250 رنز کا وہ پہاڑ، جو سر ہوا صرف 99 بار
اسے حُسنِ اتفاق کہیے یا حُسنِ اہتمام کہ کرکٹ کا کھیل بتدریج وطنِ عزیز کا مقبول ترین کھیل بنتا چلا جارہا ہے۔ اب تو اسے کھیلنے اور دیکھنے والوں میں عمر، پیشے یا رنگ و نسل کے علاوہ کسی حد تک جنس کی بھی تفریق نہیں رہی۔
جہاں کھیلنے والوں سے سڑکیں، گلیاں اور میدان بھر جاتے ہیں وہاں دیکھنے والوں کا شوق ٹی وی سیٹس اور انٹرنیٹ ڈیٹا پیکیجز کی فروخت کو ایڑ لگا دیتا ہے۔ خواتینِ خانہ تک بھی جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش وغیرہ کے میچ کے دوران آتے جاتے پوچھ لیتی ہیں کہ 'پاکستان جیت رہا ہے یا نہیں'۔
کرکٹ کو پسند کرنے والوں کا ایک 'اقلیتی' طبقہ ایسا بھی ہے جس کا جنون کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے سے بھی آگے پہنچ چکا ہے۔ یہ وہ ہیں جنہیں کرکٹ کے اعداد و شمار سے پیار ہے، جن کی آنکھیں تو اس کھیل کی خوبصورتی کو سراہتی ہی ہیں مگر ساتھ ہی ان کے دماغ میں ریکارڈز کی جمع تفریق بھی ہوتی رہتی ہے۔
ان کو بابر اعظم کی کور ڈرائیو تو دلکش لگتی ہی ہے ساتھ ہی ان کی ورلڈ رینکنگ اور بیٹنگ اوسط بھی یاد رہتی ہے۔ حساب کتاب کے یہ 'کیڑے' کرس گیل کے فلک بوس چھکوں کو سراہنے کے علاوہ 'گنتے' بھی ہیں۔ انہیں لالہ شاہد آفریدی کی رنز بنانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ ماضی کے عظیم بلے باز سر ویوین رچرڈز کا ایک روزہ کرکٹ میں اسٹرائیک ریٹ بھی ازبر ہوتا ہے۔ راقم کو بھی اسی طبقے میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
9 جنوری 2022ء سے نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کے مابین کرائسٹ چرچ میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میچ میں جب کیوی کپتان ٹام لیتھم نے پہلی اننگ میں 252 رنز بنائے تو یہ طویل اور شاندار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کمیاب کارنامہ بھی تھا اور وہ اس لحاظ سے کہ ٹیسٹ کرکٹ کی لگ بھگ 150 سالہ تاریخ میں اب تک کھیلےگئے قریباً ڈھائی ہزار ٹیسٹ میچوں میں 250 یا زائد رنز بنائے جانے کا یہ محض 99واں موقع ہی تھا۔
ویسے تو ٹیسٹ کرکٹ میں ڈبل سنچری یعنی ایک اننگ میں 200 رنز کا سنگِ میل عبور کرنا ہی کسی بھی بلے باز کے لیے یادگار لمحہ ہوتا ہے۔ مگر اس سے آگے کا سفر اور زیادہ کٹھن ثابت ہوتا ہے۔ دیکھ لیجیے کہ اب تک اسکور کی گئی ڈبل سنچریوں کی کل تعداد 393 ہے، جو اپنے آپ میں ایک محدود تعداد ہے، مگر ان میں سے 250 یا زائد رنز صرف 99 بار ہی بنے ہیں۔
250 رنز سے متعلق کچھ دلچسپ حقائق
ٹیسٹ کرکٹ میں 250 کا ہندسہ انفرادی طور پر سب سے پہلے 1903ء میں انگلینڈ کے ریگی 'ٹپ' فوسٹر نے عبور کیا جب انہوں نے اپنی پہلی ہی ٹیسٹ اننگ میں آسٹریلیا کے خلاف 287 رنز بنائے تھے جو آج بھی ڈیبیو ٹیسٹ میں سب سے زیادہ رنز کا عالمی ریکارڈ ہے۔
اب تک کل 73 کھلاڑیوں نے یہ طرہ امتیاز اپنے نام کیا ہے جن میں سے آسٹریلیا کے دیو مالائی شہرت کے حامل سر ڈان بریڈمین نے اب تک سب سے زیادہ 5 مرتبہ 250 یا زائد رنز کی اننگز کھیلی ہیں۔ فلم کے ڈان کی طرح ٹیسٹ بیٹنگ کے ریکارڈز میں کرکٹ کے ڈان کو پکڑنا بھی تقریباً ناممکن ہی لگتا ہے۔ ان کے بعد بھارت کے ویریندر سہواگ نے 4 بار 250 کے انفرادی سنگِ میل کو عبور کیا۔ جبکہ جاوید میانداد، برائن لارا اور کمار سنگاکارا 3، 3 بار اس بلندی تک پہنچے۔ ان کے علاوہ 13 مزید بلے باز 2، 2 بار یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔
اس کے علاوہ اب تک 5 بار ایک ہی ٹیسٹ میں 2، 2 بلے بازوں نے یہ 'حرکت' کرنے کی تاریخ بھی رقم کر رکھی ہے۔ ان 5 میں سے 2 بار تو دونوں کھلاڑیوں کا تعلق ایک ہی ٹیم سے تھا۔ ایسا پہلا واقعہ 1958ء میں پاکستان ہی کے خلاف پیش آیا تھا جب ویسٹ انڈیز کے سر گیری سوبرز اور کونریڈ ہنٹ نے بالترتیب ناقابلِ شکست 365 اور 260 رنز بنائے تھے۔
کس ٹیم کے کھلاڑیوں نے سب سے زیادہ مرتبہ 250 رنز سے زائد کی اننگز کھلیں؟
ٹیموں کی بات کی جائے تو آسٹریلیا کی طرف سے سب سے زیادہ 19 بار 250 رنز یا زائد کی انفرادی اننگز کھیلی گئی ہیں۔ جبکہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے بلے بازوں نے 17، 17 بار یہ اعزاز اپنے نام کیا۔ پاکستان کی جانب سے اب تک 10 ایسی اننگز کھیلی جاچکی ہیں۔
کس ٹیم کے خلاف سب سے زیادہ مرتبہ کھلاڑیوں نے 250 رنز بنائے؟
اسی طرح انگلینڈ وہ ٹیم ہے جس کے خلاف سب سے زیادہ 22 مرتبہ 250 رنز یا اس سے زائد کا انفرادی اسکور بنا ہے۔ جبکہ پاکستان کے خلاف اس طرح کی 14 طویل اننگز کھیلی گئی ہیں۔
کس ملک میں سب سے زیادہ مرتبہ انفرادی سطح پر 250 رنز سے زائد کی اننگز کھیلی گئیں؟
انگلینڈ ہی کی سرزمین پر 250 یا زائد رنز کی اننگز سب سے زیادہ بار کھیلی گئیں اور ان کی تعداد بھی 22 ہی ہے۔ اس حوالے سے آسٹریلیا کے میدان دوسرے نمبر پر ہیں جہاں 16 ایسے انفرادی مجموعے اسکور بورڈز کی زینت بنے۔
کن اسٹیڈیمز پر سب سے زیادہ 250 رنز کی انفرادی اننگز بنائی گئیں؟
اسٹیڈیمز کی بات کی جائے تو یہ کارنامہ سب سے زیادہ 6 بار ویسٹ انڈیز کے کنگسٹن کرکٹ اسٹیڈیم میں انجام دیا گیا ہے۔ اب تک 15 ایسے کرکٹ گراؤنڈز ہیں جہاں انفرادی طور پر 250 یا زائد رنز کم از کم 3 بار اسکور کیے گئے اور ان میں ایک بھی ایشیائی گراؤنڈ نہیں ہے جبکہ عام تاثر کے مطابق ایشیائی وکٹیں بلے بازی کے لیے بہشت سمجھی جاتی ہیں مگر حیرت انگیز طور پر پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں مجموعی طور پر محض 29 بار ہی 250 یا زائد رنز کا انفرادی اسکور بنا ہے۔
سب سے زیادہ کس سال میں انفرادی سطح پر 250 رنز سے زائد کی انفرادی اننگز کھیلی گئیں؟
ایک سال میں سب سے زیادہ مرتبہ 250 رنز کی انفرادی اننگ 6 مرتبہ کھیلی گئی ہیں اور ایسا 2004ء میں ہوا ہے۔ قبل ازیں 2003ء میں 250 کا پہاڑ 5 بار سر ہُوا تھا۔
ماضی قریب میں بڑے انفرادی اسکور بننے کی رفتار خاصی تیز رہی ہے۔ 21ویں صدی کے دوران یعنی 2000ء کے بعد سے اب تک 250 یا زائد رنز کی 49 اننگز کھیلی گئیں جبکہ اس سے پیشتر ٹیسٹ کرکٹ کے لگ بھگ 125 سالہ دور میں ایسے 50 واقعات ہی پیش آئے تھے۔
250 رنز کی انفرادی اننگ کھیلنے والے کھلاڑیوں میں حیران کن نام کونسا ہے؟
250 یا زائد کی انفرادی ٹیسٹ اننگ کھیلنے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں سب سے حیرت میں مبتلا کردینے والا نام پاکستانی فاسٹ باؤلنگ لیجنڈ وسیم اکرم کا ہے جنہوں نے اکتوبر 1996ء میں شیخوپورہ کے میدان پر زمبابوے کے خلاف ناقابلِ شکست رہتے ہوئے 257 رنز جوڑے تھے۔ وسیم اکرم نے اپنی اس اننگ میں 12 چھکے بھی لگائے تھے جو آج بھی کسی ٹیسٹ اننگ میں سب سے زیادہ چھکوں کا ریکارڈ ہے۔
کس کھلاڑی نے ٹیسٹ اننگ میں سب سے زیادہ چوکے لگائے؟
چھکوں کی بات ہوئی تو چوکوں کی بھی ہونی چاہیے۔ انگلینڈ کے جان ایڈرچ نے 1965ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف 310 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگ کے دوران 52 چوکے مارے تھے, جی ہاں 52 چوکے۔ یہ ایک اننگ میں کسی بھی کھلاڑی کی جانب سے سب سے زیادہ چوکوں کا عالمی ریکارڈ ہے۔ بلکہ اب تک ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا یہ واحد موقع ہے جب 50 یا زائد چوکے لگائے گئے۔
300 رنز کے قریب پہنچ کر کونسے کھلاڑی ہمت ہار گئے؟
250 رنز کی طویل مسافت طے کرنے کے بعد بہت سے بلے باز ٹرپل سنچری یعنی 300 رنز کے جادوئی ہندسے کو چُھونے کی بھی سعی کرتے ہیں جس میں کچھ کامیاب رہتے ہیں، اور کچھ وہاں آکر ہمت ہار جاتے ہیں کہ جہاں 'دو چار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا' والا معاملہ ہوتا ہے۔
اب تک 7 کھلاڑی 290 کے نروس نائنٹیز کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان میں کچھ بڑے نام بھی شامل ہیں جیسے کہ سر ڈان بریڈ مین، سر ویوین رچرڈز، سر الیسٹیر کک، مارٹن کرو، وریندر سہواگ اور روس ٹیلر وغیرہ۔ ان میں آنجہانی مارٹن کرو 299 رنز بناکر آؤٹ ہوئے تھے۔ اب اس سے بُرا کیا ہوسکتا ہے؟ شاید 299 رنز پر ناٹ آؤٹ رہ جانا جبکہ باقی ٹیم آؤٹ ہوجائے جیسا کہ سر ڈان بریڈمین کے ساتھ 1932ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف ہوا۔
لٹل ماسٹر حنیف محمد کی یادگار اننگ
ان 99 بہترین اننگز میں 'لِٹل ماسٹر' حنیف محمد کی 337 رنز کی شاہکار اننگ بھی شامل ہے جو انہوں نے 1958ء میں دورہ ویسٹ انڈیز کے دوران برج ٹاؤن میں فالو آن کے بعد میچ بچاتے ہوئے کھیلی تھی۔ ان کی یہ اننگ 970 منٹ یعنی 16 گھنٹے اور 10 منٹ پر محیط تھی۔ ارتکاز، مہارت اور فٹنس کا ایسا بہترین اور کارآمد امتزاج شاید ہی کبھی دوبارہ دیکھنے کو ملے۔
سابق آسٹریلوی کپتان مارک ٹیلر کا حیرت انگیز فیصلہ
سابق آسٹریلوی اوپنر مارک ٹیلر کا نام بھی اس فہرست کا حصہ ہے۔ 1998ء میں پاکستان کے خلاف پشاور اسٹیڈیم میں جب دوسرے دن کا کھیل اختتام پذیر ہوا تو مارک ٹیلر 334 رنز بناکر ناٹ آؤٹ تھے اور برائن لارا کے 375 رنز کے اس وقت کے عالمی ریکارڈ سے محض 41 رنز کی دُوری پر تھے۔
مگر مارک ٹیلر جو خود آسٹریلوی ٹیم کے کپتان بھی تھے، انہوں نے تیسری صبح مزید بیٹنگ کرنے کے بجائے اننگز ڈیکلیئر کرنے کا اعلان کردیا کیونکہ 334 رنز کا اسکور اتفاق سے مارک ٹیلر کے ہیرو سر ڈان بریڈمین کا بھی سب سے زیادہ اسکور تھا۔ مارک ٹیلر کا کہنا تھا کہ عالمی ریکارڈ تو بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں مگر 334 رنز پر ڈان کے ذکر کے ساتھ ہمیشہ ان کا ذکر بھی آئے گا جس کی انہیں زیادہ خوشی ہوگی۔
برائن لارا کی 400 رنز کی اننگ کو کیسے بھول سکتے ہیں؟
ان ساری باتوں میں ہم کس طرح برائن لارا کی ناقابلِ شکست 400 رنز کی اننگ کو بھول سکتے ہیں جو انہوں نے 04ء-2003ء میں انگلینڈ کے خلاف سینٹ جونز کے میدان پر بنائی تھی۔ اگرچہ اس میچ کا نتیجہ تو کوئی نہیں نکل سکا تھا مگر اس میچ میں ایک تاریخی ریکارڈ بن گیا تھا جو اب تک قائم ہے اور بظاہر ٹوٹتا ہوا دکھائی بھی نہیں دے رہا۔
اس اننگ کی خاص بات یہ بھی تھی کہ ویسٹ انڈیز 4 میچوں پر مشتمل ٹیسٹ سیریز میں کلین سوئپ سے بچ گیا کیونکہ اس سے پہلے کھیلے گئے تینوں میچوں میں انگلینڈ کو کامیابی نصیب ہوئی تھی۔
99 اننگز پر مشتمل اس فہرست کی ہر سنچری ہی اپنے اپنے حالات میں ایک زبردست اور شاندار کارکردگی رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 250 رنز کی 100ویں انفرادی اننگ کھیلنے کے سنہری سنگِ میل کو کون عبور کرتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ایسی 100ویں اننگ صرف رنز کا ایک پہاڑ ہی نہ ہو بلکہ میچ کی سمت بدل دینے والی اور ناممکن کو ممکن بنا دینے والی کاوش بھی ہو کیونکہ ریکارڈز میں دلچسپی کا عنصر ان کے کسی جذباتی کیفیت سے منسلک ہونے سے ہی آتا ہے۔
لکھاری اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ مطالعے کا ذوق رکھتے ہیں اور کرکٹ اور اس کے اعداد و شمار سے لگاؤ رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔