نقطہ نظر

آخر ہم نے کراچی کی پرانی بسوں کو کیوں بھلا دیا؟

ماضی میں نجی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں بہت کم ہوتی تھیں اور ان بسوں کی وجہ سے شہر کے کم آمدن والے علاقے شہری زندگی سے جڑے ہوتے تھے۔

گزشتہ مہینے کراچی میں مسافروں کو درپیش مشکلات کو دُور کرنے کے لیے ایک نئی بس سرورس کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ بسیں 7 روٹس پر چلیں گی۔ اس وقت پہلے روٹ پر بسیں چلنا شروع ہوچکی ہیں جبکہ رفتہ رفتہ دیگر روٹس بھی فعال کردیے جائیں گے۔

اکثر مبصرین اس بس سروس کا مقصد آنے والے بلدیاتی انتخابات میں ووٹوں کے حصول کو سمجھتے ہیں کیونکہ سندھ میں 10 بسوں کے ساتھ اسی طرح کی ایک سروس 2018ء کے انتخابات سے قبل بھی شروع کی گئی تھی۔

حکومتی سبسڈی کے ساتھ اسی طرح کا ایک منصوبہ 2 دہائیوں قبل بھی شروع کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی شہر میں کئی بس روٹس کا تعین کیا گیا تھا اور اس وقت کی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کی مدد سے شاندار مگر مہنگی بسیں درآمد کی گئی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بسیں کم سے کم ہوتی گئیں اور پھر ختم ہی ہوگئیں۔ ظاہر ہے کہ حکومتی سبسڈی کے ساتھ شہر میں ٹرانسپورٹ چلانا مشکل کام ہے، تاہم حکام نے اس سے کچھ نہیں سیکھا۔

شہری جب کبھی کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی حالتِ زار کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو انہیں یہی جواب دیا جاتا ہے کہ ایک بار جب بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی) مکمل طور پر فعال ہوجائے گی تو یہ مسائل بھی ختم ہوجائیں گے۔

اب تک گرین لائن پر سرجانی سے لے کر نمائش تک 80 بسیں چلائی جارہی ہیں۔ ریڈ لائن پر بھی کام کا آغاز ہوگیا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کام کی سب سے زیادہ ’قابل ذکر‘ چیز درختوں کی کٹائی ہی رہی ہے۔ اس منصوبے پر کام کرنے والوں کے مؤقف کے برعکس اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ ان بسوں کے ذریعے سستے اور آرامدہ سفر کا خواب پورا ہوسکے گا۔

مزید پڑھیے: کراچی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟

اس حوالے سے کئی چیلنجز موجود ہیں۔ جب کراچی کی تمام 7 بی آر ٹی شروع ہوں گی اور اگر یہ شروع ہوتی ہیں تو اس وقت بھی یہ شہر کی 8 فیصد سے بھی کم سفری ضروریات کو ہی پورا کریں گی۔ ان کی تعمیر ایک خطیر رقم سے کی جارہی ہے اور کئی اداروں سے ان کے لیے قرضے بھی لیے گئے ہیں۔ ان بسوں کو چلانے کے لیے سالانہ بنیاد پر خطیر سبسڈی کی بھی ضرورت ہوگی جو حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔

جب یہ مالی بوجھ بہت زیادہ بڑھ جائے گا تب یہ بسیں بھی چلنا بند ہوجائیں گی۔ یہی کچھ 1996ء میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور پھر 1999ء میں کراچی سرکلر ریلوے کے ساتھ ہوا تھا۔

ہر کوئی پرانی کھٹارا بسوں پر تنقید کرتا ہے، لیکن دراصل ان بسوں کی اس حالت کے پیچے کئی عوامل ہیں۔ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، سڑکوں کی خراب حالت، پولیس کی جانب سے بھتہ لینا، بسوں کی مرمت کے لیے سرمائے کی محدود دستیابی اور نئی بسوں کی خریداری کے لیے قرض کا نہ ملنا بھی ان عوامل میں شامل ہیں۔

مزید پڑھیے: زبوں حالی کا شکار کراچی اور اس کے دم توڑتے بلدیاتی ادارے

ماضی میں کراچی کے تمام علاقے شہر کے مرکز، صنعتی زونز، تعلیمی اداروں اور صحت کے بڑے مراکز کے ساتھ بسوں کے ذریعے ہی منسلک ہوتے تھے جو شہریوں کو سستی اور پائیدار سفری سہولت فراہم کرتی تھیں۔

کراچی ڈیولپمنٹ پلان 85ء-1973ء کے لیے ہونے والے مطالعات میں یہ بات سامنے آئی کہ 70 فیصد شہری پبلک بسوں کا استعمال کرتے ہیں۔ فیڈرل بی ایریا کے مکینوں کے لیے بس روٹ 5 سی، 6، 6 اے اور 6 بی، نیو کراچی کے لیے 4 ایچ، فیڈرل کیپیٹل ایریا اور موسیٰ کالونی کے لیے 5 اے، 5 بی اور 5 ڈی، نارتھ ناظم آباد کے لیے 3، 2 کے، 2 ڈی اور 2، کلفٹن کے لیے 20، اورنگی ٹاؤن کے لیے 1 ڈی اور 1 سی وغیرہ مختص کیے گئے۔

کچھ بسیں اور منی بسیں تو تقریباً پورا دن چلتی تھیں۔ بس چلانے والے بھی شہریوں کے ساتھ بہتر انداز سے پیش آتے تھے۔ بعض اوقات تو کنڈکٹرز کو ہدایت ہوتی تھی کہ وہ بزرگوں اور بچوں کی بس میں چڑھنے اور بس سے اترنے میں مدد کریں۔ خصوصی افراد کو بھی ترجیحاً سیٹ دی جاتی اور خواتین بھی نسبتاً کم خدشات کے ساتھ بسوں میں سفر کرتی تھیں۔

اس وقت نجی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بہت کم ہوتی تھیں، اپنے کام کی جگہوں یا تعلیمی اداروں میں جانے کے لیے کراچی کی بسیں ایک عمومی انتخاب ہوا کرتی تھیں۔ شہری دُور دراز جگہوں پر بھی بسیں بدل کر آسانی سے پہنچ جاتے تھے۔ ان بسوں کی وجہ سے شہر کے کم آمدن والے علاقے بھی شہری زندگی سے جڑے ہوتے تھے۔

مگر یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ ٹرانسپورٹ پالیسی میں ان عام بسوں پر توجہ نہیں دی گئی۔ درحقیقت شہر میں کشیدہ حالات کے دوران عموماً توڑ پھوڑ اور جلائے جانے کا شکار بھی یہی بسیں ہوتی تھیں۔ اپنی انجمنوں کے ذریعے بس مالکان حکومت سے ان بسوں کا معاوضہ تو طلب کرتے تھے لیکن بار بار درخواستیوں کے بعد بھی انہیں اس معاوضے کا کچھ حصہ ہی ملتا تھا۔ اگر ہم انہیں سہولیات فراہم کرسکیں تو یہ بسیں حکومت پر مالی بوجھ بنے بغیر شہریوں کو بہتر سفری سہولیات فراہم کرسکتی ہیں۔

مزید پڑھیے: بی آر ٹی منصوبے اور ہماری خامیاں

ہماری موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکام کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ان بسوں کے حوالے سے اپنی پالیسی کو بہتر بنائیں۔ ٹرانسپورٹرز کے ساتھ بات چیت اور صورتحال کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ اس شعبے پر توجہ دے کر پبلک ٹرانسپورٹ کی بحالی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

ٹرانسپورٹروں کو آسان قرضوں کی فراہمی، بسوں کے ٹرمینلز کی تیاری، ڈرائیوروں کی تعلیم اور تربیت، ٹریفک پولیس پر نظر رکھنے اور ہنگاموں کے دوران بسوں کو کسی قسم کے نقصان سے محفوظ رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ منی بسوں اور چنگچی رکشوں کو فیڈر روٹس پر چلایا جاسکتا ہے یوں بس اور منی بس مالکان ایک ساتھ کام کرسکتے ہیں۔


یہ مضمون 4 جولائی 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ڈاکٹر نعمان احمد

لکھاری کراچی میں مقیم ایک مدرس اور محقق ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔