نقطہ نظر

موسمیاتی تبدیلی کس طرح پاکستان میں خوراک کا بحران پیدا کرسکتی ہے؟

ضروری ہے کہ ہنگامی حالات کی منصوبہ بندی اس خیال کے ساتھ کی جائے کہ شدید موسمی حالات کا سامنا اب کبھی کبھار نہیں بلکہ اکثر ہوگا۔

گزشتہ ماہ جب لاہور کو ایک بار پھر دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا تو حیران کن طور پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اپنی دولت کی نمائش کا شوق لیے خاندان کی شادیوں میں شرکت کرنے بڑی تعداد میں وطن آئے اور شادیاں بھی جاری رہیں۔ کسی کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ بچے اسکول نہیں جاسکتے یا پھر شہر کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پروازوں کی آمد و رفت ممکن نہیں ہے۔

کوئی اس بات پر توجہ نہیں دے رہا تھا کہ قدرت ہم سے کچھ کہہ رہی ہے، وہ ہماری توجہ کی متقاضی ہے اور ہماری عادتوں اور طرزِ عمل میں تبدیلی کی خواہاں ہے۔

گزشتہ ہفتے جب مری میں برف باری کی پیش گوئی کی گئی تو شہر سے کئی لوگوں نے اپنی اسموگ زدہ زندگی سے دُور مری کا رخ کیا۔ مری جانے والی سڑک پر ہزاروں افراد شدید برف باری میں اپنی گاڑیوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ ان میں ہزاروں افراد میں سے خواتین اور بچوں سمیت 20 سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

یہ دونوں حالات ویسے تو ایک دوسرے سے تعلق نہیں رکھتے لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا ہی نتیجہ ہیں۔ چاہے وہ سمندروں کے درجہ حرارت بڑھنے کے سبب تقریباً ہر سال کراچی میں سیلاب کا باعث بننے والی بارشیں ہوں یا پھر ماحول میں جمع ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ، جس نے موسموں کی ترتیب کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔

مزید پڑھیے: ماحولیات پر ہونے والا اجلاس احمقانہ کوشش سے کم کیوں نہیں؟

عالمی بینک کے مطابق جنوبی ایشیا کا ماحولیاتی نظام آلودگی کا شکار ہورہا ہے اور یہاں رہنے والے 80 کروڑ افراد ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثر ہوں گے۔ 2030ء تک اس خطے میں موحولیاتی تبدیلی سے ہونے والے معاشی نقصانات سالانہ 160 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ مزید خطرے کی بات یہ ہے کہ 2050ء تک جنوبی ایشیا کے 4 کروڑ افراد ماحولیاتی پناہ گرین بن جائیں گے اور اس تلاش میں در بدر پھریں گے کہ کوئی ملک انہیں پناہ دے دے۔

حال ہی میں ایک مضمون میں ڈیریئن گیپ عبور کرنے والے مہاجرین کے حوالے سے معلومات شائع کی گئی ہیں۔ ڈیریئن گیپ پاناما اور کولمبیا کی سرحد پر واقع ایک گھنا جنگل ہے۔ ان مہاجرین میں بنگلہ دیشی، پاکستانی اور افغانی لوگوں کے گروہ بھی شامل تھے۔ ان کی روایتی کھیتی باڑی ختم ہونے کے بعد ان کے گھر والوں نے کسی طرح رقم جمع کرکے ایک ایسے شخص کو ادائیگی کی جس نے انہیں کسی جگہ پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔ معلوم نہیں وہ کیا جگہ تھی بہرحال وہ وسط امریکا کے راستے امریکا پہنچنا چاہتے تھے، لیکن وہ ناکام رہے۔

سانحہ مری جیسے واقعات فوری طور پر غم و غصے کو ہوا دیتے ہیں۔ لوگ اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ اس پیچیدہ واقعے کا ذمہ دار کون ہے کہ جس میں مقامی اور قومی ایمرجنسی اداروں کی ناکامی شامل ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس ایمرجنسی فریم ورک کو کبھی ’ماحولیاتی تبدیلی‘ کو مدِنظر رکھتے ہوئے تیار ہی نہیں کیا گیا تھا۔

موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہنگامی حالات کی منصوبہ بندی اس خیال کے ساتھ کی جائے کہ شدید موسمی حالات کا سامنا اب کبھی کبھار نہیں بلکہ اکثر کرنا پڑے گا۔ وہ سیلاب جو کبھی 10 سال میں ایک مرتبہ آتا تھا وہ اب ہر سال آئے گا۔ اب موسمِ سرما میں کئی مرتبہ ریکارڈ برفباری ہوگی۔

مزید پڑھیے: سالنامہ: ماحولیاتی اعتبار سے پاکستان ایک عالمی رہنما کے طور پر سامنے آیا

اس قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے غریب ممالک کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے زیادہ سے زیادہ قرضہ لینا پڑے گا۔ امید ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ مختلف سابق اور موجودہ سرکاری افسران کے بچے ان قرضوں سے حاصل ہونے والی رقم کو ہاورڈ میں اپنی تعلیم اور اپنی شاندار شادیوں کے لیے خرچ کریں۔

تاہم اس مقصد کے لیے قرض لینے کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان موسمی آفات کی تعداد میں اب اضافہ ہوتا جائے گا اور ساتھ ہی جنوبی ایشیا میں امیروں اور غریبوں کے درمیان دولت کا فرق بھی بڑھتا جائے گا۔ یہ ایک مسئلہ ہے کیونکہ ہنگامی خدمات، قدرتی آفات کے انتظام اور ان سے بچاؤ اور اس حوالے سے عوامی آگہی ایسی چیزیں ہیں جن میں سرمایہ کاری کرنے سے کسی کو فائدہ نہیں ہوتا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتیں اس حوالے سے کم سے کم سرمایہ کاری کریں گی کیونکہ اسے سیاستدان کسی بھی طرح اپنی کامیابی قرار نہیں دے سکتے۔ مثال کے طور پر بھارتی سیاستدانوں نے آلودگی کم کرنے کے بل پر دستخط سے انکار کردیا جبکہ بھارت میں لاکھوں لوگ سانس سے متعلق مسائل کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ وہی ہے جس کا ابھی ذکر ہوا کہ اگر کوئی گاڑی برفیلی سڑک پر چل سکے گی یا پھر کسی بچے کو سانس کی بیماری سے بچایا جاسکے گا تو اس سے سیاستدان کو کیا فائدہ ہوگا؟

جنوبی ایشیا کے لیے صرف موسمی حالات ہی مشکلات نہیں کھڑے کریں گے بلکہ دریاؤں میں پانی کی کمی اور خشک سالی کے باعث غذائی قلت اور زمینی حالات کی تبدیلی کا بھی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ یہاں ملکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور برآمدات کا انحصار زرعی شعبے پر ہی ہے۔ جس وقت تک حکومت (چاہے کسی بھی جماعت کی حکومت ہو) کو ہوش آئے گا اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

مری میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد ہمیں اب اس بات کا احساس کرلینا چاہے کہ ہمارا نظامِ حکومت اس قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مری میں یہ برفانی طوفان معمول سے ہٹ کر نہ ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت جن اقدامت پر غور کررہا ہے تیزی سے بدلتے ہوئے ماحولیاتی حالات کا دباؤ اس سے کہیں زیادہ اقدامات کا متقاضی ہے۔

مزید پڑھیے: ’کراچی نہ پہلے بارشوں کے لیے تیار تھا، نہ اب ہے‘

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ موسمی تبدیلی ایک، 2 یا 10 تباہ کن واقعات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ موجودہ نظام پر ان واقعات کے مجموعی دباؤ کا نام ہے۔ بدانتظامی اور ناقص شہری انتظام کے ساتھ مل کر اس کے نتائج مہلک اور تباہ کن ہوسکتے ہیں۔

پاکستان میں اکثر افراد موسمی تبدیلی پر یقین نہیں رکھتے۔ ماحولیاتی تباہی کے بارے میں خدشات کے ساتھ انفرادی واقعات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے درمیان تعلق کو اجتماعی شعور کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ساحلی شہر تو شہری حکومتوں کی ناکامی اور موسمی تغیر کے بدقسمت امتزاج کا شکار ہیں لیکن لگتا ہے کہ اسلام آباد کے قریب رہنے والوں کو کوئی دوسری ہی صورتحال درپیش ہے۔

انفرادی موسمی واقعات کے تباہ کن نتائج سے بچنے کا راستہ اس بات کو سمجھنے میں ہے کہ ان دونوں نے کس طرح موجودہ موسمی حالات کو پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔


یہ مضمون 12 جنوری 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔