ہم تعلیمی اداروں کو ناصر باغ نہ بنائیں تو وہی بہتر ہے
ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ کسی قدر بھی قابلِ تعریف نہیں اور نہ ہی ملک کا کوئی بھی ذی شعور شہری فیصلوں میں تاخیر اور بہت سی دوسری وجوہات کے علاوہ عدالتوں سے ہونے والے سیاسی فیصلوں کے باعث ہمارے عدالتی نظام پر اطمینان کا اظہار کرنے کو تیار ہے۔
ہمارے معاشی معاملات تو ہمیں من حیث القوم بھکاری بنا چکے ہیں اور ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقے کی وجہ سے بھیک مانگنے کا یہ وتیرہ عوام میں بھی سرایت کرچکا ہے۔ ہمارے سفارتی معاملات، ہماری معیشت، سیاسی ابتری اور عدالتی فیصلوں کے باعث کوئی کوئی اچھا اقدام کرنے میں ناکامی ہی ملی ہے۔ جس جمہوریت کی سربلندی کے لیے ہمارے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں عوام کو بے وقوف بناتی رہتی ہیں وہ خود ان کے اندر نام کو بھی نہیں۔ وہ ادارے جن کے ذریعہ ہم عوام کو جمہوریت اور پھر جمہوری حق کی بدولت اس نظام کے ثمرات دے سکتے ہیں ان کی ہم پروش ہی نہیں کرنا چاہتے۔
ہم 18 سال کی عمر میں ووٹ کا حق تو نوجوانوں کو دے چکے مگر تعلیمی ادارے جہاں ان کی پرورش ہوتی ہے وہاں یونین سازی کا حق مارشل لا کے ضابطہ کے تحت چھین چکے ہیں اور اب تو کمال یہ ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور جہاں ہاؤس آف کامنز اسٹائل تقریری مقابلے ہوا کرتے تھے وہاں اب ملک کے اداروں کے خلاف منظم انداز سے نعرے لگوائے جارہے ہیں۔
ہم طلبہ سے سب کچھ کروانا چاہتے ہیں لیکن انہیں یونین سازی، لیڈر شپ، انداز، تنظیم، تربیت، ووٹ اور ذرائع و وسائل کا استعمال سکھانا نہیں چاہتے بلکہ گول باغ (جو ناصر باغ جانے کیوں کہلواتا ہے جبکہ جمال عبد الناصر کب کا اپنے رب کے پاس جاچکا ہے) بنانا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیے: معافی نہ مانگنے سے مانگنے تک کا سفر: عدالت میں کیا کچھ ہوتا رہا
جناب وائس چانسلر اب اس یونیورسٹی سے کوئی انتقام لینا چاہتے ہیں یا ان کو برطرفی منظور ہے اللہ ہی جانے۔ ویسے ذوالفقار علی بھٹو بھی اسلامیہ کالج سول لائنز میں خطاب فرما چکے ہیں اور مولانا مودودی جامعہ پنجاب میں، مگر ہر دو کو اسٹوڈنٹ یونین نے مدعو کیا تھا۔
دوسرا ادارہ جو آئینی بھی ہے اور جس کی ضرورت بھی ہے وہ آئین کی دفعہ 140 اے کے تحت بننے والا بلدیاتی حکومت کا نظام ہے۔ اس دفعہ کے مطابق ہر ایک صوبہ قانون کے ذریعے مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اور سیاسی، انتظامی اور مالیاتی ذمہ داری اور اختیار مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کردے گا۔ گویا صوبہ مقامی حکومت کے وسائل، ذرائع، فیصلوں، مقامی ٹیکس نافذ کرنے کے معاملات اور اخراجات کے حوالے سے کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گا۔
جب صوبہ مقامی حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکے گا تو پھر ہر کچھ عرصے بعد بلدیاتی قوانین کے ایکٹ میں تبدیلی کی ضرورت کیوں کر ہوتی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ وفاقی سطح پر حکومت قانون سازی کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہتی ہے اور جب کوئی مصیبت گلے پڑجائے تو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے طے کردہ طریقہ کار سے انحراف کرتے ہوئے ایوانِ صدر کی آرڈیننس فیکٹری سے نیا آرڈیننس بنوا لیتی یا منظور کروا لیتی ہے۔
کسی زمانے میں قومی اسمبلی کا اجلاس سال میں 130 دن ہوا کرتا تھا اور قانون سازی بھی ہوتی تھی جبکہ فیکٹری سے آرڈیننس بھی جاری ہوتے رہتے تھے جن کو ایوان میں وقت پر پیش کردیا جاتا تھا۔ مگر اب 100 دن اجلاس ہوتا ہے جس میں 2 چھٹیاں بھی اجلاس کے دنوں کی گنتی میں شامل کرلی جاتی ہیں۔ قومی اسمبلی بااختیار آئینی ادارہ ہے ممکن ہے آنے والے برسوں میں گردشی ایجنڈا کرکے ارکان سے فیصلے کے لیے رائے لے لیا کریں۔
یہاں حکومتوں کی یہ از حد کوشش ہوتی ہے کہ وہ آئین کی بالادستی کو قائم رکھتے ہوئے جمہوری روایات کی بھی امین ہوں۔ روایت تو کہتی ہے کہ کسی بھی رکن کی طرف سے اشارہ نہیں کیا جاسکتا اور نام تو بالکل ہی نہیں لیا جاسکتا۔ ایسی روایات امین بھی قائم کرتے اور دوام بخشتے رہے ہیں، مگر اب ہم گالی دے سکتے ہیں، گتھم گتھا ہوسکتے ہیں، کتابیں برسات کی طرح اللہ کے مقدس ناموں سے مزین چھت تلے یوں ایک دوسرے کو مار دیتے ہیں جیسے جمرات میں شیطان کو کنکریاں۔ نہ رہبر نظر آتے ہیں نہ رہبری، نہ پالیسی ساز ہیں نہ ملک و قوم کے لیے ترقی و خوشحالی کی کوئی نوید۔
اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کی شرائط طے ہوگئی ہیں۔ مزید قرض کے لیے اور پرانے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے سخت ترین شرائط کی نوید کا اعلان خدائے ذوالجلال کا شکر ادا کرکے کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ بھی یاد کرنا چاہیے کہ وہ کیا حالات تھے جب ہم جرمنی کی مالی امداد کرتے تھے اور دنیا بھر کے ماہرینِ معیشت پاکستان کا معاشی ماڈل اختیار کرنے کے لیے پاکستان کا مطالعاتی دورہ کیا کرتے تھے۔
مزید پڑھیے: اسحٰق ڈار کی واپسی: کیا ’ڈارنامکس‘ معیشت کو سہارا دے سکے گی؟
میں صاحبانِ اقتدار کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ ان کی آنے والی نسلیں پاکستانی ہیں، ہوں گی اور اگر معاشرہ تہذیب، تعلیم اور کھیل اور اس کے میدان نہ بچے تو پرائیویٹ اسکول، کالج اور یونیورسٹی ضرورت پورا نہ کرسکیں گی۔ مقامی حکومتوں کو اسکول اور تعلیم کی ذمہ داری مکمل وسائل کے ساتھ مہیا کریں اور اپنی چند روز یا سالوں کی گمنام لیڈری کو دوام بخشنے کے لیے اداروں کی تنظیمِ نو، تربیت، خود مختاری کو یقینی بنائیں۔
اگر صحت کا نظام درست کرنا ہے تو اس کے لیے بھی مقامی حکومت کی ضرورت ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا اور اہم شہر ہے، اس کی بہت تباہی و بربادی ہوچکی ہے اب اگر وہاں آئینی طور پر ٹیکس اکٹھا کرنے کی گنجائش اور ضرورت ہے تو اس کے لیے انتخاب کروایا جائے اور پھر نئی قیادت ارکان کے مشورے اور بحث کے بعد ٹیکس کے نظام کو درست کرے۔ ویسے مرحوم عبد الستار افغانی نے بھی روڈ ٹیکس یا موٹر رجسٹریشن یا وہیکل ٹیکس کے علاوہ پراپرٹی ٹیکس کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ایک جلوس نکالا تو اس کی سزا ان کی معطلی اور پھر برخاستگی کی صورت میں دے کر کراچی کو کیا ملا؟
کراچی میں اگر امن وامان، دیانتداری، فرض شناسی اور ذمہ داری کا احساس کرنے والی قیادت منتخب ہوجائے تو عوام کو اچھی سڑکیں، اسپتال، اسکول اور پانی تو نصیب ہوگا۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ قانون اور آئین کی بالادستی ہو اور اگر اب وہاں عوام یکسو ہوچکے ہیں تو ان کو ان کے تمام حقوق حاصل ہونے چاہئیں وگرنہ حالات پر کسی کا کنٹرول نہ ہوگا اور آئین و قانون کتابوں میں لکھے رہ جائیں گے۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر کوئی ایسا کام کر گزریں کہ مزید شرمندگی نہ ہو۔
عظیم چوہدری سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس ہے ma.chaudhary@hotmail.com اور آپ ٹوئٹر پر یہاں MAzeemChaudhary@ ان سے رابطہ کرسکتے ہیں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔