چانکیہ کو گر سکھاتے پاکستانی سیاستدان
کہا جاتا ہے سیاست اقتدار کا کھیل ہے لیکن کیا اس اقتدار کے کھیل میں سب کچھ جائز ہے اور اس دوڑ میں سب چلتا ہے؟ اس وقت پاکستان کی سیاست اور ’جمہوریت‘ کی چھتری تلے سرعام لفافوں کی منڈی لگی ہوئی ایک تماشہ برپا ہے اور سودے اب پکے ہوگئے ہیں۔
آج جب ’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘ والی جوڑ توڑ کی سیاست ٹی وی چینل کی اسکرین پر دیکھنے کو مل رہی ہے تو برصغیر کی تاریخ کے ایک ہوشیار اور چلاک شخص چانکیہ کوتلیہ کی شخصیت اور اس کی باتیں یاد آجاتی ہیں۔ وہ سماج و سیاست کا گرو کہلاتا تھا، اس کی سیاست میں اخلاقیات نہیں تھیں اور وہ کسی اخلاقی اصول کا قائل نہیں تھا۔ اس کی اپنی اخلاقیات اور سیاسی اصول تھے۔ چانکیہ جوڑ توڑ کے ساتھ سفاکیت کا بھی قائل تھا۔
ہمارا خیال تھا کہ سیاست میں سفاکی اور چانکیہ کی ’اخلاقیات‘ کا اثر صرف ہندوستان کی مقامی اور عالمی سیاست میں ہے کیونکہ وہ ان کا بابائے سیاست ہے۔ ہندوستان کے پہلے وزیرِاعظم جواہر لال نہرو تو چانکیہ کو اپنا روحانی گرو کہا کرتے تھے۔ اس کی کتاب ارتھ شاستر 150 ابواب پر مشتمل ایک اہم دستاویز ہے جس نے برصغیر کے تمدن اور اسلوب سیاست پر گہرے اور عمیق اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان اثرات کا عکس ہماری سیاست پر بھی پوری طرح موجود ہیں۔
ہمارے یہاں چانکیہ کی تعلیمات ویسے تو پورے سماج میں نظر آتی ہیں، لیکن سیاست میں وعدہ خلافی، جھوٹ، مکروفریب اور دھوکا دہی اس وقت بام عروج کو پہنچی ہوئی ہے۔ چانکیہ بس اپنے مخالف کو زیر کرنا حد ضروری سمجھتا تھا اور حصول اقتدار کے لیے ہر چال اس کی ڈکشنری میں ٹھیک تھی۔ مخالف کے خلاف ریشہ دوانیاں، تخریب کاری، دہشتگردی، امن و امان کو تہہ وبالا کرنا، یہاں تک کہ بیماریاں پھیلانا بھی اس کی سیاست کے اصول تھے۔ اس کا فلسفہ تھا کہ آپ کے اندر حصول اقتدار کی ہوس کبھی ٹھنڈی نہ ہونے پائے۔
وہ جہاں حکمرانوں کو اپنے اقتدار کو طویل کرنے کے گُر سکھاتا تھا وہیں اقتدار ختم کرنے کے لیے دوسروں کو اکسانا اور اقتدار کو کمزور کرنے کے گُر بھی خوب جانتا تھا۔ ہمارے سماج کا چانکیہ کون ہے یہ بہت اہم سوال ہے۔ سردست یہ ہمارا موضوع نہیں ہے لیکن وہ جو کوئی بھی ہے اقتدار کے محلوں سے سندھ ہاؤس تک موجود ضرور ہے کیونکہ چانکیہ کی سیاست کی تعلیم میں سب چلتا ہے اور سب جائز ہے اس لیے چانکیہ کہتا تھا کہ:
’ہم میں سے کسی کو بہت زیادہ دیانتدار نہیں ہونا چاہیے۔ سیدھے کھڑے ہوئے درختوں کو پہلے کاٹا جاتا ہے اسی طرح دیانتدار افراد کو بھی پہلے ناکارہ کیا جاتا ہے‘۔
اس کے مطابق:
’اپنی کمزوری اور اپنی ناکامی کو کبھی تسلیم نہ کرو اور ہمیشہ اپنی شکست کا الزام دوسروں پر تھوپ دو‘۔
چانکیہ کا ہی کہنا تھا کہ جن لوگوں سے دوستی رکھو ان سے دوستی میں ہمیشہ اپنی غرض پیش نظر رہے اور مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔ وہ مخالف کو شیشے میں اتارنے کے فن کا ماہر تھا اور وہ اپنے مدمقابل کو میٹھی باتیں سنا کر اور لوریاں دے کر گہری نیند سلانا بھی جانتا تھا۔ بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ چانکیہ کی سیاست کا وہ کون سا گُر ہے جو ہم نے نہیں سیکھا یا وہ ہماری سیاست میں نظر نہیں آتا ہے۔
چانکیہ کی خصوصیت تھی کہ وہ اپنے مخالف کی جانب گرم جوشی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتا تھا اور دھن، دولت، پیسے سے اسے مرعوب کرنے کی پوری کوشش کرتا تھا، کیونکہ اس کا فلسفہ تھا کہ:
’دشمن کی طرف دوستی و محبت سے آگے بڑھو، اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاؤ، جب وہ قریب آئے تو اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دو، پھر اس کے ساتھ مل کر بچاؤ، بچاؤ کی صدا لگاؤ اور جب دشمن مرجائے تو اس کی لاش پر بین کرو‘۔
چانکیہ، چندر گپت موریا کا استاد اور وزیرِاعظم تھا۔ تاریخ میں ہے کہ اسی کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے 322 قبل مسیح میں چندر گپت موریا نے موریا سلطنت کی بنیاد ڈالی تھی۔ ایک مرتبہ چندر گپت موریا نے چانکیہ سے پوچھا:
’گرو! بڑے اور مضبوط دشمن پر حملہ کب کرنا چاہیے؟‘
چانکیہ نے جو جواب دیا اسے دیکھیں اور ایک لمحے کے لیے اپنی سماجی اور سیاسی صورتحال پر غور کریں۔ چانکیہ نے جواب دیا کہ:
’جناب دشمن انسان ہو یا ملک اس کی اصل طاقت اس کے دوست یا بھائی اور قریب کے ہمدرد ہوتے ہیں، اس لیے بڑے دشمن پر حملے سے پہلے اس کے ہمدردوں، اس کے قریبی لوگوں اور بھائیوں کو اس سے دُور کردیا جائے۔ جب یہ یقین ہوجائے کہ دشمن کا کوئی دوست اور ہمدرد اب اس کا ساتھ نہیں دے گا تو دشمن پر فوراً حملہ کردیا جائے‘۔
جب میں نے سماجی علوم کے معروف دانشور، ممتاز ماہرِ تعلیم اور سیاست و تاریخ پر گہری و عمیق نظر رکھنے والے ڈاکٹر سید جعفر احمد سے چانکیہ کے فلسفہ سیاست اور آج کی تحریک عدم اعتماد کے پس منظر میں ملکی صورتحال پر بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں چانکیہ نے جس چالاکی، ہوشیاری اور موقع پرستی کی سیاست کی جانب اشارہ کیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ کامیابی کے گُر کیا ہیں وہ ساری تعلیمات آج پس پردہ جاچکی ہیں۔ زمانہ بہت آگے چلا گیا ہے اور ان تعلیمات کا 21ویں صدی میں جو اظہار ہورہا ہے وہ موصوف خود آکر دیکھیں تو حیران ہوں گے کہ یہ بات کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے، بلکہ چانکیہ آجائے تو شاید اسے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
’جہاں تک سیاست میں اخلاقیات کا سوال ہے تو اس کا گہرا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ سیاست میں نظریات کا، نظریاتی جماعتوں کا اور نظریاتی قیادت کا کیا کردار رہا ہے۔ پاکستان میں جو کچھ ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں وہ دراصل نظریاتی اور اصولی سیاست کے خاتمے کا مظہر ہے۔ ہم اس صورتحال کو ڈی پولیٹیسائزیشن بھی کہہ سکتے ہیں کہ سیاست کو جمہوری عمل سے کاٹ دیا جائے۔
’یہ ایک آدھ دن کی بات نہیں ہے بلکہ مسلسل اور باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ ماضی میں بھی اس کے کچھ نہ کچھ آثار تو تھے لیکن یہ جو بازارِ سیاست اب لگا ہے اس کا واضح طور پر آغاز جنرل ضیاالحق کے زمانے میں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے ہوا ہے۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں کو سیاسی عمل سے دُور کردیا اور انتخابی حلقوں کو ان عناصر کے لیے کھول دیا جو وہاں پر برادری کے نام پر یا پیسے اور طاقت کے زور پر برسرِ اقتدار آسکتے تھے یوں ہمارے یہاں سیاست میں ایک نئی اصطلاح نے جنم لیا جسے ہم الیکٹیبلز کہتے ہیں۔
’اس وقت پاکستان کے کم و بیش تمام انتخابی حلقوں کے اندر کئی کئی الیکٹیبلز پائے جاتے ہیں جو انتخابات میں جب حصہ لیتے ہیں تو ان کی بنیادی اساس پیسہ ہوتا ہے پھر وہ سیاسی جماعتوں سے بھی تعاون حاصل کرلیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی یہ الیکٹیبلز کارآمد ہوتے ہیں اور ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی حلقے کے سب سے اہم الیکٹیبل یا جس کے منتخب ہونے کا زیادہ امکان ہو اسے پارٹی ٹکٹ دیا جائے۔ یوں یہ ایک دوسرے کی ضرورت پوری کررہے ہوتے ہیں۔
’سیاسی جماعتیں خود انتخابات میں سرمایہ کاری نہیں کرتیں سوائے دو ایک جماعتوں کے کہ جن کے ہاں جو امیدوار ہیں ان کا اپنا پیسہ نہیں لگتا۔ اس کی واضح مثال جماعت اسلامی یا ایم کیو ایم ہے۔ ان کے امیدواروں کا اپنا پیسہ نہیں لگا ہوتا بلکہ پارٹیاں ان کا خرچہ برداشت کرتی ہیں، مگر ان کے علاوہ باقی تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے انتخابی اخراجات خود برداشت کریں۔ اب جو نودولتیے میدان میں آتے ہیں وہ کچھ تو اپنی دولت استعمال کرتے ہیں اور رقم کم پڑے تو دوسروں سے قرضہ لیتے ہیں۔
’یہاں پر مافیاز کا رول آجاتا ہے اور ہمارے یہاں ایسے مافیاز موجود ہیں جو امیدواروں کو کروڑوں میں پیسہ دیتے ہیں تاکہ وہ انتخاب جیتے اور اس کے بعد وہ پیسہ واپس ہو۔ امیدواروں میں بھی جو زیادہ پُراعتماد ہوتے ہیں وہ آزادانہ الیکشن لڑتے ہیں تاکہ انتخابات کے بعد جیتنے والی پارٹی کے ساتھ سودے بازی کریں اور اس میں شامل ہوجائیں۔
’اس وقت جو پورے سیاسی عمل میں شامل لوگ ہیں ان میں تقریباً 100 افراد ایسے ہیں جو پچھلے 20، 22 سالوں میں مستقل سیاسی جماعتیں بدلتے رہے ہیں۔ عمر ایوب خان مختلف جماعتوں سے ہوتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شامل ہوئے۔ فواد چوہدری پہلے پیپلز پارٹی میں رہ چکے ہیں، وزیرِ تعلیم شفقت محمود بھی پیپلز پارٹی میں تھے۔ شیخ رشید کو دیکھ لیجیے، مسلم لیگ میں تھے جس میں نواز شریف قائد تھے اس سے نکلے چوہدری شجاعت کے پاس چلے گئے ادھر سے نکلے اپنی پارٹی بنائی اور اب پی ٹی آئی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔
’یہ جو نام نہاد سیاسی اشرافیہ ہے ان کا سیاسی جماعتوں سے بھی کوئی ذہنی تعلق نہیں ہے، نہ ہی ان کے کوئی نظریات ہیں اور نہ ہی انہیں عوامی مفادات عزیز ہیں بلکہ یہ صرف پیسے کا کھیل ہے جو سیاست کے اندر آیا ہے۔ اس کا بڑا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ ہم عالمگیریت کے جس دور میں رہ رہے ہیں اس میں کاروباری شعبہ سیاست میں پیسہ لگاتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح میڈیا میں پیسہ لگاتا ہے۔ میڈیا کو بھی دیکھ لیں ایک دو کے علاوہ کارپوریٹ سیکٹر کا سب پر پیسہ لگا ہوتا ہے۔ وہ اخبار نکالتے ہیں، پھر وہ یونیورسٹی بناتے ہیں اور اصل میں ان کا کوئی کپڑے کا کارخانہ ہوتا ہے۔ یعنی یہ سارا کھیل یہ ہوتا ہے کہ جیتنے والے کا ساتھ دیا جائے اور جلد سے جلد اور بہتر ریکوری ممکن ہوسکے۔
’میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ اخلاقی اقدار اب ختم ہوچکی ہیں اور نظریات دم توڑ چکے ہیں۔ کاروبارِ سیاست کی یہ پوری بساط فوج نے متعارف کروائی ہے۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں اور پھر جنرل مشرف کے دور میں پارٹیوں میں لوگوں کو شامل کرنے کا عمل شروع ہوا، پھر ان کو وزارتیں دلوانا اور حکومتوں کو گروانا یہ سب شامل ہیں۔ یہ سارا کھیل کھیلنے والی قوتیں بھی موجود ہیں اور اس پورے کھیل میں کارپوریٹ سیکٹر پوری طرح شامل ہے بلکہ کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ صرف چہرے بدلتے رہتے ہیں۔ ہم چہروں کے حوالے سے ہی گفتگو کررہے ہوتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے پیچھے آپریٹر کون ہیں۔‘
چانکیہ کے فلسفے اور آج کی سیاست پر پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود سے جب ہم نے کہا کہ آپ صحافت کے بھی استاد ہیں اور سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں تو موجودہ صورتحال میں آپ کیا کہتے ہیں؟ آپ نے بڑے دلچسپ انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ ’ایک بار چانکیہ، بادشاہ کے ساتھ شکار پر گیا، اس دوران ایک جھاڑی سے بادشاہ کا دامن الجھ گیا اور وہ وہاں زخمی ہوگیا، بادشاہ نے حکم دیا کہ جھاڑی کو نکال کر پھینک دو تو چانکیہ نے کہا آپ یہ نہ کریں اور اس نے شکر کا ایک ڈبہ منگوایا اور اس نے جھاڑی کی جڑ پر انڈیل دیا۔ بادشاہ نے کہا یہ تم نے کیا کیا؟ تو چانکیہ نے کہا کل تک رک جائیں، کل دیکھیے گا کیا تماشہ ہوتا ہے۔
’اگلے دن بادشاہ کو دلچسپی ہوئی اور جب بادشاہ چانکیہ کے ساتھ وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ چیونٹیوں نے شکر کی لالچ میں جھاڑی کی پوری جڑ خالی کردی۔ بادشاہ ظاہر ہے حیران ہوا اور کہا تم تو بہت ہی مکار آدمی ہو۔ بس پاکستان کی سیاست میں بھی ممبران اسمبلی کی جڑوں پر شکر الٹنے کی سیاست ہورہی ہے، اسی نے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ جب تک شکر انڈیلنے یعنی خرید و فروخت کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا تب تک پاکستان کی سیاست پاکیزہ نہیں ہوسکتی۔
’اصل بات یہ ہے کہ ہم نے مغربی جمہوریت کا جو پودا لگایا ہے اس پودے کو یہاں کی فضا راس نہیں آرہی۔ ہمیں اپنی فضا کے مطابق نیا انتخابی جمہوری نظام وضع کرنا چاہیے، ہم نے صدیوں تک بادشاہت کے زیرِ سایہ زندگی گزاری ہے، ہماری ایک نفسیات بنی ہوئی ہے اور وہ نفسیات اس سیاست اور نام نہاد جمہوری فضا کے مطابق نہیں ہے۔ جب تک ہم اپنے حالات کے مطابق ایک نیا جمہوری انتخابی نظام وضع نہیں کریں گے، جو ہماری اجتماعی اور تاریخی نفسیات سے ہم آہنگ ہوگا اس وقت تک اس نظام سے ہمارے دکھوں اور مصائب کا خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے۔
’اس سیاست میں جتنے بونے، پستہ قد، بدکردار، بدعنوان لوگوں کو آگے بڑھنے کا، سیاست کرنے کا اور حکومت کرنے کا موقع ملتا ہے وہ خود اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ہم اس جمہوری اتنخابی نظام کو کانٹ چھانٹ کر اپنی ضروریات کے مطابق ایک نیا جمہوری نظام وضع کریں۔ اب دیکھیں یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ 4، 5 سیٹیں رکھنے والی پارٹی کے سامنے حکومت جھک جاتی ہے اور اس کے مطالبات کو ماننے پر مجبور ہوجاتی ہے اس سے بڑا مذاق کسی بھی جمہوری نظام کا اور کیا ہوسکتا ہے۔'
سماج اور سیاست کے گرو بتاتے ہیں کہ بے اصولی پر مبنی سیاسی و سماجی ڈھانچہ طوائف الملوکی کا سبب بنتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چانکیہ کی روح اور فلسفے کے مطابق ہماری عوام کش، شرافت اور اخلاق کے آفاقی اصولوں سے عاری سیاست ایسے ہی جاری رہے گی اور بقائے اقتدار کے لیے بے ایمانی، بدعنوانی کا کھیل اور زوال کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا یا پھر سماج میں موجود سیاست کے استاد، مفکرین اور دانشور سر جوڑ کر کوئی حل اور راستہ نکالیں گے اور اس بات کو بھی ممکن بنائیں گے اس کا سبب بننے والے ’چانکیہ‘ سے کس طرح سماج اور سیاست کو دُور رکھا جاسکے جو کہ اس مضمون کا سردست موضوع نہیں۔
عامر اشرف جیو ٹیلی ویژن سے وابستہ ہیں۔ مضمون نگار و انٹرویو نگار ہیں۔ سماج، ادب، سیاست، سیاحت اور نوجوان نسل ان کے موضوعات ہیں۔ جامعہ کراچی میں شعبہ ابلاغ عامہ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔