خدشہ تھا کہ لہجے کی وجہ سے مسترد کیا جائے گا، دپیکا پڈوکون
بولی وڈ ’ڈمپل گرل‘ دپیکا پڈوکون نے انکشاف کیا ہے کہ کیریئر کے آغاز میں انہیں ان کے جنوبی بھارتی لہجے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا اور انہیں خدشہ تھا کہ انہیں ان کے بولنے انداز کی وجہ سے مسترد کردیا جائے گا۔
دپیکا پڈوکون کی پیدائش اگرچہ یورپی ملک ڈنمارک میں ہوئی، تاہم ان کے والدین کا تعلق بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک سے ہے۔
ان کے والدین انڈو آرین نسل کے ہیں اور ان کا تعلق بنگلورو سے ہونے کی وجہ سے دپیکا پڈوکون کے بول چال میں بھی وہاں کا اثر ہے،
اگرچہ جنوبی بھارت خود ایک بہت بڑی فلم انڈسٹری ہے اور دپیکا پڈوکون نے اداکاری کا آغاز بھی جنوبی فلم انڈسٹری سے کیا تھا مگر 2006 میں انہوں نے شاہ رخ خان کے ساتھ ’اوم شانتی اوم‘ سے بولی وڈ فلم کا آغاز کیا۔
حال ہی میں انہوں نے فیشن میگزین ’ووگ‘ کو انٹرویو دیا، جس میں انہوں نے جنوبی بھارتی لہجے ہونے کی وجہ سے بولی وڈ کیریئر ختم ہونے کے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔
دپیکا پڈوکون کے مطابق انہیں شک تھا کہ ان کے لہجے کی وجہ سے انہیں اہمیت نہیں دی جائے گی اور جنوبی بھارتی لہجے کی وجہ سے ان کا بولی وڈ کیریئر آگے نہیں بڑھے گا۔
اداکارہ نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ انہوں نے فلم انڈسٹری میں کبھی صنفی تفریق کا سامنا نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے کبھی مرد و خاتون کا موازنہ کیا اور نہ ہی اس مسئلے کو اہمیت دی۔
دپیکا پڈوکون کے مطابق ان کی اور ان کی بہن کی پرورش کبھی اس طرح کی ہی نہیں گئی کہ وہ لڑکیاں ہیں اور انہیں اپنے حقوق اور اپنی بعض چیزیں لڑ کر لینی پڑیں گی مگر پھر انہوں نے ہر چیز کے لیے جدوجہد کی اور انہیں حاصل کیا۔
اداکارہ نے ہولی وڈ میں مختلف نسلوں اور طبقات سے تعلق رکھنے والی افراد کو کاسٹ کیے جانے کے معاملے پر بھی بات کی اور کہا کہ ابھی ہولی وڈ میں مختلف نسل اور خطوں کے لوگوں کو کاسٹ کرنے یا انہیں مواقع دیے جانے کا معاملہ ابتدائی سطح پر ہے۔
ان کے مطابق کسی بھی سیاہ فام یا ایشیائی شخص کو کسی ہولی وڈ فلم میں کاسٹ کرنے یا انہیں موقع دینے کو مختلف نسل اور طبقات کے لوگوں کو اہمیت دینا نہیں کہا جا سکتا۔
دپیکا پڈوکون کا کہنا تھا کہ ان کے مطابق ہولی وڈ میں ابھی تک مختلف نسلوں اور طبقات کے لوگوں کو مواقع فراہم کرنے کی بحث ابتدائی شکل میں ہے اور اس ضمن میں بہت کچھ ہونا ہے۔
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ بعض ہولی وڈ شخصیات مختلف نسلوں، طبقات اور عقائد کے لوگوں کو مواقع فراہم کرنے کے حوالے سے سنجیدہ بھی ہیں۔