کامیو کی تشخیص اور سوئم کا پلاؤ!
کبھی کبھی یونہی خیال سا آتا ہے کہ ہم کچھ عجیب سے لوگ ہیں۔ نہ جینا آتا ہے اور نہ مرنا، نہ قربت کا مفہوم جانتے ہیں اور نہ جدائی کا۔ ہم پہلے بھی کچھ ایسا ہی سوچا کرتے تھے لیکن وبا میں گزرے ان برسوں نے اس بات اور یقین کو مہمیز کردیا ہے۔
وبا سے اجل کو گلے لگانے والوں کے اعداد و شمار کہاں گنے جا سکتے ہیں۔ بے شمار لوگوں کو جدائی کے ناگ نے ڈس لیا اور اب بھی اس کی پھنکار تھمی نہیں۔ ہر دوسرے روز کسی نہ کسی کے رخصت ہونے کی خبر ملتی ہے، ایسے بے شمار احباب کے نوحے دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں جن کے ہاتھ سے اپنے پیاروں کا ہاتھ بھرے میلے میں چھوٹ گیا۔
غم سے نڈھال لوگوں سے ہم نے ایک بات ضرور پوچھی۔
‘اوہ بہت افسوس ہوا آپ کے دوست/ کزن کی رحلت کا، آخری دفعہ کب ملاقات کا موقع ملا یا بات ہوئی تھی؟’
سوال سن کے اکثر لوگ جواب دینے میں ہچکچا سے جاتے ہیں۔
‘شاید پچھلے برس، نہیں شاید 2 برس پہلے…’
‘کیوں؟ اتنا وقفہ کیوں؟’، ہم پوچھتے ہیں۔
‘بس زندگی کی مصروفیت ہی اتنی رہی’، جواب ملتا ہے۔
مزید پڑھیے: زندگی کی حقیقت بیان کرنے والے ‘اہم’ اصول
‘لیکن آپ تو ایک ہی شہر میں مقیم تھے۔ کبھی آتے جاتے، کبھی کسی چھٹی کے دن، کبھی کسی تہوار پر کچھ دیر رک جاتے ان کے دروازے پر، گزار لیتے کچھ وقت ساتھ’، ہم ملول ہوکر کہتے ہیں۔
‘بہت دفعہ سوچا لیکن ممکن نہ ہوسکا۔ آپ جانتے تو ہیں کاروبار/ نوکری کے جھمیلے، خاندان کے مسائل’، جواب ملتا ہے۔
‘تو اس کا مطلب یہی ہوا نا کہ موت نے جدائی کی فصیل کھڑی نہیں کی، یہ دیوار تو زندگی میں ہی آپ دونوں کے جیتے جی بیچ میں کھڑی ہوچکی تھی’، ہم کچھ تلخ ہوجاتے ہیں۔
‘نہیں دیکھیے ایک احساس تو تھا نا کہ وہ شخص ابھی موجود ہے، یہیں آس پاس سانس لیتا ہے۔ کبھی بھی مل لیں گے’، اداس سا جواب۔
‘لیکن اس احساس کا اس شخص کو اب کیا فائدہ؟ کسے خبر کہ اس شخص کا من آپ کو دیکھنے کے لیے کتنا تڑپا؟ اس نے کس کس وقت آپ کو یاد کیا؟’
اسی طرح جو لوگ دوسرے ممالک میں مقیم ہیں، ان سے پوچھا جائے تو پتہ چلتا ہے وہ برسوں سے اپنے پیاروں سے نہیں مل سکے۔ وجوہات وہی، نوکری، گھر، بچے، مالی مسائل اور یہ سوچ کہ پھر کبھی…
ایسا کیوں؟
ہم کسی کی زندگی میں اس کی قدر کیوں نہیں کرسکتے؟ کسی کے جیتے جی یہ کیوں نہیں کہہ سکتے کہ تم سے ملنا ہمیں اچھا لگتا ہے، ہمارا دل تمہارے الفاظ بار بار سننا چاہتا ہے۔ عجیب سی مسرت، سکون، احساس کہ کوئی ہے اپنا۔ زندگی کے جھمیلے تو جان کا روگ ہیں ہی سو ان کے پیچھے بھاگ کر دل کے تاروں سے بندھے ہوؤں کو ‘پھر کبھی’ کی فہرست میں کیوں رکھا جائے؟ تیزی سے گزرتے وقت کے کچھ لمحے ان کے نام کیوں نہ کیے جائیں جن سے بچھڑنا بعد میں ہمیں ہلکان کردے۔
اس کا جواب کامیو کے پاس ہے۔
’کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ صرف موت ہمارے احساسات کو بیدار کرتی ہے؟
ہم ان دوستوں سے کتنا پیار کرتے ہیں جو ابھی ابھی ہم سے جدا ہوئے ہوں؟ ہم اپنے اساتذہ کی کتنی مدح سرائی کرتے ہیں جن کی زبانیں گنگ ہوچکی ہیں اور جن کے دہن اب خاک سے پُر ہیں؟
سب کچھ ہوچکنے کے بعد ہمارا جذبۂ تحسین ابھرتا ہے۔ وہ تحسین جس کے لیے لوگ شاید عمر بھر متوقع اور ترستے رہے۔
مزید پڑھیے: اس زندگی میں زندگی کے سوا سب کچھ ہے!
کیا آپ جانتے ہیں ہم مُردوں کے معاملے میں کیوں زیادہ انصاف پسند اور فیاض واقع ہوئے ہیں؟
وجہ بالکل سادہ ہے۔ مُردوں کے معاملے میں ہم پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی۔ وہ ہمیں آزاد چھوڑ دیتے ہیں، اور ہم باطمینانِ خاطر، جب چاہے، کاک ٹیل پارٹی اور کسی حسین، کم سِن داشتہ کے درمیان، اوقاتِ فرصت میں، انہیں اسناد تقسیم کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ ہمیں کسی چیز کے لیے مجبور کرسکتے تو انہیں یاد رکھنے پر مجبور کرتے، اور یہ ممکن نہ ہوتا، کیونکہ ہمارا حافظہ کمزور ہے۔
نہیں، ہم اپنے دوستوں میں صرف انہیں سے محبت کرتے ہیں جو تازہ تازہ داغِ مفارقت دے گئے ہوں، ہم ان کی دردناک موت سے، اپنے جذبات سے اور چونکہ یہ جذبات ہمارے ہوتے ہیں، اس لیے خود سے محبت کرتے ہیں!’
( کامیو کے ناول ‘زوال’ سے اقتباس، ترجمہ، محمد عمر میمن)
کیا بات کی ہے استاد کامیو نے! ہم پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔ جی ہی نہیں بھرتا اس فلسفے سے۔ آگے بڑھ کر ملو، خوشی غم کی سانجھ کرو، ہاتھ پکڑو لیکن موت سے پہلے، مٹی ہوجانے کا انتظار نہ کرو۔
ایک بات جو ہم پہلے بھی سوچتے تھے اور اب تو اس کا اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ بھئی ہمارے ساتھ وہ مت کیجیے گا، پلاؤ کھائیں گے احباب، فاتحہ ہوگا۔
آپ کو پلاؤ کھانا ہے یا زردہ، ہمارے جیتے جی رو بہ رو بیٹھ کر کھا لیجیے کہ گلشن کے کاروبار کا کچھ مزا ہمیں بھی آئے۔ ہم بھی کچھ کہیں، کچھ سنیں چاہے شکایت ہی سہی۔ ہمارے گزر جانے کے بعد اگر آپ نم آنکھوں کے ساتھ قبر پر پھول ڈالنے آئیں گے تو یقین کیجیے ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ رہا سوئم یا پلاؤ زردہ تو جان لیجیے کہ ایسا کچھ بھی ہونے والا نہیں۔ ہمارا فلسفہ جگر گوشوں نے بھی گھول کر پی رکھا ہے۔
ہماری زندگی میں جو احباب تنگئ وقت کا شکار رہے اور مل نہ سکے، ہمارے چل بسنے کے بعد انہیں زحمت دینے کا فائدہ؟
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔