جب سیاستدانوں کی زبان پکڑی جاتی ہے!
سیانے کہتے ہیں کہ کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلی بات واپس نہیں آتی۔ بات اگر سیاستدان کی ہو تو ‘نکلی ہونٹوں چڑھی کوٹھوں’ سمجھیے، خبر کی صورت منہ سے ادا ہوتی ہے اور جنگل کی آگ کی طرح آناً فاناً پھیل جاتی ہے جیسے کہ ان دنوں پاکستان کے سابق وزیرِاعظم عمران خان کی کہی گئی چند باتوں نے سیاسی منظر کو بھڑکا رکھا ہے، جیسے
- ملک دیوالیہ ہوجائے گا،
- نیوکلیئر پاور چھین لی جائے گی اور
- پاکستان کے 3 ٹکڑے ہوجائیں گے (خدانخواستہ)
عمران خان نے یہ گفتگو نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس پیرائے میں کی تھی کہ اگر موجودہ حکومت برقرار رہتی ہے اور فوری انتخابات نہیں کروائے جاتے تو یہ تمام امر رونما ہوسکتے ہیں۔
عمران خان کے حامی ان کے اس بیان کی صفائیاں پیش کرتے ہوئے اسے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما کے ظاہر کردہ خدشات اور زمینی حقائق قرار دیتے ہیں، جبکہ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) سمیت دیگر تمام حلقوں میں اس بیان کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔ سابق وزیرِاعظم کی گرفت کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور حکومتی حلقے بھی اس مطالبے کے حق میں عندیہ دیتے نظر آتے ہیں۔
ماضی قریب میں اپنی زبان کی وجہ سے ہم بانی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) الطاف حسین کو سزا پاتے دیکھ چکے ہیں۔ 2010ء کے بعد سے الطاف حسین کی تقریروں میں کھلے عام افواجِ پاکستان، ملکی سالمیت اور جرنیلز کے خلاف جارحانہ الفاظ کا استعمال معمول بن گیا تھا اور ایک وقت ایسا آیا کہ ان کی کہی ہوئی باتوں کا پارٹی رہنماؤں کی جانب سے ٹی وی چینلز پر دفاع کرنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔
22 اگست 2016ء کو جب ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتال اور دھرنے کا تیسرا روز تھا (یہ دھرنا ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکنان کی بازیابی کے لیے دیا جا رہا تھا، جن کے بارے میں تنظیم کا یہ دعویٰ تھا کہ انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کیا ہے)، تو اس روز الطاف حسین نے نہایت اشتعال انگیز تقریر کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زہر افشانی کی اور پاکستان مخالف نعرے لگائے جس پر مشتعل کارکنوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔
اس تقریر کا نتیجہ یہ نکلا کہ بانی ایم کیو ایم کا اپنی جماعت سے یہ آخری خطاب ثابت ہوا، اور انہوں نے اپنے الفاظ کے ذریعے خود اپنی قیادت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی۔ الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے بطور تنظیم اپنے ‘قائد تحریک’ سے علیحدگی کا اعلان کردیا اور قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کرکے الطاف حسین کی مذمت بھی کی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ سیاستدانوں کے بیانات بازگشت کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں جن کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں دیا گیا بیان ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگیا۔ 1965ء میں بطور وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے مانچسٹر میں گارجیئن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر ہندوستان ایٹم بم بناتا ہے تو ہم گھاس کھائیں گے، بھوکے رہ لیں گے لیکن اپنا ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں‘۔
بھٹو مرحوم کے ان الفاظ کو جہاں فخریہ انداز میں دہرایا جاتا ہے وہیں ان سے موسوم نعرے ‘اِدھر ہم اُدھر تم’ کو آج بھی سقوط ڈھاکہ کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔
تاریخی حقائق کے مطابق 1970ء کے عام انتخابات کے بعد جب شیخ مجیب الرحمٰن مشرقی پاکستان سے اور ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان سے واضح اکثریت کے ساتھ انتخابات جیتے تو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جنرل یحیٰی خان کی فوجی حکومت کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو اقتدار سونپ دیا جائے تاکہ آئینی بحران ختم ہوسکے۔
اس خبر کو لاہور کے ایک اخبار آزاد نے ‘اُدھر تم اِدھر ہم’ کی شہ سرخی سے شائع کیا تھا جسے اس وقت کے نیوز ایڈیٹر عباس اطہر نے تخلیق کیا تھا۔ پیپلز پارٹی ذوالفقار بھٹو سے موسوم ان الفاظ کو مسترد کرتی ہے۔ اس کا مؤقف رہا ہے کہ ان الفاظ کو بنیاد بناکر بھٹو کے مخالفین انہیں سانحہ مشرقی پاکستان میں ملوث کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ (ان کے مطابق) حقیقت یہ ہے کہ بھٹو نے شیخ مجیب الرحمٰن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تمہاری مشرقی پاکستان میں اکثریت ہے تو ہماری مغربی پاکستان میں اکثریت ہے لیکن آئین پورے پاکستان کا بننا ہے لہٰذا آئین سازی کے معاملے میں دونوں بڑی پارٹیوں کا متفق ہونا ضروری ہے۔
ذوالفقار بھٹو کے داماد، پاکستان کے سابق صدر اور موجودہ پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما، آصف علی زرداری کے چند الفاظ بھی تاریخ کے صفحات پر نقش ہوچکے ہیں۔ پاکستان کھپے وہ نعرہ ہے جو آصف علی زرداری نے اس وقت بلند کیا جب بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد کارکن غم و غصے کی حالت میں بے قابو ہو رہے تھے۔ جب حالات سنگین ہونے لگے تو آصف زرداری نے اپنے خطاب میں پاکستان کھپے، یعنی پاکستان سلامت رہے کے الفاظ کہے۔
مثل ہے کہ کہنے والے کی زبان نہیں پکڑی جاتی، لیکن عوامی شخصیات خصوصاً سیاستدانوں کی زبان ہر موقع پر پکڑی جاتی ہے، خواہ یہ ملک سے متعلق اہم اظہارِ رائے ہو، ازراہِ تفنن، طنزیہ یا تضحیک کے طور پر کہا گیا جملہ ہو۔ بعض الفاظ کہنے والے کے منہ سے ایک بار ادا ہوتے ہیں لیکن عوام میں بار بار سنائی دیتے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی گفتگو کے دوران الفاظ کے چناؤ میں خاصی محتاط رہتی تھیں۔ مجھے یاد ہے 93ء میں محترمہ کا انٹرویو کیا تو ایک ذاتی سوال کے جواب میں انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا ’میرا وزن کم ہوا ہے، آصف مجھے کہتے ہیں کہ آپ تو قائدِاعظم بنتی جارہی ہیں’۔
انٹرویو ختم کرکے آفس پہنچی تو کچھ دیر بعد بلاول ہاؤس سے فون آیا، منور سہروردی مرحوم لائن پر تھے اور انہوں نے کہا کہ بی بی نے کہا ہے کہ قائدِاعظم کے حوالے سے کہے گئے الفاظ چھاپنا مناسب نہیں ہے، انہیں انٹرویو سے حذف کردیجیے’، اور پھر میں نے ایسا ہی کیا۔
سابقہ وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر مرحومہ اگرچہ اپنے الفاظ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتی تھیں، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف شکایات کا بھی وہ ڈھکے چھپے انداز میں اظہار کرتی تھیں لیکن ان کے مخالفین پھر بھی اردو زبان میں ان کی کمزوری پکڑ لیتے تھے۔
بے نظیر صاحبہ سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے لیے ٹیچر مقرر کرکے دیا تھا جس سے انہوں نے اردو باقاعدہ پڑھی۔ تاہم تعلیم کے دوران بیشتر عرصہ بیرون ملک مقیم رہنے کی وجہ سے ان کا اردو کا تلفظ مختلف تھا اور زبان پر مکمل عبور بھی حاصل نہیں تھا۔
ایک مرتبہ محترمہ سرگودھا کے جلسہ عام میں تقریر کر رہی تھیں تو مسجد سے اذان کی آواز آئی۔ محترمہ نے فوراً تقریر روک دی، احتراماً دوپٹہ سر پر سیدھا کیا اور یہ کہہ کر بیٹھ گئیں ‘اذان بج رہا ہے’، مقصد یہ تھا کہ اذان ہو رہی ہے۔ لیکن میڈیا (اس دور میں پرنٹ میڈیا زیادہ تھا) نے ‘اذان بج رہا ہے’ کے الفاظ کو اچھال دیا اور محترمہ کے اذان کے احترام کا پہلو نظر انداز کردیا گیا۔ بے نظیر کے مخالفین بھی ایک عرصہ تک اس بات پر ان کے مذہبی علم پر تنقید کرتے رہے کہ انہوں نے اذان کے لیے بجنے کا لفظ استعمال کیا۔
بے نظیر کے صاحبزادے، پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن اور پاکستان کے موجودہ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو بھی ان کی ’اردو بولی’ پر طنز و مزاح کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
کراچی میں ایک موقع پر موسلا دھار بارشوں میں حکومت کی جانب سے ناقص انتظام کے الزامات پر بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا ’جب زیادہ بارش ہوتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے’۔ ان کے اس فقرے کو بلاول کی ‘نادانی’ ثابت کرنے کے لیے مخالفین اب بھی حوالہ دیتے رہتے ہیں۔
پھر ابھی کچھ دن پہلے جب پیپلز پارٹی نے کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا تھا تب بھی بلاول بھٹو کی زبان پھسل گئی تھی اور ٹانگیں کانپ رہی ہیں کی جگہ ان کی زبان سے کانپیں ٹانگ رہی ہیں نکل گیا اور پھر اس بات کو بھی جگہ خوب اچھالا گیا۔
ملکی سیاست کے منظرنامے میں اور بھی کئی ایسے الفاظ و بیانات ہیں جو شخصیات کے ساتھ چمٹ کر رہ گئے ہیں، گاہے بگاہے ‘خلائی مخلوق’، ‘نیوٹرلز‘، ‘کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے’ اور دیگر الفاظ سنائی دیتے ہیں جو اپنے ساتھ وابستہ تاریخ دہرا دیتے ہیں۔
ایک مشہور نغمے کے بول ہیں
آدمی جو کہتا ہے، آدمی جو سنتا ہے
زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں
ہم یہ کہیں گے کہ بعض شخصیات کی صدائیں ان کی زندگی کے بعد بھی سنائی دیتی رہتی ہیں، لہٰذا تاریخ کے حافظے میں اچھے طور پر محفوظ رہنے کے لیے محتاط الفاظ کا انتخاب لازم ہے۔
غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔