لائف اسٹائل

’لکس ایوارڈز‘ کی میوزک کیٹیگری میں خواتین کو نامزد نہ کرنے پر شخصیات برہم

’سنگر آف دی ایئر، سانگ آف دی ایئر، موسٹ اسٹریمنگ سانگ اور بیسٹ لائیو پرفارمنس‘ میں ایک بھی خاتون کو نامزد نہیں کیا گیا تھا۔

پاکستان کے معروف ترین ’لکس اسٹائل ایوارڈز‘ کے لیے نامزدگیوں کا اعلان کردیا گیا، جس میں حیران کن طور پر موسیقی کی چار مختلف کیٹیگریز میں ایک بھی خاتون کو نامزد نہیں کیا گیا۔

ایوارڈز میں میوزک کی چار کیٹیگریز میں ’سنگر آف دی ایئر، سانگ آف دی ایئر، موسٹ اسٹریمنگ سانگ آف دی ایئر اور بیسٹ لائیو پرفارمنس‘ میں ایک بھی خاتون کو نامزد نہیں کیا گیا۔

مذکورہ چاروں کیٹیگریز میں صرف مرد حضرات کو نامزد کیے جانے پر میوزک اور شوبز سے وابستہ شخصیات نے لکس اسٹائل ایوارڈز انتظامیہ اور کمپنی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شوبز شخصیات کی تنقید کے بعد لکس اسٹائل ایوارڈز کی ویب سائٹ سے نامزدگیوں کی فہرست ہٹا دی گئی اور انسٹاگرام پر پیغام جاری کیا گیا کہ ایوارڈز کی ویب سائٹ تکنیکی خرابی کا شکار ہوگئی ہے۔

میوزک کی چاروں کیٹیگریز میں خواتین کو نامزد نہ کیے جانے پر متعدد گلوکاراؤں نے لکس اسٹائل ایوارڈز کو آڑے ہاتھوں لیا اور لکھا کہ حیرت ہے کہ ایوارڈز جیوری کو کوئی ایک بھی قابل خاتون نامزدگی کے لیے نہ ملی۔

گلوکارہ مومنہ مستحسن نے اپنی انسٹاگرام اسٹوری میں لکس اسٹائل ایوارڈ کو آڑے ہاتھوں لیا اور لکھا کہ صابن میں خواتین کو دکھا کر پیسے کمانے والی کمپنی نے ایوارڈ کے لیے خواتین کو ہی پیچھے دھکیل دیا۔

انہوں نے اسٹوری میں لکھا کہ میوزک کی کیٹیگریز میں خواتین کو نامزد نہ کرنا شعوری اور لاشعوری فیصلہ ہوسکتا ہے لیکن یہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے، یہ فیصلہ ملک کی نصف آبادی کی صنف سے انکار پر مبنی ہے۔

مومنہ مستحسن نے لکھا کہ اگرچہ لکس صابن بنانے والی کمپنی کے اعلیٰ عہدوں پر بھی خواتین براجمان ہیں اور کمپنی میں متعدد ملازمین بھی خواتین ہیں لیکن اس باوجود ایوارڈز میں خواتین کو نامزد کرنا بھی پسند نہیں کیا گیا جو کہ خواتین کے خلاف نفرت کو ظاہر کرتا ہے۔

ان کی طرح گلوکارہ میشا شفیع نے بھی لکس اسٹائل ایوارڈز کو آڑے ہاتھوں لیا اور لکھا کہ ایوارڈز میں ایک بھی خاتون شاعرہ یا موسیقار کو نامزد نہ کرکے 10 کروڑ خواتین کو نظر انداز کردیا گیا۔

انہوں نے لکھا کہ لکس اسٹائل ایوارڈز کی جیوری نے خواتین کو نظر انداز کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خواتین قابل نہیں، انہیں اہمیت نہیں دی جا سکتی، وہ بھلانے کے لیے ہی ہیں۔

میشا شفیع نے اپنی انسٹاگرام اسٹوری میں متعدد خواتین گلوکاروں کو مینشن کرتے ہوئے انہیں بھی مذکورہ مسئلے پر بات کرنے کی دعوت دی۔

گلوکارہ زیبا بنگش نے میشا شفیع کی اسٹوری کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ خواتین کے بل بوتے پر چنے والے برانڈ کی جانب سے ہی خواتین کو نظر انداز کرنا سمجھ سے بالاتر ہے اور یہ خواتین کے خلاف نفرت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ اگرچہ کسی بھی باصلاحیت فنکار کے لیے ایوارڈ میں نامزدگی کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن خواتین کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا غلط ہے۔

گلوکارہ رچل وکاجی نے بھی لکس اسٹائل ایوارڈز کی میوزک کیٹیگریز میں خواتین کو نامزد نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار کیا اور ایوارڈ جیوی سے سوال کیا کہ خواتین کے کام کو کیوں تسلیم نہیں کیا گیا؟

گلوکارہ نتاشا نورانی نے بھی خواتین کو نامزد نہ کیے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایوارڈ جیوری کو مردانہ کلب قرار دیا۔

گلوکارہ ماریہ عنیرا نے بھی خواتین کو نظر انداز کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ کمپنی اپنے صابن تو خواتین کے سہارے ہی فروخت کرتی ہے مگر اس نے میوزک کی کیٹیگریز میں خواتین کو نامزد تک نہیں کیا۔

ان کی طرح دیگر گلوکاراؤں نے بھی لکس اسٹائل ایوارڈز کی نامزدگیوں میں خواتین کو نامزد نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار کیا، جس پر تاحال ایوارڈ منتظمین نے کوئی جواب نہیں دیا، البتہ نامزدگیوں کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔

ہمایوں سعید کے ’دی کراؤن‘ کا حصہ بننے کی تصدیق

’ٹچ بٹن‘ کی پروموشن کے دوران عروہ حسین اور فرحان سعید کا محتاط انداز

طویل عرصے بعد ’ٹچ بٹن‘ کا ٹریلر جاری، آئندہ ماہ ریلیز کرنے کا اعلان