درحقیقت ایک مخصوص قسم کے مدافعتی خلیات میکروفیجز اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ بات سوئیڈن اور جرمنی کی مشترکہ طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
سوئیڈن کے کیرولینسکا انسٹیٹوٹ اور جرمنی کے ہیلمولٹز سینٹر میونخ اور ٹیکنیکل یونیورسٹی آف میونخ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ مدافعتی خلیات کووڈ کی معمولی شدت کے بعد بھی ورم اور میٹابولک سسٹم کے اثرات کو کئی ماہ تک کے لیے بدل دیتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے مریضوں میں یہ خلیات انفلیمٹری اور میٹابولک ایکسپریشن کو بیماری کے بعد 3 سے 5 ماہ کے لیے بدل دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان میں سے بیشتر افراد میں طویل المعیاد علامات نہیں تھیں مگر ان کا مدافعتی نظام دیگر کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوگیا تھا۔
کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں لانگ کووڈ تو کسی حد تک عام ہے مگر معمولی بیمار ہونے والے متعدد لوگوں کو بھی اس کا سامنا ہوتا ہے
اس پہلو کی جانچ پڑتال کے لیے 68 ایسے افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا جن میں کووڈ 19 کی معمولی شدت کی تشخیص ہوئی تھی اور اس کا موازنہ اس بیماری سے محفوظ رہنے والے 36 افراد کے نمونوں سے کیا گیا۔
محققین نے لیبارٹری میں ان خلیات کو خون سے الگ کیا اور اسپائیک پروٹین، اسٹرائیڈز اور lipopolysaccharides کے ذریعے مدافعتی نظام کو متحرک کیا گیا۔
خلیات کا پھر آر این اے سیکونس بنایا گیا اور ورم کے بنیادی عنصر کو بھی جانچا گیا۔
محققین نے بتایا کہ کووڈ کے مریضوں میں ایسے مخصوص مالیکیولز کی سطح میں اضافے کو دریافت کرنا حیران کن نہیں تھا جو بیماری کے دوران ورم کا باعث بنتے ہیں، مگر حیران کن بات یہ تھی کہ وہ مالیکیولز بیماری کے کئی ماہ بعد بھی اتنی زیادہ مقدار میں بن رہے تھے۔
تحقیق میں leukotrienes نامی پرو انفلیمٹری مالیکیولز کے اجتماع کو بھی دریافت کای گیا جن کو دمہ کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔
محققین نے کہا کہ کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد کے مدافعتی خلیات میں leukotrienes کی سطح میں اضافہ برقرار رہنا چونکا دینے والا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ مالیکیولز بیاری کے بعد نظام تنفس کے ورم کے حوالے سے زیادہ حساسیت کا باعث بنتے ہیں مگر کورونا یا دیگر وائرسز کے خلاف اینٹی وائرل مدافعت بھی بہتر کرتے ہیں۔