درحقیقت ایشیا اور یورپ کے کچھ حصوں میں اس نئی قسم نے اومیکرون کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
اب تک سائنسدان اس نئی قسم کے بارے میں جو کچھ جان چکے ہیں وہ درج ذیل ہے۔
'خاموش' ذیلی قسم
عالمی سطح پر 25 جنوری تک بی اے 1 وائرس ٹریکنگ ڈیٹابیس GISAID میں جمع کرائے جانے والے 98.8 سیکونس کیسز کا باعث تھا۔
مگر عالمی ادارہ صحت کے مطابق متعدد ممالک کی جانب سے حالیہ دنوں میں بی اے 2 کیسز کی شرح میں اضافے کو رپورٹ کیا گیا ہے۔
بی اے 1 اور بی اے 2 کے علاوہ عالمی ادارہ صحت نے اومیکرون کی مزید 2 ذیلی اقسام بی اے 1.1.529 اور بی اے 3 کو بھی لسٹڈ کیا ہے۔
یہ سب جینیاتی طور پر ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں مگر میوٹیشنز نے ان کو کچھ مختلف کیا ہے۔
کورونا وائرس کے ارتقا کو ٹریک کرنے والے امریکا کے فریڈ ہیچسن کینسر سینٹر کے کمپیوٹیشنل وائرلوجسٹ ٹریور بیڈفورڈ نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ ڈنمارک میں 82 فیصد، برطانیہ میں 9 اور امریکا میں 9 فیصد کووڈ کیسز بی اے 2 کا نتیجہ ہیں۔
ان کا یہ تجزیہ GISAID ڈیٹا بیس کے سیکونسنگ ڈیٹا اور آکسفورڈ یونیورسٹٰ کے آر ورلڈ ان ڈیٹا پر مبنی تھا۔
بی اے 2 کو اسٹیلتھ یا خاموش قسم بھی کہا جاتا ہے جس کی وجہ کافی دلچسپ ہے۔
اومیکرون کی بی اے 1 قسم کو کورونا کی دیگر اقسام کے مقابلے میں ٹریک کرنا آسان ہے کیونکہ عام پی سی آر ٹیسٹ میں بیماری کی تشخیص کے لیے جن 3 ٹارگٹڈ جینز کو استعمال کیا جاتا ہے، بی اے 1 میں ان میں سے ایک نہیں، تو اس طرح کے پیٹرن والے کیسز کو بائی ڈیفالٹ بی اے 1 کا قرار دیا جاتا ہے۔
بی اے 2 کو اسٹیلتھ قسم بھی اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں یہ ٹارگٹڈ جین غائب نہیں اور اس کی ٹریکنگ سائنسدان دیگر اقسام جیسے ڈیلٹا کی طرح ہی پبلک ڈیٹا بیسز میں جمع کرائے گئے جینومز کے ذریعے کررہے ہیں۔
زیادہ متعدی؟
کچھ ابتدائی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا کہ بی اے 2 پہلے سے بہت زیادہ متعدی بی اے 1 سے بھی زیادہ متعدی ہے، مگر ایسے کوئی شواہد نہیں کہ وہ ممکنہ طور پر ویکسین سے ملنے والے تحفظ پر حملہ آور ہوسکتی ہے۔
ڈںمارک کے طبی حکام نے ابتدائی ڈیٹا کی بنیاد پر تخمینہ لگایا ہے کہ پھیلاؤ کے معاملے میں بی اے 2 اومیکرون سے ڈیڑھ گنا زیادہ متعدی ہے۔
برطانیہ میں یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کے 27 دسمبر سے 11 جنوری کے کانٹینک ٹریسنگ کے ڈیٹا میں عندیہ دیا گیا کہ بی اے 2 سے متاثر افراد کے گھروالوں میں وائرس کے پھیلاؤ کی شرح 13.4 فیصد جبکہ اومیکرون سے متاثر افراد کے خاندان میں یہ شرح 10.3 فیصد تھی۔
امریکا کے نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی فینبرگ اسکول آف میڈیسین کے وفائی امراض کے ماہر ڈاکٹر ایگون اوزر نے کہا کہ ایک انتہائی اہم سوال یہ ہے کہ بی اے 1 سے بیمار ہونے والے افراد کو بی اے 2 سے تحفظ ملتا ہے یا نہیں؟
انہوں نے بتایا کہ ڈنمارک میں ایسے کچھ مقامات میں جہاں اومیکرون کیسز کی شرح کافی زیادہ تھی، وہاں بی اے 2 کے کیسز میں اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اومیکرون سے بیماری کے بعد بی اے 2 سے تحفظ نہیں ملتا تو یہ 2 طرفہ لہر ثابت ہوگی، مگر ابھی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
مگر انہوں نے کہا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ ویکسینز اور بوسٹرز سے لوگوں کو بیماری کی سنگین شدت اور اموات سے تحفظ ملتا ہے۔