نقطہ نظر

عمران خان کے انتخابی معاشی وعدے کس حد تک پورے ہوئے؟

کرپشن کے الزامات کے شور میں اچانک ایک ’خط‘ کو منظرِ عام پر لایا گیا اور اب سیاست کا رخ اسی خط کے گرد گھوم رہا ہے۔

پاکستان میں ان دنوں سیاسی کشمکش اور ہلچل عروج پر ہے۔ رمضان المبارک سے قبل ہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو چلتا کرنے کی کوششیں جاری تھیں، اور اس حوالے سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے سے پہلے ہی وزیرِاعظم عمران خان نے اپنی ہی حکومت کا خاتمہ کردیا۔

عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے جو بیانیہ تشکیل دیا ہے اس میں رشوت، بدعنوانی، معیشت کا بحران، قرضوں میں اضافہ اور مہنگائی شامل تھے جبکہ عمران خان اور ان کی جماعت کی جانب سے متحدہ اپوزیشن پر بھی اسی قسم کے الزامات لگائے جارہے تھے، مگر پھر اچانک ایک ’خط‘ کو منظرِ عام پر لایا گیا اور اب سیاست کا رخ اسی خط کے گرد گھوم رہا ہے۔

لیکن آج کی اس تحریر میں ہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اٹھائے گئے معاشی اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی عمران خان نے عوام کو کوئی ریلیف فراہم کیا ہے یا نہیں۔

سب سے پہلے ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ عمران خان نے بطور اپوزیشن رہنما قوم سے کون کون سے وعدے کیے تھے جن کو انہوں نے حکومت میں آکر پورا کرنا تھا اور کیا وہ وعدے پورے ہوئے یا نہیں۔

عمران خان نے حکومت کے پہلے 100 دن میں کرپشن کے خاتمے، گورنر ہاؤسز کی دیواریں گرانے، ٹیکس اصلاحات کرنے اور عوام کو کرپشن روک کر ریلیف فراہم کرنے سے متعلق اہم وعدے کیے تھے۔

بطور اپوزیشن لیڈر عمران خان کے دعوؤں اور پی ٹی آئی کے پارٹی منشور کی روشنی میں معاشی کارکردگی کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ عمران خان نے سال 2013ء کے انتخابات کے لیے ایک معاشی پالیسی اور 2018ء کے انتخابات کے لیے مکمل منشور جاری کیا تھا۔

2013ء میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے معیشت سے متعلق جاری دستاویز میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ بدعنوانی کی وجہ سے 2008ء سے 2012ء تک افراطِ زر میں 70 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا اور 5 سال تک مہنگائی 10 فیصد سے زائد رہی اور اگر پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو مہنگائی کو کم کرتے ہوئے 12 فیصد سے 7 فیصد پر لایا جائے گا۔

عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر اس بات پر تنقید کرتے نظر آتے تھے کہ جب روپے کی قدر گرتی ہے اور مہنگائی ہوتی ہے کہ تو سمجھ لو کہ وزیرِاعظم چور ہے۔ روپے کی قدر گرنے سے مہنگائی ہوتی ہے اور ملکی قرضوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

عمران خان نے جب 2018ء میں اقتدار سنبھالا تو ایک ڈالر تقریباً 122 روپے کا تھا، اور اس کے بعد سے روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہا اور دمِ تحریر ایک ڈالر تقریباً 185 روپے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ یعنی روپے کی قدر میں اب تک 60 روپے سے زائد کی گراوٹ ہوچکی ہے۔

ماہرِ معیشت اشفاق تولا کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں افراطِ زر کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ ہے۔ روپے کی قدر میں 10 روپے کمی سے افراطِ زر میں 1.2 فیصد اضافہ ہوتا ہے‘۔

جبکہ سال 2018ء کے جاری کردہ پارٹی منشور میں مہنگائی کا لفظ محض 2 مرتبہ استعمال کرتے ہوئے روپے کی قدر میں بہتری اور کسانوں کے ذریعے پیداواری عمل کو بڑھانے کی بات کی گئی تھی۔ مگر منشور کے صحفہ 38 پر درج ہے کہ ایک مرتبہ قیمتوں میں توازن قائم کیا جائے گا جس سے مہنگائی ہوگی۔

یہی وجہ ہے کہ حکومت کے قیام کے فوری بعد ملک میں آٹے اور چینی کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا اور حکومت کے بار بار اعلان کرنے اور تحقیقاتی کمیشن بنانے کے باوجود قیمتوں میں استحکام نہیں لایا جاسکا ہے۔

اشفاق تولا کے مطابق ’افراطِ زر یا قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے دنیا کی بیشتر معیشتوں کو متاثر کیا ہوا ہے جس سے معاشی سرگرمیوں اور ترقی میں کمی ہورہی ہے۔ مگر عالمی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ بھی افراطِ زر کی بڑی وجہ ہے‘۔

اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے پالیسی ریٹ یا بنیادی شرح سود میں اضافہ کریں گے۔ غیر ملکی جریدے اکانومسٹ اور دی ٹرینڈنگ اکانومسٹ نے تیزی سے قیمتیں بڑھانے والے ملکوں میں پاکستان کو چوتھا درجہ دیا ہے۔ پاکستان میں اس وقت کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) 12.2 فیصد پر موجود ہے۔ جریدے کے مطابق ترکی، ارجنٹینا اور سری لنکا افراطِ زر کے حوالے سے پاکستان سے اوپر ہیں۔

پاکستان میں اس وقت افراطِ زر 12.2 فیصد ہے لیکن اگر اوسط سالانہ افراطِ زر کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ 2 سال کے دوران اوسط افراطِ زر 13 فیصد رہی جبکہ شہروں میں غذائی اجناس کا افراطِ زر 14.3 فیصد اور دیہی علاقوں میں 14.6 فیصد ریکارڈ کیا گیا جبکہ حکومت نے افراطِ زر کا ہدف 8 فیصد طے کیا ہے۔

حکومت مالی سال کے آغاز سے ہی اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ اسی لیے اسٹیٹ بینک نے اپنا سی پی آئی ہدف 9 فیصد سے بڑھا کر 11 فیصد کردیا ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں اگر خطے کا جائزہ لیا جائے تو بھارت میں یہ ہدف 6 فیصد، بنگلہ دیش میں 5.86 فیصد اور سری لنکا میں 15.10 فیصد ہے۔ قیمتوں میں اضافے سے متوسط طبقہ بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہر سطح پر حکومت کی ناقص کارکردگی ہے۔

مہنگائی کو کنٹرول کرنا اور قیمتوں میں توازن قائم کرنا معیشت کے لیے کتنا ضروری ہے اس بات کا اندازہ اسٹیٹ بینک کا حالیہ ترمیمی بل پڑھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ اس میں اسٹیٹ بینک جیسے ایک بڑے ادارے کا بنیادی کام ہی قیمتوں کو کنٹرول کرنا بتایا گیا ہے۔ مگر اسی اسٹیٹ بینک کی متضاد پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں مہنگائی ہوئی ہے۔

اسٹیٹ بینک نے پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم کی جس سے مہنگائی کا سیلاب آیا۔ اس سیلاب کو روکنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود میں اضافہ کردیا اور بلند ترین سطح 13.25 فیصد پر لے جایا گیا۔ اب اگر کسی کاروبار کو ترقی حاصل کرنی ہو تو اس کو سب سے پہلے 13 فیصد افراطِ زر کو قیمتوں کا حصہ بنانا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی 13.25 فیصد شرح سود کو جذب کرنا ہوگا۔ اس طرح قیمت میں 26.25 فیصد اضافہ کرکے وہ روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی اور بنیادی شرح سود کے اضافے کو جذب کرکے قوتِ خرید کو سابقہ مہینے کی سطح پر لا پائے گا۔

مہنگائی معیشت کو بُری طرح متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک طرف تو غریب اور متوسط طبقے کی قوتِ خرید کو متاثر کرتی ہے اور دوسری طرف چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں اپنے مکینک کے پاس موٹر سائیکل ٹھیک کروا رہا تھا۔ اِدھر اُدھر کی بات شروع ہوئی تو اچانک وہ بول پڑا کہ ’یار بہت بُری حالت ہے۔ ایک طرف مہنگائی کی وجہ سے لوگ موٹر سائیکل ٹھیک کروانے کم آرہے ہیں، تو دوسری طرف ہر سامان مہنگا ہوگیا ہے۔ پہلے کوئی پرزہ جس قیمت پر میں فروخت کرتا تھا اب اتنی ہی قیمت پر وہ سامان ہول سیل قیمت پر مل رہا ہے۔ ہم جیسے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباریوں کا گزارا ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتا جارہا ہے‘۔

ان چھوٹے کاروبار کی بندش سے بڑی کارپوریٹس کو فائدہ ہوتا ہے اور وہ اپنے بڑے سرمائے، زیادہ مارجن اور وسیع سیلز نیٹ ورک کی وجہ سے منافع کمانے کے قابل ہوتی ہیں۔ شاید اسی لیے گزشتہ دنوں وزیرِاعظم عمران خان نے یہ بیان دیا تھا کہ کارپوریٹس کے منافع میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے مگر انہوں نے اس بات سے آگاہ نہیں کیا کہ کتنے چھوٹے کاروبار ختم ہوگئے ہیں۔

پاکستان ایک مسلسل مالیاتی بحران کا شکار ہے جس کو حل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کیونکہ پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی حکومتی اخراجات اور ترقیاتی ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 10 فیصد ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان افراطِ زر کو قابو کرنے اور گورننس کو بہتر بنانے میں ناکام رہا ہے۔

ٹیکس پالیسی کو عمران خان اور ان کی حکومت نے بہت اہم قرار دیا تھا۔ سال 2013ء میں جاری کردہ معاشی ایجنڈے اور سال 2018ء کے منشور میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سالانہ 900 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے۔ ٹیکس ریٹ بڑھائے بغیر ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ کیا جائے گا، زراعت اور جائیداد پر ٹیکس لگایا جائے گا، ایمنسٹی اسکیموں کا خاتمہ کردیا جائے گا اور ٹیکس ٹو جی ڈی کا تناسب 15 فیصد تک لایا جائے گا۔ اس میں کم ترین ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کے علاوہ اس بات کا بھی ذکر ہے کہ امیر، مضبوط اور صاحبِ اختیار طبقہ ٹیکس نہیں دیتا ہے۔

جائیداد کی خرید و فروخت میں ہونے والی بدعنوانی اور ٹیکس چوری روکنے کے لیے سال 2013ء میں پی ٹی آئی کی حکومت نے ایک کمیشن بنانے کی تجویز دی تھی جس کے تحت اگر حکومت کو محسوس ہو کہ کوئی جائیداد اس کی ظاہر کردہ قیمت سے کم پر فروخت ہوئی ہے تو وہ اس جائیداد کے خریدار کو رجسٹرڈ ویلیو ادا کرکے جائیداد کو قومی تحویل میں لے سکے گی۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے وفاقی سطح پر بجٹ میں کمیشن کا اعلان کیا مگر وفاقی حکومت نے اس کے قیام میں دلچسپی نہیں لی بلکہ اس کے برعکس جائیداد کی خریداری کے ایف بی آر ویلیو پر بھی نظر ثانی صرف ایک مرتبہ کی گئی ہے۔

وزیرِاعظم عمران خان کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ برائے ریونیو (ایف بی آر) میں 3 طرح کی اصلاحات تجویز کی تھیں۔ ان میں ایف بی آر کے پورے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرنے، ادارے کی تنظیمِ نو کرنے اور انسانی وسائل کو بہتر بنانے کی تجاویز شامل تھیں۔ ان اصلاحات کا مقصد عوام پر سے وِد ہولڈنگ ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنا، صوبوں اور وفاق میں ٹیکس وصولی میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور ٹیکس دینے والے اور ٹیکس حکام کے درمیان رابطے کو کم سے کم کرنا ہے۔ اب ٹیرف کی شرح کے تعین کا اختیار ایف بی آر سے لے کر نیشنل ٹیرف کمیشن کے حوالے کردیا ہے اور ٹیکس ریفنڈ سسٹم کو مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ کردیا گیا ہے۔

نیشنل ٹیرف کمیشن کا مقصد وفاقی حکومت کو مشاورت فراہم کرنا ہے۔ جس میں مقامی صنعت کے بچاؤ اور صنعتی مسابقت کو بڑھانے کے لیے تجارتی اور ٹیرف مشاورت فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ مقامی پیداوار کرنے والوں اور برآمد کنندہ گان کے تجارتی مسائل کا حل، ٹیرف کو معقول سطح تک کم کرنا اور اصلاحات کے لیے تجاویز دینا، ٹیرف میں درپیش مشکلات کو حل کرنا، ٹیرف کمیشن کی فراہم کردہ تجاویز پر اگر عمل ہو تو اس کے اثرات کا جائزہ لینا، تجارتی مشکلات کو حل کرنے کے لیے تحقیقاتی بورڈ کے قیام کے ساتھ ساتھ حکومت کو عالمی تجارتی تنظیم کے قوانین پر مشاورت فراہم کرنا بھی اس کے مقاصد میں شامل ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان پیٹرو کیمیکل سمپوزیم میں نیشنل ٹیرف کمیشن کی چیئرپرسن روبینہ اطہر کو سننے کا موقع ملا جس میں انہوں نے بتایا کہ ’نیشنل ٹیرف پالیسی میں پالیسی سازی اور عملدرآمد کو الگ الگ کیا گیا ہے۔ نیشنل ٹیرف پالیسی کا مجموعی مقصد صنعتی ترقی کو فروغ دینا، ملازمت کے مواقع پیدا کرنا، صارفین کے مفادات کا تحفظ اور برآمدات کو عالمی سطح پر مسابقتی بنانا، کسٹم ڈیوٹی، ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کو کم کرنا ہے۔ پیداواری شعبے پر ٹیکس 7.5 فیصد سے کم کرکے 5.5 فیصد کردیا ہے۔ پاکستان میں زیادہ ٹیکسوں کی شرح صنعتی ترقی کو متاثر کرتی ہے اور برآمدات کو غیر مسابقتی بنا دیتی ہے۔ پاکستان میں صنعتی ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹیرف اسٹرکچرنگ کو بہتر بنانا ہوگا‘۔

پی ٹی آئی کی حکومت سال 19ء-2018ء کے ٹیکس اہداف حاصل نہ کرسکی بلکہ گزشتہ سال سے بھی کم ٹیکس جمع ہوا۔ حکومت کی جانب سے متعدد بجٹ پیش کیے جانے کے باوجود ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب میں کوئی بہتری نہیں آئی جبکہ حکومتی اخراجات بڑھ کر جی ڈی پی کا تقریباً 20 فیصد ہوگئے ہیں۔ اس کم ترین ٹیکس وصولی کی وجہ سے جی ڈی پی کے 8 فیصد کے مساوی قرض لینا پڑتا ہے اور اس پر بھاری شرح سود بھی لاگو ہوتا ہے۔

حکومت کی جانب سے وعدہ کردہ اصلاحات پر کسی حد تک ضرور عمل کیا گیا ہے مگر حکومت ٹیکس کا بوجھ عوام پر کم کرنے اور بلواسطہ ٹیکسوں کو کم کرتے ہوئے براہِ راست ٹیکس لاگو کرنے اور ٹیکس مشینری پر عوام کا اعتماد بحال کرنے میں ناکام نظر آتی ہے اور عوام پر مزید 500 ارب روپے کے ٹیکس عائد کرنے کے لیے حکومت نے منی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں موجودہ حکومت کے دور میں مجموعی طور پر 70 فیصد تک مہنگائی دیکھی گئی ہے مگر اس تناسب کے مطابق ٹیکس کی وصولی نہیں ہوسکی ہے اور عوام کو ٹیکس کے بوجھ سے کسی قسم کا ریلیف نہیں مل سکا ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے سال 2013ء کے معاشی ایجنڈے میں جی ڈی پی کو 6 فیصد پر لے جانے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔ جبکہ 2018ء کے منشور میں جی ڈی پی کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوتے ہی معاشی ترقی مسلسل گراوٹ کا شکار رہی۔

حکومتِ پاکستان اور عالمی بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2018ء میں جب پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو اس سے قبل کے مالی سال میں جی ڈی پی 5.8 فیصد پر تھا۔ مگر مالی سال 2019ء میں معاشی ترقی کی شرح 1.14 فیصد ہوگئی۔ کورونا وبا نے حالات مزید خراب کیے اور جی ڈی پی منفی 0.4 فیصد تک گر گیا۔

اس کے بعد گزشتہ سال وفاقی وزیرِ خزانہ نے حیران کن اعلان کیا کہ جی ڈی پی کی شرح 5.3 فیصد ہوگئی ہے۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ مالی سال 2020ء میں منفی شرح نمو کی وجہ سے ترقی کی شرح کم تھی اور اسی کم ترین بیس کی وجہ سے 2021ء میں شرح نمو زیادہ دکھائی دی۔

اگر پی ٹی آئی حکومت کے گزشتہ 3 مالی سال کی معاشی ترقی کا اوسط لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ معیشت نے تقریباً 2 فیصد کی شرح سے ترقی کی ہے جبکہ آبادی میں 3 فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے یوں آبادی میں اضافے اور جی ڈی پی کا تناسب منفی ایک فیصد رہا ہے۔

انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ چاروں صوبوں کے پسماندہ اضلاع میں تخفیف غربت کا پروگرام شروع کریں گے۔ ملک میں 6 کروڑ افراد یا 29.5 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستان میں انسانی ترقی کا انڈیکس 0.55 ہے جو جنوبی ایشائی ملکوں میں سب سے کم ہے مگر 4 سال گزر جانے کے باوجود انسانی ترقی کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن میں بہتری کے بجائے ابتری ہی نظر آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نیپال اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے رہ گیا ہے۔

معاشی گراوٹ کی بڑی وجوہات میں صنعتی پیداوار میں نمایاں کمی ہونا اور مالی سال 2020ء میں معیشت منفی ہوجانا ہے۔ جبکہ زراعت میں ٹڈی دل کے حملوں، موسمی تبدیلی اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر فصلیں خراب ہوئی ہیں اور اس کے سبب لیبر مارکیٹ بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ایک کروڑ ملازمتیں دینے کے لیے لیبر مارکیٹ میں بڑی اصلاحات کا وعدہ کیا تھا اور سیاحت، صنعت، ہاؤسنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، صحت، تعلیم، ذراعت اور سبز معیشت (گرین اکانومی) کے ذریعے ملازمت کے نئے مواقع پیدا کرنے تھے۔ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے bottom up کی تھیوری پیش کرتے ہوئے انکم سپورٹ حاصل کرنے والے خاندانوں میں فی خاندان کسی ایک فرد کو ہنر سکھانے، زراعت اور کاروبار کے لیے بلا سود قرضے دینے اور دیگر اصلاحات کا اعلان کیا تھا۔

عالمی بینک کے مطابق سال 2020ء کے دوران پاکستان میں غربت کی شرح 4.4 فیصد سے بڑھ کر 5.4 فیصد ہوگئی اور تقریباً 20 لاکھ سے زائد افراد خطِ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ عالمی بینک نے کم اور متوسط آمدنی سے متعلق غربت کے انڈیکس کو استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ سال 21ء-2020ء میں پاکستان میں غربت 39.3 فیصد ہوجائے گی۔

عالمی بینک کے مطابق 40 فیصد گھرانوں میں شدید نوعیت کی غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ حکومت نے سال 19ء-2018ء کے غربت کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ 2016ء میں ملک میں غربت 24.3 فیصد تھی جو قبل از کورونا یعنی مالی سال 2019ء میں 21.9 فیصد ہوگئی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں کورونا سے قبل تقریباً آدھی آبادی کو ملازمت ختم ہونے اور آمدنی میں تخفیف کا سامنا ہے۔

پاکستان کی معیشت گزشتہ 2 دہائیوں سے سست روی کا شکار ہے اور اس کی بڑی وجہ میکرواکنامک پالیسیوں اور سرمایہ کاری میں کمی ہے۔ پاکستان میں زرعی شعبے کی کم کارکردگی کی وجہ سے دیہی علاقوں میں ملازمت کے مواقع کم ہیں۔

حکومت نے پسماندہ خاندانوں کو مالی معاونت دینے اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ایک نئی وزارت احساس کے نام سے قائم کی ہے۔ اس نے مختلف شعبہ جات میں چلنے والے فلاحی پروگراموں کو ایک چھتری تلے جمع کردیا ہے۔ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں احساس کے لیے 260 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس میں احساس راشن پروگرام بھی شامل ہے۔ اس پروگرام کے پروپیگنڈے اور حقیقت کی وضاحت ایک تحریر میں پہلے ہی کردی گئی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منشور میں حکومتی اخراجات میں کمی کا اعلان کیا تھا اور بجٹ خسارے کو جی ڈی پی کے 4.5 فیصد تک کم کرنے اور اس مقصد کے لیے مالیاتی ایمرجنسی لگانے کا اعلان کیا تھا۔ مگر حقیقت میں بجٹ خسارے اور حکومتی قرض میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اگست 2019ء میں جب تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو حکومت پر مجموعی قرض کا حجم 24 ہزار 731 ارب روپے تھا جو جنوری 2019ء میں بڑھ کر 27 ہزار 70 ارب ہوگیا۔ جنوری 2021ء میں یہ قرض 36 ہزار 545 ارب روپے اور جنوری 2022ء میں حکومتی قرض کا حجم 42 ہزار 394 ارب روپے ہوگیا ہے۔

اگر اس قرض کو مجموعی بجٹ کے تناظر میں دیکھا جائے تو پتا چلے گا کہ سال 2018ء میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 4.2 فیصد تھا جو سال 2019ء میں اچانک بڑھ کر 9.1 فیصد ہوگیا، اس کے علاوہ 2020ء میں 8.1 فیصد اور 2021ء میں 7.1 فیصد تک آگیا ہے اور تحریک انصاف کے معاشی ایجنڈے میں مختص کیے گئے ہدف سے بہت زیادہ رہا ہے۔

تحریک انصاف نے اس حوالے سے اخراجات میں کمی کا اعلان کیا تھا۔ اس کے تحت تمام گورنر ہاؤسز اور وزیرِاعظم ہاؤس کو عوامی استعمال کی عمارتوں میں تبدیل کرنا تھا اور ایوانِ صدر کے اخراجات کو نصف کرنا تھا۔ مگر تحریک انصاف اپنے اس وعدے پر پورا نہ اتر سکی، نہ گورنر ہاؤسز ختم ہوئے اور نہ ہی وزیرِاعظم ہاؤس کو یورنیورسٹی میں تبدیل کیا گیا۔

اس کے علاوہ وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت کا بیانیہ تھا کہ اراکینِ اسمبلی کو کسی قسم کا ترقیاتی فنڈ نہیں دیا جائے گا مگر بعد میں اس سے انحراف کیا گیا اور اپنی جماعت کے اراکین کو ترقیاتی فنڈز جاری کیے گئے۔

تحریک انصاف نے اپنے معاشی ایجنڈے میں اعلان کیا تھا کہ کابینہ میں وزارتوں کو 37 سے کم کرکے 17 کیا جائے گا مگر درحقیقت عمران خان ایک بڑی کابینہ رکھتے ہیں۔ اس میں 28 وفاقی وزرا، 4 وزیرِ مملکت، وزیرِاعظم کے 4 مشیر اور 19 معاونین خصوصی ہیں۔ یوں کابینہ میں مجموعی اراکین کی تعداد 51 بنتی ہے۔

آپ کو کنٹینر پر کھڑے عمران خان کی جانب سے بجلی بل جلانے کا منظر تو یاد ہوگا۔ جس وقت عمران خان نے یہ بل جلائے تھے اس وقت بجلی کے یونٹ کی اوسط قیمت 12 روپے تھی۔ اب یہ اوسط قیمت 22 روپے سے تجاوز کرچکی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بجلی کے شعبے میں جو اصلاحات درکار تھیں ان پر کوئی عمل نہیں ہوسکا تو غلط نہیں ہوگا۔

پی ٹی آئی نے اپنے منشور میں کہا تھا کہ توانائی کے شعبے میں ایمرجنسی لگاتے ہوئے گردشی قرضوں اور بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کرنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔ موجودہ حکومت کو توانائی کے شعبے میں ایک ہزار 184 ارب روپے کے قریب گردشی قرضہ ملا تھا لیکن حکومت اس کو کم کرنے میں ناکام رہی باوجود اس کے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں بے پناہ اضافہ کیا گیا ہے۔ اب یہ گردشی قرضے 2 ہزار 740 ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں۔ گزشتہ 40 ماہ میں گردشی قرضے میں ماہانہ اوسطاً 33 ارب روپے اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 37 ہزار 261 میگاواٹ ہے۔ مگر اس وقت ملک میں بجلی کی پیداوار طلب سے زائد ہے اور حکومت کو آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں کی روشنی میں انہیں ادائیگی کرنا ہوگی چاہے حکومت بجلی خریدے یا نہ خریدے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی سست روی اور مجوزہ صنعتی زونز کے قیام میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان میں اس وقت اضافی بجلی موجود ہے۔

سی پیک میں چین نے توانائی کے 10 منصوبوں میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جبکہ زیرِ تکمیل 4 منصوبوں میں مزید 4 ارب 70 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ سی پیک کے معاہدوں کے تحت حکومتِ پاکستان سی پیک میں لگنے والے آئی پی پیز کو بروقت ادائیگیاں کرنے کی پابند ہے مگر 2018ء میں پی ٹی آئی حکومت قائم ہونے کے بعد سے معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ اس وقت چینی کمپنیوں کو 230 ارب روپے سے زائد کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے عدم ادائیگی کے سبب چینی کمپنیاں اپنے قرض اتارنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔

ایک اور وعدہ جو تحریک انصاف نے اپنے منشور میں کیا تھا وہ بجلی کے نظام میں شفافیت کے لیے ایکسچینج کے قیام کا منصوبہ تھا۔ اس حوالے سے نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی یا نیپرا نے عملدرآمد شروع کردیا ہے اور اس پر یکم مئی 2022ء سے عملدرآمد شروع ہوجانے کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ اس ایکسچینج کے قیام سے حکومت کو بتدریج بجلی کے کاروبار سے باہر کرتے ہوئے ڈیسکوز براہِ راست بجلی کی خرید و فروخت کریں گے۔

پی ٹی آئی حکومت نے سی پیک کو اپنے منشور کا حصہ تو بنایا مگر اس حوالے سے اقدامات ہوتے نظر نہیں آئے۔ وزیرِاعظم عمران خان نے سی پیک کے تحت گوادر ایئرپورٹ کا سنگِ بنیاد رکھا مگر تعمیراتی سرگرمیاں سست نظر آرہی ہیں اور بہت سے معاملات اس وقت رکاوٹوں کا شکار ہیں۔ گوادر سے سڑک کا رابطہ بھی مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے علاوہ خصوصی صنعتی زونز پر بھی کام کی رفتار اتنی تیز نہیں جتنی ہونی چاہیے تھیں۔

سی پیک کے تحت دیامیر بھاشا ڈیم پر کام کا آغاز ایک بڑی پیشرفت ہے مگر چینی سرمایہ کاروں کو اس وقت دھچکا لگا جب سی پیک کے تحت لگائے گئے پاور پلانٹس کی ادائیگیوں کو مؤخر کرنے کے علاوہ بدعنوانی کی تحقیقات بھی شروع کردی گئیں۔

عمران خان نے رواں سال کے شروع میں سی پیک سے متعلق تمام رکاوٹوں اور غلط فہمیوں کو دُور کرنے کے لیے سرمائی اولمپکس کے دورے پر چینی کمپنیوں سے ملاقات بھی کی ہے، اب اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں اس حوالے سے تو آنے والے وقت میں ہی اندازہ ہوسکے گا۔

عمران خان کی حکومت کے قیام کے بعد امریکا نے پاکستانی حکومت کو پیشکش کی کہ وہ سی پیک کی طرز پر پاکستان کو ترقی کا منصوبہ پیش کرسکتا ہے مگر یہ بات ایک اعلان سے آگے نہ بڑھ سکی۔

سی پیک کی اہمیت اس قدر ہے کہ اگر گزشتہ دورِ حکومت میں سے سی پیک کو نکال دیا جائے تو اس کا حال بھی عمران خان کی حکومت جیسا ہی ہوتا اور وہ معاشی میدان میں کوئی بڑا منصوبہ دینے میں ناکام رہتی۔

پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں کراچی شہر کو ترقی دینے کے حوالے سے ایک جامع باب شامل ہے جس میں کراچی کو ایک جدید متحرک میگا شہر میں تبدیل کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ شہر کو ماس ٹرانزٹ دینے اور اسے سجانے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ سال 2018ء کے انتخابات میں کراچی وہ شہر تھا جہاں سے پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کی 21 میں سے 13 نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے کراچی کے لیے 1100 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا مگر اس پر کتنا عمل ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ پی ٹی آئی حکومت سابقہ حکومت کے اعلان کردہ منصوبوں کو بھی مشکل سے ہی مکمل کرپائی ہے۔ گزشتہ حکومت میں شروع ہونے والے گرین لائن منصوبے کی تکمیل تقریباً 4 سال کی تاخیر سے ہوئی۔

اس کے علاوہ شہر میں فائر ٹینڈرز اور سڑکوں کے منصوبے بھی سابقہ حکومت کے اعلان کردہ تھے۔ شہر میں اربن فلڈنگ سے بچاؤ کے لیے برساتی نالوں کو پختہ کرنے اور تجاوزات ختم کرنے کا منصوبہ وزارتِ پلاننگ کی معاونت سے جاری ہے۔ پی ٹی آئی حکومت میں شہر میں فراہمی و نکاسی آب کے لیے کوئی فنڈز جاری نہیں کیے جاسکے اور نہ ہی شہر کو پینے کے پانی کے لیے ڈی سیلینیشن پلانٹ فراہم کیا گیا ہے۔

تحریک انصاف نے اپنے منشور میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ پیش کیا تھا اور اس حوالے سے متعدد اقدامات کیے تھے۔ تحریک انصاف کے اپنے منشور کے مطابق حکومت نے 5 سال میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر یعنی ہر سال 10 لاکھ گھروں کی تعمیر کا آغاز کرنا تھا۔ ان 50 لاکھ گھروں میں سے 15 سے 20 لاکھ شہری علاقوں اور بقیہ دیہی علاقوں میں بننے تھے۔

اس انتخابی وعدے پر عمران خان نے نہایت سنجیدگی سے عمل کیا اور ہاؤسنگ کی ٹاسک فورس کے متعدد اجلاس کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک نے ایک جامع پالیسی کا اجرا کیا۔ اس میں گھروں کی تعمیر کے لیے قرض لینے کے حوالے سے فرد کی آمدنی کا اندازہ لگانے کے لیے طریقہ کار کو غیر روایتی ذرائع پر منتقل کیا جیسے کہ اگر کسی فرد کے پاس بینک اسٹیٹمنٹ نہ ہو تو اس کے بجلی اور موبائل فونز کے بل کے ذریعے بھی اس کی ماہانہ آمدنی کا تعین کرنا شامل تھا۔ یہ قرض 20 سال کی مدت میں قابلِ ادا ہوں گے۔

اس حوالے سے قرض حاصل کرنے کے لیے قومی شناختی کارڈ کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ آپ پہلی مرتبہ قرض لے رہے ہوں۔ گھر کے 4 افراد اپنی آمدنی یکجا کرکے بھی قرض کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق میرا گھر اسکیم میں 157 ارب روپے مالیت کے قرضوں کی منظوری دی جاچکی ہے جبکہ 56 ارب روپے تقسیم کیے جاچکے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے قرض کے حجم کو 3 درجات میں تقسیم کیا ہے۔ اگر آپ نے گھر خریدنا ہو تو پہلے خریدار کی قرض واپس کرنے کی صلاحیت کا تعین ہوتا ہے کہ بینک کتنا قرض دے سکتا ہے۔ اس حوالے سے خریدار قرض منظور کروا لیتا ہے۔ پھر اس کے مطابق جائیداد کی تلاش کرتا ہے۔ جب یہ عمل مکمل ہوتا ہے تو قرض جاری کیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے آباد کے چیئرمین محسن شیخانی کہتے ہیں کہ '3 سال میں جب حکومت اور اسٹیٹ بینک نے پالیسی مکمل کی تب تک تعمیراتی صنعت کی لاگت میں تقریباً 100 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ سریا، سیمنٹ، کریش، ٹائلز ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے۔ اس لیے فنانسنگ اور بلڈرز کو دی جانے والی مراعات بے معنی ہوکر رہ گئی ہیں'۔

گھروں کی تعمیر کے حوالے سے پالیسی کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس پالیسی میں گھروں کے لیے زمین کی فراہمی اور سرمائے کی فراہمی کو شامل کیا گیا ہے مگر اس میں تعمیراتی خام مال جیسا کہ سریا، سیمنٹ، فرنیچر، ٹائلز، سینٹری ویئر، بجلی کے تار اور دیگر کو مدِنظر نہیں رکھا گیا۔ اگر حکومت نے تعمیراتی صنعت کو بحال کرنا تھا تو اس سے متعلق صنعتوں کو بھی پیکج کا حصہ بنایا جانا چاہیے تھا۔ ان کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا اور تعمیراتی خام مال کی قیمت کو مستحکم رکھنا بھی ضروری تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں معدنی خام لوہے یعنی آئرن اوور کو صاف کرنے اور فولاد میں تبدیل کرنے والے 2 کارخانے پاکستان اسٹیل اور طویرقی اسٹیل بند پڑے ہیں۔ اس اسکیم میں ان دونوں فولاد سازی کے کارخانوں کو بھی بحال کرنا شامل کیا جاتا تو بہتر تھا۔

پاکستان کو 50 لاکھ گھروں کے بجائے 5 نئے شہروں کی ضرورت ہے۔ اگر موجودہ شہروں میں گھروں کی اسکیمیں دی جائیں گی تو پہلے سے گنجان آباد شہر مزید آبادی کے دباؤ میں آجائیں گے۔

اس لیے بہتر تھا کہ پاکستان چین اقتصادی راہدری کے لیے حکومت کو جو خصوصی صنعتی زونز بنانے ہیں ان سے منسلک جدید رہائشی منصوبے بھی شامل کیے جائیں اور انہیں الگ شہر کا درجہ دیا جائے تاکہ یہ مکمل جدید، ڈیجیٹل شہر جلد از جلد آباد ہوسکیں۔ ماضی میں کراچی میں کورنگی کے صنعتی زون کے ساتھ بھی اسی طرح کی کم قیمت ہاؤسنگ کالونی بنائی گئی تھی۔

کاروبار میں آسانی (ease of doing business) پیدا کرنے کے حوالے سے پروگرام گزشتہ دورِ حکومت میں شروع کیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے وفاقی سرمایہ کاری بورڈ کے تحت اس پروگرام کو آگے بڑھایا جس کا اعلان ایوانِ صدر میں سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین اظفر احسن نے کیا۔

آسان کاروبار پروگرام کو عالمی بینک کے اشتراک سے شروع کیا گیا ہے تاکہ کاروبار میں آسانی سے متعلق پاکستان کا درجہ بہتر کیا جاسکے۔ کاروبار میں آسانی کے حوالے سے حکومت کے 75 شعبوں میں 115 اصلاحات پر عمل کیا گیا ہے جس سے معیشت کے 31 شعبہ جات کو فائدہ ہوگا۔

پاکستان تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے قبل سرکاری اداروں کو وزارتوں سے الگ کرتے ہوئے کاروباری گورننس کے نظام میں لانے کا اعلان کیا تھا۔ مگر اس حوالے سے قانون سازی گزشتہ تقریباً 3 سال سے کھٹائی کا شکار رہی اور گزشتہ سال حکومت نے اسٹیٹ اون انٹرپرائز گورننس اینڈ آپریشن بل پارلیمنٹ میں متعارف کروایا۔

اس کا مقصد ان اداروں کی کارکردگی کو بڑھانا اور انہیں مالیاتی طور پر مستحکم کرنا ہے۔ مگر یہ بل تاحال کابینہ کمیٹی کے پاس زیرِ غور ہے۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی میں حکومت کے بل پر قانون سازی مؤخر کردی گئی ہے۔ حالانکہ کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن اراکین کے درمیان اس بل کے حوالے سے بہت کم نکات پر اختلاف رائے پایا جاتا تھا۔

عالمی بینک کے مطابق گزشتہ 5 برسوں کے دوران ریاستی کاروباری اداروں نے جی ڈی پی کے 8 فیصد کے مساوی نقصانات کیے ہیں۔ ان میں سرِفہرست پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز، ریلوے، پاور کمپنیز، نیشنل ہائی وے اتھارٹی ہیں جو 90 فیصد نقصانات کی وجہ ہیں۔ ان نقصانات کے علاوہ ریاستی کاروباری اداروں نے سال 2019ء میں 143 ارب روپے کا خسارہ کیا جبکہ سال 2016ء سے 2019ء کے دوران 853 ارب روپے کا نقصان پہنچا چکے ہیں۔

حکومت کی جانب سے پاکستان اسٹیل سے ملازمین کی بڑی تعداد کو فارغ کرنے کے باوجود اس کی نجکاری کا عمل مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ جبکہ پی آئی اے میں بڑے پیمانے پر ملازمین کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ دینے، تبادلے اور تقرریوں اور مراعات میں کمی کے باوجود منافع بخش نہ بنایا جاسکا۔ پی آئی اے طیارے کے حادثے اور یورپی ملکوں کو پروازوں کی بندش سے ادارے کو مزید 50 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔

تیل اور گیس کمپنیوں جیسے وہ ریاستی ادارے جو نفع بھی کما رہی ہیں ان کی کارکردگی بہتر بنانے اور مالیاتی اخراج کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ ان اداروں کا منافع عالمی سطح پر ان جیسے اداروں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

پاکستان میں نجکاری کے عمل سے یہ سبق سیکھا گیا ہے کہ نجی شعبہ زیادہ بہتر کاروبار کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے بینکاری نظام کو دیکھا جاسکتا ہے جس نے نجکاری کے بعد تیزی سے ترقی کی ہے اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔

ریاست کی ملکیت کاروباری اداروں کی تعداد 212 ہے، جن میں 85 تجارتی، 44 غیر تجارتی اور 83 ذیلی ادارے شامل ہیں۔ تجارتی اداروں میں بجلی، تیل اور گیس، انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ، موصلات، مینوفیکچرنگ، کان کنی اور انجنیئرنگ، مالیات، صنعتی علاقوں کی ترقیاتی اور انتظامی کمپنیاں اور ہول سیل، ریٹیل اور مارکیٹنگ شامل ہیں۔

سال 19ء-2018ء میں ان اداروں کی مجموعی کمائی 4 ہزار ارب روپے اور ان کے اثاثوں کی مالیت 19 ہزار ارب روپے تھی اور یہ ادارے 4 لاکھ 50 ہزار افراد کو ملازمت فراہم کرتے ہیں۔ قانون سازی میں تاخیر اپنی جگہ مگر پی ٹی آئی حکومت ان اداروں میں پروفیشنل انتظامیہ لگانے میں ناکام نظر آتی ہے۔

عمران خان کی حکومت میں متعدد فیصلوں کی وجہ سے معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے اور لوگوں کو نہ صرف ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں بلکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ قیمتوں کو مستحکم رکھنے میں حکومت کی ناکامی ہے۔

اس کے علاوہ توانائی کے شعبے اور ریاستی کاروباری اداروں میں اصلاحات بھی تاحال نہیں ہوسکی ہیں۔ اس کی وجہ سے ملکی خزانے پر بوجھ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ یعنی معاشی میدان میں عمران خان کی حکومت نے چند اقدامات تو اٹھائے ہیں مگر مجموعی طور پر عوام کو ریلیف شاید نہیں مل سکا۔

یہ وہ صورتحال ہے جو معاشی میدان میں پاکستان کو درپیش ہے۔ آنے والے دنوں میں ہم کچھ بہتر دیکھ سکیں گے یا نہیں، اس حوالے سے صرف اچھی امید ہی کی جاسکتی ہے۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔