اس سیاسی بحران میں کسی کا فائدہ ہو نہ ہو ملک کا نقصان ضرور ہے
پنجاب میں جاری آئینی بحران کا ڈرامہ اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو ’خلافِ اختیار‘ قرار دیتے ہوئے رد کردیا۔ یوں عدالت نے حمزہ شہباز کے انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کے لیے پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بننے کا راستہ کھول دیا۔
کیا اس عدالتی فیصلے نے جس کے نتیجے پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت یافتہ حکومت آچکی ہے، ملک میں جاری سیاسی بحران کو ختم کرنے یا کشیدگی کم کرنے میں مدد کی ہے؟ شاید نہیں۔
حالیہ واقعات سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو شدید دھچکا پہنچا ہے کیونکہ اس کے سیاسی گڑھ پر مسلم لیگ (ن) کے سیاسی حریفوں کا قبضہ ہوچکا ہے۔ ان واقعات کے نتیجے میں پاکستان ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہوگیا ہے جس کا تجربہ شاید پہلے کبھی نہیں ہوا اور اس کے نتیجے میں ملک مزید عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ مرکز اور پنجاب میں ایسی حکومتیں موجود ہیں جو ایک دوسرے کو تسلیم ہی نہیں کرتیں اور یہ تصادم کی جانب بڑھ سکتی ہیں۔
عمران خان قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں اور جو لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ عمران خان اپنے اتحادی پرویز الٰہی کو فوری طور پر صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا کہیں گے تاکہ اتحادی حکومت پر دباؤ ڈالا جائے وہ غلطی پر تھے۔ پرویز الٰہی نے بھی ایسا کرنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا اور عمران خان بھی شاید سب سے بڑے صوبے میں بیٹھ کر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی اب وفاقی حکومت کے اختیارات اور طاقت کو محدود کرنے اور اس حکومت کے خاتمے کا ارادہ رکھتی ہے۔
مزید پڑھیے: 'عدالت کا حالیہ فیصلہ مزید تنازعات کی وجہ بنا ہے‘
اس صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی طور پر یہ ملک بلاشبہ تباہی کا سامنا کررہا ہے۔
اپوزیشن قومی اسمبلی کی قانونی حیثیت ختم کرنے کے لیے اسمبلی سے بار بیٹھی ہوئی ہے اور حقیقی اپوزیشن کی عدم موجودگی میں پارلیمنٹ غیر فعال ہوچکی ہے۔ یہ ساری چیزیں سیاسی ناکامی کی علامات ہیں۔
سیاست اس وقت ناکام ہوجاتی جب سیاسی جھگڑے اور بحران سیاسی طور پر حل نہیں ہوپاتے اور جب ایک گرڈ لاک پیدا ہوجائے جس کا کوئی حل نظر نہ آرہا ہو۔ اس کے نتیجے میں سیاسی ادارے مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں اور ان کا سیاسی بحران کو حل کرنے یا ثالثی کرنے کا بھی کوئی کردار نہیں رہتا۔
اتحادی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری محاذ آرائی اور ان کے مابین بات چیت کا فقدان موجودہ بحران کے حل کے لیے مذاکرات کے امکان کو رد کردیتا ہے۔ دونوں بنیادی طور پر سیاسی مسائل اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے عدالتوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں یہ شاید کوئی نئی بات نہ ہو لیکن اب ایسا تواتر کے ساتھ ہو رہا ہے جو بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان سیاست کی ناکامی کا اشارہ ہے۔
اس کے اثرات بھی بہت زیادہ وسیع ہوتے ہیں۔ اس طرح عدلیہ کو سیاست میں گھسیٹا جاتا ہے اور پھر عدالت سیاسی محاذ آرائی کا میدان بن جاتی ہے۔ دونوں جانب سے ہی سیاسی جھگڑوں کے حل کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے اور اس وجہ سے دونوں میں سے کوئی ایک پارٹی عدالت کے فیصلوں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
عمران خان اقتدار سے اپنی بے دخلی کے بعد سے ہی اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ اور غیر جانبداری پر سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ اپنی کئی تقریروں میں وہ براہِ راست عدلیہ کو مخاطب کرتے رہے ہیں تاکہ عدلیہ پر اپنے حق میں فیصلوں کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ جب عدالتِ عظمیٰ نے ان کے اتحادی پرویز الٰہی کے حق میں فیصلہ دیا تب انہوں نے اس فیصلے کو پُرجوش انداز میں قبول کیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے بھی ایسے بیانات دیے جن میں عدالتِ عظمیٰ پر دباؤ ڈالا گیا اور اس پر تنقید کی گئی۔ اس کی ایک مثال سپریم کورٹ میں سماعت سے قبل ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس تھی۔ اس پریس کانفرنس میں پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کرنے والے 3 رکنی بینچ کی غیر جانبداری پر سوال اٹھاتے ہوئے بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ کچھ رہنماؤں نے ماضی کے ’سیلیکٹو جسٹس‘ کی بھی بات کی۔ ظاہر ہے کہ یہ بیانیہ سیاسی مقاصد کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیے: بہتر ہے ہم روز سیاسی جیت ہار کا جشن منانے کے لیے تیار رہیں
ساتھ ہی دونوں سیاسی حریفوں نے ایک دوسرے پر عدلیہ کو ’بلیک میل‘ کرنے اور اسے بدنام کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اس سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ طاقت کے اس کھیل کا شکار بن جائے گی اور ثالث کے طور پر اس کا کردار ختم ہوجائے گا۔
اسی دوران مختلف معاملے پر ہی صحیح لیکن ایک اور تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ یہ چیف جسٹس کی جانب سے ججوں کی تعیناتی پر عدالت عظمیٰ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اٹھایا جانے والا سوال تھا۔ اپنے ایک طویل خط میں انہوں نے لکھا کہ چیف جسٹس ان اختیارات کا استعمال کررہے ہیں جن کی ’آئین میں اجازت نہیں ہے‘ اور وہ ’یکطرفہ‘ فیصلے کررہے ہیں۔
اس کے کچھ دنوں بعد ہی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے چیف جسٹس کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے لیے نامزد کیے گئے پانچوں ججوں کی نامزدگی کو مسترد کردیا۔ ہمیں ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز نے مطالبہ کیا کہ ججوں کی تقرری میں سینیارٹی کے اصول کا احترام کرنا چاہیے اور یہ بھی مطالبہ کیا کہ بینچ کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کیا جائے۔
اس طرح کے معاملات پر عدالتِ عظمیٰ میں تنازعات اور تقسیم سے اداروں پر سے عوام کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔ ایک اور ادارہ جس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن کو مستقل اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے اور وہ چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب اتحادی حکومت بھی الیکشن کمیشن پر مزید تاخیر کیے بغیر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ پی ٹی آئی کو ملنے والی فارن فنڈنگ کے حوالے سے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ نے اس آگ میں مزید ایندھن ڈال دیا ہے۔ تاہم حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ وہ اداروں کے مابین کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتی۔
ہم ہر ہفتے اتحادی حکومت اور پی ٹی آئی کی سیاسی تقدیر بدلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور اس وجہ سے موجودہ سیاسی بحران جاری رہنے کے امکانات واضح ہیں۔ بلاشبہ مشکلات کا شکار معیشت اس کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ اس طرح معیشت تیزی سے مکمل بحران کی جانب جائے گی جس کے ملک پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔
مزید پڑھیے: ڈپٹی اسپیکر رولنگ کے خلاف عدالتی کارروائی کی اندرونی کہانی
ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 240 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ معاشی طور پر اعتماد میں بھی روز بروز کمی ہورہی ہے۔ مارکیٹ ان سرکاری بیانات پر توجہ نہیں دے رہی جس کا مقصد جذبات کو ٹھنڈا رکھنا ہے۔
سیاسی محاذ آرائی میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں اور کشیدگی میں ہونے والا مسلسل اضافہ مشکلات کا شکار معیشت کے لیے آنے والے دنوں میں اور بھی زیادہ نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔ سیاسی اور معاشی بے یقینی ملک کے استحکام کو بہت زیادہ متاثر کررہی ہے۔
اب خطرہ اس بات کا ہے کہ کہیں یہ سیاسی محاذ آرائی وفاق بمقابلہ پنجاب محاذ آرائی میں تبدیل نہ ہوجائے۔ یہ وفاق اور صوبے دونوں کی حکومتوں کو مفلوج کردے گا اور نتیجے کے طور پر پورا نظام ہی بیٹھ جائے گا۔
وفاقی وزیرِ داخلہ کی جانب سے انہیں پنجاب میں داخلے سے روکے جانے پر گورنر راج نافذ کرنے جیسے بیانات کشیدگی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی پی ٹی آئی قیادت کے بیانات بھی کچھ کم نہیں ہیں جو عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے اور پنجاب حکومت سنبھالنے کے بعد آرہے ہیں۔
طرفین اپنے مؤقف پر سختی سے قائم ہیں۔ یہ رجحان ایک خطرناک تصادم کے راستے کی پیشگوئی کرتا ہے جس سے کوئی بھی فریق فائدے کی امید نہیں رکھ سکتا تاہم اس سے ملک کو نقصان ضرور پہنچے گا۔
یہ مضمون یکم اگست 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔