نقطہ نظر

سینٹورس مال میں آگ لگنے کا واقعہ: غلطی کہاں اور کس سے ہوئی؟

فوڈ کورٹ میں لگنے والی معمولی آگ کیسے پورے پلازے تک پھیلی اور اسلام آباد کے ادارے کیوں اسے روکنے میں ناکام رہے؟

فلیٹ یا مکان؟ یہ سوال بڑے شہروں میں مزدوری کرنے والوں کے سامنے کبھی نہ کبھی آہی جاتا ہے۔ 10 سال فلیٹ میں رہنے کی وجہ سے میں تو فلیٹ کا حامی تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو آپ کو شہر کے قریب مناسب کرائے پر رہائش مل جاتی ہے، دوسرا سیکیورٹی جیسے مسائل بھی کسی محلے میں مکان کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہیں۔

لیکن گزشتہ ہفتے میں نے کچھ ایسے مشاہدات کیے ہیں جس کے بعد میری رائے میں تبدیلی آگئی ہے۔ اپنا نقطہ نظر سمجھانے سے پہلے مناسب ہوگا کہ آپ کو سیاق و سباق سے آگاہ کردوں۔

میں گزشتہ اتوار گھر پر تھا جب بیگم نے اسلام آباد کے سب سے بڑے شاپنگ مال سینٹورس میں آگ لگنے کی خبر بریک کی۔ آگ کسی بھی وقت اور کہیں بھی لگ سکتی ہے لہٰذا میں نے واقعے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی لیکن جب بیگم نے سوشل میڈیا پر آگ کے دبیز بادلوں میں گھری فلک بوس عمارت کی ویڈیوز دکھائیں جن میں سینٹورس میں شہری سراسمیگی کے عالم میں شاپنگ سینٹر سے باہر نکلنے کے لیے دوڑ رہے ہیں تو تشویش ہوئی۔

مزید پڑھیے: آتشزدگی سے ڈیڑھ ماہ قبل سینٹورس مال کے جلنے کی تصویر بنانے والے آرٹسٹ پر تنقید

لیکن مین اسٹریم میڈیا پر اس حوالے سے گھنٹوں تک خاموشی دیکھ کر مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ آپ کہیں گے کہ اس کے پیچھے پلازے کے مالک کا رعب ہوگا کیونکہ سینٹورس مال مشہور سیاستدان، بزنس مین اور آزاد جموں کشمیر کے وزیرِاعظم سردار تنویر الیاس کی ملکیت ہے۔

لیکن مجھے حیرانی نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے، بلکہ میری رائے میں اس کی وجہ اتوار کے روز میڈیا ہاؤسز میں افرادی قوت کی کمی ہوسکتی ہے۔ سرکاری چھٹی کے دن ٹی وی دفاتر عام طور پر خالی ہوتے ہیں۔ کہیں خانہ پُری کے لیے ایک دو جونیئر رپورٹرز ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔ مگر ہاں، آگ لگتے ہی پوری شہری انتظامیہ منٹوں میں کیسے جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اس کے پیچھے ضرور مالک کا رعب ہوسکتا ہے۔

میرے کان اس وقت مزید کھڑے ہوگئے جب سوشل میڈیا پر بتایا گیا کہ تیزی سے پھیلتی آگ کو بجھانے کے لیے فوج کی خدمات طلب کرلی گئیں ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ بات شہری انتظامیہ کے بس سے باہر ہوگئی ہے۔

فوڈ کورٹ کے باورچی خانے میں لگنے والی معمولی آگ کیوں اور کیسے پورے پلازے تک پھیل رہی ہے اور اسلام آباد کے ادارے کیوں اسے روکنے میں ناکام رہے ہیں؟ یہ سوال ذہن میں آنا تھا کہ 2008ء میں میریٹ دھماکا میری نظروں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگا۔

اس وقت میں انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز میں کرائم رپورٹر تھا۔ اس وقت جوانی تھی اور کام کا جنون بھی تھا تو میں سب سے پہلے جائے حادثہ پر پہنچنے والے صحافیوں میں سے ایک تھا۔

میں نے 2001ء میں افغانستان میں ہونے والی جنگ بھی کور کی ہے اور اسلام آباد میں ہونے والے اکثر دھماکے بھی لیکن میریٹ جیسا مہلک اور تباہ کن دھماکا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

مزید پڑھیے: سینٹورس مال آتشزدگی کا مقدمہ درج، تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل

ان دنوں آئے روز دھماکے ہوتے تھے۔ کئی دھماکے کور کرنے کے بعد کافی تجربہ ہوچکا تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ دھماکے کے جھٹکے کو محسوس کرکے آواز کی سمت جیپ دوڑاتے جب میں میریٹ پہنچا تو کہیں کوئی آگ نہیں تھی لیکن میرے دیکھتے ہی دیکھتے ہوٹل کے ایک کمرے میں آگ لگی جو پہلے منزل اور پھر ہوٹل کی دیگر منزلوں تک پھیل گئی مگر ہوٹل کے عقب میں آگ بجھانے والی کرین اور سارا عملہ خاموش تماشائی بنے کھڑے رہے۔

اس وقت ہمیں بتایا گیا کہ سی ڈی اے کے پاس بلند عمارتوں تک پہنچنے کے لیے لفٹ ہی نہیں ہے۔ آگ بجھانے والی چند گاڑیاں تھیں جو متروک ہونے کے قریب قریب تھیں اور عملہ بھی ناکافی اور غیر تربیت یافتہ تھا۔

پھر میرے دماغ میں گھگڑ پلازہ اور بلیو ایریا میں واقع ایک بلند عمارت میں آتشزدگی کے واقعات گھومنے لگے۔ لوگوں نے آگ سے بچنے کے لیے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ بچ نہیں پائیں گے، چھٹی اور ساتویں منزل سے چھلانگیں لگا دی تھیں۔

ماضی سے باہر آیا تو سوچنے لگا کہ گزشتہ 15 سالوں میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ تو کیا ہماری شہری انتظامیہ کے پاس آج کے جدید دور میں بھی آگ بجھانے کے آلات اور عملہ نہیں ہے؟

کئی گھنٹوں تک لگی رہنے والی آگ میرے تمام سوالات کا جواب تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس واقعے پر ایک تحقیقی رپورٹ کروں۔ میں کئی سال سے سیاست، معیشت اور دوسرے قومی معاملات پر لکھ رہا ہوں۔ بہرحال تگ و دو کرکے شہری انتظامیہ اور متعلقہ اداروں میں موجود افسران کے نمبر حاصل کیے۔

10 سال کے بعد جب میں متعلقہ وزارت میں داخل ہوا تو سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا 10 سال پہلے تھا۔ وہی اکتائے ہوئے اور مہنگائی کا رونا روتے، موبائل سے کھیلتے، اچھی محکمانہ سالانہ رپورٹ (اے سی آر) اور دولت کی خواہش رکھنے والے افسران۔ سب یہ جاننے کے لیے بے چین تھے کہ موجودہ حکومت کتنے روز کی مہمان ہے اور معیشت کب ٹھیک ہوگی۔

ان تمام سوالات کے جوابات دیتے مجھے میرے جواب بھی مل گئے۔

معلوم ہوا کہ شہری انتطامیہ آج بھی کم و بیش اسی قدر بے بس ہے جتنا 15 سال پہلے تھی۔ آلات تو خریدے گئے اور نئی بھرتیاں بھی ہوئیں لیکن تیزی سے بڑھتی آبادی کی وجہ سے اداروں کی صلاحیت میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہیں ہوسکا۔

آگ بجھانے والے ادارے کے پاس موجود وسائل کی فہرست مجھے مل چکی تھی اور اب سرکاری مؤقف درکار تھا۔ لہٰذا ڈی سی کو متعدد بار فون کیا مگر انہوں نے نہیں اٹھایا۔ پھر تحریری پیغام بھیجا جس کے بعد انہوں نے اگلے دن صبح 10 بجے صبح ملاقات کا وقت دیا۔

میں مقررہ وقت پر دفتر پہنچا تو لوگ نہ ہونے کے برابر تھے، مگر اچھی بات یہ تھی کہ ڈی سی صاحب اپنے دفتر میں موجود تھے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جانے کے بعد نئی حکومت نے رواج کے مطابق تقریباً تمام اہم عہدوں پر نئے افسر تعینات کردیے ہیں۔ ملک میں چھائی سیاسی غیر یقینی اور بڑھتی مہنگائی میں یہ نئے افسر محض وقت کو دھکا دے رہے ہیں، اور شاید یہ ٹھیک بھی ہے کہ سختی کرکے آخر کیوں تاجر برادری، مافیاؤں اور تگڑی اپوزیشن سے دشمنی پالیں؟

ڈی سی صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ ’جی بتائیے‘، وہ چھوٹتے ہی سپاٹ چہرے کے ساتھ بولے۔

میں سینٹورس آتشزدگی پر رپورٹ کر رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آگ اس لیے پھیلی کہ مال میں آگ بجھانے والے آلات سرے سے موجود ہی نہیں تھے اور شہری انتظامیہ اس لیے کئی گھنٹوں تک آگ پر قابو نہیں پاسکی کیونکہ اس کے پاس بلند عمارتوں تک پہنچنے والے آلات ہی نہیں۔

ڈی سی صاحب کے چہرے سے عیاں زہانت اور فطانت بھانپتے ہوئے میں نے کسی تمہید کے بغیر براہِ راست سوال داغ دیا۔

اگلے 3 منٹ بعد میں مطلوبہ سوالات کے جوابات کے ساتھ ڈی سی صاحب کے کمرے سے باہر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’شہری انتظامیہ کے پاس سب سے بلند برقی سیڑھی 68 میٹر طویل ہے جس سے 200 فٹ تک کی اونچائی تک پہنچا جاسکتا ہے اور وہ اس پر تبصرہ نہیں کرسکتے کہ اسلام اباد کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 26 منزلہ عمارتیں سینٹورس مال اور کونسٹی ٹیوشن ون کیسے تعمیر ہوئیں؟‘

مزید پڑھیے: اسلام آباد سینٹورس مال میں آتشزدگی، تحقیقات کے لیے 7 رکنی کمیٹی تشکیل

اسلام آباد میں سینٹورس مال اور کونسٹی ٹیوشن ون نامی عمارتیں ہی 200 فٹ سے طویل نہیں ہیں بلکہ کئی دوسرے پلازے بھی ہیں جو 200 فٹ سے بہت اونچے ہیں اور کئی تو اب بھی زیرِ تعمیر ہیں۔

اب میری منزل شہری انتظامیہ کا دفتر تھی۔ تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ کئی بااثر افراد نے بلند پلازوں کی اجازت اس یقین دہانی پر حاصل کی تھی کہ وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق حادثات سے بچاؤ کے انتظامات کریں گے۔

کسی پلازے میں آگ لگنے کی صورت میں انخلا کا مؤثر نظام سب سے اہم مانا جاتا ہے۔ مگر پتہ چلا ہے کہ شہر کی کسی عمارت میں نہ تو ایسا مؤثر نظام موجود ہے اور نہ ہی آگ کی صورت میں اقدامات کی مشق کروائی جاتی ہے۔

تو کیا سینٹورس یا کونسٹی ٹیوشن ون میں 8 سے 10 کروڑ روپے کا 2 بیڈ اپارٹمنٹ خریدنے والوں کو آگ یا کسی قدرتی آفت سے کوئی تحفظ نہیں ہے؟

شہر میں ہزاروں کی تعداد میں کھڑے تمام پلازے کیا اتنے ہی غیر محفوظ ہیں؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات نے میرے رونگھٹے کھڑے کردیے ہیں۔ مگر اس مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار کون ہے جو دھڑا دھڑ پلازوں کے اجازت نامے چھاپ رہا ہے یا وہ جنہوں نے اداروں کو فعال نہیں کیا۔

سی ڈی اے افسران سے معلوم کیا تو شعبہ تعلقات عامہ کا گھسا پٹا جواب آگیا۔ سی ڈی اے ترجمان کے مطابق دونوں پلازوں کی تعمیر میں کچھ بھی غیر قانونی نہیں ہوا اور وہ آگ کے حوالے سے بننے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد ہی مؤقف دیں گے۔

میری دعا ہے کہ میری تحقیق غلط ہو اور خدا آگ سمیت کسی بھی آفت سے سب کو محفوظ رکھےمگر اس سب کے باجود اب فلیٹ کی زندگی سے اچاٹ ہوگیا ہوں اور آپ کو بھی کسی مکان میں منتقل ہونے کا مشورہ دوں گا۔

عاطف خان

صاحب تحریر صحافی ہیں اور ملکی اور غیر ملکی اداروں کے لیے خدمات دے چکے ہیں۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: atifjournalist@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔