نقطہ نظر

آفت زدہ بلوچستان اور حکومتی سنجیدگی

حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت کی جاری کردہ تفصیلات اور کارکردگی صرف دستاویزات، رپورٹوں، اجلاسوں اور فوٹو سیشن کی حد تک ہی محدود ہیں۔

’ہر قدرتی آفت میں بلوچستان ہی سب سے زیادہ کیوں متاثر ہوتا ہے؟' یہ وہ سوال ہے جو تقریباً ہر محفل میں لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں۔ میرے پاس اس کا کوئی سیدھا اور آسان جواب تو نہیں ہوتا لیکن میرے ذہن میں بلوچستان میں آنے والی گزشتہ قدرتی آفات، اس کے نتیجے میں ہونے والا جانی و مالی نقصان اور حکومتی پریس کانفرنسیں، اعلانات اور دعوے ضرور تازہ ہوجاتے ہیں۔

بلوچستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کا حال اس کے ماضی سے قطعاً مختلف نہیں اور خدشہ ہے کہ شاید اس کا مستقبل بھی ایسا ہی ہو، دعا ہے کہ میرا خدشہ غلط ثابت ہوجائے۔

ماضی میں متعدد مرتبہ بلوچستان قدرتی آفات کا سامنا کرتا رہا ہے اور ہر بار مقامی افراد کو جانی و مال نقصان اٹھانے کے ساتھ حکومتی عدم توجہی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ ایسی ہی صورتحال بلوچستان میں ہونے والی حالیہ تباہ کن مون سون بارشوں کے نتیجے میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

بارشوں سے ہونے والے نقصانات

بلوچستان سمیت ملک بھر میں مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں جہاں بارشوں نے معمولاتِ زندگی بُری طرح متاثر کیے ہیں وہیں بلوچستان میں بھی طوفانی بارشوں نے تباہی مچا دی ہے۔

صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق یکم جون سے اب تک ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں مختلف حادثات میں 111 افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے جن میں 45 مرد، 31 خواتین اور 35 بچے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سیلابی ریلوں میں بہہ جانے اور مکانات کی دیواریں اور چھتیں گر جانے سے 66 افراد زخمی ہوئے۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق طوفانی بارشوں سے 11 ہزار 775 مکانات کو نقصان پہنچا جن میں سے 8 ہزار 874 کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ 2 ہزار 901 مکانات مکمل طور پر منہدم ہوگئے۔ اس کے علاوہ 565 کلومیٹر شاہراہیں اور 9 رابطہ پل سیلاب کی نذر ہوگئے جس کے نتیجے میں بلوچستان کا بیشتر حصہ دیگر صوبوں سے کٹ گیا۔

حالیہ بارشوں نے جہاں انسانی جانوں کا نقصان کیا اور مواصلاتی نظام کو درہم برہم کیا وہیں 23 ہزار 13 مویشی بھی ہلاک ہوئے اور ایک لاکھ 97 ہزار 930 ایکڑ کی زرعی اراضی کا بھی نقصان ہوا۔

چیف سیکریٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے بارشوں سے ہونے والی تباہی سے متعلق میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 'مون سون بارشوں سے 16 ڈیموں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ صوبے کے 10 اضلاع بارشوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان اضلاع میں لسبیلہ، کیچ، کوہلو اور ہرنائی سمیت دیگر اضلاع شامل ہیں۔

عوام کو درپیش مشکلات

بلوچستان میں مون سون بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ندی نالوں میں طغیانی آگئی۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے نشیبی علاقے بھی بارشوں سے زیرِ آب آگئے جبکہ شہر کے نواحی علاقوں بشمول مشرقی بائی پاس، کیچی بیگ، ہزار گنجی اور سریاب روڈ میں کئی مکانات کی چھتیں گرنے سے جانی اور مالی نقصان ہوا۔

سریاب روڈ پر خانہ بدوشوں کی بستی کے رہائشی اسلم بخش بتاتے ہیں کہ 'بارش اور طوفانی ہواؤں کے سبب ان کے خیمے تباہ ہوگئے جس کی وجہ سے مجھے اور میرے اہلِ خانہ کو رات کھلے آسمان تلے گزارنی پڑی۔ اس صورتحال کو 3 روز گزر چکے ہیں مگر ہم اب بھی حکومتی امداد کے منتظر ہیں'۔

بارشوں نے بلوچستان کے ساحلی علاقے لسبیلہ اور اوتھل میں سب سے زیادہ تباہی مچائی۔ طوفانی بارشوں کے سبب 5 گاؤں مکمل طور پر زیرِ آب آگئے جس کی وجہ سے ہزاروں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ 25 جولائی کو بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب سے لسبیلہ کی تحصیل گڈانی کے قریب کوئٹہ کراچی روڈ پر واقع باگڑ ندی پل سیلابی ریلے میں بہہ گیا جس کی وجہ سے سیکڑوں مسافر گزشتہ 5 روز سے کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر پھنسے ہوئے ہیں۔

قومی شاہراہ پر پھنسے افضل خان کہتے ہیں کہ 'حکومتی دعوے صرف زبانی جمع خرچ ہیں، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت قریبی ہوٹلوں اور قہوہ خانوں سے کھانا خرید رہے ہیں اور اس پر ستم یہ کہ ان ہوٹل مالکان نے بھی کھانے کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ کردیا ہے'۔ افضل خان نے مزید کہا کہ 'جتنے پیسے وہ گھر سے لے کر چلے تھے وہ ختم ہوچکے ہیں اور اب ان کے پاس مزید کھانا خریدنے کے پیسے موجود نہیں۔ ایسی صورتحال میں یہاں موجود سیکڑوں مسافر پریشان اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں'۔

بلوچستان کے پشتون آبادی والے اضلاع میں بھی بارشوں سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال نے تباہی مچا دی ہے۔ کان میتر زئی اور مسلم باغ میں سیلابی ریلے کے باعث رابطہ سڑکیں بہہ گئیں جبکہ کئی باغات کو بھی نقصان پہنچا۔

مون سون بارشیں اور حکومتی اقدامات

حکومتی اقدامات کے نام پر اب تو بس ایک ہی کام ذہن میں آتا ہے کہ اگر کسی حادثے میں کوئی فرد جان سے چلے جائے تو اس کے لیے چند لاکھ کا اعلان کردیا جائے، اور ان بارشوں کے بعد بھی بلوچستان میں ایسا ہی ہوا کہ حادثات کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لیے حکومتِ بلوچستان نے 10، 10 لاکھ کا اعلان کردیا۔

لیکن ان اعلان کرنے والوں سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ جن کے لیے آپ یہ اعلان کررہے ہیں ان کی زندگیوں کو بچانے کے لیے آپ نے کیا کیا؟ جب یہ بارشیں ہورہی تھیں تو صوبائی حکومت کہاں تھی؟ کیا اقدامات اٹھائے گئے؟

جب صوبے کے لوگ مدد کے لیے حکمرانوں کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے تو صوبے کے وزیرِ اعلیٰ اپنے لوگوں کے درمیان ہونے کے بجائے اسلام آباد میں موجود تھے اور پنجاب کی صورتحال پر تبادلہ خیال ہورہا تھا۔ نہ انہوں نے یہ سوچا کہ اس مشکل حالات میں اپنے لوگوں کے پاس جایا جائے نہ وفاقی حکومت نے خود کچھ کرنے کی کوشش کی اور نہ وزیرِ اعلیٰ کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ پنجاب کے حالات ہم دیکھ لیں گے، آپ کے لوگوں کو آپ کی ضرورت ہے اس لیے آپ فوراً پہنچیں۔

دوسری طرف چیف سیکریٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی اس بات کو روتے رہے کہ بہت بارشیں ہوگئی ہیں۔ وہ کہتے رہے کہ حالیہ بارشوں نے گزشتہ 30 سال میں ہونے والی بارشوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے اور رواں برس 500 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔

چیف سیکریٹری بلوچستان نے یہ تو بتایا کہ سیلابی پانی میں گھرے 17 ہزار افراد کو ریسکیو کیا گیا ہے اور مزید 2 ہزار افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے، مگر وہ یہ نہ بتاسکے کہ مزید کتنے لوگ مدد کے منتظر ہیں، انہیں کب اور کیسے مشکل سے نکالا جائے گا؟

چیف سیکرٹری نے روایتی انداز میں صوبے کو آفت زدہ قرار دے کر دفعہ 144 نافذ کردی اور عوام سے اپیل بھی کی کہ آئندہ 10 روز کے دوران غیر ضروری سفر سے گریز کریں تاکہ بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے بچا جاسکے۔

اس کے علاہ پی ڈی ایم اے کا دعویٰ ہے کہ موجودہ صورتحال میں محکمے کی جانب سے متاثرہ علاقوں میں یکم جون سے اب تک 11 ہزار 875 ٹینٹ، 8 ہزار 130 کمبل، 7 ہزار 600 پانی کے کولر، 5 ہزار 70 گیس سلینڈر اور 16 ہزار 287 کھانے پینے کی اشیا فراہم کی گئی ہیں۔

مگر حقیقت تو یہ ہے کہ حکومتِ بلوچستان اور محکمہ پی ڈی ایم اے کی جاری کردہ تفصیلات اور کارکردگی صرف دستاویزات، رپورٹوں، اجلاسوں اور فوٹو سیشن کی حد تک ہی محدود ہیں اور زمینی حقائق اس سے کئی گنا زیادہ خوفناک ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق حالیہ مون سون بارشوں نے 40 لاکھ افراد کو متاثر کیا ہے، سیکڑوں کچی آبادیاں اور گاؤ‌ں سیلابی پانی میں ڈوب چکے ہیں، کئی اضلاع گزشتہ 4 روز سے بجلی سے محروم ہیں جبکہ کسانوں کو اپنے باغات اور فصلوں کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔ ایسے میں حکومتِ بلوچستان کے کیے گئے یہ تمام اقدامات ان کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتے۔

سیدھی اور سچی بات یہ ہے کہ بلوچستان کے لیے کوئی سوچنے والا اور اس کی فکر کرنے والا نہیں ہے۔ یہاں بار بار ایسی حکومتیں لائی جاتی ہیں جنہیں صرف اس کے وسائل سے مطلب ہے، اس کے مسائل حل کرنے سے انہیں کوئی سروکار نہیں اور جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا تب تک حالات میں بہتری کے کوئی امکانات نہٰیں۔

غالب نہاد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔