پی ایس ایل سیزن 7: ’شہر بدلے تو شاید کسی ٹیم کی قسمت بھی بدل جائے‘
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن 7 کا کراچی میں ہونے والا مرحلہ ایک نہایت پُرلطف میچ کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ لاہور قلندرز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے بلے بازوں کی دھواں دار بیٹنگ کا سلسلہ 40 اوورز تک طویل ہوگیا اور یوں شائقین ایک اور بہترین ٹی20 میچ سے لطف اندوز ہوئے۔
لاہور قلندرز کے باؤلرز جیسن روئے کی وکٹ کے بعد اپنی ٹیم کو میچ میں واپس لا رہے تھے اور لگ رہا تھا کہ مسلسل دوسری بار لاہور قلندرز کے خلاف کھیلی جانے والی ایک شاندار اننگ ضائع ہوسکتی ہے لیکن پھر محمد نواز ڈٹ گئے۔ یاد رہے کہ لاہور قلندرز کے باؤلرز ابھی چند دن پہلے ہی اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف میچ کو شاداب خان کی ایک بہترین اننگ کے باوجود اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
جیسن روئے ویسٹ انڈیز کے خلاف 5 میچوں پر مشتمل ٹی20 سیریز کھیل کر آئے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ جن 2 میچوں میں جیسن روئے نے اچھا کھیل پیش کیا وہ دونوں ہی میچوں میں انگلینڈ کو کامیابی نصیب ہوئی لیکن جن 3 میچوں میں وہ ناکام رہے، ان میں انگلینڈ کو بھی ناکامی کا سامنا ہوا، یوں یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے کہ اگر اب کوئٹہ کو آگے کامیابیاں سمیٹنی ہیں تو روئے کا چلنا ناگزیر ہے۔
رواں پی ایس ایل میں ٹیموں کی باؤلنگ لائن کا جائزہ لیا جائے تو لاہور کے پاس سب سے مضبوط باؤلنگ لائن ہے۔ یعنی جس ٹیم کے پاس 3 بہترین باؤلرز یعنی شاہین آفریدی، راشد خان اور حارث رؤف موجود ہوں، جو پچھلے سال ٹی20 سرکٹ میں چھائے رہے، ان کے آگے کھڑا رہنا کسی بھی طور پر آسان نہیں۔ ان تینوں کے علاوہ قلندرز کے پاس زمان خان بھی ہیں جن کا ایکشن سری لنکن لستھ ملنگا سے کافی ملتا جلتا ہے اور وہ اپنی خطرناک باؤلنگ کی وجہ سے 2 مرتبہ اس پی ایس ایل میں مین آف دی میچ کا ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ لیکن جیسن روئے نے کسی کو بھی خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ میدان میں اترنے سے پہلے ہی کرلیا تھا۔
شاہین آفریدی تقریباً ہر دوسرے ٹی20 میچ کے پہلے ہی اوور میں وکٹ حاصل کرلیتے ہیں لیکن اس میچ میں حیران کن طور پر ان کو زبردست پٹائی کا سامنا ہوا اور پہلے ہی اوور میں انہوں نے 15 رنز دے دیے۔ لیکن یہاں سلسلہ رکا نہیں، بلکہ یہ تو ابھی شروعات تھی۔
شاید شاہین آفریدی سے شروع میں ایک غلطی ہوئی اور انہوں نے راشد خان کو جلد استعمال کرنے کے بجائے پانچویں اوور میں متعارف کروایا۔ جیسن روئے شروع میں لیگ اسپنر کے خلاف پریشان دکھائی دیتے ہیں اس لیے اگر راشد خان جلد باؤلنگ کے لیے آجاتے تو یہ عین ممکن تھا کہ وہ روئے کو پویلین کی راہ دکھا دیتے۔ خاص طور پر پہلے اوور میں شاہین آفریدی کو جو رنز پڑے تو وہاں زمان خان کی جگہ راشد خان کو استعمال کیا جا سکتا تھا لیکن یہ جیسن روئے کا دن تھا۔ میدان کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں جیسن روئے نے گیند کو باؤنڈری کی سیر نہ کروائی ہو۔
ٹورنامنٹ کے ابتدائی 6 میچوں میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیموں کی جیت کے بعد شائقین کی دلچسپی کم ہونے لگی تھی لیکن یہ سلسلہ رکا اور پھر اگلے 8 میچوں میں پہلے کھیلنے والی ٹیم جیت گئی۔ اس سب کے بعد شاید کوئی اور کپتان ہوتا تو ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کرتا جیسا پچھلے میچ میں شاداب خان کرچکے تھے لیکن سرفراز احمد کو ہمیشہ سے ہی ہدف کا تعاقب پسند رہا ہے۔
فخر زمان کی موجودگی اور بہترین فارم کی وجہ سے سرفراز اپنے پسندیدہ ہتھیار محمد نواز کا مناسب استعمال نہ کرسکے۔ نواز کو پاور پلے میں باؤلنگ کا موقع مل سکا اور نہ ہی ان کی باؤلنگ کا کوٹا مکمل ہوا۔
فخر زمان ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل ہی ایک انٹرویو میں اس ٹورنامنٹ کا ٹاپ اسکورر بننے کا ارادہ ظاہر کرچکے تھے۔ وہ ابھی تک اپنے ارادے پر قائم ہیں اور ہر میچ میں ہی اسکور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف فخر زمان کا آغاز باقی میچوں کی طرح جارحانہ تو نہیں تھا لیکن فخر کی ایک عمدہ اننگ کی بدولت لاہور قلندرز کو ایک بڑا ٹوٹل بنانے کا موقع مل گیا۔
لاہور قلندرز کی جانب سے اس ٹورنامنٹ کے ابتدائی میچوں میں ناکامی کے بعد سمت پٹیل اور بین ڈنک کو باہر بٹھانا ایک اچھا فیصلہ تھا۔ پچھلے سیزن سے ہی لگ رہا تھا کہ لاہور قلندرز کی ٹیم ان کھلاڑیوں کو زبردستی فائنل گیارہ میں شامل کرتی آ رہی ہے۔ فل سالٹ اور ہیری بروک لاہور قلندرز کے لیے اگلے میچوں میں اچھا اضافہ ثابت ہوسکتے ہیں ٹھیک اسی طرح جیسے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے لیے جیسن روئے اور جیمس ونس ثابت ہوسکتے ہیں۔
لاہور قلندرز کی جانب سے پچھلے میچ کی فتح میں بھی ایک خامی سامنے آئی تھی۔ انہوں نے مسلسل کیچ ڈراپ کیے تھے اور خراب فیلڈنگ کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جا رہا ہے۔ فخر زمان جو عموماً اچھی فیلڈنگ کرتے ہیں اور کیچ پکڑنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے مگر انہوں نے بھی 2 کیچ ڈراپ کیے۔ پچھلے میچ کے برعکس اس بار یہ ڈراپ کیچ کافی مہنگے ثابت ہوئے اور لاہور قلندرز کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
فخر زمان نے اپنی بیٹنگ پر تو کافی کام کیا ہے لیکن انہیں اپنی فیلڈنگ کو اسی معیار پر واپس لے جانا ہوگا جس کے لیے وہ جانے جاتے ہیں۔
لاہور قلندرز کے لیے ایک اور اہم مسئلہ محمد حفیظ کی فارم بھی بن سکتی ہے۔ بین ڈنک اور سمت پٹیل کو تو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے لیکن اگر محمد حفیظ کی روٹھی فارم بحال نہ ہوئی تو کیا ان کو بھی باہر بٹھایا جاسکتا ہے؟ ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا لاہور قلندرز کے پاس اسکواڈ میں کوئی ایسا کھلاڑی موجود بھی ہے جو محمد حفیظ کی جگہ لے سکے؟
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بالکل ٹھیک وقت پر ٹورنامنٹ میں واپس آئی ہے اور نئے کھلاڑیوں کی آمد سے کوئٹہ کی ٹیم کافی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ تاہم انہیں اپنا ٹیم کمبینیشن بنانے میں مسائل پیش آسکتے ہیں۔ جیسن روئے، احسن اور جیمس ونس ٹاپ آرڈر تو سنبھال لیں گے لیکن سرفراز احمد کا فارم میں آنا بھی ضروری ہے۔ اگرچہ لاہور کے خلاف میچ میں سرفراز کے آنے سے پہلے میچ ختم ہوگیا، لیکن پچھلے چند میچوں میں جب تیزی سے رنز کی ضرورت تھی تو سرفراز اس میں ناکام نظر آئے۔ کوئٹہ کی جانب سے ابھی تک عمر اکمل کو بھی موقع نہیں مل سکا ہے۔
کراچی میں ہونے والے میچوں کے بعد ملتان سلطانز ناقابلِ شکست ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے سال کراچی مرحلے کے بعد ملتان سلطانز کی آخری پوزیشن تھی اور بالآخر وہ ٹیم چیمپئن بن کر سامنے آئی تھی۔ جہاں ایک طرف رضوان اور شان مسعود کی اوپننگ جوڑی کو رائیلی روسو، ٹم ڈیوڈ اور خوشدل شاہ مڈل آرڈر میں بھرپور سپورٹ کر رہے ہیں تو دوسری طرف باؤلنگ میں فاسٹ باؤلرز کو عمران طاہر اور خوشدل شاہ کی بھی مکمل مدد حاصل رہتی ہے۔
ملتان سلطانز مکمل متوازن ٹیم لگتی ہے تو اسلام آباد یونائیٹڈ بھی اس وقت بہترین فارم میں ہے اور سب سے بہترین اور خطرناک بیٹنگ آرڈر انہی کے پاس ہے۔ کپتان شاداب خان بیٹنگ اور باؤلنگ دونوں میں بہترین فارم میں ہیں اور ان کے پاس اچھے آل راؤنڈرز بھی موجود ہیں۔
پشاور زلمی کی ٹیم کسی میچ میں بہترین اور اگلے میں خراب ترین کارکردگی دکھاتی نظر آرہی ہے۔ کامران اکمل اور حیدر علی ابھی تک مستقل مزاجی سے کھیل پیش کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں لیکن شعیب ملک اور شرفین ردرفورڈ عمدہ فارم میں ہیں۔ پشاور زلمی کے پاس اب بھی واپسی کا وقت ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کپتان وہاب ریاض باؤلنگ اور کپتانی میں خود کو جلد ثابت کریں۔
دوسری طرف کراچی کنگز تو مکمل طور پر آؤٹ آف فارم نظر آرہی ہے، نہ کوئی بیٹسمین ذمہ داری لینے کو تیار ہے اور نہ ہی کوئی باؤلر وکٹوں کے حصول میں کامیاب ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ پچھلے کئی سالوں سے تسلسل کے ساتھ اسکور کرنے والے بابر اعظم بھی اپنا اصل رنگ دکھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
خیر، گلاس اب بھی آدھا خالی ہے، یعنی گروپ مرحلے کے ابھی آدھے میچ باقی ہیں۔ بظاہر تو کراچی کنگز ٹورنامنٹ سے باہر نظر آرہی ہے اور ملتان سلطانز اور اسلام آباد یونائیٹڈ ٹاپ 4 میں جانے کے لیے فیورٹ ہیں، لیکن یاد رہے کہ اب شہر بدلے گا، میدان بدلے گا، وکٹیں بدلیں گی اور شاید کسی ٹیم کے لیے قسمت بھی بدل جائے۔
اگر پچھلا سیزن آپ کو یاد ہو تو پاکستان میں ہونے والے مقابلوں میں ملتان کی ٹیم سب سے پیچھے تھی، اور کوئی بھی اسے اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھا، مگر جیسے ہی لیگ امارات کے میدانوں پر پہنچی تو ہم سب نے صورتحال کو یکسر بدلتے ہوئے دیکھا اور وہی ملتان چیمپئن بھی بن گیا۔ اس لیے ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں جمعرات سے شروع ہونے والے میچ کس ٹیم کے لیے خوشیوں کی نوید لاتے ہیں اور کس ٹیم کے لیے مایوسی کا باعث بنتے ہیں۔
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔