نئے سپہ سالار کی آمد: ’چین و امریکا سے پہلے پاکستان کو اہمیت دی جائے گی‘
سیاست سے دلچسپی رکھنے والے کارکنوں اور بہت ہی بڑی تعداد میں عام شہریوں کے لیے کل کا دن ایک خوشگوار اور غیر ہیجانی دن بن کر گزرا۔ سازشی ذہن بہت آزمودہ طریقہ اختیار کرتے رہے مگر جوں جوں دن بڑھتا گیا ایسے عوامل کو مایوسی ہوتی رہی۔
کئی مہینوں سے بڑھتی ہوئی کشیدگی نے بھی دم بھر سانس لیا اور یکدم سیاسی درجہ حرارت نہ صرف کم ہوا بلکہ نارمل ہوگیا۔ یاروں کا خیال تھا کہ کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوگا، کچھ نہ ہوا تو بھی صدر 25 دن تک صورتحال کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کریں گے۔ کوئی نہ کوئی عدالت میں ضرور جائے گا اور ممکن ہے سیاسی محاذ آرائی اس قدر بڑھ جائے کہ سیاست کی بساط بھی لپیٹ دی جائے مگر کسی نے بھی عمران خان کے اس بیان پر غور نہیں کیا کہ ہم آئین کے دائرہ میں کھیلیں گے، عارف علوی میری جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارا رابطہ رہتا ہے۔
پھر عارف علوی کے ساتھ اسحٰق ڈار کی ملاقات بامقصد تھی اور پس پردہ کام اور رابطے ہورہے تھے۔ جناب عمران خان میرٹ کی بات کرکے پھنس گئے تھے۔ غالباً اسی ملاقات میں یہ بات طے ہوئی تھی کہ اس پورے معاملے میں کوئی بھی بدمزگی نہیں ہونے دی جائے گی اور جس دن سمری بھیجی جائے گی اسی دن اس پر دستخط بھی ہوجائیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ اس معاملے میں سابق صدر آصف زرداری سے وزیرِاعظم شہباز شریف کی ملاقات نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، جو کسی حد تک ٹھیک بھی ہے۔ آصف زرداری کی خواہش تو یہ تھی کہ لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر (کمانڈر گوجرانوالہ کور) کو اس منصب کے لیے لایا جائے جو ان کے ملٹری سیکرٹری رہ چکے ہیں، لیکن اس معاملے میں کوئی بھی مسئلہ نہ پیدا ہو یا عدالتی دروازہ نہ کھٹکھٹایا جائے، اس لیے یہی طے ہوا کہ جو سینیئر موسٹ ہیں انہیں ہی اس منصب پر لگایا جائے۔
اتحادیوں نے بھی میرٹ پر نمبر ایک اور 2 کا انتخاب کرکے نہ صرف سبھی کے لب سی دیے بلکہ ملک کی تاریخ میں نئی مثال قائم کردی اور صدر نے بھی احسن اقدام اٹھایا جو قابلِ تحسین ہے۔
ایوب خان کی تعیناتی میرٹ پر تو نہیں تھی، موسیٰ خان بھی ایسے ہی تھے۔ یحییٰ خان بھی میرٹ پر پورا نہ اترتے تھے۔ گویا کبھی کوئی بھی سینیئر موسٹ چیف نہیں بن سکا۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ سینیئر موسٹ آرمی چیف بن گئے۔ زمانہ پہلے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف فضائیہ اور نیوی سے بھی بنتے تھے مگر جانے کب رولز تبدیل ہوئے۔ ہر آرمی چیف کے ساتھ کوئی نہ کوئی کہانی ضرور منسوب ہے۔
گزشتہ روز جو کچھ ہوا اس کی تو جزئیات بھی وقت سے پہلے ہوچکی تھیں۔ تمام احتیاطی تدابیر احتیار کی جاچکی تھیں کیونکہ عمران خان نئے آرمی چیف کو بھی متنازعہ بنانے کی گردان کررہے تھے مگر میرٹ کے ہاتھوں ایسی شے کھائی کہ عزت محفوظ کرنے میں دیر نہ کی۔
جہاز وزیرِاعظم کا، سوار عارف علوی اور ملاقاتی عمران خان، گویا حکومت اور صدرِ پاکستان نے عمران خان کو فیس سیونگ کا موقع بر محل وقوع پذیر کردیا۔
نئے آرمی چیف 4 سال تک سعودی عرب میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرچکے ہیں اور پاکستان کے پہلے اور واحد آرمی چیف ہیں جو ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے جنرل احسان الحق بھی ان دونوں ذمہ داریوں پر پورا اترے مگر وہ چیئرمین چیف آف اسٹاف رہے جبکہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی ڈی جی آئی ایس آئی تو رہے تھے مگر ڈی جی ایم آئی نہیں تھے۔
عربی، انگریزی اور اردو بولنے والے حافظ عاصم منیر کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ 45 سال کی عمر میں حفاظ کی فیملی میں ایک اور کا اضافہ کرکے رکوع، سجود کے ایسے پابند ہوئے کہ مثال دی جاسکتی ہے۔ کم گو جنرل بات تو پوری سنتا ہے مگر سوچ نہ صرف متوازن ہے بلکہ شدت پسندی کے بھی خلاف ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ خون کا بدلہ ہر صورت لینا ان کے ایمان کا حصہ ہے اور ردالفساد کی پلاننگ بھی موصوف نے کی تھی۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا بھی جانتا ہے اور کوئی ذاتی ایجنڈا بھی نہیں۔
اساتذہ علم و تدریس سے تعلق رکھنے والے خاندان کے ایک فرد کے طور پر کتابوں کا مطالبہ بھی معمول ہے۔ قرآن تو سینے میں ہے مگر زبان پر کلام اقبال بھی کثرت کے ساتھ رہتا ہے۔ ان کے گھرانہ کے لوگ اب بھی معلم ہیں اور ان کے والد بھی تدریسی ذمہ داریاں ادا کیا کرتے تھے۔
فوجی افسران کی کثرت کاکول سے تربیت لیتی ہے مگر عاصم منیر آفیسرز ٹریننگ اسکول جہلم سے تعلق رکھتے ہیں اور بطور کیڈٹ آفیسر اعزاز شمشیر سے بھی نوازے گئے۔ بطور پاکستانی اور فوجی بھارت کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے ہیں جس کا وہ مستحق ہے اور اس کے لیے ان کی گلگت میں جی او سی کے طور پر مثال دی جاتی ہے۔
عزت اور فوج کی عزت پر سب قربان کردینے کا عزم رکھنے والے پاکستان کے نئے سپہ سالار کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ جدید و قدیم، دائیں اور بائیں، سیاسی اور جنرل آفیسر، عام و خاص میں توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت کے مالک ہیں۔
ان سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ ان کے معاشی معاملات شک وشبہ سے بالاتر ہیں اور اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ سرکاری وسائل ذات کی سطح پر خرچ کیے جائیں۔ ملک کے ایک خاص علاقے کے لوگوں کو ان کی ریشہ دوانیوں کے باوجود اس بات کی اجازت دی کہ وہ خود کو قانون کے تابع کرلیں اور اس کے لیے ان کے علاقے کو سہولیات بھی لے کر دیں اور بات بھی سنی اور ان کو ان کے روایتی طربقہ کے مطابق ان کی معاشرت کے تحت زندگی پُرسکون گزارنے کی اجازت بھی لے کردی اور پھر بھی کوئی پابند نہ رہا تو برابر کا سلوک روا رکھا گیا۔
میری معلومات کے مطابق امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات پر بعد میں بات کی جائے گی، پہلی ترجیح یہی ہوگی کہ گھر کی صورتحال کو ٹھیک کیا جائے، جب یہ کام ہوجائے گا تب ہی باہر کے معاملات پر بات ہوگی، لیکن پہلی ترجیح پاکستان اور پاکستانیوں کے مفاد، عزت، خودداری، امن، قانون کی بالادستی اور عوام کی رائے کے احترام کو ہی دی جائے گی۔
یہ بھی ان کے ایک ساتھی نے بتایا کہ چونکہ ذاتی ایجنڈا نہیں ہے اور صرف پاکستان ہی ایجنڈا ہے تو کسی سے شخصیت کا مقابلہ کرنا مناسب نہیں۔ یہ اپنی مثال خود ہوں گے اور کبھی کبھی راحیل شریف کا شائبہ ہوگا۔ وطن سے غداری یا محبت نہ رکھنے والوں کے لیے زمین تنگ ہوسکتی ہے اور روایت پسندی نہیں جدت کے ساتھ معاملات طے ہوں گے۔ برداشت کی ایک حد ہوگی اور پھر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ ساتھ اگر یہ بھی کہہ دوں تو ٹھیک ہی رہے گا کہ وہ اپنی 3 سالہ مدت سے ایک دن پہلے ہی الوداع کہہ دیں گے، یعنی ایکسٹینشن کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔
نئے چیف کو مسائل تو بے شمار حل طلب ملیں گے مگر ان کی کمان میں فوج کے غیر جانبدار ہونے کے بھی امکانات بہت زیادہ ہیں۔
عظیم چوہدری سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس ہے ma.chaudhary@hotmail.com اور آپ ٹوئٹر پر یہاں MAzeemChaudhary@ ان سے رابطہ کرسکتے ہیں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔