’وہ اہم معاملات جن پر نئی حکومت کو فوری طور پر توجہ دینا ہوگی‘
8 مارچ 2022ء کو اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتوں کی جانب سے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی۔ اس دن کے بعد سے آج تک کئی اتار چڑھاؤ ہم نے دیکھے۔
پہلے ووٹنگ میں تاخیر کے تمام حربے استعمال کیے گئے، اور پھر جس دن ووٹنگ ہونی تھی، عین اسی دن اجلاس شروع ہوتے ہی ایک ’مبیّنہ‘ خط کو بنیاد بناکر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے تحریک کو مسترد کردیا اور پھر کچھ ہی لمحوں بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم عمران خان نے اعلان کردیا کہ انہوں نے صدرِ مملکت عارف علوی کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کی ہے اور پھر کچھ ہی دیر بعد اس سفارش پر عمل بھی کردیا جاتا ہے۔
اس فیصلے کو حکومت کی جانب سے سرپرائز قرار دیا گیا اور حقیقت بھی کچھ ایسی ہی تھی کیونکہ جب یہ سارے فیصلے ہورہے تھے تو متحدہ اپوزیشن جیسے دنگ رہ گئی تھی اور اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ سب اچانک ہوا کیا۔ لیکن پھر اسی دن سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس پورے معاملے پر از خود نوٹس لیا اور لگاتار 5 دن تک مسلسل سماعت ہوئی اور پھر 7 اپریل کو عدالت عظمیٰ نے ڈپٹی اسپیکر، وزیرِاعظم اور صدرِ مملکت کے تمام فیصلوں کو معطل کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پر دوبارہ ووٹنگ کرانے کے لیے احکامات جاری کیے۔
اس طویل سلسلے کے بعد تحریک پر 9 اپریل کو ہنگامہ خیز دن کے آخر میں ووٹنگ ہوئی اور ایوان نے عمران خان پر بحیثیت قائدِ ایوان اور وزیرِاعظم عدم اعتماد ظاہر کردیا ہے یوں اب نہ عمران خان ملک کے وزیرِاعظم نہیں رہے اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ملک میں حکومت قائم رہی ہے۔
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ واحد موقع ہے کہ کسی وزیرِاعظم کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی جس کے نتیجے میں وزیرِاعظم کو عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اس سے قبل سابق وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور سابق وزیرِاعظم شوکت عزیز کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد پیش ہوئیں لیکن وہ ناکام رہیں۔
عمران خان کا وزارتِ عظمیٰ سے ہٹایا جانا پاکستان میں جمہوری تاریخ کی اس تلخ حقیقت کا تسلسل ہے کہ آج تک کوئی بھی منتخب وزیرِاعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا۔
ایوان میں متحدہ اپوزیشن کو حاصل عددی برتری کی بنیاد پر شہباز شریف پاکستان کے 23ویں وزیرِاعظم منتخب ہوچکے ہیں اور وہ آج ہی اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے اور امید یہی ہے جلد از جلد نئی کابینہ کا اعلان بھی ہوجائے گا۔ تاہم اپوزیشن نے اب تک مستقبل کا کوئی روڈ میپ پیش نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں ملک کے سیاسی مستقبل اور خاص طور پر معاشی حالات کے حوالے سے ایک غیر یقینی پائی جاتی ہے۔
لہٰذا ہم نے ملک کے سیاسی مستقبل سے متعلق تجزیے کے لیے سینیئر تجزیہ کاروں سے رابطہ کیا اور دریافت کیا کہ ان کے نزدیک وہ کون سے معاملات ہیں جن پر آنے والی حکومت کو فوری طور پر توجہ دینی چاہیے اور وہ آنے والے دنوں میں ملک کی معیشت، خارجہ امور اور سیاست کو کس طرف جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
اویس توحید
نئی حکومت کے سامنے سب سے پہلا چیلنج تو اس بات کا تعین ہوگا کہ انتخابات فوری طور پر کروائے جائیں یا نہیں۔ اس حوالے سے تینوں بڑی جماعتوں، یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) میں اتفاق رائے موجود نہیں ہے۔ ان جماعتوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ عمران خان حکومت کے مسائل کا بوجھ اٹھا کر آگے بڑھا جائے اور ایک سال بعد انتخابات کروائے جائیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ نقصان اٹھانا پڑے۔
مسلم لیگ (ن) یہ چاہتی ہے کہ انتخابات فوری طور پر کروائے جائیں، مولانا فضل الرحمٰن بھی اس سے متفق نظر آتے ہیں۔ تاہم میرے خیال میں عدم اعتماد کی تحریک میں جوڑ توڑ کے اندر سب سے زیادہ متحرک رہنے والے سابق صدر آصف علی زرداری کے لیے یہ بات قابلِ قبول نہیں ہوگی۔ ان کا تو مقصد یہ تھا کہ تحریک کے کامیاب ہونے کے بعد سندھ کے علاوہ انہیں کیا ملے گا۔ آصف زرداری چاہتے ہیں کہ وہ وفاق میں بھی اقتدار میں رہیں اور اپنے سیاسی وزن میں اضافہ کرکے جنوبی پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں الیکٹیبلز کی تلاش کریں اور انہیں اپنے ساتھ ملائیں۔ اس وجہ سے ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی جلد انتخابات کی حمایت نہ کرے۔
عمران خان صاحب نے جاتے جاتے نئی حکومت کے لیے ایک بڑی مشکل امریکا کی صورت میں بھی کھڑی کردی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ مغرب اور امریکا کے خلاف سینہ تانے کھڑے تھے اور اسی وجہ سے انہیں نکالا گیا۔ وہ آصف زرداری، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن پر بھی الزام عائد کرتے ہیں کہ جب ماضی میں ڈرون حملے ہوتے تھے تب یہ خاموش تماشائی بنے رہتے تھے۔ یوں اگر نئی حکومت نے امریکا کے ساتھ تعلقات درست کر بھی لیے تب بھی عمران خان صاحب کہیں گے کہ دیکھیے میں پہلے ہی کہتا تھا کہ یہ امریکا سے ملے ہوئے ہیں اور انہوں نے ملی بھگت سے ہی انہیں نکالا ہے۔
بجٹ کے حوالے سے بات کی جائے جو شاید نئی حکومت کے لیے انتخابات کی تاریخ کے تعین میں بجٹ کا بھی کردار ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ آنے والی حکومت بجٹ پیش کرنے کے بعد ہی انتخابات کا اعلان کرے گی۔
ابھی ذکر ہوچکا ہے کہ کچھ حوالے سے تینوں اپوزیشن جماعتوں میں کسی حد تک اختلاف پایا جاتا ہے تاہم جس بات پر ان جماعتوں کا اتفاق نظر آرہا ہے وہ نیب کے حوالے سے قانون سازی ہے۔ میرے خیال میں ان جماعتوں کی جانب سے نیب کو سرے سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس میں کئی سیاسی شخصیات کی انا بھی شامل ہے۔ ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو یہ موقع ملا تھا کہ نیب میں بہتری لاسکیں لیکن اب لگتا یہ ہے کہ وہ نیب کے ادارے کو یکسر ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔
اگر ان جماعتوں کی جانب سے ایسا کیا گیا تو اس حوالے سے بھی ہنگامہ ہوسکتا ہے کیونکہ آئندہ مہینوں میں اپوزیشن میں جانے کے بعد عمران خان صاحب کا انداز بھی مزید جارحانہ ہوجائے گا۔ منحرف اراکین کے حوالے عمران خان صاحب جن خیالات کا اظہار کرچکے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے ممکن ہے کہ کہیں نہ کہیں منحرف اراکین کے خلاف احتجاج بھی دیکھنے کو ملے اور ظاہر ہے پی ٹی آئی کی جانب سے اسے عوامی ردِعمل کہا جائے گا۔ اس حوالے سے آنے والے دنوں میں ہم ملک میں انتشار کی صورتحال دیکھیں گے۔
نئی حکومت کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہوں گے۔ کیونکہ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) تو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے رہے ہیں اور سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان توازن اور عدم توازن کا ذکر کرتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کس طرح اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلتے ہیں۔
مبشر زیدی
جو بھی نئی حکومت آئے گی اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج معیشت ہوگی۔ معیشت میں فوری بہتری لانا تو شاید ممکن نہ ہو لیکن نئی حکومت کو کوئی نہ کوئی ایسا منصوبہ دینا ہوگا جس سے معیشت کے زوال کو روکا جاسکے۔
اس کے علاوہ دوسرا اہم معاملہ خارجہ امور ہوں گے۔ پاکستان کے کئی ممالک کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں جن میں امریکا، یورپی ممالک اور افغانستان کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ سے مفادات کی بنیاد پر رہے ہیں اس وجہ سے ان میں بہتری کی امید کم ہے لیکن نئی حکومت کی کوشش یہ ہوگی کہ عمران خان کے بیانات کی وجہ سے جو حالیہ تناؤ آیا ہے اسے کم کیا جائے۔ امریکا اور یورپ کے ساتھ برآمدات اور دیگر حوالوں سے ہمارے کچھ نہ کچھ مفادات وابستہ ہیں اس وجہ سے آنے والی حکومت کو یہ یقین دہانی کروانی ہوگی کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستان کسی خاص ملک کے خلاف نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں دفتر خارجہ کو بھی کلیدی کردار ادا کرنا پڑے گا۔
میرے خیال میں آنے والے دنوں میں ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام کم ہوگا۔ آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ گزشتہ دنوں صرف جلسے ہی ہورہے تھے۔ ہر پاکستانی کے ساتھ ساتھ چین کی بھی یہی خواہش ہوگی کہ آنے والے دنوں میں یہ عدم استحکام کم ہو۔ ہوسکتا ہے کہ عمران خان سڑکوں پر آئیں اور مخالفین کو چیلنج کریں لیکن پھر بھی امید یہی ہے کہ موجودہ سیاسی عدم استحکام میں کمی آئے گی۔
نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چینلج بجٹ کا بھی ہوگا اور موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ سوال کھڑا ہوگا کہ کیا حکومت نئے ٹیکس لگائے گی یا نہیں؟ اس نئی حکومت کو ایسا بجٹ بنانا ہوگا کہ معیشت کی گراوٹ کو روکا جاسکے اور ٹیکس کی مد میں آنے والے سرمائے کو بھی یقینی بنایا جاسکے، اس کے علاوہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بہت نیچے جاچکی اور اس میں اضافے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ یعنی جو بھی نئی حکومت آئے گی اس کے لیے اقتدار صحیح معنوں میں کانٹوں کا تاج ثابت ہوگا۔
اس کے علاوہ حکومت کو مستقبل کا روڈ میپ بھی دینا ہوگا جو اپوزیشن ابھی تک نہیں دے سکی ہے۔ انہیں یہ بتانا ہوگا کہ وہ انتخابات کب کروانا چاہ رہے ہیں۔ اس حوالے سے متضاد اطلاعات آرہی ہیں۔ کوئی قومی حکومت کی بات کررہا ہے تو کوئی فوری انتخابات کی بات کررہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے، اس حوالے سے لوگوں میں بہرحال بے چینی موجود ہے جسے دُور کرنا ہوگا۔
نادیہ مرزا
اپوزیشن نے اپنی پوری تحریک میں اس بات کو بار بار دہرایا ہے کہ اس تحریک کے پیچھے کوئی ذاتی مفادات نہیں ہیں بلکہ اس کی وجہ ملک کی معاشی صورتحال اور مہنگائی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مارچ کا عنوان بھی ’مہنگائی مکاؤ مارچ‘ تھا۔ اس وجہ سے اب نئی حکومت کا پہلا چیلنج یہ ہوگا کہ مہنگائی کو کس طرح قابو کیا جائے اور معیشت میں کیسے بہتری لائی جائے۔ عمران خان صاحب نے گزشتہ دنوں ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ بجٹ تک ان میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ جبکہ دیکھا جائے تو ملک کی آمدن اخراجات کے مقابلے میں تقریباً نصف ہے۔
اگر نئی حکومت بھی اس خسارے کو کم نہ کرسکی تو اس کے لیے بجٹ بنانا اور قرضے واپس کرنا بہت مشکل ہوگا۔ اگر اس خسارے کو کم کرنے کے لیے قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں تو پھر ان جماعتوں کا مہنگائی کم کرنے کا بیانیہ ہی زمیں بوس ہوجائے گا۔ اپوزیشن نے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر عمران خان پر بہت تنقید کی تھی اور اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا یہ خود بھی آئی ایم ایف سے جان چھڑا سکیں گے یا نہیں۔
اگر نئی حکومت یہ کہتی ہے کہ عمران خان حکومت نے فلاں فلاں جگہ غلطیاں کیں اور ہمیں ان کے نقصانات کا ازالہ کرنا ہے تو پھر ان کے اور عمران خان کے بیانیے میں کیا فرق رہ جائے گا؟ عمران خان بھی یہی کہتے تھے کہ گزشتہ حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے وہ ڈیلیور نہیں کر پائے۔ اس وجہ سے مجھے لگتا ہے نئی حکومت کے سامنے مشکلات کا ایک انبار ہوگا۔
پھر میڈیا بھی پہلے ہی دن سے یہ سوال شروع کردے گا کہ حکومت مہنگائی کیسے کم کرے گی، قرض کیسے اتارے گی اور آئی ایم ایف کو کس طرح روکے گی۔ اس وجہ سے نئی حکومت کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ وہ جلد از جلد انتخابات کروا دے۔
اس کے علاوہ اگر خارجہ امور کے حوالے سے دیکھا جائے تو خواجہ آصف کے بیان اور پھر شہباز شریف کی جانب سے اس بیان کی توثیق نے صورتحال بہت حد تک واضح کردی ہے۔ اس کی وجہ سے میرے خیال میں آنے والے وقت میں اور آئندہ انتخابات میں بھی احتساب یا کرپشن کا نعرہ نہیں چلے گا بلکہ اب ہمیں امریکا کی حمایت اور مخالفت کی صورت میں ایک واضح تقسیم نظر آئے گی۔ ہمارے ملک میں امریکا مخالف جذبات ہی مقبول ہوتے ہیں۔ یوں پی ٹی آئی اور باقی جماعتوں کے درمیان لڑائی اب امریکا کی مخالفت یا حمایت پر ہوگی اور ظاہر ہے کہ اس میں عوامی حمایت عمران خان کے پاس ہوگی۔ میرے خیال میں ہماری مستقبل کی سیاست اب خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی بنیاد پر ہی ہوگی۔
اگر انتخابات کی بات کی جائے تو ان میں تاخیر ہونا کسی بھی جماعت کے حق میں نہیں ہے۔ اگر کسی جماعت کو اس سے کوئی فائدہ پہنچے گا تو وہ پیپلز پارٹی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ کم از کم 6 ماہ کا وقفہ ضرور آئے۔ پیپلز پارٹی کے ذہن میں شاید یہ بات ہوگی کہ ان 6 ماہ کے دوران مسلم لیگ (ن) بھی پی ٹی آئی کی طرح غیر مقبول ہو اور پھر انتخابات ہوجائیں۔ اگر پی ٹی آئی کی بات کی جائے تو عمران خان کو بھی اس کا فائدہ ہی ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان جو مقبولیت گنوا چکے تھے اسے وہ بہت حد تک واپس حاصل کرچکے ہیں۔
ضرار کھوڑو
اگر آپ عمران خان کا موجودہ بیانیہ دیکھیں تو اس میں کرپشن کے ساتھ ساتھ غداری کی باتیں بھی شامل ہوگئی ہیں اور وہ اسی بیانیے کے ساتھ انتخابات میں جائیں گے۔ اب جو بھی نئی حکومت آئے گی اسے اس بیانیے کا سیاسی حوالے سے توڑ کرنا ہوگا۔
یہ بات واضح ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹر اور سپورٹر اس وقت جوش میں ہیں اور اس کا کسی حد تک اظہار خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی ہوا۔ اب سوال یہ ہے کہ انتخابات کے تناظر میں اس کو کب تک برقرار رکھا جاسکتا ہے اور اپوزیشن کی جانب سے اس کا سیاسی توڑ کیا ہوگا۔
شاید یہ فیصلہ معاشی طور پر بہتر نہ ہو لیکن آنے والی حکومت چاہے گی کہ آئندہ بجٹ عوام دوست بجٹ ہو اور اس میں عوام کو ریلیف دیا جائے تاکہ لوگ پی ٹی آئی کے بیانیے سے ہٹ کر یہ دیکھیں کہ کم از کم قیمتوں میں کمی آئی ہے اور زندگی میں کچھ آسانی آئی ہے۔
تاہم یہ ایک الگ سوال ہے کہ نئی حکومت ایسا کرتی ہے یا نہیں کیونکہ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے آخری مہینوں میں پیٹرول کی قیمتوں میں جو کمی کی اس کے بعد مالی اعتبار سے دیکھا جائے تو بجٹ میں بہت زیادہ ریلیف دینا شاید ممکن نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ نئی حکومت ٹیکس کی شرح میں کچھ کمی کرکے ریلیف دینے کی کوشش کرے۔
رہی بات انتخابات کی تو لوگ نظریے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے مفاد اور فائدے کو دیکھتے ہوئے ووٹ دیں گے جو ظاہر ہے کہ قیمتوں میں کمی جیسی چیزیں ہوں گی اور شاید نئی حکومت بھی اسی حکمت عملی پر کام کرے۔
خارجہ محاذ کی بات کی جائے تو میرے خیال میں اس حوالے سے نئی حکومت کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے گی۔ حکومت امریکا کے ساتھ تناؤ کم کرنے کی کوشش کرسکتی ہے لیکن میرے خیال سے یہ کرنا کسی ایسی حکومت کے بس کی بات نہیں ہے جو بہت ہی قلیل مدت کے لیے آئی ہو۔ اس وجہ سے مجھے نہیں لگتا کہ نئی حکومت خارجہ امور میں کوئی بہتری لاسکے گی۔
نئی حکومت کے لیے سب سے اہم کام یہ ہوگا کہ جتنی جلدی ہوسکے انتخابات کروائے جائیں کیونکہ اگر یہ حکومت اگلے سال کے وسط تک بھی رہتی ہے اور پھر انتخابات کرواتی ہے تو یہ سوال کھڑا ہوجائے گا کچھ ماہ بعد تو انتخابات ہونے تھے تو کیا عدم اعتماد کا مکمل کھیل صرف چند ماہ بچانے کے لیے کیا گیا تھا؟ یہ ایک اہم سوال ہوگا اور اگر معاملات یہاں تک پہنچے تو میں خود بھی حکومت سے یہ سوال پوچھوں گا۔
ابصا کومل
آنے والی حکومت کے لیے بلاشبہ سب سے بڑا چیلنچ معیشت کا ہوگا۔ ہم یہ بات بار بار دہرا رہے ہیں کہ اپوزیشن حکومت پر تنقید کررہی ہے کہ اس حکومت کے دور میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ اپوزیشن کے ذمہ دار رہنماؤں کی جانب سے عمران خان حکومت اور مسلم لیگ (ن) حکومت کے دور میں قیمتوں کے فرق پر بات کی گئی۔ ان سب چیزوں سے عمران خان صاحب پر یہ تنقید ہوتی ہے کہ انہوں نے دعوے تو بہت بڑے بڑے کیے لیکن وہ انہیں پورا نہیں کرسکے۔
لیکن اگر دیکھا جائے تو یہی بات اب اپوزیشن کے لیے بھی کہی جاسکتی ہے۔ اپوزیشن یہ تو کہہ رہی ہے کہ اس نے عدم اعتماد کا پورا معاملہ بہترین طریقے سے چلایا لیکن ہمیں یہ نہیں پتا کہ وہ اس کے بعد کیا کریں گے۔
خود وزیرِاعظم عمران خان بھی اپوزیشن کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوں گے، وہ کہہ چکے ہیں کہ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد میں مزید خطرناک ہوجاؤں گا۔ عمران خان صاحب کی جانب سے جو بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے اس میں غداری جیسا سنگین الزام اور بیرونی سازش کے تحت پیسے لینے کی باتیں شامل ہیں۔ پھر پی ٹی آئی میں مجموعی طور سے دوسروں پر تنقید کا بھی رجحان ہے۔ ان کی جانب سے صحافیوں اور سیاسی مخالفین پر تنقید کی جاتی رہی اور انہیں ملک کا غدار تک قرار دیا گیا۔ پھر سوشل میڈیا پر نفرت انگیز انداز کو دیکھتے ہوئے نئی حکومت کے لیے ملک میں انتشار کے ماحول سے نمٹنا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
تیسری اہم بات ہماری خارجہ پالیسی ہے۔ افغانستان اور پھر حالیہ دنوں میں امریکا کے حوالے سے دیے گئے بیانات ہوں یا پھر ایک نئے بلاک کا حصہ بننا یا روس کے ساتھ تعلقات، اس کی وجہ سے خارجہ پالیسی بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگی۔
اسی طرح نئی حکومت کو فوری طور پر انتخابات کروانے چاہئیں کیونکہ ایک تو جون میں بجٹ آنا ہے اور پھر کچھ اس قسم کے تجزیے بھی ہورہے ہیں کہ اپوزیشن کا ایک مقصد نومبر میں ہونے والی ایک تقرری بھی ہے۔ اگر اس وقت کا انتظار اپوزیشن کی حکمتِ عملی میں شامل ہے تو میرے خیال سے تب تک بہت دیر ہوجائے گی۔ میرے خیال میں نئی حکومت کو فوری طور پر انتخابات کروانے چاہئیں کیونکہ ملک کے حالات اور جو بڑے فیصلے کرنے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے انتخابات میں تاخیر نہیں کی جاسکتی۔
فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس fahimpatel00@gmail.com ہے۔
آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔عمید فاروقی ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔