’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘: پاکستانی فلمی صنعت کی نشاۃ ثانیہ
پاکستانی فلمی صنعت کے 75 سالہ سفر میں، اب تک بننے والی سب سے مہنگی فلم کا نام ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ ہے، جو آج بروز 13 اکتوبر 2022ء کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریلیز ہورہی ہے۔
یہ فلم 1979ء میں ریلیز ہونے والی سپرہٹ فلم ’مولا جٹ‘ کا سیکوئل یا ری میک تو نہیں ہے، بلکہ اس فلم کے کرداروں پر مبنی ایک نئی کہانی کو تخلیق کیا گیا ہے، جس کو فلم کی زبان میں ری بوٹ کہا جاتا ہے۔
امید یہ کی جارہی ہے کہ یہ فلم بین الاقوامی سینما میں پاکستان کے لیے نئی شناخت حاصل کرے گی۔ ایک محتاط اندازے اور غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق 70 کروڑ روپے کے بجٹ سے بنائی گئی اس فلم کے بارے میں مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت میں بننے والی یہ فلم محض ایک فلم ہی نہیں ہے، بلکہ ایک دور ہے جس میں ہماری فلمی صنعت داخل ہورہی ہے۔ یہ ایک ایسا دور ہے جس میں فلم بنانے کے تمام جدید تقاضے پورے کرتے ہوئے اس فلم ساز نے پاکستان کو بین الاقوامی سینما کے مدمقابل لاکھڑا کیا ہے۔
پاکستان کی اس مہنگی ترین فلم کے پروڈیوسر عمارہ حکمت اور اسد جمیل خان ہیں جن کا اس سے پہلے فلم پروڈکشن کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ بہرحال وہ اس مہنگی ترین فلم کے پروڈیوسر ہیں۔ ان کے ساتھ فلم کے ہدایت کار بلال لاشاری بھی شریک پروڈیوسر ہیں۔ اس فلم میں مہنگے ترین ویژول ایفیکٹس استعمال ہوئے ہیں جبکہ اس فلم میں پاکستانی پنجاب کے مختلف دیہی علاقوں اور خاص طور پر لاہور کے شاہی قلعے کی تاریخی عمارت میں فلم کی عکس بندی نے فلم کے پروڈکشن ڈیزائن کو چارچاند لگادیے ہیں۔
اس فلم کے بننے کا آغاز آج سے 10 سال پہلے ہوا۔ اپنے تمام تخلیقی مراحل سے گزرنے کے بعد یہ فلم 2019ء میں ریلیز کے لیے تیار تھی۔ اس کا ٹیزر بھی جاری ہوا لیکن پھر پرانی فلم ’مولا جٹ‘ کے فلم ساز سرور بھٹی کی طرف سے مقدمہ دائر ہونے کی صورت میں اس کی ریلیز ملتوی ہوئی۔ دونوں فریقین کے درمیان سمجھوتہ ہوجانے کے بعد 2020ء میں اس کو دوبارہ سے نمائش کے لیے تیار کیا گیا لیکن کورونا کی وبا کے باعث یہ پھر نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکی۔ مگر اب یہ فلم پاکستان سمیت پوری دنیا میں آج ریلیز ہورہی ہے۔
پاکستانی فلم بینوں، فلم سازوں اور فنکاروں کی اکثریت کو امید ہے کہ اس فلم کے ذریعے پاکستانی فلمی صنعت کا منظرنامہ جگمگا اٹھے گا۔ اس فلم کو اسکرپٹ کی تیاری سے لے کر موجودہ حتمی نمائش تک ایک دہائی لگی اور اس عرصے میں فلمی دنیا میں بھی بہت کچھ بدل گیا۔
2 پروڈکشن اداروں یعنی انسائیکلومیڈیا اور لاشاری فلمز کے تحت یہ فلم تخلیق کی گئی ہے۔ ٹرپل اے موشن پکچرز، جیو فلمز اور مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ کے پاس اس فلم کی تقسیم و تشہیر کے حقوق ہیں۔ پنجابی زبان میں بننے والی اس مہنگی ترین پاکستانی فلم کے سب ٹائٹلز کو انگریزی میں شامل کیا گیا ہے۔
اس فلم کے فلم ساز ادارے نے جو تفصیلات جاری کی ہیں، اس کے مطابق برطانیہ میں ایک ہزار سے زائد اور امریکا میں سیکڑوں کی تعداد میں ایڈوانس شوز کی بکنگ ہوچکی ہے۔ پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے اور مستقبل قریب میں دیگر ممالک میں بھی یہ فلم سینما میں دیکھنے کے لیے دستیاب ہوگی۔
ڈان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فلم کے پروڈیوسر بلال لاشاری نے بتایا کہ ’وہ چین میں بھی اس فلم کی نمائش کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن شاید اس میں کچھ دن لگ جائیں کیونکہ اس فلم کے تناظر میں کئی اقدامات ایسے ہیں جو پہلی بار ہورہے ہیں تو اس لیے وہ بھی ان نئی جہتوں کو دریافت کر رہے ہیں کہ کیسے اس فلم کو پوری دنیا میں لے کر جانا ہے‘۔
جدید سینما سازی میں ریڈ ایپک کیمرے سے اس فلم کو عکس بند کیا گیا ہے۔ اس کیمرے کی موجودہ قیمت ہی کروڑوں میں ہے۔ اس کیمرے کو ہولی وڈ کے فلم ساز اپنی فلموں میں باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں، مگر کسی پاکستانی فلم میں اس کا استعمال شاید پہلی بار ہوگا۔ ہدایت کار کا کہنا ہے کہ یہ فلم 100 کروڑ کمائی کا ہدف حاصل کرے گی۔
اس فلم کے کہانی نویس (اسکرپٹ رائٹر) ناصر ادیب ہیں جنہوں نے 1979ء کی سپر ہٹ فلم ’مولا جٹ‘ لکھی۔ اس کے ہدایت کار یونس ملک تھے اور اب 2022ء میں ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کے ہدایت کار بلال لاشاری ہیں۔ کہانی نویس اس سے پہلے اسی کہانی کی مماثلت میں 1972ء کو ریلیز ہونے والی ایک اور سپرہٹ فلم ’بشیرا‘ لکھ چکے ہیں جس کے ہدایت کار اسلم ڈار تھے۔
اس فلم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مولا جٹ لکھی گئی تھی جس کی مزید شہرت کو دیکھتے ہوئے اور کئی فلمیں اسی تناظر میں بنیں۔ ان میں سرفہرست ’جٹ اِن لندن‘ تھی جس کو وہ شہرت حاصل نہ ہوسکی جو مولا جٹ کو نصیب ہوئی تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار بھی یونس ملک ہی تھے۔
اس فلم کے کہانی نویس پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ اس کہانی کے مرکزی خیال کو انہوں نے اردو کے معروف ترقی پسند ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کے افسانے ’گنڈاسہ‘ سے مستعار لیا ہے اور اس افسانے کے مرکزی کردار مولا بخش کو بھی۔ ناصر ادیب نے ہم سے گفتگو کرتے ہوئے اس پہلو کی تفصیلی وضاحت کی ہے جس کے مطابق اس کردار اور اوزار کے ناموں کے علاوہ انہوں نے کچھ نہیں اخذ کیا بلکہ انہوں نے اوریجنل کہانی لکھی ہے۔
اس کہانی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پرانی مولا جٹ کی کہانی اس وقت کے مارشل لا کے خلاف ایک مزاحمتی استعارہ تھی جس کی وجہ سے اس کو بہت مقبولیت ملی۔ اس حوالے سے ناصر ادیب نے ہمیں بتایا کہ ’یہ بات درست ہے، اس پرانی فلم کے کردار ’نوری نت‘ کو میں نے باقاعدہ سوچ کر اس وقت کے مارشل لا ایڈمنسٹیٹر کے طور پر لکھا تھا، جبکہ سلطان راہی کا کردار وہ عوام تھے جو کبھی حاکمِ وقت کے سامنے بول نہیں سکے تھے۔ اس گھٹن کے ماحول میں اس وقت جب سلطان راہی بولا اور ایک ناقابلِ یقین انداز میں فلم میں ہیرو نے ولن کو شکست دی تو فلم بینوں کو طمانیت اور سکون ملا اور ان کے اندر ایک امید پیدا ہوئی کہ ہم بھی اگر اس کی طرح بولنا سیکھ جائیں، تو شاید اس نظام کو بدل سکیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں، اس ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ جس نظام کے خلاف میں نے لکھا تھا، وہ نظام آج بھی موجود ہے۔ مجھ سے اکثر لوگ یہ آج بھی پوچھتے ہیں، مولا جٹ میں ایسی کیا خوبی تھی کہ یہ آج بھی زندہ ہے، تو میں ان کو جواب دیتا ہوں، جب تک ایسا نظام ملک میں موجود ہے، تو مولا جٹ بھی زندہ رہے گا‘۔
بظاہر ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی کہانی 2 خاندانوں کی دشمنی پر مبنی ہے جس میں مولا جٹ انصاف پسند اور نوری نت بدمعاشی کا عکاس ہے۔ ان کرداروں کا عکس معاشرے میں آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی کہانی میں مرکزی کردار تو پرانی مولا جٹ فلم سے لیے گئے ہیں لیکن کہانی اور کہانی کا زمان و مکان بالکل مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کہانی کی ابتدا اور انتہا دونوں پرانی فلم سے جداگانہ ہیں۔ فلم میں صرف کچھ جانے پہچانے کردار پرانے ہیں جن کو اس نئی فلم میں برتا گیا مگر ان کے لب ولہجے، چال ڈھال اور ملبوسات سمیت دیگر تمام پہلوؤں کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس مذکورہ فلم میں مکالموں کی تعداد کم ہے مگر فلم میں کہانی کی رفتار کو تیز رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ کمی نمایاں نہیں ہوئی۔
پرانی فلم میں مکالمے اس کی ریڑھ کی ہڈی تھے لیکن نئی فلم کا پہلا حصہ جزوی طور پر سُست معلوم ہوا مگر جلد ہی وہ برق رفتار ہوگیا۔ اس نے کہانی کو کلائمکس تک آتے آتے بہترین انجام میں بدل دیا۔
پرانی مولا جٹ فلم کے مرکزی کرداروں میں مولا جٹ (سلطان راہی)، نوری نت (مصطفٰی قریشی)، مکھو (آسیہ بیگم)، مودا (کیفی)، دارو (چکوری)، ماکھا (ادیب)، ماں (سیما بیگم)، جیلر (شکیل) اور دیگر شامل تھے۔ نئی فلم میں مولا جٹ (فواد خان)، نوری نت (حمزہ علی عباسی)، مکھو (ماہرہ خان)، مودا (فارس شفیع)، دارو (حمیمہ ملک)، ماکھا (گوہر رشید)، ماں (راحیلہ آغا) اور دیگر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نئی فلم میں اضافی کرداروں میں بطور مہمان اداکار بابر علی اور ریشم بھی فلم کا حصہ ہیں جبکہ شفقت چیمہ، نیرا عجاز، صائمہ بلوچ اور علی عظمت بھی شامل ہیں۔
اس نئی فلم میں بھی پرانی فلم کی طرح ولن ہیرو پر غالب ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کردار کا شاندار لکھا ہونا، اس کے مکالموں کی ادائیگی اور باڈی لینگونج ہے۔ پرانی فلم میں مصطفیٰ قریشی اور نئی فلم میں حمزہ علی عباسی نے فلم کے پردے پر اپنے سامنے کسی اسٹار کو ٹکنے نہیں دیا اور اپنی اداکاری سے میدان مار لیا۔
ان کے بعد فواد خان نے عمدہ اداکاری کی، حالانکہ ان کے لہجے میں کہیں کہیں جھول ہے پھر بھی وہ متاثر کن رہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگراس فلم کا یہ مرکزی کردار شان شاہد نے نبھایا ہوتا تو نہ جانے یہ فلم دیکھنے والوں کو کس جہانِ حیرت میں لے جاتی بہرحال فواد خان نے ہیرو کے کردار کو اپنے تئیں مناسب نبھالیا۔
اس فلم کے دیگر فنکاروں میں اچھی اداکاری گوہر رشید، صائمہ بلوچ اور حمیمہ ملک نے کی، جبکہ بدترین اداکاری کا اعزاز ماہرہ خان کے نام رہا۔ یہ فلم اگر ناکام ہوئی تو اس کی ایک بہت بڑی وجہ ماہرہ خان کا کردار ہوگا جس کو وہ نبھانے میں یکسر ناکام رہیں۔ کہاں آسیہ بیگم اور کہاں ماہرہ خان کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ بلکہ اگر فلم میں مختصر کردار نبھانے والی انتہائی باصلاحیت اداکارہ صائمہ بلوچ کو موقع دیا جاتا تو شاید وہ مکھو کے کردار سے زیادہ بہتر انصاف کرتیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے مختصر کردار اور فلم کے کلائمکس میں پہلی بار پاکستانی فلم میں انسٹرومنٹل میوزک پر شاندار پرفارمنس سے فلم بینوں کے دل میں گھر کرگئیں۔ ہدایت کار باخبر تھا کہ ان کی فلم کا سب سے کمزور کردار ماہرہ خان کا ہے، اسی لیے انہوں نے اس کردار کو ایڈیٹنگ میں کافی کم کردیا لیکن فلم کا مرکزی کردار آخرکار کتنا کم کرتے؟
کاش ہمارے ہاں یہ روایت ہوتی کہ ہماری اداکارائیں ایسے کرداروں کو قبول کرنا چھوڑ دیں جن کے لیے وہ موزوں نہیں ہوتیں۔ مگر یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ فلم میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی اداکارہ صائمہ بلوچ کو فلم کی تشہیر کا حصہ ہی نہیں بنایا گیا وجہ نامعلوم ہے۔
علی عظمت اور گوہر رشید نے اپنے کرداروں سے انصاف کیا۔ فارس شفیع، شفقت چیمہ اور نیئر اعجاز متاثر کرنے میں ناکام رہے۔ مہمان اداکاروں کے طور پر بابر علی اور ریشم نے بھی اپنی اداکاری سے متاثر کیا اور ماں کے کردار میں راحیلہ آغا بھی اپنے کردار سے انصاف کرتی نظر آئیں۔
لیکن اگر اس فلم کے تاج میں جڑا کوہ نور ہیرا کسی کو کہا جائے، تو وہ حمزہ علی عباسی ہیں جنہوں نے اس بھاری بھرکم فلم کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا اور وہ اپنے اداکاری کے کیرئیر کے بامِ عروج پر دکھائی دیے۔ پاکستانی سینما کی تاریخ میں نوری نت کا کردار 2 اداکاروں کی وجہ سے زندہ رہے گا جن کے نام مصطفیٰ قریشی اور حمزہ علی عباسی ہیں۔
فلم کے اداکاروں پر ایک اعتراض ان کے لہجے پر کیا گیا تاہم حمزہ علی عباسی پر کوئی یہ اعتراض بھی نہ کرسکا۔ اس حوالے سے جب ہم نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ’میں گھر میں بچپن سے پنجابی بولتا آیا ہوں۔ میں اپنی والدہ سے آج بھی پنجابی میں بات کرتا ہوں، یہ میری مادری زبان ہے جس پر مجھے مکمل عبور حاصل ہے۔ اس حوالے سے مذکورہ کردار کو ادا کرنا بہت آسان تھا۔ لیکن میں فلم بینوں سے بھی کہنا چاہوں گا کہ میں فواد خان اور ماہرہ خان اور دیگر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ان کو پنجابی ٹھیک سے نہیں آتی لیکن پھر بھی انہوں نے بھرپور کوشش کی اور اپنے کرداروں سے انصاف کیا۔ ان کی مادری زبان پنجابی نہیں ہے، شاید اگر پنجابی میری مادری زبان نہ ہوتی، تو میں اس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر پاتا‘۔
بلال لاشاری ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کے ہدایت کار ہی نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اس فلم کو ناصر ادیب صاحب کے ساتھ مل کر لکھا بھی۔ ان کی اپنے کام سے کمٹمنٹ کا عالم دیکھیں کہ 10 سال سے وہ ایک ہی فلم پر کام کررہے تھے اور جب تک وہ فلم ریلیز نہیں ہوئی انہوں نے کسی دوسری فلم یا تخلیقی کام کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ یہ کمال محبت ہے ان کی جو اپنے کام سے ہے۔
ان کی پہلی فلم ’وار‘ اور اب یہ مذکورہ فلم، ان 2 فلموں نے ان کو پاکستان کے بڑے ہدایت کاروں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ وہ بین الاقوامی سینما کے منظرنامے پر ہمارے بہترین فلم ساز بن کر ابھرے ہیں۔
امریکا سے فلم کی تعلیم حاصل کرنے والے بلال لاشاری نے میوزک ویڈیوز کے ذریعے خود کو متعارف کروایا۔ انہوں نے میکال حسن بینڈ، جل بینڈ، علی عظمت اور دیگر کئی نامور گلوکاروں کی ویڈیوز بنائیں اور کمرشل شوٹ کیے۔ وہ کم وقت میں کہانی کو بہتر طور سے کہنے کے فن سے آشنا ہیں اور اس کی ریاضت اور مشق ان کے گزشتہ کام میں دکھائی دیتی ہے۔
ان کی اس موجودہ فلم کے بارے میں کیا کہا جائے کہ ان کا یہ کام ایسا ہے کہ جس پر بات نہ کی جائے بلکہ اس فلم کو دیکھا جائے۔ تبھی آپ یہ محسوس کرسکیں گے کہ پاکستان کا یہ تازہ ترین ماسٹر پیس تخلیق کرنے والے نے کیسے سنہری فریم تیار کیے ہیں جن سے ہماری سرزمین، کہانیاں اور کردار چمک اٹھے ہیں۔
ہم نے ان سے مستقبل کے ارادوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’خیالات تو بہت سارے ہیں، جن کی طرف ذہن متوجہ ہوتا ہے، لیکن ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کا میرے ذہن اور کاندھوں پر ایک بوجھ تھا، اس پر مزید ستم یہ کہ اس فلم کی نمائش میں مسلسل تاخیر ہورہی تھی۔ میں یہی سوچتا تھا کہ جب تک یہ فلم ریلیز نہیں ہوگی تب تک میرے لیے مشکل ہوگا کہ میں ایک اور فلم کے بارے میں کوئی وعدہ کرسکوں۔ اس لیے اب یہ فلم ریلیز ہوجائے، تو پھر میں مزید کسی فلم کو بنانے کے بارے میں سوچوں گا‘۔
ہم نے ان سے کہا کہ ہندوستانی پنجاب سے بھی اس فلم کے ٹریلر پر تبصرے آئے اور لوگوں نے اسے پسند کیا، تو اس پر بلال لاشاری نے کہا کہ ’وہ بہت پیارے لوگ ہیں، دل سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان کے ہاں آرٹ اور کلچر کی اقدار بہت مضبوط ہیں، وہ ان شعبوں سے وابستہ ہنرمندوں کے کام کی بہت قدر کرتے ہیں، اسی لیے ہماری فلم کو بھی انہوں نے کھلے دل سے خوش آمدید کہا ہے، حالانکہ یہ پاکستانی فلم ہے اور ہم پہلی بار دیکھ رہے ہیں کہ وہ پاکستانی فلم کے بارے میں اتنے پُرجوش ہیں، جس طرح دونوں طرف کے اہلِ پنجاب نے اس فلم کا خیر مقدم کیا ہے، وہ بہت متاثر کن ہے۔ اس لیے میں اس ردِعمل کو جاننے کا منتظر ہوں جو وہ فلم دیکھنے کے بعد دیں گے‘۔
عالمی سینما میں ستیا جیت رے اور سنجے لیلا بھنسالی (انڈیا)، اصغر فرہادی (ایران)، اسٹیون اسپیل برگ (امریکا)، جیمز کیمرون (کینیڈا)، ریڈلی اسکاٹ (برطانیہ)، آکیرا کوروساوا (جاپان) اور پاکستان سے اے جے کاردار اور جمیل دہلوی کے بعد میں بلاشبہ کہہ سکتا ہوں کہ بلال لاشاری اس صف میں شامل ہوئے چاہتے ہیں۔ آپ کو یقین نہیں آتا تو سینما جائیں اور ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ دیکھیے کہ آزمائش شرط ہے۔
اس فلم کا پروڈکشن ڈیزائن شاندار ہے۔ اس میں آرٹ ڈائریکشن، سیٹ اور لوکیشنز، ملبوسات اور ویژول ایفیکٹس سمیت تمام جدید تقاضوں کو بخوبی نبھایا گیا ہے۔ اداکاروں نے اپنے کرداروں کے لیے کئی مہینے گھڑ سواری کی تربیت لی اور ایکشن کے مناظر عکس بند کروانے کے لیے ریاضت کی۔ فلم کے موسیقار سرمد غفور ہیں جنہوں نے پس منظر کی موسیقی کے ساتھ ساتھ فلم کے کلائمکس کو بیان کرنے والے مرکزی انسٹرومنٹل میوزک کو تخلیق کیا اور کمال تخلیق کیا، جس پر صائمہ بلوچ کے رقص نے جمالیات کی بلندی کو چُھولیا۔ میک اپ آرٹسٹ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے، انہوں نے کرداروں کو منفرد طور سے ایسے ڈھالا کہ وہ اسکرین کی زینت بن گئے۔
10 سال میں خطیر رقم سے بننے والی عالمی سطح کی یہ پنجابی فیچر فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ صرف ایک فلم نہیں ہے، بلکہ پاکستانی فلمی صنعت کی نشاة ثانیہ ہے۔ یہ ایک عہد ہے، جس کی شروعات ہوچکی ہے۔
بین الاقوامی سینما کی دنیا میں بلال لاشاری جیسے فلم ساز دھوم مچانے کے لیے تیار ہیں اور پاکستان کے نام نہاد فلم سازوں کے لیے یہ فلم سبق ہے کہ کیسے ایک معیاری فلم بنائی جاتی ہے۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔