نقطہ نظر

فیفا ورلڈ کپ اور سعودی-مراکش تعلقات کی تلخیاں

مراکش کی ٹیم اسٹیڈیم میں فلسطینی جھنڈا بار بار لہراتی نظر آئی، یہ واضح طور پر ان دو طاقتور اور نظریاتی اختلاف رکھنے والے مسلم ممالک کے درمیان کشیدگی کا اظہار تھا۔

قطر میں کھیلے جانے والے عالمی کپ کی جہاں ایشیا سے افریقہ تک دھوم مچی ہوئی ہے وہیں ایک ناگزیر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت اس طرح کی معیاری فٹبال کیوں نہیں کھیلتے؟

ماضی میں یہ دونوں ممالک ہاکی کے کھیل میں مہارت رکھتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ فٹبال کی طرح ہاکی کے کھیل میں بھی بہت زیادہ توانائی اور پُھرتی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ مخالف کھلاڑیوں کو چکما دے کے تیز رفتاری سے گیند کو لیکر آگے بڑھا جائے۔ لیکن بھارت اور پاکستان کے کھلاڑیوں میں شاید اتنی پُھرتی نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہاکی کے کھیل پر اب جنوبی ایشیا کی جگہ یورپ راج کرتا ہے۔

ہم کرکٹ میں دیکھتے ہیں کہ تیز ترین کھلاڑی بھی 22 گز کی پچ پر دوڑ کر زیادہ سے زیادہ 3 اور کبھی کبھی 4 رنز ہی بنا پاتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت، پاکستان اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے پاس تو شاید فٹبال جیسے کھیل میں بال کے پیچھے بھاگنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوگی۔ جاپانی اور جنوبی کوریا کے کھلاڑی فٹبال میں حریف ٹیموں کے کھلاڑیوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کھیل میں ظاہری قد کاٹھ کا بہت زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا۔

تو کیا اس کا تعلق غذائیت سے ہے؟ کیونکہ دونوں ہی ممالک میں بھوک کی شرح ایک جیسی ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھوک کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے، یہاں بچے غذائیت کی کمی کا شکار بھی زیادہ ہوتے ہیں اور ان کی جسمانی نشونما بھی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ افغانستان وہ واحد ملک ہے جو اس خطے میں بھارت سے پیچھے ہے۔

شاید بھارت کے لیے بہترین رنر کے انعامات جیتنے والی پی ٹی اوشا یا شائنی ابراہم کے پاس اس سوال کا درست جواب ہو۔

لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے۔ درحقیقت یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان اور بھارت قطر فیفا ورلڈ کپ کا حصہ نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ذرا سوچیں کہ جس عداوت کا اظہار یہ دونوں ممالک کرکٹ کے میدان میں کرتے ہیں وہ ہمیں فٹبال کے میدان میں بھی دیکھنے کو ملتی۔ فٹبال کی وجہ سے تو ممالک میں جنگ تک چِھڑ چکی ہے، لہٰذا یہ اچھا ہی ہے جو بھارت اور پاکستان فٹبال نہیں کھیلتے ورنہ اس دشمنی میں مزید اضافہ ہوتا۔

آج کا تنگ نظر اور قوم پرست بھارت شاید پاکستان میں کرکٹ کھیلنا نہ چاہے اور نہ ہی وہ پاکستانی کھلاڑیوں کو اپنی ڈومیسٹک کرکٹ میں کھیلنے کا موقع دے۔ یہ سب بھارتی حکومت کے اندرونی سیاست چمکانے کے ہتھکنڈے ہیں۔ یہ بچگانہ حرکتیں دونوں ممالک کے بیچ سیاسی عداوت کو مزید ہوا دیتی ہیں جو فٹبال کے کھیل پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہیں۔

یہاں 1969ء میں ہونڈوراس اور ایل سیلواڈور کے بیچ ہونے والی مختصر جنگ کی کہانی تو شاید آپ نے سنی ہی ہو جو فٹبال میچ میں اختلافات کے سبب چِھڑی تھی۔ ان دونوں ممالک کے بیچ جنگ 100 گھنٹے چلی اور اسے ’فٹبال وار‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں بااثر لاطینی امریکی ممالک کا اہم کردار رہا اور یوں جنگ بندی عمل میں آئی۔

یہ بات بہت کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب فٹبال کی وجہ سے دو عرب ممالک، سعودی عرب اور کویت کے درمیان بھی جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس حوالے سے انٹرنیٹ پر اتنی معلومات بھی نہیں ملتی لیکن یہ حقیقت ہے کہ فٹبال میچ کے سبب پیدا ہونے والے اس جھگڑے کی وجہ سے خلیج تعاون تنظیم (جی سی سی) ٹوٹنے سے بال بال بچی تھی جس کے یہ دونوں ممالک رکن تھے۔ بعدازاں، خلیجی ممالک کی اس تنظیم کے جنرل سیکرٹری عبداللہ بشارہ نے مختلف خلیجی ممالک کا دورہ کیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان امن بحال کیا جاسکے۔

ان دونوں ممالک کے تعلقات اس لیے بگڑے تھے کیونکہ جی سی سی کی جانب سے منعقد ہونے والے فٹبال مقابلوں میں کویتی وفد نے میزبان سعودی عرب کا مذاق اڑایا۔ یہ مذاق کچھ یوں اڑایا گیا کہ کویتی وفد سفید گھوڑوں کی تصویر دکھاتا رہا جو حجاز پر ترک قبضے کی جانب اشارہ تھا، اُس وقت موجودہ سعودی عرب کا ایک حصہ حجاز کہلاتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ کویت اس وقت اپنے پڑوسی ممالک سے پہلے ہی تیل دریافت کرچکا تھا اس لیے وہ معاشی طور پر مستحکم تھا۔ جبکہ 1979ء کے دوران ایران میں رضا شاہ کے زوال کے بعد سعودی عرب کو ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے کا موقع ملا۔ ماضی میں یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی تھی کہ کویت پر صدام حسین کے حملے نے سعودی عرب کو صرف اس وجہ سے پریشان کیا کیونکہ اسے خطرہ تھا کہ کہیں صدام حسین سعودی عرب پر بھی حملہ نہ کردے۔

فٹبال کی وجہ سے جن ممالک کے درمیان ایک اور ممکنہ تنازع دیکھنے میں آسکتا ہے وہ سعودی عرب اور مراکش ہیں۔ اس سے قبل سعودی عرب 2026ء کے عالمی کپ میزبانی کے لیے مراکش کی بولی کی مخالفت کرچکا ہے۔ قطر کو میزبانی ملنے پر بھی سعودی عرب نالاں تھا لیکن اس نے مراکش کی 2026ء کی میزبانی کی راہ میں سخت رکاوٹیں ڈالیں جس کے نتیجے میں کینیڈا، امریکا اور میکسیکو کو مشترکہ طور پر 2026ء کے عالمی کپ کی میزبانی کا موقع مل گیا۔

جیسے بھارت اور پاکستان اکثر کشمیر کو اپنے نقشے میں شامل کرکے تنازعات کو ہوا دیتے ہیں اسی طرح سعودی عرب نے بھی ایسا ہی کیا۔ سعودی عرب نے وسطی صحراوی جمہوریہ کو الگ ریاست کے طور پر دکھایا جبکہ مراکش اس حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا۔

تعلقات میں اس اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں ہی مراکش نے سعودی عرب اور یمن جنگ سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تھا۔ سعودی عرب نے بھی مراکش کے اس فیصلے کے ردِعمل کے طور پر سعودی بادشاہ کا دورہ مراکش منسوخ کردیا جبکہ سعودی عرب کے بادشاہ گرمیوں کی چھٹیاں مراکش میں گزارتے تھے۔

مراکش نے ترکی میں صحافی جمال خشاقجی کے بے رحمانہ قتل کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی حمایت کرنے سے بھی انکار کردیا تھا جبکہ انہیں اس وقت عرب ممالک سے حمایت کی ضرورت تھی۔

دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا آغاز 2018ء میں ماسکو میں ہوا جہاں 2026ء کے عالمی کپ کی میزبانی کے لیے مراکش نے بولی لگائی تھی اور سعودی عرب نے اس کی مخالفت کی۔ عالمی کپ میں ناقابلِ شکست رہنے والی مراکش کی ٹیم اسٹیڈیم میں فلسطینی جھنڈا بار بار لہراتی نظر آئی، یہ واضح طور پر ان دو طاقتور اور نظریاتی اختلاف رکھنے والے مسلم ممالک کے درمیان کشیدگی کا اظہار تھا۔

1981ء میں مراکش کے شہر فاس میں منعقد ہونے والے عرب ممالک کے سربراہی اجلاس میں مراکش نے پہلی بار اپنا فہد پلان پیش کیا تھا جس میں ایک الگ فلسطینی ریاست کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت کی گئی تھی۔ مراکش کے بادشاہ حسن دوم خود قدس کمیٹی کے سربراہ منتخب ہوئے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ یروشلم فلسطین کا حصہ رہے۔ تاہم اس کے بعد سے بہت سی چیزیں تبدیل ہو چکی ہیں۔

سعودی عرب نے اسرائیل سے دوستی تو کرلی ہے لیکن اس میں فلسطین کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ مراکش کی ٹیم سعودی عرب کے اسی وعدے کا مذاق اڑا رہی تھی۔ حتیٰ کہ قطر، جو اخوان المسلمین اور حماس کے قریب ہے وہ بھی آزاد فلسطینی ریاست کے حق میں ہے۔ قطر فٹبال کے کھیل میں آگے بڑھنے کے لیے فلسطین کی حمایت کرتا ہے۔

اس بات کے قطع نظر کہ پاکستان اور بھارت خود کو عالمی فٹبال ٹیموں کے مقابلے کا سمجھتے ہیں یا نہیں، فلسطین نے اپنی غیر معمولی عالمی حیثیت کو کبھی بھی فٹبال کے لیے اپنے جذبے کے آگے رکاوٹ بننے نہیں دیا۔ فیفا کے رکن کے طور پر شاید فلسطین بھی مستقبل قریب میں ہمیں حیران کردے جس طرح اس عالمی کپ میں ہمیں مراکش نے حیران کیا ہے۔


یہ مضمون 13 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔