’یہ برف نہیں تھی، آسمان سے موت گر رہی تھی‘
وزیر 'باتدبیر' فواد چوہدری کا جب دھمال ڈالتا ٹوئٹ سامنے آیا کہ لاکھوں لوگ برف باری دیکھنے مری پہنچ گئے ہیں لہٰذا ان کے دورِ اقتدار میں معیشت دن دوگنی پروان چڑھ رہی ہے، تو واقفانِ حال نے دل تھام لیا کہ خدا خیر کرے۔
کیونکہ یہ لفظ 'لاکھوں' وہ خطرے کی گھنٹی تھی جسے شاید کسی نے نہیں سنا، نہ سیاحوں نے، نہ ہی انتظامیہ نے اور نہ ہی موصوف وزیر صاحب نے کوئی نوٹس لیا اور یوں 7 اور 8 جنوری کی درمیانی رات طوفانی برف باری کے دوران اس المیے نے جنم لیا جس میں خاندان کے خاندان موت کی نیند سو گئے اور وائے افسوس کہ دارالحکومت اسلام آباد سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت کے باوجود ان بے بس لوگوں تک کوئی مدد نہیں پہنچ سکی اور 21 لوگ جان کی بازی ہار گئے۔
پہاڑوں کے دامن میں واقع تحصیل مری میں 4 ہزار گاڑیوں سے زیادہ پارکنگ کی جگہ اور 25 ہزار سے زائد لوگوں کے ٹھہرنے کے لیے گنجائش نہیں ہے لیکن اس کے باوجود گاڑیوں کی اس بڑی تعداد کو مری میں داخلے پر کہیں کسی نے نہیں روکا اور بلا مبالغہ ایک لاکھ گاڑیاں 7 جنوری کو اس چھوٹی سی وادی کی سڑک پر موجود تھیں۔
مری کے قریب کلڈنہ کے مقام پر ایک چھوٹے سے گاؤں کے رہائشی صابر* نے فون پر بتایا کہ 'اس رات برف کی رفتار بہت تیز تھی، میری عمر 60 سال ہے لیکن ایسی برف باری ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔ ایسی تیز برف گر رہی تھی جیسے میدانی علاقوں میں طوفانی بارشیں ہوتی ہیں'۔
صابر کی آواز میں ابھی بھی خوف نمایاں تھا 'ہر طرف اندھیرا تھا، صرف برف گرنے کی آواز تھی۔ یہ برف نہیں تھی، آسمان سے موت گر رہی تھی اور جس کی لکھی تھی وہ وہاں خود چل کر پہنچے تھے'۔ انہوں نے مزید بتایا کہ 'ہم گھروں میں دبکے ہوئے لوگ خوفزدہ تھے تو سڑکوں پر موجود لوگوں کا کیا حال ہوگا۔ پھر بھی ہمارے گاؤں کے کچھ لڑکے سیاحوں کی مدد کے لیے نکلے تھے مگر افسوس کہ برف اور رات کے اندھیرے میں کچھ نہیں کیا جاسکا'۔
اسسٹنٹ کمشنر مری محمد عمر مقبول مقامی شہری صابر کی بات کی تائید کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’تمام مقامی لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ برف باری بہت تیز تھی۔ ہم نے 3 ہفتے پہلے سوشل میڈیا اور مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے ایڈوائزری دی تھی اور کنٹرول روم، ڈی ایس پی اور میرا نمبر بھی شیئر کیا تھا کہ سفر سے پہلے موسم کی معلومات لے لیں، ہوٹل کی بکنگ بھی کروا کر نکلیں لیکن لوگوں نے برف باری دیکھنے کے شوق میں کوئی ہدایات نہیں دیکھیں اور جہاں صرف 4 ہزار گاڑیاں آسکتی ہوں وہاں ایک لاکھ پہنچ جائیں تو پھر کیا ہوگا؟‘
پنجاب محکمہ موسمیات کے ریجینل ڈائریکٹر چوہدری محمد اسلم کا کہنا ہے کہ ’اس بار برف باری کا سسٹم شدید (ڈیپ) تھا، جس سے درجہ حرارت بھی نیچے آگیا تھا۔ عموماً مری میں سالانہ 64 انچ برف باری کا اوسط ریکارڈ ہے، لہٰذا موسم کی اس کیفیت کو ہم شدید تو کہہ سکتے ہیں لیکن غیر معمولی نہیں۔ اس حوالے سے ہم نے جنوری میں الرٹ جاری کردیا تھا‘۔
گلیات ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان احسن حمید کے مطابق ’یہ برف باری 4 روز سے جاری تھی، گلیات میں صرف ایک روز میں 3 فٹ برفباری ہوئی جبکہ دوسرے اسپیل کے دوران ہونے والی برفباری مجموعی طور پر ڈھائی فٹ تھی جس نے نظامِ زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو چاہے کشمیر جانا ہو، گلیات یا پھر خیبر پختونخوا، یہی مری روڈ استعمال ہوتا ہے لہٰذا اس پر رش تو ہونا ہی تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’زیادہ اموات کلڈنہ پر موجود گاڑیوں میں ہوئیں جو مری اور گلیات کے درمیان ایک مقام ہے۔ قیاس یہی ہے کہ سڑک پر ٹریفک جام ہونے پر مسافروں نے اپنی کاروں میں بیٹھنے ہی کو بہتر جانا اور غالباً گیس ہیٹر آن کردیا۔ زیادہ تر اموات کا سبب کاربن مونو آکسائیڈ ہی ہوسکتی ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اب سڑکوں سے تقریباً برف کو ہٹا دیا ہے۔ ہوٹل مالکان سے بھی رابطے میں ہیں کہ جو سیاح رکنا چاہتے ہیں انہیں بلا قیمت رہائشی سہولیات مہیا کی جائیں۔ ہم کسی کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے‘۔
یہ سچ ہے کہ اس سانحے کے وقوع پذیر ہونے میں بہت سے عوامل نے اپنا کردار ادا کیا جن میں انتظامیہ سب سے زیادہ ذمے دار ہے۔ جس وقت ایک لاکھ گاڑیوں کے مری میں داخلے پر ڈھول پیٹے جارہے تھے اسی وقت انتظامیہ کو ہائی الرٹ ہوجانا چاہیے تھا کہ ایک لاکھ گاڑیاں رکیں گی کہاں۔ وہ کوئی میدانی علاقہ نہیں کہ کہ کسی میدان یا پارک میں گاڑی پارک کردی جائے گی۔ تعداد پوری ہوجانے کے بعد ان گاڑیوں کو ٹول پلازہ پر ہی روک دینا چاہیے تھا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ان ہلاکتوں کی وجہ ہائپوتھرمیا یعنی شدید ٹھنڈک میں اعضا کا فریز ہوجانا، یا یہ کاربن مونو آکسائیڈ کے سبب دم گھٹنے سے ہوئی ہیں۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ذمے دار انتظامیہ ہی ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ موجودہ حکومت نے سیاحت کے شعبے پر بہت توجہ دی ہے اور سیاحوں خاص طور پر غیر ملکیوں کے لیے بہت سی سہولیات اور آسانیاں مہیا کیں جن میں آن لائن ویزا سب سے اہم ہے۔ ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ بالآخر پاکستان کو عالمی سطح پر سیاحوں کا پسندیدہ مقام قرار دیا گیا۔
اس حوالے سے پاکستان آنے والی عالمی شخصیات میں فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کی بہن رینڈی زکربرگ اور برطانیہ کے شاہی جوڑے شہزادی کیٹ مڈلٹن اور شہزادے ولیم شامل ہیں۔ ان کی آمد سے پاکستان کے ایک محفوظ ملک ہونے کا تاثر اجاگر ہوا۔ حکومت کو امید ہے کہ سیاحت کی صنعت ایک اندازے کے مطابق 2025ء تک ایک کھرب ڈالرز ریونیو پیدا کرنے کے قابل ہوجائے گی۔
سیاحت کے حوالے سے معاشی سرگرمیوں کی رفتار اطمینان بخش ہے اور 2019ء میں تقریباً ایک ارب ڈالرز کا غیر ملکی زرِ مبادلہ حاصل ہوا تھا۔ مقامی حوالے سے آمدنی کے اعداد و شمار اگرچہ دستیاب نہیں ہیں لیکن اگر سیاحوں کی بات کی جائے تو ان کا تخمینہ 60 لاکھ بنتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود حکومت سیاحت کے لیے کوئی مؤثر نظام وضح کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے۔ مری میں سڑکوں پر ہونے والی یہ اموات یقیناً ایک منفی پیغام بن کر دنیا تک پہنچی ہیں۔ جو حکومت ایک چھوٹی سی تحصیل مری کو نہیں سنبھال سکتی وہ پوری سیاحتی صنعت کو کیا سنبھال پائے گی؟ آنے والے وقتوں میں حکومت کے سامنے یہ سوال اور تنقید بار بار آئے گی۔
دوسرا بڑا عنصر ہوٹلوں کے مالکان کا تھا جنہوں نے 3 ہزار والے کرائے 50 ہزار کردیے تھے۔ بلیک میلنگ کا یہ انداز یقیناً حکومتی نااہلی کو ہی ظاہر کرتا ہے۔ اس حوالے سے بھی کسی میکنزم کی ضرورت ہے جو اس طرح کی صورتحال میں کام کرسکے۔
اگرچہ پاکستان کے تمام پہاڑی علاقے سیاحت کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔ بلند و بالا پہاڑ، دودھیا گلیشیئر، شفاف پانی سے لبریز دریا، جھاگ اڑاتے جھرنے، نیلگوں جھیلیں، آئینہ تمثال چشمے غرض یہ کہ قدرت کی فیاضی اور دلفریبی قدم قدم پر آپ کا دامن تھام لیتی ہے۔ ہر مقام اپنی مثال آپ ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو مری عموماً سیاحوں کا پسندیدہ مقام ٹھہرتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پہنچنا آسان ہے۔ راستے صاف اور سڑکیں بہترین ہیں۔ اسلام آباد سے گھنٹے بھر کی ڈرائیو کے بعد مری پہنچا جاسکتا ہے۔ اس بار برف باری کا یہ اسپیل ویک اینڈ کے ساتھ ہم آہنگ تھا لہٰذا سیاحوں کی تعداد بڑھ گئی۔
سسٹین ایبل ٹؤرازم فاؤنڈیشن کے سربراہ آفتاب رانا کا کہنا ہے کہ ’اب سیاحت کے فروغ کی نہیں بلکہ انتظام کی ضرورت ہے کیونکہ تشہیر کا سارا کام سوشل میڈیا نے سنبھال لیا ہے۔ لوگ اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں جنہیں دیکھ کر دوسروں کو بھی ترغیب ملتی ہے یوں ان خوبصورت مقامات کے حُسن کے اسیر ہوکر جانے والوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ’سیاحوں کی زیادہ تعداد نے طلب اور رسد کے فرق کو واضح کیا ہے۔ جس تعداد میں سیاح آرہے ہیں اس تناسب سے سہولتیں موجود نہیں ہیں اس لیے مسائل پیدا ہورہے ہیں‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مری وہ واحد مقام ہے جہاں ایجنٹ سسٹم موجود ہے۔ یہ ایجنٹ سیاحوں کو گھیر کر ہوٹلوں تک لاتے ہیں۔ پھر جب سیاح ہوٹل کے معیار کو اپنی مرضی کا نہیں پاتے تو لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ ہوٹل والے پہلے سے بکنگ نہیں کرتے آپ جب خاندان کے ساتھ ہوٹل پہنچ جاتے ہیں تو پھر من مانے نرخ وصول کیے جاتے ہیں۔ جو سیاح خاندان کے ساتھ سفر کرتے ہیں وہ زیادہ پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس روز بھی غالباً یہی ہوا کیونکہ سوشل میڈیا پر سیاحوں کی ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ یہی شکایت کررہے کہ ہوٹل والے من مانے کرائے وصول کررہے ہیں لہٰذا لوگوں نے گاڑی میں رات گزارنے کو ترجیح دی‘۔
صرف مری ہی نہیں اکثر مقامات پر یہی حال ہے۔ ہوٹلوں کی تعداد کم ہونے کے باعث لوگ من مانے نرخ مقرر کرلیتے ہیں۔ کھانوں کے معیار کے حوالے سے بھی بہت سی شکایات مل رہی ہیں۔
کچھ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاحتی مقامات پر ہوٹل کی صنعت بغیر کسی قانون کے چل رہی ہے۔ کوئی لائسنس نہیں لیا جاتا، نہ یہ کاروبار کہیں رجسٹرڈ ہوتا ہے۔ 1974ء میں ہوٹل ایکٹ پاس ہوا تھا۔ جس کے تحت ہوٹل کھولنے سے پہلے سرکار سے اجازت لینا ضروری تھا۔ دنیا بھر میں یہ مضبوط ترین ادارہ ہوتا ہے۔ یہ سختی سے مانیٹرنگ کرتا ہے کہ ہوٹل کے کمروں کی گنجائش کیا ہے، واش روم کتنا بڑا ہوگا، صفائی کا معیار کیا ہے، پانی ہے یا نہیں۔
اسی ادارے کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ہوٹل میں موجود سہولیات کے اعتبار سے اس کی ریٹنگ طے کرے کہ یہ ون اسٹار ہے یا ٹو اسٹار ہے۔ اسی حساب سے کمروں کے کرائے مقرر کیے جاتے ہیں کہ آف سیزن میں کرایہ کیا ہوگا اور سیزن میں کتنا ہوگا۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے اس لیے ہوٹل اپنی من مانی کرتے ہیں۔ ہماری مقامی سیاحت تیزی سے ترقی کررہی ہے لیکن چونکہ اداروں کی جانب سے کوئی مربوط اور منظم نگرانی کا نظام موجود نہیں ہے لہٰذا اس سیاحت سے فائدے کی جگہ نقصان ہورہا ہے مثلاً سیاح بلا روک ٹوک کہیں بھی کیمپنگ کرلیتے ہیں یا پھر آگ جلا لیتے ہیں جس سے قیمتی جڑی بوٹیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔
ہوٹل اپنا کچرا اور فضلہ آبی ذخائر میں بہادیتے ہیں۔ قیمتی اور کمیاب درخت بلا دریغ کاٹ دیے جاتے ہیں۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ایک 'ڈسٹینیشن منیجمنٹ کمیٹی' تشکیل دے جس میں تمام محکمے مثلاً جنگلات، جنگلی حیات وغیرہ کے نمائندے اور پرائیویٹ سیکٹر کے نمائندے بھی شامل ہوں اور مل کر سیاحتی گائیڈ لائنز مرتب کی جائیں جن پر عمل درآمد لازمی قرار دیا جائے۔
کیا احتیاطی تدابیر ہوسکتی ہیں؟
ایسے تمام لوگ جو برف باری دیکھنے جارہے ہوں، وہ
- موسم کی صورتحال ضرور معلوم کرلیں،
- گرم کپڑے، چھاتہ اور ضروری دوائیں اپنے ساتھ رکھیں،
- گاڑی فور بائی فور ہونی چاہیے جس کی کنڈیشن بہتر بھی ہو،
- فیول وافر مقدار میں ہو،
- برف میں چلنے کے لیے ٹائروں میں چین ضرور ہونی چاہیے، اور
- گھر سے نکلنے سے پہلے ہوٹل میں بکنگ ضرور کی جائے۔
برف باری کے بعد جب ہوا چلتی ہے تو برف کسی شیشے کی طرح سخت ہوجاتی ہے اور پھسلن کا باعث بنتی ہے اور اس پر عام جوتے پہن کر نہیں چلا جاسکتا لہٰذا بہتر ہے کہ ان حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مخصوص جوتے ہی استعمال کیے جائیں۔ اس کے باوجود اگر گاڑی میں ہی رکنا پڑجائے تو ہیٹر آن کرکے شیشے مکمل بند نہ کریں کیونکہ اگر نکاس پائپ برف سے بند ہوجائے تو کاربن مونو آکسائیڈ باہر نکلنے کے بجائے گاڑی کے اندر ہی بھرتی رہے گی۔ یہ قاتل گیس بے بُو ہوتی ہے اور بڑی میٹھے انداز میں پہلے انسان کو غنودہ، پھر بے ہوش اور پھر موت کی نیند سلادیتی ہے۔
گاڑیاں غلط پارک نہ کی جائیں تاکہ ٹریفک بلاک نہ ہو اور ہوٹلوں کی تلاش میں جگہ جگہ پھرنا نہ پڑے۔
آفتاب رانا کا کہنا ہے کہ ’ایسے شدید موسم میں ہجومی سیاحت (Mob Tourism) سے پرہیز کریں۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی بنا پلاننگ کے گھر سے نہ نکلیں۔ آپ اپنا پیسہ اور وقت محفوظ اور بہتر طریقے سے استعمال کریں اور اپنے سفر کو زندگی کا خوبصورت اور یادگار سفر بنائیں بجائے اس کے کہ وہ آخری سفر بن جائے‘۔
شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔