نقطہ نظر

ہماری گرمیوں کی چھٹیاں عید کی طرح ہوتی تھیں!

یہ ہماری زندگی کے وہ قیمتی ترین 2 مہینے ہوتے تھے کہ یار لوگ سارا سارا سال اس کے لیے سوچ بچار کیا کرتے تھے۔

موسمِ گرما کی 2 ماہ کی چھٹیوں کو اگر ہمارے وقت میں اسکول کے زمانے کا سب سے بڑا ’سالانہ میلہ‘ قرار دیا جائے، تو بے جا نہیں ہوگا۔ یہ ہماری زندگی کے وہ قیمتی ترین 2 مہینے ہوتے تھے کہ یار لوگ سارا سارا سال اس کے لیے سوچ بچار کیا کرتے تھے۔

مارچ اور اپریل میں نیا تعلیمی سال شروع ہونے کے ایک آدھ ماہ کے بعد جیسے ہی جون کی آمد ہوتی، ہم بچوں کے دل خوشیوں سے بھرنے لگتے تھے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ اسکول انتظامیہ چھٹیوں کا سلسلہ 8، 10 جون کے بعد شروع کرتی تو ہمیں یہ دن خاصے بھاری معلوم ہوتے، اور ہم اندر ہی اندر کڑھتے کہ آخر کیوں ہماری 2 ماہ کی تعطیلات پر یہ 10، 12 دن کا نقب لگایا جا رہا ہے، لیکن مرتے کیا نہ کرتے، سہنا ہی پڑتا تھا۔

پھر خدا خدا کرکے گرمیوں کی ان چھٹیوں کا آغاز ہوتا تھا، تب وقت کی چال بہت دھیمی دھیمی سی تھی، ہم دوپہر کے اسکول والوں کے لیے یکایک فرصت کا پُرسکون وقت بہت طویل ہوجاتا تھا، وہ گرمیوں کی سُہانی دوپہریں کس قدر شیریں اور خمار انگیز محسوس ہوتی تھیں، آج ہم فقط اس کا تصور ہی کرسکتے ہیں۔

آپ بھی سوچیں گے کہ اب بھلا کڑکتی ہوئی گرمیوں کو کون بدذوق دل نشیں کہہ سکتا ہے، لیکن ہم اس فرصت کے وقت میں شگفتہ گرمی کی جھلستی ہوئی دھوپ کو شانت کرنے والے ان سمندری ہواؤں کے جھونکوں کو کیوں کر بھول سکتے ہیں جو اس گرمی میں چھاؤں کو راحت بخش بنا دیا کرتے تھے۔

آموں کے ان موسم کی ہوا کا ذائقہ بھی اپنے میں ایک انفرادیت سی رکھتا تھا۔ اس دوران شاذ و نادر ہی کبھی لُو چلتی تھی اور ہمیں یاد ہے کہ ایسے موسم میں تیسرے دن ہی ایسے گرم تھپیڑوں کا زور ٹوٹ جایا کرتا تھا اور لوگ سُکھ کا سانس لیتے تھے۔ پھر کبھی ان دوپہروں میں آکاش پر ساون کے ابر بھی راج کرنے لگتے تھے، تو ان گرم دوپہروں میں بھی دھوپ چھاؤں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔

اسکول کی چھٹیوں میں ہمارے سارے معمولات بدل جاتے تھے، ہمیں سپارہ پڑھانے والی ‘خالہ’ (استانی) ہماری اسکول کی چھٹیوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ساڑھے 12 بجے چھٹی دینے کے بجائے ڈیڑھ، ڈیڑھ، 2، 2 بجے تک بٹھا کر رکھتیں، اور کبھی کبھی تو سہ پہر کے 3 بھی بج جاتے۔ وہ وقت بھی عجیب ہوتا، کاٹے نہ کٹتا تھا۔ بہرحال، ہم گھر آکر کھانے وانے سے نمٹ کر کچھ آرام کرتے اور پھر معمول کے وقت 6 بجے کے بجائے 4 بجے ہی ٹیوشن چلے جایا کرتے اور یوں ہمیں 6 بجے تک چھٹی مل جاتی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہمارے پاس شام کا سارا وقت ہمارے کھیل کود کے لیے موجود ہے! ورنہ عام دنوں میں ہمیں تعطیل کے سوا ذرا بھی فرصت میسر نہیں ہوتی تھی۔

اب جناب، شہر کی روایتی ٹھنڈی ہواؤں سے آراستہ شام ہے اور ہم ہیں۔

سورج ڈھلنے تک اب چاہے تو گلی میں ہمسائے کے بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلیے یا پرانے گھر کے اسٹور بنے ہوئے کمروں میں جی بھر کے گیند بلے کی بازی لگائیے۔ دل چاہے تو گھر کے پچھلے برآمدے میں کھڑے ہوکر ہوا خوری کیا کیجیے اور باہر محلے کے اچھل کود کرتے بچوں کی موج مستی دیکھتے رہیے۔ کوئی لٹو بازی میں مشغول ہے، کہیں سے پِٹھو گرم کی صدائیں ہیں تو کہیں مارم پٹّی کی شوخیاں۔ کچھ لڑکے بالے لنگڑی پالا کھیل رہے ہیں تو کچھ بچیاں آزو بازو والیوں سے مل کر زمین پر چاک سے بنائے گئے پہل دوچ کے خانے ٹاپتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ کچھ بچوں کو خالی گلیوں میں سائیکلیں دوڑانے میں بڑا لطف آرہا ہے، کسی کو کبھی فٹ بال کا شوق چرایا، تو کوئی گھر سے جالی دار ریکٹ نکال لایا ہے اور کچھ کو اپنی چھتوں اور بالائی منزل کی کھڑکیوں سے پتنگ اڑانے کا بہت شوق ہے۔

تو انہی گلیوں میں فضائی لڑائی میں ہار جانے والی پتنگوں کے تعاقب کرنے والوں کی بھی کمی نہیں جو اس وقت آٹھ آنے سے لے کر روپے اور 2 روپے کی رنگ برنگی پتنگیں لوٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔ کیسی تاک کر نظر رکھتے ہیں اور درجنوں میٹر بلندی سے ڈولتی ہوئی پتنگوں کا اندازہ لگا کر ان کا پیچھا کرتے ہیں کہ یہ فلانی گلی میں جاکر گرے گی اور گرتی ہوئی پتنگ بھی خوب اٹھلاتی ہوئی زمین پر آتی ہے اور اپنی جانب آنے والوں کو جُل دیتی ہے۔ پھر یہ کامیابی سے جس کے ہاتھ لگ گئی، تو گویا وہ فاتح ہوگیا۔

پھر اگر مغرب کے بعد بھی دل نہیں بھرا، تو اب انہی گلیوں میں چھپن چھپائی، چور پکڑم ساتھی، پکڑم پکڑائی، چور پولیس اور برف پانی سے لے کر دال کچی، پکی! تک کے مناظر دیکھتے جائیے۔ اس کھیل کود میں حسب منشا پھیری والوں سے پاپ کورن، قلفی، شربت، گولے گنڈے، مکئی، بھٹے اور شکر قندی وغیرہ بھی کھاتے جائیے۔

یوں تو یہ ہماری کالونی میں کم وبیش ہر شام ہی کے مناظر ہوتے تھے، لیکن ہمارے اسکول کی ان چھٹیوں میں گویا ان تمام سرگرمیوں کو ایک عروج حاصل ہوجاتا تھا کہ ایک ساتھ سبھی بچے فارغ ہیں۔ اگر ان چھٹیوں میں میل جول اور گھومنے پھرنے کے پروگراموں کے ساتھ ہفتہ وار نانی کے ہاں جانے کے اہتمام کا تذکرہ نہ کیا جائے، تو یہ زیادتی ہوگی، کہ جاتے تو ہم بھی ہر ہفتے اپنی نانی کے ہاں تھے، لیکن ان 2 مہینوں کی چھٹیوں میں یہ ہفتہ وار روانگی سرِ دوپہر ہی ہوجایا کرتی تھی۔

اکثر ہم لوگ دوپہر کو کھانا نانی کے گھر لے جاکر انہی کے ساتھ کھاتے تھے اور پھر رات کو گھر لوٹتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی مل بیٹھ کر کھانے کے لیے کبھی کسی خاص موقع یا تہوار کا انتظار نہیں ہوتا تھا بلکہ خود روزمرہ کے دنوں میں کوئی پروگرام بنا لیا کرتے تھے کہ چلو فلاں دن حلیم بنا لیتے ہیں، کبھی بیسنی روٹی پکا لی تو کبھی شولا چڑھا دیا اور کچھ نہیں تو دال چاول پر بھی رشتے دار بہت آسانی سے دسترخوان ساجھا کر لیا کرتے تھے۔ تبھی مٹی کے مرتبان میں ڈالا گیا شلجم کا اچار بھی ذائقوں کو چار چاند لگا دیا کرتا تھا۔ کبھی نہ بھی ملیں تو اپنی کسی مخصوص ہنڈیا کے 2 نوالے چکھنے کو ضرور بھیجا کرتے تھے۔ بالخصوص گولر، کچنار کے پھول، سنگھڑی، گوار، سیم کی پھلیاں، سیم کے بیج، بیسن کی کھنڈویاں وغیرہ تو بہت گرم جوشی سے بھیجے اور وصول کیے جاتے تھے۔

بچپن کی چھٹیوں اور فرصت سے بات کہاں نکلتی چلی جا رہی ہے، لیکن ہم آج سوچتے ہیں تو یہ سوچا بھی نہیں جاتا کہ زندگی میں کیسے کیسے وقت اور کیسی کیسی شخصیتیں گزر جاتی ہیں۔

بچپن کی وہ چھٹیوں کے دن بھی کیسی آزادی کے دن تھے۔ والدین کی روک ٹوک بھی اس عرصے کے لیے کچھ مؤخر سی رہتی، پڑھائی لکھائی کے کام بھی ٹال رکھے جاتے، اسکول کی چھٹیوں کا کام چیک تو ہوتا نہیں تھا، اس لیے اکثر اسے نظرانداز کردیتے، یہ الگ بات ہے کہ چھٹیاں ختم ہونے کے ساتھ ہی ذہن میں ایک خفیف سی پریشانی مستقل رہنے لگتی کہ کہیں اسکول کھلنے کے بعد اس کام کی پوچھ تاچھ ہوگئی تو کیا ہوگا؟

دوسری طرف ہماری امّی اکثر چھٹیاں شروع ہونے پر یہ خواہش ظاہر کرتی تھیں کہ چھٹیوں میں وقت ضائع کرو گے، چلو تمہیں فلانے کی دکان پر بٹھا دوں، تمہاری گھٹی میں کوئی کام کرنے کی عادت تو ڈلے گی، چاہے پیسے نہ دیں لیکن کسی کی شاگردی میں کچھ سیکھ تو لو گے! لیکن ایسے ہر منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ابّو ڈال دیتے اور انہیں یہ خوف آلیتا کہ اگر یہ ابھی سے ان چکروں میں پڑ گئے، تو کہیں پڑھائی سے دھیان نہ ہٹ جائے۔ اس لیے اسکول کے عرصے میں انہوں نے ایسی کسی بھی بات کو پورا نہ ہونے دیا۔

اور رہے ہمارے خواب تو، ہمارے کچھ ہم جماعت تو اپنے اپنے آبائی علاقوں کو چلے جاتے، کچھ مقامی طلبہ کے سیر و تفریح کے منصوبے ہوتے، کچھ اس فرصت میں جزوقتی کاروبار کرنے کی سوچتے کہ اپنے گھر کے باہر ہی ایک میز پر بسکٹ، انڈے، ٹافیوں کی دکان لگالی، کچھ نہیں تو آلو کی چاٹ ہی لگا کر بیٹھ گئے، پھر اس سے حاصل پونجی سے اپنے کسی چھوٹے موٹے سپنے کی تکمیل کرلی!

ان چھٹیوں میں مختلف کورسز کرنے کا سلسلہ بھی رہتا، کوئی ٹائپنگ سیکھتا، کوئی لینگویج کورس تو کوئی کمپیوٹر کورس میں مہارت کے لیے جستجو کرتا۔ بچیوں کا زیادہ زور سینے پرونے، قریشیہ اور مختلف قسم کی دستکاریوں میں ہوتا تھا۔

ہم نے ذاتی طور پر یہی محسوس کیا کہ چھٹیوں کا مطلب چھٹیاں ہی ہونا چاہیے، اس لیے ہماری ایسی اکثر تعطیلات اپنے کھیل کود اور مختلف مشاغل ہی کی نذر ہوئیں، بالخصوص پرانے رسالے کی دکانوں سے بچوں کے رسالے لے آئے، اور بہت سکون سے نت نئی کہانیاں پڑھنا ہمیں بہت مرغوب تھا اور ایک خواہش جو ہر چھٹیاں شروع ہونے پر ضرور پیدا ہوتی تھی کہ اس چھٹیوں پر اپنی خراب لکھائی ضرور اچھی کرلیں گے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوسکا اور یہ ہماری ایک بہت بڑی کمزوری ہے کہ ہماری لکھائی آج تک اچھی نہیں ہوسکی۔

چھٹیاں ختم ہونے کے بعد کلاس میں سب اپنی اپنی کارگزاریاں بتاتے کہ انہوں نے اس فرصت کو کیسے بِتایا، لطف وکرم سے لے کر بے شمار تلخ و ترش باتوں کا ایک خلاصہ ہوا کرتا۔ ہر چند کہ سَمے کی رفتار خاصی ہلکی ہوتی تھی، لیکن وقت رکتا تو کبھی نہیں، سو جلد بیت جانے کے حوالے سے رمضانوں کے بعد اسکول کی یہ چھٹیاں ہی ہوتی تھیں جو پلک جھپکتے میں گزر جایا کرتی تھیں۔

بچپن کی بے فکری بھی کیا خوب ہوتی تھی، کوئی مسئلہ اور کوئی پریشانی ہونا تو درکنار، ان کا ذرا سا شائبہ تک بھی نہیں ہوتا تھا۔ گویا یہ چھٹیاں کسی عید کی طرح ہوا کرتی تھیں۔

اب سنا ہے کہ پھر جون آگیا ہے، گویا اسکولوں کی سالانہ تعطیلات کا مرحلہ پھر آن پہنچا ہے، لیکن نہ تو اب یہ وقت وہ وقت رہا ہے اور نہ شاید آج کل کے بچوں کا بچپن ہمارے بچپن جیسا

‘ثبات ایک تغیر زمانے کو ہے!’

رضوان طاہر مبین

بلاگر ابلاغ عامہ کے طالب علم ہیں۔ برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں۔ ایک روزنامے کے شعبۂ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں، جہاں ہفتہ وار فیچر انٹرویوز اور ’صد لفظی کتھا‘ لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔