کیا بجٹ کی تیاری میں اسمبلیوں کا کوئی کردار ہوتا ہے؟
ہماری پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں بجٹ اجلاس ہورہے ہیں۔ جون کے مہینے کے لیے مختص یہ روایت اگلے ایک سے 2 ہفتوں میں مکمل ہوجائے گی۔ ویسے تو بجٹ کی منظوری کا کریڈٹ (یا الزام) قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو جائے گا لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بجٹ کی منظوری سے قبل اس کی تیاری اور نظرِثانی کے اہم مراحل میں ان منتخب ایوانوں کا کوئی کردار ہوتا ہے؟
بنیادی طور پر آئندہ مالی سال کی آمدن اور اخراجات کے تخمینے کی منظوری دینا اور گزشتہ مالی سال کی آمدن اور اخراجات کی رپورٹ وصول کرنا پارلیمنٹ کی 2 اہم ذمہ داریاں ہیں۔ چونکہ بجٹ کسی بھی حکومت کی پالیسیوں اور ترجیحات کا عکاس ہوتا ہے اور اس میں اگلے سال کے اہم پالیسی اقدامات بھی شامل ہوتے ہیں اس وجہ سے اراکین اسمبلی کو بجٹ کی تیاری اور اسے حتمی شکل دینے میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سطح پر بجٹ منظوری کے عمل میں 2 اہم بہتریاں آنے کے باوجود بجٹ کے پورے عمل میں اراکینِ اسمبلی کی شرکت غیر مؤثر اور محدود ہوتی ہے۔
مزید پڑھیے: بجٹ 23ء-2022ء: ’متوازن بجٹ ہے، لیکن منی بجٹ کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا‘
قومی اسمبلی کی سطح پر ہونے والی پہلی بہتری 'نیشنل اسمبلی رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس' میں 2 ترامیم کی صورت میں ہوئی۔ سال 2013ء اور 2016ء میں رول 201 میں بالترتیب سب رول 6 اور 7 کا اضافہ کیا گیا۔ سب رول 201 (6) کے تحت متعلقہ وزارتوں کی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کو اس بارے میں بااختیار بنایا گیا کہ متعلقہ وزارتیں یا ڈویژن آئندہ سال کے بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے حوالے سے تجاویز دیں اور کمیٹیاں یہ تجاویز پی ایس ڈی پی میں شمولیت کے لیے بھیجیں۔
سب رول 201 (7) کے تحت ہر وزارت اور ڈویژن کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ بجٹ میں اپنی تجاویز کی شمولیت یا عدم شمولیت کے حوالے سے رپورٹ اپنی متعلقہ کمیٹی کو جمع کروائے اور اگر تجاویز شامل نہ ہوئی ہوں تو عدم شمولیت کی وجہ بھی بیان کرے۔
یہ 2 ترامیم اراکینِ اسمبلی کو پی ایس ڈی پی پر اثر انداز ہونے کے قابل بناتی ہیں بشرطیکہ متعلقہ وزارتیں کمیٹیوں کو بروقت بریفنگ دیں، کمیٹی اراکین اپنا ہوم ورک کریں، تجاویز کو بروقت ارسال کریں اور آنے والے بجٹ میں ان کی شمولیت کے حوالے سے آگاہی لیتے رہیں۔ بدقسمتی سے اس حوالے سے عوامی سطح پر اتنی معلومات دستیاب نہیں کہ ایک عام آدمی یہ جان سکے کہ ان ترامیم کا کس حد تک نفاذ ہوا ہے۔
بجٹ کے حوالے سے دوسری بہتری پبلک فنانس منیجمنٹ ایکٹ، 2019ء، کی صورت میں ہوئی جس میں ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بجٹ بنانے کے عمل کی باضابطہ تعریف بیان کی گئی۔ اس ایکٹ کے تحت وزیرِ خزانہ کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے سامنے بجٹ اسٹریٹجی پیپر کے حوالے سے بریفنگ دینا ہوگی۔ یہ اسٹریٹجی پیپر ہی بجٹ کی بنیاد ہوگی۔ بہرحال اس حوالے سے بھی عوامی سطح پر کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے کہ آیا بجٹ کو بہتر بنانے کے لیے کمیٹی کی جانب سے وزارتِ خزانہ کو کوئی مشورے دیے جاتے ہیں یا نہیں۔
دوسری جانب صوبائی اسمبلیوں نے رولز میں ترامیم کرکے قبل از بجٹ بحث کے لیے گنجائش پیدا کرلی ہے تاکہ اراکین صوبائی اسمبلی کو بجٹ سے متعلق اپنی تجاویز دینے میں آسانی ہو۔ اسمبلی سیکریٹریٹ ان تجاویز کو مرتب کرتا ہے اور انہیں محکمہ خزانہ کو ارسال کردیتا ہے تاہم بحث کے دوران بھی محکمہ خزانہ کے افسران تقاریر کے نوٹس لینے کے لیے اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں۔ صوبائی محکمہ خزانہ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ بجٹ میں ان تجاویز کی شمولیت یا عدم شمولیت کے حوالے سے اسمبلی کو رپورٹ پیش کرے۔
مزید پڑھیے: فلور کراسنگ کا قانون کیا ہے اور رکن کی نااہلی کب اور کیسے ہوگی؟
اس کے علاوہ سندھ اسمبلی نے ایک ایسا نظام متعارف کروایا جس کے تحت محکمہ خزانہ کو اسمبلی میں سہ ماہی بجٹ ایکزیکیوشن رپورٹ جمع کروانی ہوتی ہے۔ بعدازاں اسمبلی میں اس رپورٹ پر بحث کے لیے وقت بھی مختص کیا جاتا ہے۔ یہ بہت اچھا قدم ہے جس پر ناصرف سندھ اسمبلی میں باقاعدگی سے عمل کیا جانا چاہیے بلکہ دیگر صوبائی اسمبلیوں میں بھی اسے اختیار کیا جانا چاہیے۔
پارلیمنٹ میں بجٹ کے عمل کے حوالے وفاقی اور صوبائی سطح پر ملک میں 3 بڑی خامیاں موجود ہیں جن کو دُور کرنے کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔
پہلی خامی
یہاں اراکین کی جانب سے بجٹ پر بحث کے لیے بہت کم وقت مختص کیا جاتا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) گزشتہ 21 برسوں سے بجٹ کے عمل پر نظر رکھتا آرہا ہے۔ وفاقی بجٹ کے حوالے سے اس کی رپورٹ کے مطابق بجٹ کو پیش کیے جانے سے لے کر اس کی منظوری تک اوسطاً 14 روز میں 47 گھنٹے مختص کیے جاتے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ بجٹ دستاویز ہزاروں صفحات پر مشتمل ہوتی ہے اور اسے پڑھنے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے، پھر یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ قومی اسمبلی میں کُل 342 اراکین ہیں اور ان میں سے اکثر اس پر بات کرنا چاہتے ہوں گے، یوں اس پورے عمل کے لیے مختص وقت بہت کم معلوم ہوتا ہے۔ اگر صرف 50 فیصد اراکین بھی بجٹ پر بات کریں تب بھی ہر رکن زیادہ سے زیادہ 4 منٹ تک ہی کفتگو کرسکے گا۔ صوبائی اسمبلیوں کی بات کی جائے تو وہاں بجٹ پر بحث کے لیے مختص وقت اس سے بھی کم ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان میں کب کب آئین کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رابطہ کیا گیا؟
دوسری خامی
بجٹ کے حوالے سے دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ متعلقہ وزارتوں کا بجٹ مناسب جانچ پڑتال کے لیے ان کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو نہیں بھیجا جاتا اور ساری بحث بس ابتدائی باتوں تک ہی محدود رہتی ہے۔ اس کے برعکس بھارتی پارلیمنٹ یونین بجٹ کے لیے 75 دن مختص کرتی ہے اور تفصیلی رپورٹس کے لیے بجٹ کمیٹیوں کو بھی بھیجا جاتا ہے۔
تیسری خامی
پارلیمنٹ میں بجٹ کے پورے عمل کے حوالے سے تیسری اور شاید سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ قومی اسمبلی سے بجٹ منظور ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو آگاہ کیے بغیر اس میں کسی بھی قسم کی ترمیم کی جاسکتی ہے۔ شاید اکثر لوگوں کے لیے اس بات پر یقین کرنا مشکل ہو لیکن ہمارے حکمران گزشتہ 49 برسوں سے آئین کے آرٹیکل 84 کا سہارا لے کر اسمبلی سے پاس ہونے والے بجٹ میں ترامیم کرتے آرہے ہیں۔ ایک خودمختار پارلیمنٹ کی شاید اس سے بڑی اور کوئی توہین نہیں ہوسکتی کہ اس کے منظور کیے ہوئے بجٹ کو حکومت کی جانب سے تبدیل کردیا جائے۔
پاکستان شاید دنیا کے صرف ان 3 ممالک میں شامل ہے جہاں حکومت کے پاس یہ اختیار موجود ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس غیر منصفانہ اختیار پر نظرِثانی کی جائے اور دیگر تمام خامیوں کو بھی دُور کیا جائے۔
یہ مضمون 16 جون 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔