنی اور منافع پیدا کرنےکے لیے زمینوں کی خرید و فروخت کو بہترین ذریعہ سمجھنے لگیں اور یوں عوامی بہبود کے لیے رہائشی آبادی بنانے کا کام مکمل طور پر رک گیا۔ کچی آبادیوں کو قانونی دائرہ کار میں لانے کے عمل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔

آج، کراچی کی ساحلی پٹی (بشمول کراچی کے جزیرے) کی خرید و فروخت کی کوششیں، ایم 9 موٹروے پر واقع تمام ریئل اسٹیٹ انٹرپرائز کو غیر شفاف تعاون، نالوں کی صفائی اور گزرگاہوں کے ترقیاتی کاموں کی آڑ میں کچی آبادیوں کو نقصان پہنچانا اور اسٹیبلشمنٹ کے ریئل اسٹیٹ منصوبوں میں توسیع معمول کی بات ہوگئی ہے۔

اس کام میں ملوث ادارے شہر کے اطراف موجود بیش قیمت ماحولیاتی اثاثوں پر اپنے ترقیاتی منصوبوں سے قابض ہو رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کو بے دخل کردیا گیا ہے اور ان کے ذریعہ معاش کا نظام جس میں مویشی پالنا اور کھیتی باڑی شامل ہیں، وہ مکمل طور پر درہم برہم ہوچکا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ان افراد کے پاس رہائش اور ذریعہ معاش کے لیے کوئی ذرائع موجود نہیں ہیں۔

اس سے قبل کراچی میں شہری اور دیہی آبادیوں کی واضح حدبندی تھی۔ اس شہر کے اردگرد پہلے زرعی اور مویشیوں کی ایسی پٹی ہوا کرتی تھی جو مقامی آبادیوں کو مناسب ذریعہ معاش اور رہائشیوں کو بہتر معیار کی سستی زرعی مصنوعات مہیا کرتی تھی۔

ریئل اسٹیٹ منصوبوں کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے وہاں بسنے والے مقامی لوگ اپنے ذریعہ معاش اور مکانات سے محروم ہوگئے ہیں۔ بہت سے لوگ اب سماجی اور قبائلی انجمنوں کے ذریعے شہر میں منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جہاں حکام نے نجی ریئل اسٹیٹ انٹرپرائزز کو ہزاروں ایکڑ کی زمین پر قبضہ کرنے کی اجازت دی وہیں ان غربا کو سہولیات کی فراہمی میں ناکام ہوگئے ہیں جنہیں رہائش فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

جمہوریت نے صوبائی اور وفاقی سطح پر کراچی کے غریب شہریوں کی کوئی مدد نہیں کی۔ ہر 5 سال بعد منتخب عوامی نمائندوں کو اسمبلیوں میں بھیجا جاتا ہے لیکن صوبائی اور قومی اسمبلی لاکھوں لوگوں کو پناہ کا بنیادی حق مہیا نہیں کرسکی۔ طاقتور گروہ نجی مفادات کے لیے زمین کی گرانٹ کے فیصلوں پر مبہم انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان غریب عوام نے اٹھایا ہے۔

اس وقت شہری علاقوں میں موجود غربا کو مکانات فراہم کرنے کے امکانات بے حد محدود ہیں۔ کراچی کی ایک تہائی سے زائد آبادی عام زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ وہ افراد جو 20 ہزار ماہانہ یا اس سے بھی کم کماتے ہیں، ان کے پاس پناہ کے نام پر صرف فٹ پاتھ، کھلے عوامی مقامات، گرین بیلٹز، نالوں کے کنارے، کسی دکان کے سامنے اور اس جیسی جگہیں ہی موجود ہوتی ہیں۔ مقامی فلاحی ادارے جو مفت میں کھانا فراہم کرتے ہیں، اس سے ان کی کچھ بچت ضرور ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی بچت سر پر مناسب چھت کے حصول کے لیے ناکافی ہے۔

اتنی کم تنخواہ کمانے والے گھرانوں کے پاس رشتہ داروں کے ساتھ بنا کرائے کے رہنے یا پھر ان کے کرائے میں حصہ دار بننے کے ’اختیارات‘ بھی موجود ہوتے ہیں۔ بھرپور محنت کے باوجود یہ گھرانے اتنی بچت نہیں کرسکتے جس سے وہ رہائشی زمین یا پھر تعمیر شدہ مکانات خرید سکیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایسے لوگ کیسے گزر بسر کر پائیں گے کیونکہ یہ شہر تو انہیں زمین اور مکانات تک مہیا نہیں کررہا۔ اس شہر میں تقریباً 55 لاکھ افراد کو اسی چیلنج کا سامنا ہے۔

کئی بیرونی اور اندرونی عطیاتی ادارے صوبے کے ترقیاتی کاموں میں تعاون کر رہے ہیں۔ ان اداروں کا بنیادی اصول ہوتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بے دخل کیے گئے گھرانوں کو متبادل مکانات دیے جائیں۔ ہماری حکومت کو بھی بے دخل کیے گئے ہزاروں خاندانوں کے معاملے میں ایسا ہی کرنا چاہیے جو گھروں، اثاثے اور اس جیسی اہم ضروریاتِ زندگی تک رسائی کی امید کھونے کے بعد شدید مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔


یہ مضمون 26 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ڈاکٹر نعمان احمد

لکھاری کراچی میں مقیم ایک مدرس اور محقق ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔