اگر کوئی لڑکی اچانک آپ کے گھر پہنچ جائے تو؟
‘میرا اور میرے بیٹے کا قصور کیا ہے؟’
ظہیر کی ادھیڑ عمر ماں کا یہ سوال میڈیا پر سنا تو بے اختیار سوچا کہ کیا قصور ہوسکتا ہے ایک جوان بیٹے کی ماں کا، اگر کوئی لڑکی اچانک ان کے گھر پہنچ کر دعویٰ کرے کہ وہ ان کے بیٹے کی محبت میں بے حال ہوکر ماں باپ کا گھر چھوڑ کر ان کا گھر آباد کرنے آئی ہے۔
سوچا خود سے ہی سوال جواب کرکے دیکھیں شاید کوئی سراغ مل ہی جائے۔ آخر ایک بیٹے کی ماں تو ہم بھی ہیں، جس کا نام … چھوڑیے نام میں کیا رکھا ہے؟
ہاں تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہم ایک نوجوان بیٹے کی ماں ہیں جو پچھلے برس اے لیولز کرکے یونیورسٹی گئے ہیں۔ عمر اس سال ہوجائے گی 19 برس۔ اللہ لمبی عمر کی سب بہاریں دکھائے۔
چلیے تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیجیے کہ پچھلے 2 برس سے ہمارے بیٹے کی ایک لڑکی سے دوستی چل رہی ہے۔ دونوں کوئی گیم کھیلتے ہوئے آپس میں دوست بنے، اور پھر بات دوستی سے آگے نکل گئی اور کچھ وعدے وعید ہوگئے۔
آپس کی بات بتائیں کہ ہمارے بیٹے نے اگر کبھی ہم سے ڈانٹ کھائی ہے تو وہ یہی ویڈیو گیمز ہیں۔ ہر وقت کی ڈشش، ڈوش، ڈوشش بیزار کیے دیتی ہے ہمیں۔ اوپر سے ہیڈ فون سر پر چڑھائے اپنے اپنے گھر میں بیٹھے 3، 4 دوست مل کر کھیلتے ہیں جن میں لڑکیاں بھی ہیں۔ آپس میں اونچی آواز میں باتیں کرتے ہیں، مقابلہ چلتا ہے، شورو ہنگامہ الگ۔ طبعیت الجھتی ہے مگر کیا کریں کہ پڑھائی میں اچھے ہیں، تو ایک آنکھ کھلی رکھ کے دوسری دانستہ طور پر بند کرنی پڑتی ہے۔
اب اگر کسی سہانی صبح پوت صاحب ہم سے آکر یہ کہیں کہ امّاں آؤ فلاں گھر میں لڑکی کا ہاتھ مانگنے چلیں تو بے ہوش ہونے سے پہلے ہم کچھ سوال تو پوچھ ہی لیں گے۔
بیٹا جی، جیب میں پیسے کتنے ہیں؟ وہ جو ہر وقت جیب خرچ کم ہونے پر شکل افسردہ بنائے رکھتے ہو، اس کا سوچا؟
کیا کھلاؤ گے بیگم کو؟
کہاں سے اٹھاؤ گے اخراجات اپنے اور اس لڑکی کے؟ کیا کوئی نوکری ڈھونڈ لی خیر سے؟
ویسے اے لیول پاس کو نوکری کونسی ملے گی اور تنخواہ کیا ہوگی؟
2 سے 3 ہوتے ہوئے بھلا کیا دیر لگتی ہے؟ سو کیا بندوبست ہے؟
اچھا کہاں رکھو گے اپنی بیوی کو؟
علیحدہ چھت کا بندوبست ہے آپ کے پاس؟
ان سوالات کے بعد اتنا تو کہنا بنتا تھا کہ بیٹا جی صرف پیار محبت سے گھر نہیں چلتا، آٹے دال کے بھاؤ سے محبت اڑن چُھو ہوتے ہوئے دیر نہیں لگے گی۔ ہم تو یہ ذمہ داری اٹھانے سے رہے، کوئی غلط امید مت باندھ لینا۔ تمہیں سہرا باندھنے کا قطعی شوق نہیں ہمیں۔ خدا خدا کرکے تم لوگوں کی چیں پیں سے فارغ ہوئے ہیں، اب کیا ایک اور بوجھ لاد لیں؟ نہ بابا نہ، معاف رکھو اس ایڈونچر سے اور خود بھی سیدھے سیدھے یونیورسٹی جاؤ۔ فیس دینے کے قابل تو ہیں نہیں اور ہرا ہرا سوجھ رہا ہے۔ بیٹا یہ عشق معشوقی کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھو۔
اور پھر دھیرے سے سمجھاتی، دیکھو میری جان میں بھی بیٹیوں کی ماں ہوں۔ میرے گھر اگر کوئی اس طرح رشتہ لے کر ٹپک پڑے تو مجھے تامل ہوگا اتنی چھوٹی عمر کی بیٹی کی شادی طے کرنے میں اور وہ بھی کسی ایسے نوجوان کے ساتھ جس کا ابھی نہ گھر نہ بار۔
مزید یہ کہ ابھی مستقبل بناؤ۔ اس لڑکی سے بھی کہو کہ پڑھائی میں دل لگاؤ۔ جب کچھ حاصل کرلو گے تو شادی بیاہ کا بھی سوچ لیں گے۔
اب اگلا ایکٹ فرض کیے لیتے ہیں کہ حیدر میاں پھولی سانسوں کے ساتھ آکر ہمیں بتاتے کہ لڑکی امّاں ابّا کا گھر چھوڑ کر پہنچ گئی ہے یہاں، امّاں اب کیا کریں؟
ہم سر تو یقیناً پیٹ لیتے لیکن بیٹی کو گھر لا کر سمجھاتے کہ بیٹا آپ نے یوں اپنے آپ کو زمانے کی ٹھوکروں کے سپرد کرکے اچھا نہیں کیا۔
ہمارا بیٹا اور وہ لڑکی نکاح کی کتنی ہی ضد کیوں نہ کرتے، ہم کبھی رضامند نہ ہوتے۔ بچی کے والدین کو ہم فون کرتے، انہیں بتاتے کہ بچی خود سے گھر چھوڑ کر آگئی ہے، آپ برائے مہربانی آجائیے تاکہ یہ مسئلہ مل جل کر حل کریں۔ بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں نا، جیسی آپ کی بچی، ویسی میری۔
لڑکی کے ماں باپ آجاتے، ہاتھ جوڑ کر ہم ان سے اپنے بیٹے کی طرف سے معافی مانگتے۔ پھر تجویز پیش کرتے کہ بیٹی کا معاملہ ہے، ذرا سوچ لیجیے کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ ابھی نہیں لیکن کچھ برسوں کے بعد۔
فرض کیجیے کہ کسی نہ کسی طور ہمارا بیٹا نکاح کر لیتا۔ تب بھی ہم لڑکی کے گھر والوں کو بلا لیتے۔ لڑکی کو بھی سمجھاتے، ماں باپ کو بھی۔ لڑکی کی حفاظت کی ضمانت کچھ اور لوگوں سے دلواتے۔
لیکن لڑکی اور بیٹے سمیت رشتے داروں کے ہاں چھپنے کے لیے شہر شہر کبھی نہ دوڑتے۔ لڑکی کی ویڈیوز بناکر ماں باپ کے زخموں پر نمک کبھی نہ چھڑکتے۔ لڑکی سے کہتے کہ بات عدالت تک تو پہنچ ہی گئی ہے اب اپنے ماں باپ سے مل لو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
کچھ سوالات بھی ہیں جو اس کہانی سے جنم لیتے ہیں۔
دعا زہرا کو لے جانے والا ٹیکسی ڈرائیور ابھی تک منظرِ عام پر کیوں نہیں آیا؟
دعا زہرا دن میں کس وقت کراچی سے چلی اور اگلے دن کتنے بجے پنجاب یونیورسٹی پہنچی؟
کیا پوری رات سفر میں گزری، یا کہیں قیام کیا؟
پنجاب یونیورسٹی کی اس طالبہ کا پتہ کیوں نہیں لگایا گیا جس کا فون لے کر اس نے ظہیر کو فون کیا؟
ظہیر اس وقت کیا کر رہا تھا جب اس نے فون اٹینڈ کیا؟
کیا گھر میں 22 ہزار روپیہ موجود تھا جو ٹیکسی ڈرائیور کو فوراً دے دیا گیا؟ اگر نہیں تو کہاں سے یہ انتظام ہوا؟
دونوں کے نکاح کا بندوبست کس نے کیا؟
دعا کا بیان اتنا رٹا رٹا سا کیوں ہے؟
دعا جس گھر میں شوہر کے ساتھ خوش ہونے کی بات کر رہی ہے وہ کس کا گھر ہے؟
ظہیر کے سب رشتے دار انہیں پناہ کیوں دے رہے ہیں؟
ان تمام معاملات کے اخراجات کون پورے کر رہا ہے؟
صاحب، خدا غریق رحمت کرے شین فرخ کو جو تین عورتیں تین کہانیاں اخبار جہاں میں شائع کیا کرتی تھیں۔ ہم دلچسپی سے پڑھا کرتے تھے اور تب بھی حیران ہوتے تھے کہ لوگ کیسے سوچے سمجھے آگ میں کود کر جیتے جی زندگی جہنم بنا لیتے ہیں؟
اس کہانی میں عورت تو ایک ہی ہے لیکن ممکن ہے کہ کہانیاں تین ہوں سو کوشش ہے ہماری کہ بات کا جائزہ تین اطراف سے لیا جائے۔
ڈشش، ڈوش، ڈوشش۔ جلدی کرو، کیا کر رہے ہو۔ اے لو، حیدر میاں ابھی بھی گیم کھیل رہے ہیں۔ اچانک ایک خیال ذہن میں سرسراتا ہے۔ حیدر میاں سے کیوں نہ پوچھا جائے کہ وہ ہوتے اس صورتحال میں تو؟
گیم رکوانا مشکل تو تھا لیکن خیر کامیاب ہو ہی گئے اور پھر سوال و جواب کا سلسلہ کچھ یوں چلا۔
‘حیدر، فرض کرو کہ آپ ایک لڑکی کو پسند کرتے ہو....’
‘اف اوہ ماما۔ کیا یہ پوچھنے کے لیے گیم بند کروائی ہے؟،’ حیدر چڑ کر بولے۔
‘ارے بابا فرض کرنے کے لیے کہہ رہی ہوں کہ تم اور ایک لڑکی محبت کرتے اور وہ تم سے شادی کا کہتی۔’
‘شادی؟ مجھ سے؟ 19 سال کی عمر میں کون شادی کرتا ہے؟،’ حیدر حیران ہوکر بولے۔
‘ارے بابا فرض کرلو نا’۔
‘کیسے فرض کروں یہ نہیں ہوسکتا۔ شادی کیسے ہوسکتی ہے؟’
‘بیٹا جی سوچ لو نا’۔
‘میں کہہ دوں گا کہ نہیں ہوسکتی،’ حیدر کا حتمی جواب آیا۔
‘اور اگر وہ گھر چھوڑ کر اچانک ہمارے گھر آجائے کہ حیدر شادی کرو، پھر؟‘، ہم نے ڈرامائی صورتحال بیان کی۔
‘ماما، خدا کے لیے، کیسی عجیب باتیں کررہی ہیں؟ وہ کیوں آجاتی ؟ کس لیے؟’، حیدر جھنجھلا چکا تھا۔
‘بھئی آجاتی نا،’ ہم پیچھا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
‘اچھا میں کہہ دیتا کوئی شادی وادی نہیں کرنی۔ شادی کوئی مذاق ہے کیا؟ دیکھا کیا ہے دنیا میں ہم نے؟ سوری’۔
حیدر میاں نے دو جملوں میں بات ختم کرتے ہوئے سر پر پھر سے ہیڈفون پہن لیے۔ ڈشش، ڈوش، ڈوشش۔
پاس بیٹھی بہن آنکھیں مٹکا کر بولی، ‘ناخن اپنے ابھی تک کاٹ نہیں سکتا، شادی کرے گا، ہاہاہا۔ ماما توبس پتہ نہیں کیا الٹی سیدھی باتیں کرتی رہتی ہیں.’
ایک عورت تین کہانیوں میں سے تیسرا پہلو اگلے بلاگ میں!
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔