اب محققین کا کہنا ہے کہ وہ وائرس کی نئی اقسام جیسے اومیکرون کے زیادہ خطرے سے دوچار گروپ میں اثرات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں کیونکہ حاملہ خواتین میں ویکسینشن کی شرح بہت کم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حاملہ خواتین میں کووڈ 19 کے اثرات پر اب تک ہونے والا تحقیقی کام ناکافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حاملہ خواتین کو ویکسین ٹرائلز میں بھی شامل نہیں کیا گیا جس کے باعث غیر سائنسی اور دہشت زدہ کردینے والے افواہیں بڑے پیمانے پر پھیل گئیں۔
دنیا کے بڑے طبی اداروں نے بتایا ہے کہ حاملہ خواتین کے لیے کووڈ ویکسینیشن محفوظ ہے جبکہ جنوری 2022 میں ایک امریکی تحیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ ویکسنیشن سے حاملہ خواتین کے ہاں بچوں کی قبل از وقت پیدائش یا کم وزن کے ساتھ پیدائش کا خطرہ نہیں بڑھتا۔
نومبر 2021 میں یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کے ڈیٹا سے ثابت ہوا تھا کہ کووڈ 19 ویکسینیشن حاملہ خواتین کے لیے محفوظ ہے اور اس سے پیچیدگیوں کا خطرہ نہیں بڑھتا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی نئی تحقیق میں ڈیڑھ ہزار ایسی حاملہ خواتین کو شامل کیا جائے گا جو حمل کے دوران کووڈ 18 سے متاثر ہوئی ہوں اور ان کے نتائج کا موازنہ اس وائرس سے محفوظ رہنے والی 3 ہزار خواتین سے کیا جائے گا۔
یہ تحقیق 4 ماہ تک جاری رہے گی اور محققین کا کہنا ہے کہ ٹرائل کے نتائج مئی تک سامنے آسکتے ہیں۔
اس سے قبل فروری 2022 کے آغاز میں امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے متاثر حاملہ خواتین میں حمل کی عام پیچیدگیوں کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں 17 امریکی ہسپتالوں میں زیرعلاج رہنے والی 13 ہزار سے زیادہ حاملہ خواتین کو شامل کیا گیا تھا، جن میں سے 24 سو میں کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
سب خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش یکم مارچ سے 31 دسمبر 2020 کے دوران ہوئی اور محققین نے بیماری سے محفوظ رہنے والی خواتین کے گروپ کا موازنہ کووڈ کا سامنا کرنے والی حاملہ خواتین سے کیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ سے محفوظ رہنے والی خواتین کے مقابلے میں اس سے متاثر ہونے والی خواتین میں پیچیدگیوں کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ گیا۔
کووڈ کی معتدل سے سنگین شدت کا سامنا کرنے والی خواتین میں سنگین پیچیدگیوں کی شرح 26.1 فیصد تھی جبکہ دوسرے گروپ میں یہ شرح 9.2 فیصد تھی۔
اسی طرح کووڈ سے متاثر خواتین میں آپریشن سے بچوں کی پیدائش کا امکان 45.4 فیصد رہا جبکہ دوسرے گروپ میں 2.4 فیصد تھا۔