مجبوری، زورا زوری، بوری کے بعد اب ٹیسوری
’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘ کا محاورہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا، اسی طرح کا ایک اور محاورہ بھی عشروں پہلے وجود میں آچکا ہے کہ ’ایم کیو ایم ری ایم کیو ایم تیری کون سی کل سیدھی‘۔
لیکن یہ گزرے کل کی بات ہے جب کراچی کے باسی ہر کچھ دن بعد حکومت چھوڑنے اور قیادت چھوڑنے کے اعلانات سن کر گھنٹوں فکرمند رہتے تھے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، رات بھر انتظار کے بعد جب وہ صبح اٹھتے تو اونٹ انہیں وہیں بیٹھا ملتا جہاں بیٹھا جگالی کر رہا تھا، البتہ اس کے سامنے چارے کا ڈھیر پڑا ضرور ملتا تھا۔ اب تو خیر ایم کیو ایم اتنی سیدھی ہوچکی ہے کہ اونٹ کی کل کے بجائے اس پر اللہ میاں کی گائے کا محاورہ فٹ بیٹھتا ہے۔
’ایم کیو ایم ری ایم کیو ایم‘ کے جدید محاورے کا ’ری‘ آج بھی اس جماعت کی پہچان ہے۔ نہیں سمجھے! ابھی سمجھائے دیتے ہیں۔ بھئی ایم کیو ایم کے قیام کا سارا فلسفہ ساری منطق جن الفاظ کے گرد گھومتی ہے وہ ہیں مہاجروں کے حالات کی مجبوری، پھر اس نے انتخابی سیاست میں قدم رکھا تو کامیابی ملی فوری، پھر تو یہ سلسلہ چلتا ہی گیا، زورا زوری، قائد کی دُوری، بوری، بابر غوری، دھمکیاں اور پھر سوری اور اب ایم کیو ایم زیر بحث ہے تو وجہ ہیں کامران ٹیسوری۔
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ایم کیو ایم کی طرف سے ٹیسوری صاحب کو گورنر بنانے پر سب حیران کیوں ہیں اور تنقید کس لیے ہورہی ہے؟
بھلا اس عہدے کا ان سے زیادہ حقدار کون ہوسکتا تھا کیونکہ وہ تو اپنی ذات میں ایم کیو ایم ہیں، یعنی ان کا تعلق سونے کے کاروبار سے ہے اور ایم کیو ایم والے ایک زمانے میں کراچی کی مٹی میں ہاتھ ڈالتے تھے تو وہ سونا بن جاتی تھی۔ چونکہ یہ سونا چین کی معاشی ترقی کی رفتار سے بن رہا تھا اس لیے یہ عمل چائنا کٹنگ کہلایا۔
ایم کیو ایم اور کامران ٹیسوری کی ترقی کی رفتار بھی لگ بھگ یکساں ہے۔ ایم کیو ایم 1984ء میں بنی اور 1987ء میں شہری سندھ کے سیاسی افق پر چھا گئی، ٹیسوری 2017ء میں ایم کیو ایم میں شامل ہوئے اور اب تقریباً 5 سال بعد اس جماعت کے ڈپٹی کنوینر اور سندھ کے گورنر ہیں۔ یہ اتنی مختصر مدت ہے جس میں بچہ پیدا ہوکر بالغ نہیں ہوپاتا، میاں بیوی ایک دوسرے کو اچھے لگ رہے ہوتے ہیں اور فواد چوہدری پارٹی نہیں بدلتے۔
ایم کیو ایم اور نئے گورنر میں تیسری مماثلت یہ ہے کہ انہوں نے فاروق ستار کو ایسے ہی چھوڑ دیا جیسے ایم کیو ایم نے۔ یوں تو انہیں گورنر بنوانے کے لیے یہ مماثلت کافی ہے لیکن ایک وجہ اور بھی ہوسکتی ہے۔ ’تقریر‘ کے ہاتھوں تقدیر بگڑنے کے بعد ایم کیو ایم کا رویہ اور حکمت عملیاں اتنی معذرت خواہانہ ہیں کہ اسے ’معذرت قبول ہو موومنٹ‘ کہا جانے لگا ہے، اسی لیے وہ گورنر بھی ’ٹی Sorry‘ لائی ہے۔
ابھی کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے کہ انہی کامران ٹیسوری کے باعث ایم کیو ایم کے اس وقت کے سربراہ فاروق ستار اور جماعت کے دیگر رہنماؤں میں ٹھن گئی تھی۔ فاروق بھائی نے انہیں پارٹی کی رابطہ کمیٹی کا ڈپٹی کنوینر بنادیا تھا اور پھر سینیٹر بنانے پر مصر تھے، تب خالد مقبول، عامر خان اور ہمنواؤں کے نزدیک ٹیسوری پارٹی کے لیے مضر تھے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ فاروق ستار ’ساری خدائی ایک طرف کامران بھائی ایک طرف‘ کی ضد پر اڑ گئے اور برطرف کردیے گئے۔
دوسروں کی رائے کے برعکس ہمارا خیال تھا کہ ان دونوں کے تعلق کی بنیاد ٹیسوری صاحب کی تجوری اور فاروق ستار کا ساتھ کامران ٹیسوری کی سیاست میں آگے بڑھنے کی مجبوری پر استوار نہیں، بلکہ یہ فلم ’یارانہ‘ کے امجد خان اور امیتابھ بچن اور ’شعلے‘ کے دھرمیندر اور امیتابھ کی طرح دو پکّے دوستوں کی جوڑی ہے۔ ان دنوں لگتا تھا فاروق بھائی اور کامران بھائی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ’یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے، توڑیں گے ’ایم کیو ایم‘ تیرا ساتھ نہ چھوڑیں گے‘ گاتے گلیوں میں گھومتے ہوں گے۔
ہم تو سمجھتے تھے دونوں بچپن کے دوست ہیں عید پر ایک جیسے کپڑے پہنتے اور فوٹو اسٹوڈیو جاکر ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال کر تصویریں کھنچواتے ہوں گے، مطلب لنگوٹیا یار۔ شاید اسی لیے فاروق ستار ان کی خاطر لنگوٹ کس کر میدان میں آگئے (واضح رہے کہ یہاں ہم نے محاورہ استعمال کیا ہے، تاہم ان الفاظ نے جن قارئین کو تخیل میں فاروق بھائی کو لنگوٹ کسے دکھا دیا ان سے اس خوفناک تصور پر ہم تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں) لیکن اب فاروق ستار کو ایم کیو ایم سے باہر اور ان کے دوست کو پارٹی میں اتنے اندر بلکہ اتنا اوپر دیکھ کر لگتا ہے فاروق ستار سسکیوں اور ہچکیوں کے ساتھ ’مرے دوست قصہ یہ کیا ہوگیا، سنا ہے کہ تو بے وفا ہوگیا‘ گارہے ہوں گے۔
فاروق بھائی کو مصطفٰی کمال معصوم آدمی قرار دے چکے ہیں۔ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا کیونکہ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ اپنے ’مرکز یقین‘ کے سند یافتہ ہیں، یہ الگ بات کہ ان کی پاک سرزمین پارٹی یقین دہانی کے باوجود اب تک شادباد نہیں ہوسکی ہے، لیکن وہ ’نشان عزم عالی شان‘ بنے اب بھی کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں۔
فاروق بھائی اپنی معصومیت میں اپنے دوست کے بارے میں یہی سمجھتے رہے کہ ان کی طرح رابطہ کمیٹی سے رابطے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے۔ لیکن کامران صاحب پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ پر یقین رکھتے ہیں، سو کامرانی پکے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آگری۔ لیکن کہنے والے کہتے ہیں یہ صبر کا نہیں جبر کا پھل ہے جو نیوٹن کے سر پر ٹپکنے والے مشہور سیب کی طرح ایم کیو ایم کے سر پر گرا نہیں دے مارا گیا ہے جس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کی قیادت کو کامران ٹیسوری میں اتنی کشش محسوس ہوئی کہ جو سب سے بڑا منصب ہاتھ آیا انہیں سونپ دیا۔
یہ بھی انہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنما، فاروق ستار سے سینیٹر بنانے کے لیے کامران ٹیسوری کی اہلیت، صلاحیت اور قربانیوں سے متعلق سوال کرتے تھے۔ ان سوالوں کو جواز بنا کر ایم کیو ایم پر بلاوجہ نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ اس نکتہ چینی سے ہمیں بہت بے چینی ہورہی ہے، یہ بھی کوئی اعتراض ہوا، سیدھی سی بات ہے تب صلاحیت اور اہلیت نہیں تھی اب پیدا ہوگئی اور کسی میں یہ صلاحیت کیا کم ہے کہ کھلائے سونے کا نوالا دیکھے شیر کی نظر سے، شیر کی نظر سے نہ بھی دیکھے تو دیکھنے میں شیر لگے۔ اب ہاتھ میں سونے کا نوالا ہو، ساتھ میں کسی ’بالا‘ اور ’اعلٰی‘ کا حوالہ ہو، منصب دلانے کے لیے وہ لانے والا ہو جس کے پاس ’ویگو ڈالا‘ ہو، تو فیصلے پر اہلیت کا سوال اٹھانے کے بجائے فیصلہ کرنے والوں کی حالت پر ترس کھانا چاہیے ظالمو!
رہی قربانی کی بات تو کامران بھائی نے ایم کیو ایم کی خاطر پورے کے پورے فاروق ستار بھائی قربان کردیے، اس طرح فاروق بھائی کی قربانی دو بار ہوئی، ایک بار وہ کامران ٹیسوری کی خاطر ازخود یا خودکش حملہ کرکے قربان ہوگئے، دوسری مرتبہ کامران صاحب نے انہیں قربان کردیا۔ تو کل ملا کر کامران بھائی کے حصے میں 2 قربانیاں آئیں۔ سنتے ہیں کہ جب کامران بھائی نے ان قربانیوں کا ذکر رابطہ کمیٹی کے سامنے کیا تو رابطہ کمیٹی کے ارکان نے عادتاً کامران ٹیسوری کے ہاتھ میں خدمت خلق کمیٹی کی رسید تھما کر کہا ’کامران بھائی، کھال بھیج دیجیے گا‘۔
مزید پڑھیے: فاروق ستار کی کامران مجبوری
جہاں تک تعلق ہے نئے گورنر کی تعلیمی قابلیت کا تو انٹر پاس عمران اسمعٰیل صاحب کے بعد اسکول کے پاس سے بھی نہ گزرنے والا گورنر بن جائے تو بھی حیرت نہیں ہوگی۔ مگر حال ہی میں سبکدوش ہونے والے گورنر کی خوبی یہ تھی کہ ان کی طرف عمران خان مائل تھے اور وہ اپنے قائد کے ایسے قائل کہ پوچھنے والے پوچھتے تھے ’سکھائے کس نے عمران اسمعٰیل کو آداب فرزندی‘۔
نئے گورنر کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ ایسے ’مکتب‘ کی کرامت ہیں جو والد بزرگوار سے فرزند کو جھک کر آداب کرادیتا ہے۔ پھر جس نے 2 ڈاکٹروں یعنی ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو ’کودا ترے گھر میں کوئی دھم سے نہ ہوگا‘ کا منظر دکھا دیا اور سبق سکھا دیا ہو اس ’استاد‘ کو تعلیم کی کمی کا طعنہ کون دے سکتا ہے؟
جلنے والے جلا کریں کامران ٹیسوری گورنر ہاؤس کے مکین ہوچکے ہیں، جہاں وہ دیواروں پر اپنے پیشرو گورنروں ممتاز بھٹو، میر رسول بخش تالپور، رعنا لیاقت علی خان، حکیم محمد سعید، محمود ہارون، جسٹس قدیرالدین احمد، کمال الدین اظفر، فخرالدین جی ابراہیم کی تصویریں دیکھیں گے، ضرور دیکھیں کوئی بات نہیں، لیکن ان سابق گورنروں نے انہیں دیکھ لیا اور دیکھ کر ایک دوسرے سے کہا ’دیکھو دیکھو کون آیا‘ اور ’دیکھتا کیا ہے مرے منہ کی طرف، قائداعظم کا پاکستان دیکھ‘ تو ہم سمیت سندھ کے عوام منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، چنانچہ ہماری تجویز ہے کہ ان تصاویر کو گورنر ہاؤس سے ہٹا دیا جائے، کوئی پوچھے کیوں ہٹایا تو کہنا کامران آیا تھا۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔