نقطہ نظر

گَٹ فیلنگ: کیا آپ بھی پیٹ کے مختلف امراض کا شکار رہتے ہیں؟

آئی بی ایس ایک مرض کا نام ہے جس میں اسہال، قبض، اپھار، گیس، کھانوں کے حوالے سے عدم برداشت اور پیٹ میں درد جیسے مسائل ہوسکتے ہیں۔

30 سالہ نزہت* ایک نجی کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'میں ہر وقت سُستی محسوس کرتی تھی، گیسٹرو انٹسٹائینل [جی آئی] (Gastro-intestinal) مسائل میرے لیے معمول بن چکے تھے۔ پھر میں نے ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر نے خون کے کچھ ٹیسٹ کروائے اور تشخیص کی کہ مجھے اریٹیبل باؤول سِنڈروم [آئی بی ایس] (irritable bowel syndrome) ہے'۔

آئی بی ایس ایک دائمی اور غیر متوقع حالت کا نام ہے جس میں مریض کو پیٹ سے متعلق کئی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ان میں اسہال، قبض، اپھار، گیس، کھانوں کے حوالے سے عدم برداشت اور درد شامل ہیں۔ یہ معدے کے ذریعے کھانے کی غذائیت جذب نہ ہونے کا بھی سبب بن سکتا ہے جس سے تھکاوٹ اور سستی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ آئی بی ایس میں مبتلا افراد اکثر تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ اس مرض کی تشخیص کے بعد اس سے نمٹنا تو دُور اس کے حوالے سے بات کرنا بھی انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

آئی بی ایس تمام عمر کے افراد کو لاحق ہوسکتا ہے لیکن عموماً 20 سے 40 سال کی عمر کے افراد کو اس کا شکار ہوتا دیکھا گیا ہے۔ پاکستان میں آئی بی ایس کی موجودگی کے بارے میں بہت کم اعداد و شمار موجود ہیں اور اس کے حوالے سے بہت زیادہ آگہی بھی نہیں پائی جاتی۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یہ آبادی کے 33 سے 34 فیصد حصے کو متاثر کرتا ہے اور مردوں کے مقابلے میں خواتین اس کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔

فزا* ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتی ہیں، ان کی عمر 40 سال سے زائد ہے اور وہ پیٹ کے شدید مسائل کا شکار رہی ہیں۔ انہوں نے گھریلو ٹوٹکوں سے لے کر اینٹی بائیوٹکس تک سب استعمال کرلیا لیکن کسی چیز نے کام نہیں کیا۔ انہیں جوڑوں اور پٹھوں میں درد کی شکایت رہنے لگی ساتھ ہی انہیں ذہن کے سُن ہونے کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ وہ سستی کا شکار ہونے لگیں اور انہوں نے تقریبات میں جانا چھوڑ دیا۔ انہیں ڈر ہوتا تھا کہ جیسے ہی وہ کچھ کھائیں گی تو انہیں فوراً ہی بیت الخلا جانا پڑے گا۔

انہوں نے بتایا کہ 'میں ہمیشہ اس بات کی فکر کرتی تھی کہ میں نے کیا کھایا تھا۔ میں سوچتی تھی کہ یا تو وہ مجھے سوٹ نہیں کیا یا پھر وہ صحیح نہیں تھا۔ میں نے ایک ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا جس نے لیبارٹری ٹیسٹ، اسکوپس، اسکینز اور اینٹی بائیوٹکس کا مشورہ دیا۔ اس کے بعد مجھ میں آئی بی ایس کی تشخیص ہوئی۔ ملک میں عوامی بیت الخلا کی حالت اور عدم دستیابی کو دیکھتے ہوئے میں نے گھر میں رہنا شروع کردیا کیونکہ اکثر مجھے فوری طور پر بیت الخلا کا استعمال کرنا پڑتا تھا۔ پھر غذائیت جذب نہ ہونے کی وجہ سے میں بہت زیادہ سُستی محسوس کرتی تھی'۔

پروفیسر ڈاکٹر غلام علی مندرہ والا کراچی کے انکل سریہ اسپتال میں گیسٹرو اینٹرولوجسٹ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'ہمارے خطے میں قبض سے زیادہ اسہال کے مریض پائے جاتے ہیں۔ پرائمری جی آئی علامات آگے چل کے سیکنڈری جی آئی اور مجموعی علامات کا سبب بن سکتی ہیں۔ یہ اتنا شدید بھی ہوسکتا ہے کہ لوگوں کو اپنی کام کرنے کی جگہوں سے چھٹی لینی پڑجاتی ہے'۔

آئی بی ایس کی وجوہات کے بارے میں کئی قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مندرہ والا کے مطابق 'اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ آئی بی ایس کی وجوہات کیا ہیں لیکن دماغ اور پیٹ کے تعلق کی خرابی کا اس میں عمل دخل ہوتا ہے۔ دماغ ہی پیٹ کے معاملات کو کنٹرول کرتا ہے اور تناؤ آئی بی ایس کی وجہ بنتا ہے۔ کچھ ماہرین تو اسے نفسیاتی مسئلہ بھی قرار دیتے ہیں'۔

دماغ اور نظام انہضام کے درمیان سگنلز بھی اس میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کچھ محققین اس بارے میں بھی تحقیق کررہے ہیں کہ کہیں آنتوں میں موجود بیکٹیریا بھی تو اس حالت کا سبب نہیں بنتے۔

چونکہ آئی بی ایس کی اب تک کوئی مخصوص وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے، اس وجہ سے اس کی تشخیص کا بھی کوئی مخصوص طریقہ موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر مندرہ والا کے مطابق 'کسی شخص میں آئی بی ایس کی تشخیص سے قبل اس کے علامات کا سبب بننے والی دیگر تمام چیزوں کا رد ہونا ضروری ہے۔ اس مسئلے کی شدت کو دیکھتے ہوئے اس کی تشخیص کے لیے بلڈ ٹیسٹ، کلونواسکوپی اور اینڈو اسکوپی کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اگر ہر طرح کی جانچ مکمل ہوجائے اور علامات برقرار رہیں تب ہم اسے آئی بی ایس قرار دے سکتے ہیں'۔

آئی بی ایس کی تشخیص سے قبل جن چیزوں کی جانچ کی جانی چاہیے ان میں مختلف کھانوں سے الرجی، السریٹو کولیٹس یا کروہنز ڈیزیز، سیلیئک ڈیزیز اور تھائرائڈ سے متعلق مسائل وغیرہ شامل ہیں۔

ڈاکٹر مندرہ والا کے مطابق 'علامات کو دیکھتے ہوئے ادوایات دینی چاہئیں، جیسے کہ اسہال کے لیے اینٹی ڈائیریئلز اور قبض کے لیے لیکسیٹو'۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 'لیکن چونکہ تناؤ اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس وجہ سے مریض کو یہ سمجھانا بہت ضروری ہے کہ یہ ایک ایسی حالت ہے جس پر لوگ خود بھی قابو پاسکتے ہیں'۔

کچھ لوگوں کا نظام انہضام ڈیری اشیا (خاص طور پر دودھ)، گندم، فرکٹوس (پھلوں میں موجود شکر)، چکنائی والے کھانے اور کاربونیٹڈ مشروبات کو قبول نہیں کرتا۔ لیکن اس بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ یہ کھانے آئی بی ایس کا سبب بنتے ہیں۔ آئی بی ایس سے نمٹنے میں سب سے اہم چیز اس کے محرکات سے بچنا ہے، جن میں پریشان کرنے والے کھانے اور تناؤ بھی شامل ہے جو آئی بی ایس کی علامات کا سبب بن سکتا ہے۔

نزہت کو بتایا گیا تھا کہ ان میں آئی بی ایس کی بنیادی وجہ تناؤ، جنک فوڈ اور نیند کا خراب معمول ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ 'جب ابتدا میں علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں تو میں بہت زیادہ تناؤ اور تھکاوٹ کا شکار تھی، اب میں تلے ہوئے کھانوں، بیکری کی اشیا، بیف، مصالحوں اور ہر اس چیز سے پرہیز کرتی ہوں جو معدے میں تیزابیت کو بڑھا سکتی ہے'۔ نزہت اپنی ادویات کا استعمال اسی وقت کرتی ہیں جب وہ محسوس کرتی ہیں کہ انہیں علامات ظاہر ہورہی ہیں۔

50 سالہ شہناز* ایک بینکر ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ 'میں اس بات کی نشاندہی نہیں کرسکتی تھی کہ میرے نظام انہضام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے لیکن وہ بہت خوفناک تھا۔ پھر میری لیکٹوس انٹولارینس (lactose intolerance) مزید شدید ہوگئی جس سے پیٹ کے مزید مسائل نے جنم لیا'۔ شہناز نے ایک اسپیشلسٹ سے مشورہ کیا جس نے دیگر محرکات کی جانچ کے لیے کئی ٹیسٹ کیے اور کچھ ادویات دیں لیکن ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

جب بار بار باتھ روم کے چکر لگانے کے نتیجے میں شدید درد اور اینل فژرز (anal fissures) کا سامنا کرنا پڑا تو ان کے دوست نے انہیں کسی سرجن کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ شہناز نے بتایا کہ 'فژرز کے لیے مجھے سرجری کروانی پڑی اور بلآخر اب ادویات بھی کام کررہی ہیں'۔ شہناز اب ڈیری اشیا اور انڈے نہیں کھاتیں، وہ کہتی ہیں کہ 'آئی بی ایس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے جسم میں غذائیت جذب نہیں ہوتی جس سے آپ کی پوری صحت متاثر ہوتی ہے'۔

آئی بی ایس کا تعلق اکثر لیکٹوس انٹولارینس سے بھی ہوتا ہے کیونکہ آئی بی ایس میں مبتلا ہر 3 میں سے ایک فرد کو ڈیری اشیا کھانے کے بعد اچھا محسوس نہیں ہوتا۔ ایسا اس وجہ سے بھی ہوسکتا ہے کہ ڈیری اشیا آئی بی ایس کے مریضوں کی پہلے سے حساس آنتوں کو مزید نقصان پہنچاتی ہیں۔

آئی بی ایس جیسی حالت کے ساتھ زندگی گزارنا کبھی کبھی بہت زیادہ چیلنجنگ ہوسکتا ہے اور اس کے لیے آپ کو اپنا طرزِ زندگی بدلنا پڑتا ہے۔ فزا نے بتایا کہ 'کچھ دن اچھے گزرتے ہیں اور کچھ بُرے، کچھ دن ایسے بھی ہوتے کہ میں خود کو کسی بھی عام شخص کی طرح محسوس کرتی ہوں اور کچھ ایسے بھی دن ہوتے کہ جب میں باہر نہیں جاسکتی تھی، اپنے دوستوں سے نہیں مل سکتی تھی، یہاں تک کہ مجھے کچھ خاص تقریبات بھی چھوڑنی پڑیں'۔

نزہت کا ماننا ہے کہ جب تک اصولوں پر عمل کرتے رہیں تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ وہ کہتی ہیں کہ 'اگر میں تناؤ سے بچی رہوں اور باہر کا کھانا یا بہت زیادہ مصالحے والا گھر کا کھانا نہ کھاؤں تو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوتی، لیکن اگر میں اس میں کوتاہی کروں تو پھر زندگی بُری طرح متاثر ہوتی ہے'۔

آئی بی ایس کے ساتھ زندگی گزارنا اپنے آپ میں ایک چیلنج ہے اور پھر اس کی بدلتی ہوئی علامات، جن کے بارے میں بات کرنا بھی مشکل ہو اس چیلنج میں مزید اضافہ کردیتی ہیں۔ یہ صرف اس مرض میں مبتلا فرد کو ہی متاثر نہیں کرتا بلکہ اس کے گھر والوں، دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی لاکھوں لوگ روز اس حالت کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور کسی نہ کسی طریقے، جو ہمیشہ سادہ یا آسان نہیں ہوتے، سے اس حالت سے نمٹتے ہیں۔

یہ معلوم کرنا کہ آپ کے لیے کیا چیز بہتر کام کرتی ہے اور صحت مند زندگی گزارنا اس پُراسرار بیماری سے نمٹنے کے لیے بہت زیادہ اہم ہے۔


*شناخت محفوظ رکھنے کے لیے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔


یہ مضمون 24 اپریل 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

رضوانہ نقوی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔