نقطہ نظر

پتھروں کی کہانی

ان پتھروں کی درجنوں کہانیاں ہیں، ہر کہانی نویس نے اپنی ذہنی وسعت کے مطابق ان پتھروں کو دیکھا ہے۔

آج کہانیاں کہتی ایک ایسی جگہ کی سیر کو چلتے ہیں جس سے متعلق درجنوں داستانیں لوگوں کی زبان پر ہیں مگر شاید حقیقت کا معلوم کسی کو بھی نہیں۔ یہ جنوبی سویڈن کے ایک چھوٹے سے شہر یاسٹڈ مونسپلٹی کے قصبے کھوسبرگا کے ساحل پر موجود پتھروں کی کہانی ہے۔

پتھروں کا ذکر آئے تو احمد ندیم قاسمی صاحب کی مشہورِ زمانہ نظم ذہن میں گونجتی ہے کہ

ریت سے بت نہ بنا، اے میرے اچھے فنکار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں

جتنے افکار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں، جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں، انہی سوچوں میں گم ہم گھر سے چل پڑے۔ اپنے شہر مالمو سے ہم نے اوائڈ موٹروے کا راستہ منتخب کیا اور سفر کے ابتدائی حصے میں چھوٹے چھوٹے قصبوں سے ہوکر ای 65 نامی ہائی وے تک جاپہنچے۔ ایک گھنٹہ 10 منٹ کا یہ سفر ہم نے ڈھائی گھنٹوں میں طے کیا، کئی ایک منظر آنکھوں میں قید کیے اور کئی یادیں گھر لے آئے۔

آج کل موسمِ بہار اور موسمِ گرما ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں، یورپ کو دیکھنے کے لیے اس جیسا موسم ہی درکار ہے، شہروں سے باہر نکلیں تو سرسوں کے پھولوں سے زرد زرد ہوئے گاؤں، گندم کی ہری ہری فصل سے آنکھوں کو ٹھنڈک دیتے تا حدِ نظر پھیلے ہوئے کھیت، اور ان کھیتوں میں کہیں کہیں نظر آنے والے گھر۔ ترچھی چھتوں والے ایسے گھر جیسے بچپن کی کتابوں میں ہوتے تھے، ایسے گھر جن کی تصویر ہم نے سب سے پہلے ڈرائنگ کی کتابوں میں بنائی تھی۔ درمیان میں گھنے درختوں سے گھری سڑکیں اور آج کل کا تازہ تازہ سبز رنگ یہ بھلائے دے رہا تھا کہ ہم پتھروں کی کہانی سننے جا رہے ہیں۔

کھوسبرگا نامی اس گاؤں پہنچ کر ہم نے گاڑی پارک کی اور ان ٹیلوں کی طرف بڑھے جہاں یہ پتھر پڑے ہیں۔ ہماری پارکنگ سے یہ سفر 500 میٹر کا ہی تھا، لیکن چڑھائی کا یہ راستہ لگتا یوں ہے کہ میل بھر کا تو ہوگا۔ ابھی 2، 4 سو قدم ہی اوپر گئے ہوں گے کہ ہوا کے جھونکے سے ایک تیز بُو نتھنوں میں آ گھسی۔ جانوروں کے گوبر کے نشانات اس جگہ پر بُو ہونے کا پتا دے رہے تھے، اور آگے کچھ گھوڑے گھاس چرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ ذرا فاصلے پر لگے ہوئے ایک بورڈ پر 2 زبانوں میں لکھا گیا تھا کہ اس جگہ کو قدرتی جگہ کے طور پر آباد رکھا گیا ہے یعنی یہاں انسانوں اور جانوروں کے حقوق کا یکساں خیال رکھا جاتا ہے۔

اسی جگہ پر ایک اور بورڈ بھی لگا ہوا ہے جس پر اس جگہ کی تاریخ کے بارے بتایا گیا ہے۔

ایلس سٹینا سویڈن کے اندر سب سے بڑی اور محفوظ شپ سیٹنگ ہے۔ یہ 59 پتھروں پر مشتمل ہے اور یہ 70 میٹر لمبی اور 19 میٹر چوڑی ہے۔ یہ جگہ غالباً 500 سے لے کر 1000 عیسوی کے دوران بنائی گئی۔ اس طرز کی شپ سیٹنگز وائکنگز کے دور میں بنائی گئی جن میں زیادہ تر کا زمانہ 800 سے لے کر 1050 کا ہے۔ ان پتھروں کے بارے کئی کہانیاں ہیں۔

اس طرز کے پتھروں کی دریافت کا سلسلہ کچھ نیا نہیں۔ سویڈن، ڈنمارک، ناروے اور جہاں جہاں وائکنگز نے حکومت کی وہاں وہاں اس طرز کی شپ سیٹنگز کے نشانات ملے ہیں۔ ڈنمارک کے کنگز اور وائنکنگ میوزیم جو یو لینڈ کے اندر جیلنگ نامی شہر میں ہے، اور وہاں مجھے ایک نقشہ دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ اس نقشے پر اس طرز کی دریافتوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔

15ویں صدی سے پہلے مقامی لوگ اس کو چاند کے پتھر بھی کہتے تھے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ پتھر یہاں پر جاہ و حشمت کے بیان کے لیے اکٹھے کیے گئے ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ یہاں پر بڑے بحری جہاز بنائے جاتے ہوں گے اور کچھ کا خیال ہے کہ یہاں کوئی دفن ہوگا جس کی یادگار کے طور پر یہ بنائے گئے ہوں گے، تاہم یہاں کسی قسم کی کوئی قبر دریافت نہیں ہوئی۔

اسی بورڈ پر لکھا ہوا ایک فقرہ ان سبھی کہانیوں پر بھاری ہے کہ ان پتھروں کی درجنوں کہانیاں ہیں، ہر کہانی نویس نے اپنی ذہنی وسعت کے مطابق ان پتھروں کو دیکھا ہے، یہ جگہ آپ کے تخیل کو وسعت دیتی ہے، آپ کے ذہنی کینوس پر جو سمائے بس وہی سمجھ لیجیے۔

تو بس کچھ نہ کچھ تو سمجھنا ہم نے بھی تھا۔ زمین میں گڑے ہوئے یہ عام سے پتھر ہیں جیسے پہاڑی علاقے کے کچھ شرارتی بچے، اپنے علاقے کی نشاندہی کے لیے ایک دیوار سی بنا دیں۔ سمندر کے کنارے گھاس کے اس میدان میں اُگے ہوئے یہ پتھر حاتم طائی کے 7 سوالوں کا ایک سلسلہ بھی ہوسکتے ہیں کہ شاید کوئی سوئمبر رچایا گیا ہوا اور کسی نے فرمائش کی ہو کہ اس میدان میں اس کو پہاڑ کا منظر پیدا کرنا ہو۔

ایک پتھر سے ٹیک لگائے کوئی مقامی شخص کتاب پڑھنے میں مگن تھا، ہم نے گھوم پھر کر ان پتھروں کا جائزہ لیا اور دل میں سوچا کہ ان پتھروں پر بہت خوبصورت صبحیں اور شامیں اترتی ہوں گی، لیکن اس وقت میں ان کو دیکھنے آنا قدرے دشوار کام ہے جو عمر کے اس حصے میں کرنے کا یارا نہیں رکھتے، اس لیے جیسے تیسے اس کو دیکھ لیا یہی اچھا ہے۔

یہاں پتھروں سے سمندر کی طرف کنارے تک چلیں تو سمندر کا منظر بہت خوبصورت ہے۔ مئی کے مہینے کی بدیسی دھوپ جیسے پاکستان میں سردیوں کی دھوپ ہوتی ہے، جس میں یہ کنارہ بہت ہی بھلا محسوس ہوتا ہے۔ دُور سمندر اور آسمان ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں اونچی جگہ پر بیٹھ کر دھوپ سینکنا اور سمندر کا نظارہ کرنا ایک دلفریب تجربہ ہے جو آپ یہاں آئے بغیر حاصل نہیں کرسکتے۔

جب ہم اس جگہ پر پہنچے تھے تو ہم جیسے گنتی کے 2، 4 سیاح یا مقامی لوگ ہی موجود تھے، لیکن کچھ ہی دیر میں کسی مقامی اسکول کا ایک ٹور یہاں آ پہنچا۔ بچوں کے 4، 5 بڑے بڑے گروپ تھے جو اپنے اپنے گروپ لیڈر کے ساتھ گھوم رہے تھے۔ ان بچوں نے خوب ہلا گلا کیا۔ یہ منچلے پتھروں پر چڑھ چڑھ فوٹو کھنچواتے اور اِدھر سے اُدھر بھاگتے پھرتے۔ کچھ کا دھیان دُور کھڑے گھوڑوں کی طرف تھا کہ وہ جائیں اور ان کو قریب سے دیکھ آئیں۔ کچھ اساتذہ کے چہیتے چلتے جاتے تھے کہ جس طرف رہنما جاتے۔

آپ اس جگہ پر جائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ ان پتھروں کے سوا آپ کو کچھ بھی نہ ملے، بس اونچائی پر ایک میدان اور سمندر کا کنارہ لیکن آپ کا ذہن بھی کہانیاں بنتا ہے تو آپ بھی یہاں چاند سے اتارے ہوئے پتھر دیکھ سکتے ہیں، یا پھر قاسمی صاحب کی نظم گنگنا سکتے ہیں۔

ریت سے بت نہ بنا، اے میرے اچھے فنکار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں


رمضان رفیق دنیا سیاحت کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.

رمضان رفیق

رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔