عروج کی داستانوں سے بند گلی تک کا سفر
قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کو گئے قریباً 4 ماہ ہوگئے ہیں۔ اپریل سے اگست تک کہنے کو تو چند مہینے ہیں لیکن اس قلیل مدت میں پاکستان میں وہ کچھ ہوا جو ملکی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔
ایک طرف تو ملک بدترین معاشی بحران سے گزرا تو دوسری طرف سیاسی میدان میں گھمسان کا رن پڑا۔ ایسی ہا ہا کار پڑی کہ سچ جھوٹ کی تمیز ہی باقی نہ رہی۔ اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے تاریخی حقائق تک کو ایسے توڑ موڑ کے پیش کیا گیا کہ اچھے بھلے ذہن مفلوج ہوگئے۔ ایسی فضا بنا دی گئی کہ سیاسی پسندیدگی اور ناپسندیدگی پر عام شہری بھی مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔
سب سے زیادہ نفرت آمیز بیانیے سوشل میڈیا پر بنائے گئے اور اداروں کے خلاف بوئی نفرت ہیلی کاپٹر کریش کے دوران کُھل کر سامنے آگئی۔
کیا کسی ادارے یا شخص کے خلاف نفرت بونا آزادی اظہار کے زمرے میں آتا ہے؟ کیا کسی ملکی ادارے یا شخصیت کے خلاف زہر بو کر ہم ملک و قوم یا دین کی کوئی خدمت کر رہے ہیں؟ ان سوالوں کے جوابات کھوجنے سے پہلے ہمیں سیاست کے حوالے سے بنیادی باتوں کا ادراک ہونا چاہیے۔
گندہ ہے پر دھندا ہے بھئی، یہ محاورہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ سیاست کے حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی دوسرے کاروبار کی طرح یہ بھی ایک کاروبار ہے اور وہ بھی نہایت ہی نفع بخش۔
پہلے سیاستدان وقت اور مال کی سرمایہ کاری کرکے کسی نشست پر منتخب ہوتے ہیں پھر اپنے منصب کا استعمال کرتے ہوئے مختلف حیلوں بہانوں سے دولت اکٹھی کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب اتنا منظم انداز میں ہوتا ہے کہ کوئی ان پر انگلی تک نہیں اٹھا سکتا۔ اربوں کا ٹھیکہ اپنے من پسند فرد کو دے کر اس سے بھاری کمیشن لے لیں کون آپ کو پکڑ سکتا ہے۔ قانون پر عملدرآمد کے نام پر کسی کو بھی ’پار‘ کرادیں آپ کو کس نے پوچھنا ہے۔
پوری دنیا میں سیاست کا یہی دستور ہے، ہاں طریقہ کار مختلف ہوسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تو سیاستدان اپنی انتخابی مہم کے اخراجات عوامی چندوں سے کسی نہ کسی طور پورا کرلیتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں تو کونسلر بننے کے لیے بھی رقم آپ کو جیب سے لگانا پڑتی ہے۔ اگر آپ کروڑوں اربوں خرچ کرکے ایم پی اے یا ایم این اے بنے ہیں تو کیا اگلے الیکشن کے لیے رقم اکٹھی نہیں کریں گے؟ قومی اسمبلی کے ایک رکن یعنی ایم این اے کی تنخواہ ایک لاکھ 88 ہزار روپے ہے۔
اس قلیل سرکاری تنخواہ میں جاہ و جلال، شان و شوکت اور ڈیرہ داری تو کیا آج دال روٹی بھی پوری نہیں ہوتی۔
بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ کسی بھی کاروبار کی طرح سیاست کو بھی منافع بخش بنانے کے لیے ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور ایڈورٹائزنگ تو ہے ہی آدھا سچ۔ ایجنسیاں کسی بھی لیڈر کو ایک پراڈکٹ کے طور پر لانچ کرتی ہیں، ان کی خوبیاں تراشی جاتی ہیں، پھر انہیں ایک دیوتا کے روپ میں پیش کردیا جاتا ہے۔ کسی بھی سیاستدان کے لانچ سے لے کر انتخابات تک کی ساری حکمتِ عملی یہی کمپنیاں وضع کرتی ہیں۔
کسی لیڈر نے کپڑے کیسے پہننے ہیں، بات کیسے کرنی ہے، کس سوال کے جواب میں کیا کہنا ہے یہ سب ایڈ ایجنسی بتاتی ہے۔ یہ ایجنسیاں بتاتی ہیں کہ کس علاقے کے کن لوگوں کو کیا چاہیے، ان سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیا زبان استعمال کرنی چاہیے اور کون سے وعدے انہیں لبھائیں گے۔ کسی پارٹی کا لوگو ڈیزائن کرنے سے لے کر بیانیے تک یہی ایجنسیاں ترتیب دیتی ہیں۔
ہمسایہ ملک بھارت میں 3 ایڈورٹائزنگ کمپنیوں، سوہو اسکوائر، اوگلیو اینڈ ماتھر اور میڈیسن ورلڈ نے 2014ء میں نریندر مودی کی انتخابی مہم چلائی اور انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کروایا۔
ایڈورٹائزنگ میں کہتے ہیں کہ امید، خوف اور سیکس سب سے زیادہ بکتے ہیں۔ ترقی پزیر ممالک میں اس فہرست میں مذہب کو بھی شامل کرلیجیے۔ ہمیں ایم بی اے کی ایڈورٹائزنگ کلاس میں پڑھایا گیا تھا کہ کیسے ساچی اینڈ ساچی نے ماضی کی ایک لیڈر کی مہم چلائی اور طویل تحقیق کے بعد تسبیح اور دوپٹہ انتخابات میں کامیابی کے نسخے کے طور پر تھما دیا۔
مجھے نہیں معلوم کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو تسبیح کس ایڈ ایجنسی نے پکڑائی لیکن یہ طے ہے کہ موٹے دانوں والی تسبیح نے عمران خان کے کھلنڈرے اور پلے بوائے امیج کو دھو ڈالا۔ ساری عمر مغربی لباس پہننے والے عمران خان نے جب ملکی سیاست میں قدم رکھنے کی ٹھانی تو ان کے لیے قومی لباس اور پشاوری چپل کا انتخاب کیا گیا۔ یہ حکمتِ عملی بھی عمران خان کا ایک محب وطن امیج بنانے میں نہایت ہی کامیاب رہی۔
کیا کینسر اسپتال عمران خان کی لانچ مہم کا ہی حصہ تھا مجھے نہیں معلوم لیکن اگر کسی ایڈ کمپنی نے انہیں کینسر اسپتال کا مشورہ نہیں بھی دیا تو بھی اسپتال کی تعمیر نے عمران خان کو ایک کرکٹر سے ایک عالمی لیڈر بنادیا۔ ایسا اعزاز دنیا کے کسی اور کھلاڑی کو کم ہی ملا ہوگا۔
ٹی وی ٹاک شوز میں لفظ ’بیانیہ‘ آپ نے بار بار سنا ہوگا۔ کسی واقعے یا تجربے پر اپنائے گئے مؤقف کو بیانیہ کہتے ہیں۔ کسی بھی جمہوریت میں اکثریت کھو دینے پر حکومت کا برطرف ہوجانا ایک معمول کا عمل ہے لیکن قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں برطرف ہونے والے وزیرِاعظم عمران خان نے ایک بیانیہ اپنایا کہ انہیں برطرف کرنے کے قانونی عمل کے پیچھے دراصل امریکی سازش ہے۔ یہ بیانیہ اس قدر مقبول ہوا کہ ریکارڈ عرصے تک ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا۔
اعلیٰ عدالت سے نااہل ہونے پر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کا 'مجھے کیوں نکالا' اور اس سے پہلے ان کا جملہ 'میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا' بہت مقبول ہوا مگر شاید یہ جملہ ان کو بہت مہنگا پڑا۔
کہنے کو تو بیانیہ محض ایک نقطہ نظر ہے جو اکثر ایک جملہ ہوتا ہے لیکن یہ ایک جملہ انتہائی تحقیق اور غور و خوض کے بعد ہی وضع کیا جاتا ہے۔ انگریزی سامراج کے زیرِ تسلط رہنے کی وجہ سے پاکستانیوں کو انگریز اور انگریزی فوج سے دلی نفرت اپنے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملی ہے۔ پاکستانی بھلے سے ایک بھی اسلامی کام نہ کریں لیکن انہیں اسلام سے عقیدت بہت ہے۔
پاکستانی سیاستدان اسی جبلت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ’ریاستِ مدینہ‘ اور ’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ نواز شریف کے جملے تھے لیکن اسے عمران خان نے خوب استعمال کیا۔ عمران خان کے نعرے ’بیرونی سازش‘، ’امریکی سازش‘، ’سازش نہیں مداخلت‘ اور ’امپورٹڈ حکومت‘ وغیرہ بھی اسی کے ہم وزن ہیں۔ حکمرانوں اور اشرافیہ کے بیانیے کو عوام کے ذہنوں میں راسخ بیوروکریسی اور میڈیا ہاؤسز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
برطانوی راج کا دیا بوسیدہ نظام آج بھی بیوروکریسی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں یا اشرافیہ کے آلہ کار بنے رہیں۔ کبھی معلوم تو کریں کہ لامحدود اختیارات کے مالک پولیس تھانے دار یا ڈپٹی کمشنر کی تنخواہ کیا ہے۔ اگر سرکاری افسران محض تنخواہ پر گزارا کریں تو آج کے دور میں گھر کا کچن نہیں چلا سکتے۔
کسی بھی جماعت کے بیانیے کو مقبول بنانے میں صحافی اور میڈیا ہاؤسز بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر سیاست کاروبار ہے تو میڈیا ہاؤس بھی تو منافع کمانے کی مشین ہے۔ اس وقت دنیا میں یہ بحث نہیں کہ میڈیا جانبدار ہوگیا ہے، سیاسی جماعتوں کا آلہ کار بن گیا ہے بلکہ اب تو یہ کہا جارہا ہے کہ بھائی ہمیں معلوم ہے کمائی کے لیے آپ کو اشتہار چاہئیں لیکن ہاتھ تھوڑا ہولا رکھو۔ صحافت کا نام کا ہی بھرم رہنے دو۔
گزشتہ 5 برسوں کے دوران پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ایک واضح لائن لی کہ جو ان پر تنقید کرے وہ ملک کا دشمن ہے یا عرف عام میں پٹواری ہے۔ میڈیا ہاؤسز کے اشتہار بند کردیے گئے، کوئی آزاد سوچ کا حامل میڈیا مالک اشتہار لینے جاتا تو سابق وزیر فواد چوہدری اپنا موبائل فون لہرا کر کہتے تھے میں تمہیں اشتہار کیوں دوں؟ مجھے تمہاری ضرورت نہیں میرے پاس یہ ہے، یعنی سوشل میڈیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ میڈیا مالکان کو مجبوراً پی ٹی آئی کا بیانیہ سچ کے طور پر پیش کرنا پڑا، جس نے نہیں بیچا اس کا معاشی قتل کردیا گیا۔ اسے سوشل میڈیا پر غلیظ گالیاں دی گئیں، صحافیوں کو سرِ عام وزرا نے مارا پیٹا۔ کچھ صحافی رضاکارانہ طور پر بھی سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن گئے۔ پی ٹی آئی کے حق میں ایک پروگرام کیا اور پی ٹی آئی سوشل میڈیا سیل نے اسے پورے ملک میں وائرل کردیا۔
یوٹیوب ایک ہزار سے زائد سبسکرائبر ہونے اور واچ ٹائم 4 ہزار گھنٹے سے تجاوز کرنے پر پیسے دیتا ہے، گوکہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کا سوشل میڈیا ونگ کمزور ہے لیکن پھر بھی انہیں ہلکا نہ لیں۔ جو بھی کسی جماعت کا بیانیہ سچ کے طور پیش کرے یا کسی ادارے کی ترجمانی کرے اس کے سبسکرائبرز دنوں ہی میں ہزاروں لاکھوں میں پہنچ جاتے ہیں۔
'میں تے ہونڈا ای لے ساں'، جس طرح ہونڈا نے اپنی موٹرسائیکل کو مقبول بنانے کے لیے یہ مقولہ اپنایا اسی طرح پاکستان تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ بلند کیا۔
گزشتہ عام انتخابات کو 4 سال ہونے کو آئے ہیں لیکن 'تبدیلی آ نہیں رہی آگئی ہے' کا نعرہ آپ کو آج بھی یاد ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے 2018ء کی انتخابی مہم میں اسلام آباد کو بلٹ ٹرین دینے کا نعرہ لگایا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا 'روٹی کپڑا اور مکان' کا نعرہ بہت مقبول ہوا۔ پھر آصف علی زرداری کے نعرے 'پاکستان کھپے' نے انہیں قومی ہیرو بنا دیا۔
لیکن تمام تر مماثلت کے باوجود کاروبار اور سیاست میں ایک بنیادی فرق ہے کہ کاروبار کے برعکس سیاست میں آپ پر ڈلیوری کی کوئی قید نہیں۔ کوئی بھی نعرہ ماردیں اور الیکشن جیت جائیں۔ بعد میں کوئی جتائے تو بڑا آسان سا حل ہے، کہہ دیں کہ حالات موافق نہیں تھے لیکن آئندہ انتخابات جیت کر ضرور دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔ لو جی اگلے الیکشن کا چورن تیار ہے۔
اگر آپ یہ سوچتے ہوں کہ مریم بی بی اور حمزہ شہباز شریف کی شخصیت میں ابھی تک کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آئی یا ان کا کوئی نعرہ ابھی تک مقبول نہیں ہوا تو سمجھ لیجیے کہ یا تو یہ خانہ پُری کے لیے اضافی کردار ہیں یا پھر یہ کہ اسکرپٹ لکھنے والوں نے ابھی ان کے کردار کا تعین کرنا ہے۔ سیاست اتنی ہی بے رحم ہوتی ہے۔
ٹوئٹر، انسٹاگرام، لنکڈ اِن، یہ تمام سوشل میڈیا ٹول ہیں لیکن براہِ راست ویڈیو دکھانے والے ٹولز فیس بک اور یوٹیوب سیاسی جنگجوؤں میں زیادہ مقبول ہیں۔ فیس بک اور یوٹیوب کی سخت شرائط کی وجہ سے ٹوئٹر اسپیس بھی مقبول ہورہا ہے۔ عمران خان نے حالیہ ہفتوں میں کئی بار ٹوئٹر اسپیس پر لوگوں سے براہِ راست خطاب کیا۔
سوشل میڈیا کو نیا میڈیا بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اخبار ریڈیو یا ٹی وی پر اشتہار چلوانے کی نسبت فیس بک پر لاگت نہ ہونے کے برابر آتی ہے اور اس کی پہنچ روایتی میڈیا سے بہت زیادہ ہے۔ آپ کے گھر میں ٹی وی ہو یا نہ ہو اخبار آتا ہو یا نہ آتا ہو لیکن اگر آپ تھوڑا بہت بھی لکھنا پڑھنا جانتے ہیں تو اسمارٹ فون آپ کی جیب میں ضرور ہوگا۔ یہ ہے سوشل میڈیا کی طاقت۔
شروع میں جب عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو ہوسکتا ہے کہ انہوں نے خود یا اپنی زوجہ جمائما خان کے خاندانی اثر و رسوخ کی وجہ سے کسی بڑی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی خدمات لی ہوں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عمران خان نے نہایت اسمارٹ چال چلی۔ داد دینی چاہیے کہ انہوں نے بھانپ لیا کہ اگلا دور سوشل میڈیا کا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا جانثاروں کی ایک ایسی ٹیم تشکیل دی جس نے انہیں ملک کے کونے کونے میں مقبول بنا دیا۔
لنکڈ اِن پر پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے کارکنوں کی پروفائل دیکھنے سے لگتا ہے کہ انہیں بین الاقوامی کمپنیوں کی مشاورت حاصل رہی یا انہیں ٹریننگ دی گئی ہے۔
عمران خان کی مقبولیت کے پیچھے سوشل میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ ان کی سوشل میڈیا پر دسترس ہے کہ حکومت کی برطرفی کے بعد ان کے ٹرینڈ بین الاقوامی ٹرینڈز کی فہرست میں ہفتوں شامل رہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا من پسند بیانیہ بنانے اور اس کے ذریعے عوام کو قائل کرنے کی جو مہارت عمران خان کو حاصل ہے اس کا عشر عشیر بھی دیگر جماعتوں کے پاس نہیں۔ اس بات کا ثبوت حالیہ ضمنی انتخابات بھی ہیں جس میں تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان تحریک انصاف نے کئی جماعتوں کے الائنس کو شکست فاش دی۔
پچھلے کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر ایک خطرناک بیانیہ بڑی محنت سے ترتیب دیا جارہا ہے کہ فوج میں عمران خان کی حمایت کے حوالے سے تقسیم ہے۔ عمران خان کی حکومت جانے کے بعد سے اس میں تیزی آئی ہے۔ اس بیانیے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ایک سابق فوجی ترجمان اور ایک خفیہ ادارے کے سابق سربراہ عمران خان کے حمایتی ہیں جبکہ فوج کے سربراہ عمران خان کے مخالف ہیں۔
فوج اور خفیہ اداروں کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے ہولی وڈ فلمیں ایک اچھا ذریعہ ہوسکتی ہیں۔ آپ نے مشہور فلم اسپائی گیم تو دیکھی ہوگی۔ ہولی وڈ کی کئی فلموں میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے کسی خفیہ ادارے کا ایک یونٹ ایک بیانیے کو تشکیل دیتا ہے جبکہ دوسرا یونٹ اس کے مخالف بیانیے کو فروغ دے رہا ہوتا ہے۔
پاکستانی فوج نے برٹش آرمی کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ تاریخ میں ہمیں فوج کے خلاف صرف ایک بڑی بغاوت کا ذکر ملتا ہے جو 1857ء میں ہوئی۔ باوجود اس کے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر مٹھی بھر برطانوی فوج کے خلاف کافی منظم بغاوت کی پھر بھی وہ برطانوی فوج کا کچھ خاص نہیں بگاڑ سکے۔ لیکن اس کے بعد سے فوج میں ایسا طریقہ کار وضع کردیا گیا کہ بغاوت ناممکن بنادی گئی۔
فوجی بغاوت کے جرم میں سزا یافتہ ایک برگیڈیئر صاحب سے میری طویل نشستیں رہیں ہیں۔ ان کا تمام آپریشن میں نے درجنوں بار پوری تفصیل سے سنا ہے۔ وہ بڑے تاسف سے بتاتے تھے کہ ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کو اسی وقت سے علم تھا جب وہ فوجی بغاوت کی ابتدائی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ انہیں ڈھیل دی گئی اور پھر پورے نیٹ ورک سمیت رنگے ہاتھوں پکڑلیا گیا۔
میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ملٹری انٹیلی جنس اور فوجی خفیہ ادارے سپاہی اور ان کے اہلِ خانہ تک پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ کس کس سے ملتے ہیں، کہاں جاتے ہیں سب ریکارڈ رکھا جاتا ہے، افسروں کی تو بات ہی اور ہے۔ خفیہ ادارے صرف فوجیوں کا ہی نہیں اہم عہدوں پر فائز سویلینز کا بھی ریکارڈ رکھتے ہیں۔
جو صحافی ساتھی آبپارہ دفتر جاتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ صحافیوں کی بھی فائلیں ہیں۔ ایسے میں اگر مجھے کوئی یہ کہے کہ طالبان پر فوج میں تقسیم تھی تو میری عقل تسلیم نہیں کرتی۔ ہوسکتا ہے مجھ میں فہم و فراست کی کمی ہو لیکن مجھے یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا جب یہ کہا جاتا ہے کہ فوج کے ایک سابق ترجمان اور سابق خفیہ ادارے کے سربراہ مل کر عمران خان کو خفیہ سپورٹ کر رہے ہیں یا اعلیٰ قیادت کے خلاف نفرت بڑھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔
دہائیوں سے ملکی سیاست اور فوج پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر فوج مخالف ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا جارہا ہے جس کی پہلے مثال نہیں ملتی اور اس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔
انڈیپنڈنٹ اردو کے منیجنگ ایڈیٹر ہارون رشید کے مطابق ’بتایا جارہا ہے کہ فوج کے اکثر افسر عمران خان حکومت کی برطرفی سے خوش نہیں ہیں تاہم ساری بحث اس بات کے گرد ہے کہ کیا عمران خان کی تائید کرنی چاہیے یا نہیں‘۔
ہارون رشید سمجھتے ہیں کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے اور فوج مخالف مہم چلانے والے پاکستانی سیاست کے ساتھ کوئی انصاف نہیں کررہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'بہت افسوس کی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر فوج کو مسلسل ہدف کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہم ایک خطرناک دور میں داخل ہوگئے ہیں جہاں ملکی سالمیت اور بقا داؤ پر لگی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ کچھ سیاستدان اور ادارے بھی اپنے طریقہ کار پر نظر ثانی کریں'۔
سینیئر صحافی عبدالرزاق کھٹی کے مطابق ’پی ٹی آئی فوج پر تنقید دباؤ ڈالنے کے لیے کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا فوج مخالف بیانیہ ان کے ووٹر میں مقبول ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کو بڑی کامیابی ملی۔ دوسری طرف مقتدر حلقوں کی جانب سے بھی ان کی سرزنش نہیں کی گئی۔ یوں اس تاثر کو تقویت ملی کہ عمران خان کے حوالے سے فوج میں تقسیم موجود ہے۔ ایسا ملک کی تاریخ میں کم ہی ہوا ہے‘۔
عبد الرزاق کھٹی کے خیال میں پی ٹی آئی کو اس بات کا ادراک ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ 14 اگست کے جلسے میں عمران خان دوبارہ فوج سے مفاہمت کی پالیسی اپنا لیں گے۔
سوال یہ ہے کہ عمران خان اگر فوج سے شیر و شکر ہو بھی ہوجائیں تو کیا اس نفرت میں کمی ہوگی جو عمران خان نے اپنے حمایتیوں کے دل میں بڑی محنت سے ڈالی ہے۔
صاحب تحریر صحافی ہیں اور ملکی اور غیر ملکی اداروں کے لیے خدمات دے چکے ہیں۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: atifjournalist@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
صاحب تحریر صحافی ہیں اور ملکی اور غیر ملکی اداروں کے لیے خدمات دے چکے ہیں۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: atifjournalist@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔