گجرات کے چوہدری
گجرات کی شہرت لوک کہانی کے مشہور رومانوی کردار ’سوہنی مہیوال‘ سے رہی ہے۔ مگر حالیہ برسوں میں گجرات چوہدری برادران یعنی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی کی سیاسی چوہدراہٹ سے شہرت رکھتا ہے۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کو یہ ساری شہرت وراثت میں ملی۔ چوہدری شجاعت کے والد چوہدری ظہور الہٰی اور ان کے بھائی چوہدری منظور الہٰی قیامِ پاکستان سے ٹیکسٹائل کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ عام طور پر چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی کے بارے میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ دونوں سگے بھائی ہیں، مگر ایسا نہیں بلکہ یہ دونوں رشتے میں ایک دوسرے کے کزن ہیں۔
چوہدری شجاعت حسین کے والد چوہدری ظہور الہٰی اور چوہدری پرویز الہٰی کے والد چوہدری منظور الہٰی تھے۔ چوہدری ظہور الہٰی کے بارے میں ان کے مخالفین یہ افواہ اڑاتے تھے کہ وہ ایک کانسٹیبل تھے، اور پھر مقامی اور صوبائی حکومت میں تعلقات بڑھاتے ہوئے اتنے مالا مال ہوئے کہ ان کی سیاست کا محض گجرات میں نہیں بلکہ سارے پنجاب میں ڈنکا بجنے لگا۔
یہ برس دو برس کی بات نہیں، چوہدری شجاعت حسین نے اپنی سوانح ‘سچ تو یہ ہے‘ میں لکھا ہے کہ ‘میرے تایا جان چوہدری منظور الہٰی نے ٹیکسٹائل میں ڈپلومہ کے بعد امرتسر میں 4 کھڈیاں لگائیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ یہ کاروبار لے کر گجرات آگئے اور پھر دونوں بھائیوں نے مل کر چند پاور ملز لگائیں اور عالمی ٹیکسٹائل نمائشوں سے ان کا کاروبار تیزی سے بڑھا'۔
چوہدری شجاعت حسین لکھتے ہیں کہ ‘ان کے مخالفین پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ ان کے والد کی عملی سیاست جنرل ایوب خان کی مرہون منت تھی حالانکہ وہ ایوبی مارشل لا سے پہلے ہی گجرات کی بلدیاتی سیاست میں اہم مقام حاصل کرچکے تھے۔ ایوب خان نے جب سارے مخالفین پر ایبڈو یعنی Elected Bodies Disqualification Order کے تحت کاروائی کی تو چوہدری ظہور الہٰی بھی ایبڈو زدہ ہوئے۔ چوہدری ظہور الہٰی نے ایبڈو کے خلاف مقدمہ خود لڑا اور بری ہوئے۔ 1962ء کے انتخابات میں پہلی بار آزاد حیثیت میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اس زمانے میں ایوب خان کے گورنر نواب کالا باغ کی بڑی دہشت تھی جو چوہدریوں کے سخت مخالف تھے، مگر انہوں نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا‘۔
ایوب خان نے جب مسلم لیگ کنوینشن بنائی تو جہاں ذوالفقار علی بھٹو اس کے سیکرٹری جنرل تھے وہاں چوہدری ظہور الہٰی پارلیمانی سیکرٹری تھے۔ ایوب خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو سارے پنجاب کے دولتانے، ٹوانے، گیلانی، قریشی 1970ء کے الیکشن میں شکست کے بعد بھٹو صاحب کی جائے پناہ میں آگئے۔ مگر ایک چوہدری ظہور الہٰی تھے جنہوں نے مسلم لیگ کنوینشن نہیں چھوڑی۔ بھٹو صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سیاست میں دوستی اور دشمنی کی انتہاؤں پر رہے جس کی انہوں نے بعد میں سزا بھی بھگتی۔
چوہدری ظہور الہٰی 70 کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے رکن اسمبلی بنے یہی نہیں بلکہ لاہور میں ان کی وسیع و عریض کوٹھی اپوزیشن خاص طور پر صوبہ سرحد اور بلوچستان کے قائدین کی مستقل رہائش گاہ ہوتی۔ خان عبدالغفار خان جب بھی لاہور آتے تو ان کا قیام چوہدری ظہور الہٰی کی اسی کوٹھی میں ہوتا۔ اسی سبب بھٹو صاحب جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے اپنی روایت کے مطابق پہلے تو ظہور الہٰی کو پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی مگر انکار پر یہ سزا دی کہ بھٹو صاحب کے سارے دورِ اقتدار میں وہ جیلوں میں رہے۔ اسی دور میں ‘بھینس چوری’ پر چوہدری ظہور الہٰی کیس کو بڑی شہرت ملی۔
سیاستدانوں کو مزید تکلیف پہنچانے کے لیے دُور دراز کی جیلوں میں رکھا جاتا تھا۔ نواب اکبر بگٹی جب بلوچستان کے گورنر تھے تو ظہور الہٰی کو کوہلو جیل میں رکھا گیا۔
چوہدری شجاعت اپنی سوانح میں لکھتے ہیں کہ ‘بھٹو میرے والد کو کوہلو سے کوئٹہ جاتے ہوئے قتل کرانا چاہتا تھا مگر جب نواب اکبر بگٹی کو اطلاع ملی تو انہوں نے یہ سازش ناکام بنا دی‘۔
بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہوئی تو چوہدری ظہور نے بھٹو صاحب سے یہ انتقام لیا کہ جنرل ضیا الحق کے مشیر خاص ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ 4 اپریل 1979ء کو جس قلم سے جنرل ضیا الحق نے بھٹو صاحب کی پھانسی کی تصدیق کی تھی وہ تحفے کے طور پر اپنے پاس رکھنے کے لیے ضیا الحق سے درخواست کی۔ یقین سے نہیں کہہ سکتا مگر میرا خیال ہے کہ چوہدریوں کی نوادرات میں یہ ضرور محفوظ ہوگا۔
چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی بھٹو دور سے شروع ہوگیا تھا۔ جب جوانی کی دہلیز سے ادھیڑ عمری کی طرف بڑھ رہے تھے تو اپنے والد کی روایت کو نبھاتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی ہمیشہ بھٹو مخالف کیمپ میں رہے۔ یہ مخالفت اس وقت انتقام کی حد میں جا پہنچی جب ستمبر 1981ء میں الذوالفقار کے جیالوں نے گلبرگ میں ان پر حملہ کیا جس میں جسٹس مولوی مشتاق حسن تو بچ گئے مگر چوہدری ظہور الہٰی کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔
چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی کی سیاست کا ذکر کرتے ہوئے چوہدری ظہور الہٰی کا ذکر ذرا طویل ہوگیا مگر اس سے گریز بھی نہیں کیا جاسکتا کہ برسوں بعد چوہدریوں نے اپنے والد کی سیاسی روایت کو بھرپور طور سے نبھایا۔
چوہدری شجاعت اپنی کتاب سچ تو یہ ہے میں لکھتے ہیں: ’میاں نواز شریف سے ہماری پہلی ملاقات سن 1977ء میں ہوئی۔ ایک روز ہم اپنے دفتر میں بیٹھے تھے کہ ایک ملازم نے آکر بتایا کہ ایک نوجوان والد سے ملنے آیا ہے۔ والد صاحب مصروف تھے تو انہوں نے پرویز الہٰی سے کہا کہ وہ جاکر مل لیں۔ پرویز الہٰی باہر آئے تو ایک گورا چِٹا کشمیری نوجوان برآمدے میں بیٹھا تھا۔ اس نے کہا کہ میاں محمد شریف نے اسے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ وہ انتخابی مہم کے لیے فنڈ دینا چاہتے ہیں۔ پرویز الہٰی نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم کسی سے فنڈ نہیں لیتے‘۔
میاں نواز شریف کس طرح گورنر غلام جیلانی تک پہنچے اور پھر سن 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں وزیرِاعلیٰ ہوتے ہوئے وزیرِاعظم کے عہدہ جلیلہ پر پہنچے، اس پر کبھی آئندہ لکھوں گا۔
نواز شریف وزیرِاعظم بنے تو چوہدری شجاعت ان کے وزیرِ داخلہ ہوئے۔ مگر پھر ایک ایسا وقت آیا کہ چوہدریوں کی شریفوں سے راہیں جدا ہوئیں۔
چورہدری شجاعت کا اپنی سوانح میں کہنا ہے کہ شریفوں نے ان سے عہد شکنی کی اور پھر اس عہد شکنی کا چوہدریوں نے بدلہ یہ لیا کہ جب اکتوبر 1999ء میں نواز شریف کی حکومت گرائی گئی اور اس کے بعد 2002ء میں انتخابات ہوئے تو انہوں نے مسلم لیگ (ن) کا تختہ الٹ کر (ق) لیگ بنائی اور پھر صدر پرویز مشرف کے وزیرِاعظم بھی بنے۔
چوہدریوں نے مشرف سے آخر تک دوستی نبھائی اور پھر کبھی پلٹ کر شریف خاندان کی طرف نہیں دیکھا۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ سابق صدر آصف زرداری نے اپنی سیاسی ذہانت اور فطانت سے چوہدریوں کو نہ صرف اپنا ہمنوا بنایا بلکہ آئین میں ترمیم کرتے ہوئے اپنے دورِ حکومت میں چوہدری پرویز الہٰی کو نائب وزیرِاعظم بھی بنایا۔
2018ء کے انتخابات میں جب نئی سیاسی صف بندیاں ہوئیں تو چوہدری برادران شریفوں کے بدترین مخالف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے اور یہ تعلق وہ آج تک نبھا رہے ہیں۔
ملک میں اس وقت جاری سیاسی بحران میں چوہدریوں کی قومی اسمبلی میں 5 اور پنجاب میں 10 نشستیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ آنے والے دنوں میں گجرات کے چوہدریوں کا پلڑا کس جانب گرے گا، یہ ایک بڑا سوال ہے۔
مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔