نقطہ نظر

بم، پنجاب اور ڈی ایچ اے

آخر پی ٹی آیی دہشت گردوں سے ایسے کیوں شرماتی ہے جیسے نئی نویلی دلہن سسرال والوں سے

ضمنی انتخابات میں اے این پی کے بپھرے شیروں نے جناب غلام احمد بلور کی کامیابی پر خوشی اور غصے میں وہ فائرنگ کی جس کی گونج وزیرستان تک سنی گئی۔ جبکہ کراچی میں بھی پیپلز پارٹی کے شرجیل میمن اور دوسرے رہنماوں نے سانگھڑ، ٹھٹہ اور رحیم یار خان میں کامیابی پر فرط جذبات میں آکر بلاول ہاوس سے نکل کر خوب بغلیں بجائیں۔

پیپلز پارٹی کے ایک رہنما جناب سعید غنی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگرعام انتخابات چھہ مہینے کے بعد ہوجائیں تو پیپلزپارٹی پورے ملک میں کلین سوئیپ کردے گی۔ اب معلوم نہیں کہ صرف میں ہی اس کا مطلب یہ سمجھا یا باقی ملک کے عوام نے بھی ان کی بڑھک اینجوایے کی۔

ادھر کراچی کے حلقے دو سو چون میں متحدہ نے بھی یک طرفہ مقابلے میں کامیابی حاصل کرلی اور بقول فاروق ستار بھائی 'دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا'۔ متحدہ پر ٹھپہ لگانے اور گن پوائنٹ پر ووٹ ڈلوانے کا الزام لگانے والوں کے منہ بند ہوگئے۔

بہرحال ضمنی انتخابات میں ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ عوام نے دوبارہ ملک کی لبرل اور سیکولر قوتوں کو ووٹ دیا ہے۔ جبکہ عمران خان اور ان کی پارٹی خیبر پختونخواہ میں دہشت گردوں سے ایسے شرماتے ہیں جیسے کوئی نئی نویلی دلہن اپنے سسرال والوں سے شرماتی ہے۔ عمران خان ایک نیا کے پی کے (خیبر پختونخوا) بنانے کا اعلان تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اس نئے کے پی کے میں عملداری پاکستانی حکومت کی ہوگی یا طالبان کی۔

نون لیگ کے وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد اسمبلی میں فرماتے ہیں کہ منصوبہ بندی مکمل کر لی گئی ہے بس ہاتھ مارنے کی دیر ہے۔ جبکہ وزیر اعظم جناب نواز شریف صاحب فرماتے ہیں رہنے دو چوہدری صاحب اگر طالبان تین چھوٹے صوبوں میں تھوڑے بہت پٹاخے چھوڑ لیتے ہیں تو کیا ہوا، پاکستان کا سب سے بڑا محب وطن صوبہ تو محفوظ ہے ناں!

محترم ایاز میر صاحب اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ "آخر میں پاکستان میں بم، پنجاب اور ڈی ایچ اے بچ جائے گا"۔ بم کا تو پتہ نہیں لیکن پنجاب اور ڈی ایچ اے تو شروع ہی سے بچے ہوئے تھے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بنگال علیحدہ ہونے کے بعد بچ گیا۔

کہتے ہیں کہ سامراج کی ترقی کا راز تیسری دنیا کی کسمپرسی میں چھپا ہوتا ہے۔ اگر سندھ، بلوچستان اور کے پی کے جیسی کالونیاں نہیں رہیں تو ہمارے حکمرانوں کا شاہانہ اقتدار کیسے چلے گا؟

بات ضمنی انتخابات سے شروع ہوئی تھی جو پورے ملک میں فوج کی نگرانی میں کرائے گئے۔ فوج پولنگ اسٹیشن کے اندر باہر دونوں جگہ موجود تھی۔ دوران پولنگ چڑیا بھی اپنا پر نہ مار سکی سوائے پی ٹی آئی کے چند جذباتی نوجوانوں کے۔ یوں پورے ملک میں ضمنی انتخابات کو غیر متنازعہ، صاف اور شفاف قرار دیا گیا۔

جب یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے تو ہم اس سے کیوں روگردانی کرتے ہیں اور کیوں نہیں عام انتخابات بھی مکمل طور پر فوج کی زیرنگرانی کراتے۔ سابق چیف الیکشن کمیشنر فخرو بھائی نے تو فوج سے استدعا بھی کی لیکن نجانے کیوں فوج نے پولنگ اسٹیشن کے باہر ہی نگرانی کو بہتر سمجھا اور پولنگ اسٹیشن کے اندر ٹھپہ مافیا کو کھلی آزادی مل گئی۔

فوج کا یہ استدلال بھی جائز ہے کہ وہ ایک وقت میں پورے ملک میں ہونے والے انتخابات کی نگرانی نہیں کرسکتی وہ بھی اس وقت جب ملک کے شمال اور جنوب دونوں بارڈروں پر فوج کی اشد ضرورت ہو۔

آخر میں ہم سیاستدانوں، عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کروانا اتنا ہی ضروری ہے؟ کیا امریکہ کی طرز پر ہم مرحلہ وار انتخابات کا انعقاد نہیں کرواسکتے تاکہ انخابات کی شفافیت پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے؟

عام انتخابات میں پاکستان کی لبرل اور سیکولر سیاسی جماعتوں پر حملے کرنے والے طالبان حالیہ ضمنی انتخابات میں نہ جانے کس بنکر میں جاکر سو گئے اور کافرانہ اور ملحدانہ سوچ رکھنے والی قوّتیں پالا مار گئیں۔


خرم عباس
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔