'ہو رہا ہے ذکر پیہم آم کا'
ہمارے ملک میں ہر موسم کے پھل موجود ہیں۔ اس وقت موسم گرما اپنے جوبن پر ہے اور اس موسم کا ایک بہت خاص پھل آم ہے، جس کا بڑے بوڑھے، بچے، جوان سب بے صبری سے انتظار کررہے ہوتے ہیں۔ اب یہ انتظار ختم ہوچکا ہے اور آم اب ٹھیلوں، دکانوں اور بڑے بڑے مالز کے شیلف پر اپنی دلکشی، خوبصورتی اور رعنائی کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں نظر آرہا ہے۔
یہ گودے دار اور رسیلا پھل تاریخی طور پر پھلوں کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ سخت جھلسا دینے والے موسم میں آم آپ کو ایک الگ سی خوشی اور اطمینان مہیا کرتے ہیں۔ ایک اچھا آم آپ کا موڈ تبدیل کرسکتا ہے اور کئی پریشانیوں کو دُور کرسکتا ہے۔ خاص طور پر آپ کو نرم کرکے یعنی گھلا کرکے کھانے کا لطف اور خوشی صرف آم سے محبت کرنے والا ہی سمجھا سکتا ہے۔
آم کا تعلق ہماری روایات اور تہذیب سے بھی ہے جو ادیبوں، شاعروں سیاستدانوں اور امرا سب میں یکساں مقبول ہے۔
شاہین اقبال اثر لکھتے ہیں
لذت، غذائیت اور افادیت سے مالامال آم پاکستان، ہندوستان اور فلپائن کا قومی پھل ہے جبکہ اس کا درخت بنگلہ دیش کا قومی درخت ہے۔ آم کا آبائی وطن ہندوستان ہے اور لوگ اسے 5 ہزار سال سے زیادہ عرصے سے کاشت کر رہے ہیں۔ یہ مغلوں کا بھی پسندیدہ پھل تھا۔ بابر، اورنگ زیب، ہمایوں سب اس کے قدردان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آم کے پھیلاؤ میں بھی مغلوں نے بڑا کردار ادا کیا تھا۔
اکبر بادشاہ نے ایک لاکھ آم کے درختوں کا باغ ’لاکھ باغ‘ بہار کے دربھنگہ کے قریب تعمیر کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ شاہجہان کو آموں کا اتنا زیادہ جنون تھا کہ اس نے اپنے ہی بیٹے کو جو اس وقت دکن کے اہم عہدے پر تھا سزا دی اور گھر میں نظر بند کردیا کیونکہ اس نے تمام آم خود لے لینے کی جسارت کی تھی۔ اسی طرح جہانگیر نے دلی سے 7 کوس جنوب کی طرف مہرولی نامی گاؤں میں جسے ماضی میں جھرنا قطب گاؤں کہا جاتا تھا وہاں اور لاہور میں آم کا باغ لگایا تھا۔ ملکہ نورجہاں بھی آم اور اس کے مشروب کو پسند کرتی تھیں۔
آئین اکبری اور تزک جہانگیری وہ 2 کتابیں ہیں جن میں ناصرف آموں کی اقسام کا تفصیلی بیان موجود ہے، بلکہ ہر ایک کو معیار، شکل اور خوشبو کے لحاظ سے موضوع بنایا گیا ہے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہر بادشاہ ان سے کس طرح محبت کرتا تھا۔ غرض آم ہر دور میں حکمران طبقے کا پسندیدہ پھل رہا ہے۔
آم سفارت کاری کا ایک اہم ذریعہ بھی رہا ہے، آم ڈپلومیسی کی اصطلاح ہمارے خطے میں مشہور ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں ماضی والی بات نہیں رہی مگر اس کی مٹھاس آج بھی وہی ہے۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے دنیا بھر میں حکمرانوں کو آم بھیجے جاتے ہیں جو باہمی تعلقات اور روابط بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد سب سے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے بھارتی وزیرِاعظم جواہر لال نہرو کو آم بھجوائے تھے۔
ماضی میں اس کی قدر و قیمت کم ہونے کے باعث آم نے ویسے تو کبھی بھی برطانوی سیاسی یا معاشی سرگرمیوں کو نمایاں طور پر متاثر نہیں کیا لیکن 1953ء میں الفانسو آم پہلی بار ملکہ کی تاج پوشی کی تقریب کے لیے برطانیہ کو برآمد کیے گئے۔
اسی طرح اگست 1968ء میں بیجنگ میں پاکستانی وزیرِ خارجہ میاں ارشد حسین، چینی رہنما ماؤزے تنگ سے ملنے گئے تو وہ اپنے ساتھ تحائف کی شکل میں آم بھی لے گئے۔ اس کے بعد چین جیسے ملک میں بھی جہاں لوگ اس پھل کو بالکل نہیں جانتے تھے، آم آم ہونے لگا۔ وہاں کے شاعروں نے نظموں میں اس کی تعریف بیان کی اور بات پوجا تک پہنچ گئی۔ اس وقت لوگوں نے پورٹریٹ میں آموں کے ساتھ پوز بنائے اور آم نے پورے ملک کا چکر لگایا۔ چین میں آم کبھی کمیونسٹ پارٹی کا نشان بھی تھا۔
اسی طرح آم ڈپلومیسی میں صدر عارف علوی نے شہزادہ چارلس کو ماضی میں آم بھجوائے تھے جس پر شہزادہ چارلس نے ایک خط میں لکھا کہ ’آموں کا تحفہ بھجوانے پر آپ کے شکر گزار ہیں۔ پاکستانی آم بے حد لذیذ ہیں۔ میں اور میری اہلیہ آموں کے اس شاندار تحفے کے معترف ہیں‘۔
جب نواز شریف وزیرِاعظم تھے تو انہوں نے اس وقت بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو آموں کا تحفہ بھجوایا تھا۔ آم سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ اپریل 2016ء میں وینزویلا میں ایک خاتون نے صدر نکولس مدورو کو ایک ہجوم میں آم پھینک کر مارا تھا جو ان کے سر پر لگا تھا۔ آم کے ساتھ ایک درخواست بھی تھی جس میں انہوں نے مدد کی اپیل کرتے ہوئے اپنا فون نمبر لکھا تھا۔ پھر صدر نکولس نے اس سے رابطہ کیا اور اس سے مسئلہ پوچھا جس پر اس نے وینزویلا کے صدر سے اپنے لیے گھر کی خواہش کا اظہار کیا تھا جو اسے مل گیا۔ یعنی ایک آم نے گھر کا مال بنادیا، اے آم تو واقعی ہی بادشاہ ہے۔
آم کی خوبصورت یادوں کے ساتھ ایک تلخ یاد بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ ہمارے ایک سابق صدر جنرل ضیاالحق کی موت میں اس ’آم‘ کا اہم کردار تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جس جہاز میں وہ سوار ہوئے تھے اس میں آموں کی پیٹیاں رکھی گئی تھیں اور ان پیٹیوں میں بم یا کوئی گیس تھی جس کی وجہ سے یہ طیارہ حادثے کا شکار ہوا۔ اس حادثے میں صدر ضیا الحق اور امریکی سفیر سمیت پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت جاں بحق ہوئی تھی۔ سینئر صحافی افسر خان نے ایک مرتبہ ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بھی بہت مشہور ہوا کہ کام مکمل ہونے کے بعد پیغام دینے میں بھی آم کے نام کو استعمال کیا، اور پیغام دیا گیا کہ ’Man go‘۔
آم مذہبی لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ بدھ مت کے ادب میں بھی اس کا ذکر ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بھگوان بدھ نے آم کے درخت کے نیچے مراقبہ کیا تھا اور اس وجہ سے اسے مقدس سمجھا جاتا ہے۔ آم کے درخت کو جین مت میں بھی مذہبی اہمیت حاصل ہے کیونکہ جین دیوی امبیکا کو روایتی طور پر آم کے درخت کے نیچے بیٹھنے والی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آج بھی آم کے پتے کو پرہیزگار اور نیک سمجھا جاتا ہے اور وہ تہواروں اور تقریبات کے دوران گھروں کے مرکزی دروازے کی زینت بنتے ہیں۔
سنسکرت کے مشہور شاعر کالی داس نے آم کی بہت تعریفیں کی ہیں۔ امیر خسرو کو پھلوں میں سب سے زیادہ آم پسند تھے، وہ آم کے دیوانے تھے۔ فارسی شاعری میں امیر خسرو نےآم کو ’فخر گلشن‘ کہا ہے۔
غالب بھی آم کے شوقین تھے، وہ کہتے تھے کہ ’آم میٹھے اور بہت ہونے چاہئیں‘۔ غالب کی آب بیتی میں ہے کہ اپنے دوست شیخ محسن الدین مرحوم سے کہا ’بے تکلف عرض کرتا ہوں۔ اتنے آم کھاتا تھا کہ پیٹ بھر جاتا تھا اور دَم پیٹ میں نہ سماتا تھا، اب بھی اسی وقت کھاتا ہوں مگر دس بارہ۔ اگر پیوندی آم بڑے ہوئے تو پانچ سات‘۔
مرزا غالب کے دوست ان کی آم سے محبت جانتے تھے۔ ایک مرتبہ گلی کے کونے پر بیٹھے تھے ایسے میں سامنے سے چند گدھے گزرے۔ وہیں آم کی گٹھلیوں اور چھلکوں کو دیکھ کر ایک گدھا رُکا اور گٹھلیوں اور چھلکوں کو سونگھ کر آگے بڑھ گیا۔ غالب کے دوست نے ازراہِ تفنن کہا مرزا صاحب آپ نے دیکھا کہ ’گدھے بھی آم نہیں کھاتے‘۔ غالب مسکرائے اور بولے ’ہاں گدھے آم نہیں کھاتے‘۔
اکبر الہٰ آبادی بھی آم سے عشق رکھتے تھے انہوں اپنے دوست منشی نثار حسین کو آم نامہ لکھا کہ
**
اقبال کے خطوط میں بھی آموں کا ذکر ملتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی مرحوم کی تحقیق کا ذکر افسانہ نگار انتظار حسین نے اپنے ایک کالم میں کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’مولانا اکبر نے مجھے لنگڑا آم بھیجا تھا، میں نے پارسل کی رسید میں اکبر الہٰ آبادی کا شعر لکھا کہ
یہ ہماری وہ خوشبو ہے جو پوری دنیا محسوس کرتی ہے، اس کی بھینی بھینی خوشبو برِصغیر میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیل چکی ہے، اور جو ایک بار کھاتا ہے وہ بار بار کھاتا ہے۔ شاید کم ہی لوگ ہوں جو اس پھل کو پسند نہ کرتے ہوں۔
آم کی یہ شہرت ایسے ہی نہیں ہے بلکہ یہ قدرت کا منفرد کرشمہ ہے کہ اس کی سیکڑوں اقسام ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا اپنا مخصوص ذائقہ، شکل، حجم اور رنگ ہے۔ ایسے ایسے نام ہیں کہ ہم میں سے بہت سوں کی اکثریت نے کبھی سنے بھی نہ ہوں گے۔
دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستانی آم تاثیر، رنگ اور ذائقے کے اعتبار سے سب سے منفرد اور خاص ہیں۔ ہمارے یہاں مختلف اقسام کے آم پائے جاتے ہیں جن میں چونسا، سندھڑی، لنگڑا، الماس اور دسہری شامل ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ آم میں اب تک 20 سے زائد وٹامنز اور معدنیات سامنے آچکے ہیں۔
آم کے بے شمار فوائد جان کر اس پھل سے آپ کی محبت کئی گنا بڑھ جائے گی کیونکہ یہ ایک ایسا پھل ہے جس کے چھلکے بھی حیران کن فوائد کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ انسانی جسم میں چربی بننے سے روکتا ہے، اس میں وٹامن اے، ای، کے اور سی موجود ہوتے ہیں۔ قدرت کا یہ خوبصورت پھل حفاظتی اینٹی آکسیڈینٹ سے بھرپور ہے اور کینسر سے لڑنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کی یہ خصوصیات ہمارے جسم کو چھاتی کے کینسر، بڑی آنت کے کینسر، پروسٹیٹ کینسر اور لیوکیمیا سے بچاتی ہیں۔ یہ کولیسٹرول کی سطح کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
آم میں وٹامن سی، فائبر اور پیکٹین کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور یہ اس وجہ سے بھی ایک بہترین پھل ہے کہ یہ فائبر اور پوٹاشیم سے بھرپور ہوتا ہے۔ یہ دو غذائی اجزا فشار خون کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتے ہیں، مزید یہ کہ آم سے کولیسٹرول کو کنٹرول کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ اس منفرد پھل میں وٹامن اے اور سی دونوں کی مناسب مقدار ہوتی ہے۔ وٹامن سی اہم اینٹی آکسیڈینٹس میں سے ایک ہے جو ماحولیاتی نقصان کے خلاف حفاظتی کردار ادا کرتا ہے۔ وٹامن سی کی کمی زخم کے بھرنے کو متاثر کرسکتی ہے اور باریک لکیروں اور جھریوں کو بڑھا سکتی ہے۔ یہ جلد کو صاف اور چمک دار بناتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ بے عیب جلد رکھنی ہے تو آم کھائیں۔
آم اور موسم گرما کا گویا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن ایک سے زائد وجوہ کی بنا پر آم کھاتے ہی آپ کے جسم کا اندرونی نظام خاصا سرد ہوجاتا ہے جو آپ کو گرمی کی شدت اور لُو لگنے کے خطرے سے محفوظ رکھتا ہے اور ہیٹ اسٹروک کا امکان انتہائی کم ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پھل میں فولیٹ، وٹامن کے، وٹامن ای اور متعدد وٹامنز ہوتے ہیں جس وجہ سے یہ ہمارے مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے بہترین پھل ہے۔
اسی طرح آم میں ایک منفرد اینٹی آکسیڈینٹ مینگیفرین بھی ہے اور ان غذائی اجزا کی وجہ سے یہ صحت مند دل کے لیے معاون ثابت ہوتا ہے۔ چونکہ اس میں وٹامن اے کی اچھی خاصی مقدار ہوتی ہے اور دو اینٹی آکسیڈینٹ لیوٹین اور زیکسینتھین موجود ہوتے ہیں جو بینائی کے لیے مفید ہیں اور تیز بصارت کا باعث بھی بنتے ہیں۔
آم میں وٹامن بی 6 بھی ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا کیمیکل ہے جو نیند میں مدد کرتا ہے اور ہمیں اچھی نیند آتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ ہمارے موڈ کو ٹھیک اور منظم بھی کرتا ہے، اسی طرح آم جسم کو پُرسکون نیند کے لیے تیار کرتا اور نیند کے معیار کو بہتر بھی بناتا ہے۔
فوائد تو اس کے اور بھی بہت ہیں اور ابھی آم کے فوائد کا مکمل راز کھل بھی نہیں سکا ہے۔ اس حوالے سے تحقیقات ہورہی ہے اور ہوتی رہیں گی۔ بھارت کے ملیح آباد میں ایک حاجی کلیم اللہ خان ہیں، ان کی عمر 80 سال سے زائد ہے۔ وہ آم پر نت نئے تجربات کرتے رہتے ہیں، اس لیے انہیں ’آم آدمی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے آم کے ایک درخت پر انوکھا تجربہ کیا اور بیک وقت ایک ہی درخت پر 300 الگ الگ اقسام کے آم اُگا کر عالمی ریکارڈ قائم کردیا۔ مطلب ذرا سوچیں ایک درخت اور 300 اقسام کے آم یقین نہیں آرہا ہوگا ناں؟ ہمیں بھی نہیں آیا تھا اور صرف یہی نہیں وہ ایک درخت پر مختلف آم اگانے کے ساتھ ان کے مختلف نام رکھتے ہیں اور ہر ایک کی خصوصیت اور پہچان بھی بتاتے ہیں۔
اب تو آم روایتی طریقے سے ہٹ کر بھی لگائے جارہے، لیکن ان کا ذائقہ اور وہ خود صحت کے لیے کیسے ہیں یہ ایک الگ سوال ہے مگر روایتی طریقے سے ایک ایکڑ زمین پر آم کے 40 سے 50 درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ اب اسمال ٹری سسٹم (STS) کے تحت ایک ایکڑ میں ہزار سے زائد پودے لگائے جاتے ہیں اور یہ صرف 4 سال میں پھل دینا شروع کردیتے ہیں۔ ان کی اونچائی کم ہوتی ہے لیکن پیداوار زیادہ ہے۔ سندھ میں کاشت کے لیے سندھڑی آم بہترین ہے۔ اس کے علاوہ رٹول اور سینسیشن بھی اچھے نتائج دیں گے۔ پنجاب میں کاشت کے لیے چونسہ، سفید چونسہ، سندھڑی، عظیم چونسہ، رٹول اور سینسیشن موزوں ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مصر اور جنوبی افریقہ میں اسمال ٹری سسٹم کو اپنایا جارہا ہے، لیکن یہ بھی پڑھتے جائیے کہ اب آم کے پودے آپ گملوں میں چھوٹی جگہ پر بھی لگاسکتے ہیں۔ جی ہاں صرف 12 سے 20 انچ کا گملہ کافی ہے اور ان ہائیبرڈ پودوں میں ایک سال کے بعد ہی پھل لگ جاتے ہیں۔ ابھِی تو آم کی دنیا میں بہت کچھ دیکھنا باقی ہے۔
فلپائن نے اعلان کیا ہوا ہے کہ وہ اس کے ذائقہ اور زندگی کو بڑھانے کے لیے جینیٹک انجینئرنگ کے ساتھ آم کی نئی اقسام تیار کررہا ہے۔ ایک بات اور بتاتے چلیں کہ کچھ خطوں میں آم کے پتوں کو بھی پکا کر کھایا جاتا ہے کیونکہ انہیں بہت زیادہ غذائیت بخش سمجھا جاتا ہے جبکہ ان کو چائے اور سپلیمنٹس بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے یہاں یہ پھل بڑی تعداد میں موجود ہے۔ پنجاب میں ملتان سے مظفر گڑھ اور خانیوال سے رحیم یار خان تک تقریباً ہر میدان میں آم کے درختوں کی ایک بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے۔ ملتان پھلوں کی کاشت میں سرفہرست ہے کیونکہ اس میں آم کے درختوں سے ڈھکی ہوئی 31 ہزار ہیکٹر سے زیادہ اراضی ہے۔ اسی طرح سندھ میں میرپور خاص، ہالا اور دیگر علاقوں میں آم کی بڑے پیمانے پر کاشت ہوتی ہے، اس خطے میں ہزاروں ایکڑ پر آم کے باغات واقع ہیں۔
آم کی سیکڑوں اقسام میں سے تجارتی پیمانے پر صرف 25 سے 30 اقسام کاشت کی جا رہی ہے۔ ان اقسام میں چونسہ، سندھڑی، لنگڑا، دوسہری، انور رٹول، سرولی، ثمر بہشت، طوطا پری، فجری، نیلم، الفانسو، الماس، سنوال، سورکھا، گلاب خاص، سنیرا اور دیسی شامل ہیں۔
دنیا میں آم کی پیداوار 5 کروڑ ٹن سے زائد ہے جس میں سے بھارت 2 کروڑ ٹن سے زیادہ اور چین تقریباً 50 لاکھ ٹن آم پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور میکسیکو اور پاکستان کا نمبر آتا ہے۔ پاکستان میں آم کی سالانہ پیداوار 20 لاکھ میٹرک ٹن ہے جس میں سے صرف صوبہ پنجاب میں قریباً 13 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق آم کے زیرِ کاشت رقبے کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 7ویں نمبر پر ہے جہاں اس کی کاشت ایک لاکھ 72 ہزار 308 ایکڑ رقبے پر ہوتی ہے۔ سندھڑی آموں کی پیداوار پاکستان کے کُل آموں کی پیداوار کا 64 فیصد ہے۔
گزشتہ دنوں ہالا جانا ہوا تو وہاں 250 ایکڑ پر پھیلے ایک باغ کو بھی دیکھا جہاں فالسے کے ساتھ آم ہی آم جھومر کی طرح لٹکتے نظر آرہے تھے۔ میرا بیٹا سعدی تو اس باغ میں ایسے گھوم رہا تھا جیسے اسے کوئی خزانہ مل گیا ہے۔ وہ درختوں پر چڑھتا، اترتا، چھلانگیں مارتا، آم توڑتا، کھاتا اور مزے کرتا۔ اس باغ کے نگران عمر فاروق ہیں اور ان کے والد حافظ لطف اللہ بھٹو نے باغ کو بنانے میں زندگی لگادی، مگر اب زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے ماضی کی متحرک نہیں رہے۔
عمر نے بتایا کہ ’آج کل پانی کا مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیے کراچی سے کچھ افراد کوششیں کررہے ہیں۔ انہوں نے سیکڑوں کی تعداد میں آم اور فالسوں کے پودے بھی دیے ہیں جن میں سینسیشن کے تجرباتی طور پر 1350 پودے شامل ہیں۔ 3 سال بعد ان میں سے ہر پودا تقریباً 40 کلو پھل دے گا اور اگست میں بھی آم ملے گا‘۔
پاکستانی آم کی مشرق وسطیٰ، یورپ اور آسٹریلیا کی منڈیوں میں بڑی مانگ ہے۔ مسقط، بحرین، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ناروے، ہالینڈ، بیلجیئم، سنگاپور، جاپان، اردن، موریشیس اور کویت میں ہمارے آم جنون کی حد تک پسند کیے جاتے ہیں۔ امریکا میں بھی پاکستانی آموں کی مانگ موجود ہے لیکن وہاں کے لیے کچھ قانونی اور سیاسی مسائل موجود رہتے ہیں۔ چین کے لوگ اپنی میٹھی دوستی کے ساتھ پاکستانی میٹھے آم بہت پسند کرتے ہیں۔
چلیں اب تیاری پکڑتے ہیں آم کھانے اور نت نئی اقسام کے آم دیکھنے کی کیونکہ آم کا سیزن شروع ہوچکا ہے اور ہوٹلوں اور گھروں میں آم پارٹیاں شروع ہونے والی ہیں۔ بس آم کھائیے اور گٹھلیاں گنے بغیر کھائیے۔
وطن عزیز میں اس نعمت خداداد کو اپنی صحت کے لیے استعمال کریں۔ ان کو بھی پھلنے، پھولنے دیجیے، خود بھی پھلیے پھولیے اور اس نعمت کو جیسے چاہیں استعمال کیجیے۔ چاہیں تو کھانے میں ذائقہ بڑھانے کے لیے استعمال کریں، آم کی جیم، جیلی، چٹنی بنائیں یا بار بی کیو کے طور پر آم کو گرل کریں، کچے آموں کو کاٹ کر خشک کریں، یا پھر آم کا شربت پیئں، یہ آپ کے اوپر ہے۔ بس جنہیں الرجی اور شوگر ہے وہ ٹیسٹ کرواکے ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کریں۔
یہ تحریر ابتدائی طور پر 10 جون 2022ء کو شائع ہوئی جسے قارئین کے لیے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔
لکھاری ڈاکٹر آف فارمیسی ہیں۔ غذا، صحت، سماج اور ادب ان کے موضوعات ہیں جن سے متعلق ان کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔