’آج گیا یا کل جاوے گا صبح گیا یا شام گیا‘
عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا
عشق کیا سو دین گیا ایمان گیا اسلام گیا
دل نے ایسا کام کیا کچھ جس سے میں ناکام گیا
کس کس اپنی کل کو رووے ہجراں میں بے کل اس کا
خواب گئی ہے تاب گئی ہے چین گیا آرام گیا
آیا یاں سے جانا ہی تو جی کا چھپانا کیا حاصل
آج گیا یا کل جاوے گا صبح گیا یا شام گیا
میر تقی میر
غالب کے بعد میر کے قادر الکلام ہونے پر کسی کو رتی برابر شک نہیں کہ میر صاحب ناجانے کس ترنگ میں تھے جو یہ لازوال کلام معرض وجود میں لائے مگر جب بھی کسی کے جانے کا وقت قریب ہوتا ہے تو سب کی زبان پر یہی ہوتا ہے کہ ’آج گیا یا کل جاوے گا صبح گیا یا شام گیا‘
پاکستان میں یہ سب ایسے ہی نہیں ہوجاتا۔ نا کوئی اتنی آسانی سے آتا ہے اور نا ہی اس کا جانا اتنا سہل ہوتا ہے دونوں کے لیے مکمل ’بندوبست‘ کرنا پڑتا ہے۔ میدان سجایا جاتا ہے ایک ٹیم میں طاقتور گھوڑے ڈالنے پڑتے ہیں، اور گھوڑے خود بھی بہت سیانے ہیں جہاں چارہ زیادہ دکھائی دے اُدھر جانے کو ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں۔
پاکستانی سیاست اور اقتدار کا کھیل ’بزکشی‘ کے کھیل سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ بزکشی نامی کھیل 10ویں سے 15ویں صدی کے درمیان وسطی ایشیائی قوموں سے ہوتا ہوا افغانستان میں آیا تو اسے اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ اسے یہاں کے قومی کھیل کا درجہ مل گیا۔
اس کھیل میں 2 ٹیمیں بغیر سر کے مردہ بکری کو مخالف ٹیم کے گول تک پہنچانے میں مصروف رہتی ہیں۔ اس کھیل میں سب سے زیادہ اہمیت گھوڑوں کی ہوتی ہے جس پر سوار کھلاڑی ان گھوڑوں کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے مخالف ٹیم کے خلاف گول کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ یہ کھیل پھرتی اور طاقت کے ساتھ ساتھ مہارت کا بھی ہے کہ کب اور کس طرح سے راستہ بناتے ہوئے مخالف ٹیم پر ہلہ بولنا ہے۔
وطن عزیز میں بھی اقتدار کی جنگ بزکشی کے کھیل کی صورت اختیار کر گئی ہے جس میں فریقین ’گھوڑوں‘ کی طاقت کے بل پر کرسی کی چھینا جھپٹی میں مصروف عمل رہتے ہیں۔
پاکستان میں اقتدار کی یہ جنگ تو قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ 1950ء کا عشرہ اسی کھیل کی نظر ہوگیا اور لگتا ہے کہ ہم آگے جانے کے بجائے 70 سال پیچھے چلے گئے ہیں۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت ’پسند کی شادی‘ کی طرح بہت مشکلوں، منتوں اور مرادوں کے بعد سر انجام پائی تھی، تو کیا وجہ بنی کہ چوتھے سال کے اختتام پر سارا ’رومانس‘ عنقا ہوچکا ہے اور اس کی حمایت کرنے والے بھی نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ ہر حکمران کامیاب حکمران ہوسکتا ہے اگر اس کے مشیران اور تقرریاں درست ہوں۔ جلال الدین اکبر نے 50 سال برِصغیر پر پوری شان و شوکت سے حکومت اپنے ’نو رتنوں‘ کے بل پر کی ورنہ ایک ان پڑھ بادشاہ ہندوستان جیسے شورش زدہ خطے پر چند سال بھی حکمرانی نہیں کرسکتا۔ اکبر کو بھی بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کا اپنا نازوں پلا بیٹا اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ یہ اکبر کی حُسن تدبیر اور اس کے رفقا کے مفید مشورے ہی تھے کہ اس نے سب بحرانوں پر قابو پا لیا۔
ہمارے ملک میں بولشیوک ریولوشن (انقلابِ روس 1917ء) کے تقریباً 100 سال بعد 2018 میں تبدیلی سرکار کی آمد ہوئی تو نجات دہندہ کے متلاشی عوام نے سوچا عمران خان 22 سال سے جو میرٹ کی بات کرتے آرہے ہیں وہ اب اس پر عمل بھی کریں گے اور سب تقرریاں ’رائٹ مین فار دی رائٹ جاب‘ کے تحت ہوں گی، اور ایسی صورت میں یقیناً پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی۔
عثمان بزدار کو وزیرِاعلی بنانے کا فیصلہ
اسی سلسلے میں عمران خان کو اپنی حکومت سنبھالتے ہی جو پہلا فیصلہ کرنا تھا وہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا تھا۔ 12 کروڑ عوام کا صوبہ جس کی حکومت کے بنا مرکزی حکومت ناکارہ محسوس ہوتی ہے، جہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ جیسے سخت گیر حکمران کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت سب سے طویل عرصے کے لیے رہی اور شہباز شریف جس کا چہرہ بنے۔ ان کے متبادل کے طور پر عثمان بزدار جیسے شخص کو وزارتِ اعلیٰ سونپ کر مسلم لیگ (ن) کو نئی زندگی بخش دی گئی۔
پاکستان میں پارٹیوں سے زیادہ شخصیات کی اہمیت ہے۔ ادارے کمزور اور فیصلہ سازی کا کوئی مروجہ اصول کار فرما نہیں بس فرد واحد کی حکمرانی ہوتی ہے۔ ساری سول بیوروکریسی وزیرِاعلی کے اشارے پر کام کرتی ہے۔ اس ایک غلط فیصلے نے بقول بابا بلھے شاہ کے ’ایک نکتے میں ہی بات مکا دی‘ محرم سے مجرم بنتے زیادہ دیر نا لگی۔
غلطی کرنے کے بعد اس پر ڈٹے رہنے سے غلطی کی کوکھ سے نت نئے مسائل جنم لیتے ہیں، یعنی ایک وسیم اکرم پلس کو کامیاب کروانے کے لیے کئی چیف سیکرٹری قربان کیے گئے۔ وہ پولیس جس کی درستگی کی خاطر ناصر درانی (محروم) جیسے قابل آئی جی لگا کر اصلاح کرنی تھی وہ مصالحتی سیاست اور اتحادیوں کو یکجا رکھنے کے لیے قربان کردی گئی۔
عمران خان کا اسلاموفوبیا کے خلاف کردار
عمران خان کی ممکنہ طور پر جاتی ہوئی حکومت کی کارکردگی پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو چند محاذوں پر کامیابی بھی دکھائی دیتی ہے جیسے اسلاموفوبیا اور ناموس رسول ﷺ کے موضوع پر عمران خان نے ہر فورم پر آواز اٹھائی اور 15 مارچ کو اقوامِ متحدہ کی طرف سے ’انٹرنیشنل ڈے ٹو کومبیٹ اسلاموفوبیا‘ مختص کرانے میں پاکستان کا کردار اہم رہا۔
ریکوڈک کے مسئلے کا حل اور سرمایہ کاری
بلوچستان کے ڈسٹرکٹ چاغی میں ریکوڈک، سونے اور کاپر کی کانوں کا مسئلہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے چل رہا تھا جسے اس حکومت نے ناصرف حل کیا بلکہ بلوچستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور 8 ہزار نئی نوکریوں کے مواقع پیدا ہونے کی شنید سنائی گئی ہے، یہ یقینی طور پر اس حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔
ماحولیات سے متعلق یکسوئی
ماحولیات کی بہتری کے حوالے سے اس حکومت کی کارکردگی قدرے بہتر رہی اور ’بلین ٹری سونامی‘ منصوبے کے بعد اپنے 5 سالہ دورِ حکومت میں ’10 بلین ٹری سونامی‘ منصوبے کا اعلان کیا۔ وزیرِاعظم کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت اب تک تقریباً ڈیڑھ ارب درخت لگا چکی ہے۔ عالمی سطح پر بھی ان حکومتی اقدامات کو سراہا گیا۔
کورونا سے لڑنے کے لیے کردار
کورونا وائرس کے خلاف تمام تر حکومتی اقدامات کامیاب رہے جس کی تعریف بھی عالمی سطح پر کی گئی۔ اس وبا پر کچھ تو قدرت مہربان رہی اور دوسرا یہ کہ ہمارے خطے میں لوگوں کے مضبوط قدرتی ’مدافعتی نظام‘ سے بھی فائدہ ہوا۔
احساس کفالت پروگرام
احساس کفالت پروگرام کی افادیت اور شفافیت میں اضافہ تھا۔ احساس پروگرام کی کامیابی 'درست جگہ پر درست شخص کی تعیناتی' کی بہترین مثال ہے جہاں پر ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے جانفشانی سے کام کیا اور لاکھوں غیر مستحق لوگوں کو اس فہرست سے نکال کر مستحق لوگوں کو شامل کیا۔
صحت کارڈ
حکومت کا ایک اہم کارنامہ صحت کارڈ بھی ہے، لیکن اس کی تشہیر اور آگاہی میں وہ ناکام نظر آتی ہے۔ ہر فرد کو سالانہ 10 لاکھ روپے کی انشورنس فراہم کرنا پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ممکن ہوسکا ہے۔ اس سے پہلے ایسی ہیلتھ انشورنس کی پالیسیاں ترقی یافتہ ممالک میں ہی نظر آئی ہیں۔
لیکن حکومتی ناقدین کا اس پالیسی سے متعلق کہنا ہے کہ اربوں روپے صحت کارڈ اسکیم میں لگانے کے بجائے سرکاری ہسپتالوں کی شکل بدلی جاسکتی تھی جہاں عام عوام دوائی کے حصول کے لیے ذلیل و خوار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہسپتالوں میں مشینییں خراب ہوجائیں تو مہینوں خراب رہتی ہیں اور ڈاکٹرز کا دن 2 بجے کے بعد او پی ڈی میں مریض دیکھنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
مگر اس طرح کی تمام تنقید کے باوجود صحت کارڈ ایک انقلابی قدم ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے اور اس کے استعمال کے طریقہ کار میں موجود خامیوں کو دُور کرنا چاہیے۔
آرڈیننس کی سیاست
اس حکومت پر یہ الزام ہے کہ یہ قانون سازی کے بجائے آرڈیننس کی سیاست کرتی رہی اور اپنے پہلے 3 سالوں میں 54 صدارتی آرڈیننس جاری کیے مگر یہ کوئی نئی بات تو نہیں کہ تاریخی طور پر تمام منتخب یا غیر منتخب حکومتیں آرڈینینس پر ہی زیادہ انحصار کرتی رہی ہیں۔
تمام آمر اوسطاً ایک سال میں 63 آرڈیننس جاری کرتے رہے جو بہت بڑی تعداد ہے جبکہ منتخب حکومتیں اوسطاً 30 آرڈیننسز فی سال جاری کرتی رہی ہیں، اس لیے محض اسی حکومت کو آرڈینینسز کی حکومت کہنا ٹھیک نہیں ہوگا۔
تعلیمی ایمرجنسی کی صورتحال
عمران خان نے حکومت میں آنے سے قبل تعلیمی ایمرجنسی کا وعدہ کیا تھا مگر افسوس کہ یہ وعدہ بھی دیگر کئی وعدوں کی طرح بس وعدہ ہی رہا۔
یکساں تعلیمی نصاب کا بہت شہرہ ہوا مگر زمینی حقائق میں یہ کہیں کارگر دکھائی نہیں دیتا۔ شہباز شریف حکومت میں ہر سال اساتذہ کی تقرریاں ہوتی تھیں مگر پچھلے 4 سالوں میں اساتذہ کی ہزاروں آسامیوں پر بھرتی نہ ہوسکی۔ کورونا کے باعث اسکولوں کی بندش سے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق لاکھوں اساتذہ کا ریکارڈ، چھٹی، ریٹائرمنٹ اور پینشن کے معاملات کو ڈیجیٹل کیا گیا جو یقیناً اچھی پیشرفت ہے مگر اسکولوں کی حالتِ زار پچھلی حکومتوں کی طرح ہی رہی۔
پٹواری کے خلاف موقف کا معاملہ
پٹواری کو حکومت اور اس کے حامیوں نے ایک گالی کے درجے پر فائز کردیا مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ پٹوار خانوں کو ختم کرنے کے بجائے ہر ضلع میں بے شمار پٹواری بھرتی کر لیے گئے جو کوئلے کی کان میں کوئلہ ہوجائیں گے اور پٹواریوں کا نظام کبھی درست نہیں ہوپائے گا۔
اگر فوج کے ادارے میں کاغذ کا استعمال کافی عرصے سے ترک ہوچکا ہے تو باقی اداروں میں اس قسم کا کام کیوں نہیں ہوتا؟ لوگ فرد کے حصول کے لیے اب بھی رشوت دینے پر کیوں مجبور ہیں؟
عدالتی نظام کا المیہ
عدالتوں میں انصاف کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پیشی پر پیشی کی روایت نہ جانے کب ٹوٹے گی۔ اب تو وکلا بھی سیاسی پارٹیوں میں منقسم ہوکر سیاسی نظام کا ایک حصہ بن چکے ہیں اور ان کی اکثریت ’اسٹیٹس کو‘ کی حامی ہے، پھر چاہے وہ ڈکٹیٹر ہوں یا سیاسی حکومتیں سب ان کے سامنے بے بس ہیں۔
تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی باریاں لے چکی ہیں اور اب کسی کے پاس یہ عذر باقی نہیں رہا کہ ہمیں موقع نہیں ملا ورنہ اگر یہ حکومت بھی 5 سال پورے کیے بنا گزر گئی جو لگ رہا ہے کہ ’جی کا جانا ٹھہر رہا ہے‘ تو ان پاس یہ شاندار نعرہ موجود ہے کہ ہمیں پورے 5 سال نہیں کرنے دیے گئے ورنہ ہم نے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینی تھیں۔
ماضی میں سب پارٹیوں نے ’حلقہ غیب‘ کی مدد سے مخالفین کی حکومتیں گرانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اکثر کامیاب بھی ہوگئے، لہٰذا اب دیکھنا یہی ہے کہ عمران خان محترمہ بینظیر بھٹو کی طرح اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنا دیتے ہیں یا پھر آئی آئی چندریگر کی طرح ان کو گھر جانا پڑے گا۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
غالب
سلمان احمد صوفی کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ انہوں نے شعبہ اردو میں ماسٹرز اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ایم فل کیا ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے لیکچرار ہیں۔ وہ شاعر بھی ہیں اور لکھنے اور کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔