کیا شاہ جہاں نے واقعی تاج محل بنانے والوں کے ہاتھ کاٹے تھے؟
جب بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے واراناسی میں کاشی وشو ناتھ راہداری کے پہلے مرحلے کے افتتاح کے موقعے پر صفائی کے ملازمین پر تشکرانہ انداز میں پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں تو بھارتیہ جنتا پارٹی (بے جے پی) کے رہنماؤں اور مودی حامی میڈیا نے اس عمل کا شاہ جہاں سے منسوب تاج محل کے مزدوروں کے ہاتھوں کو کاٹے جانے کے قصے سے موازنہ شروع کردیا۔ واضح رہے کہ (اس منصوبے کا مقصد وہاں موجود مندر کو گنگا کنارے موجود گھاٹوں سے جوڑ کر زائرین کے لیے سہولیات فراہم کرنا ہے)۔
کہا جاتا ہے کہ شاہ جہاں نے مزدوروں کے ساتھ ایسا بے رحمانہ سلوک اس لیے کیا تھا تاکہ پھر کبھی کوئی تاج محل جیسی یادگار نہ بنا سکے۔
تاہم ایلٹ نیوز کے ایک کالم میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ شاہ جہاں نے مزدوروں کے ہاتھ کاٹے تھے اور یوں لگتا ہے کہ یہ واقعہ تاریخ کے کسی موڑ پر گھڑ لیا گیا تھا۔
مزید یہ کہ اگر ایک لمحے کے لیے یہ فرض کرلیا جائے کہ شاہ جہاں نہیں چاہتا تھا کہ اس جیسی کوئی دوسری یادگار بنے تو بھی عقل نہیں مانتی کہ اس عمل سے ان کا یہ مبیّنہ مقصد پورا ہوجاتا۔ کیوں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ تاج محل کی خوبصورتی اور عمدگی درحقیقت اس عمارت کو ڈیزائن کرنے والے کے تصور، تخیل اور جمالیاتی سوچ کا بیرونی مظہر ہے۔ چنانچہ اگر شاہ جہاں کو نشانہ بنانا ہی تھا تو اس عمارت کے آرکیٹیکٹ کو بناتا۔
آرکیٹیکٹ کی مہارت کا کمال منصوبے کی تخلیقیت، ڈیزائن اور اس بات میں نظر آتا ہے کہ اپنے ڈیزائن اور منصوبے کے ذریعے وہ کس قدر اپنے تخیل اور جمالیاتی سوچ کے اظہار میں کامیاب رہے ہیں۔ لیکن جب پہلی بار یہ کام ہوگیا تو اب منفرد طرزِ تعمیر کی حامل تاج محل کی عمارت بن جانے کے بعد اس طرح کی معماری سے نابلد منصوبہ کاروں اور ڈیزائنروں کے لیے بھی اسی طرح کی عمارت کھڑی کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی۔ مزدور، نقاش، سنگ تراش و دیگر وہی کام انجام دیتے ہیں جس کی ہدایت آرکیٹیکٹ دیتا ہے (یہاں ان کاریگروں کی کاریگری کو معمولی بتانا ہرگز مقصود نہیں کیونکہ اس طرح کے نفیس کاموں کے لیے زبردست ہنر مطلوب ہوتا ہے)۔
یونیسکو نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ تاج محل کی عمدگی دراصل شاہ جہاں کے لیے کام کرنے والے باغبانی کے منصوبہ کاروں اور آرکیٹیکٹوں کی بے مثال تخلیقی سوچ کا ثمر ہے۔ آرکیٹیکٹ کے تخیل میں بننے والے محرابوں اور گنبدوں کے خاکوں نے حقیقت کا روپ دھار کر عمارت کی جمالیاتی حُسن کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تاج محل کے منصوبے کے لیے آرکیٹیکٹوں کا پورا بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس کے سربراہ استاد احمد لاہوری تھے۔
اگر شاہ جہاں اس جیسی دوسری عمارت کے وجود میں آنے کے مخالف تھے تو پھر آرکیٹیکٹ بھی ان کے ظلم سے نہیں بچیں ہوں گے۔
تاریخی عمارتوں سے منسوب قصے
فن اور فنِ تعمیر کی آسٹرین تاریخدان ایبا کوچ مغل فنِ تعمیر پر سند رکھتی ہیں۔ وہ اپنی کتاب The Complete Taj Mahal and the Riverfront Gardens of Agra میں اس قصے کو تاج محل کی سیر کروانے والے 'گائیڈوں کی کہانی' قرار دیتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ اس کہانی کا موازنہ Motif-Index of Folk-Literature کے مصنف اسٹتھ تھامسن کے مرتب کردہ قصوں سے کرتی ہیں۔
تھامسن کی تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے وہ (شاہ جہاں سے منسوب قصے کے علاوہ) اس سے ملتے جلتے 3 قصوں کا ذکر بھی کرتی ہیں:
- تاریخ میں ایسا بھی ہوا ہے کہ شاندار عمارت کی تکمیل کے بعد بادشاہ نے آرکیٹیکٹ کو قتل کردیا تاکہ وہدوبارہ اس قدر شاندار عمارت تعمیر نہ کرسکے۔
- ایک اور قصے میں جس دستکار نے محل کو تعمیر کیا ان سے بینائی چھین لی گئی تاکہ وہپھر کبھی ایسا محل تعمیر نہ کرسکے۔
- ایک کہانی کے مطابق جن مزدوروں نے شہزادی کا مقبرہ تعمیر کیا تھا ان سب کے دائیں ہاتھ کوکاٹ دیا گیا تاکہ پھر کبھی ایسی نفیس عمارت تعمیر نہ کی جاسکے۔
ایسی ہی ایک کہانی ماسکو کے ریڈ اسکوائر پر واقع سینٹ باسل گرجے سے بھی منسوب ہے۔ اس عمارت کو قازان کی روسی زار ایوان کے ہاتھوں شکست کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ زار ایوان نے Posnik Yakovlev نامی اس عمارت کے آرکیٹیکٹ سے بینائی چھین لی تھی تاکہ وہ اس جیسا دوسرا شاندار چرچ تعمیر نہ کرسکے مگر تاریخ دان اس کہانی کی تصدیق نہیں کرتے۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شاہ جہاں نے آرکیٹیکٹوں کو بھی اپنے ظلم کا نشانہ بنایا تھا؟
اگر وہ واقعی یہ چاہتے تھے کہ اس جیسی دوسری عمارت پھر کبھی اس زمین پر نہ بنے تو ان کے لیے یہ کام زیادہ ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ وہ آرکیٹیکٹ ہی تھا جس کا اس عمارت کے تصور اور ڈیزائن میں مرکزی کردار رہا ہے۔
لہٰذا دورِِ حاضر کے مصنفین نے یہ کام بھی کرلیا اور ان کے مطابق شاہ جہاں کے ظالمانہ عمل سے آرکیٹیکٹ بھی نہیں بچ پائے تھے۔
ابتدائی طور پر تو بربریت کی کہانی محض مزدوروں تک محدود تھی لیکن حال ہی میں اس پر مزید مرچ مصالحہ لگا کر چیف آرکیٹیکٹ کو بھی شامل کردیا گیا کہ کہیں چند لوگ یہ سوچنا نہ شروع کردیں کہ آرکیٹیکٹ شاہ جہاں کے عتاب سے کیوں بچ نکلا تھا؟
جسٹن ہگلر (دی انڈیپینڈینٹ کے لیے 2004ء میں لکھے گئے اپنے مضمون میں) یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تاج محل کی تکمیل کے بعد لاہوری سے بینائی چھین لی گئی تھی۔
ایبا کوچ کی اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ ان باتوں کو تاریخی حقائق کے طور پر پیش کیا گیا اور آرکیٹیکٹ کو شامل کرکے معروف اخبارات کے صحافی اپنی رپورٹوں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔
کام کے قصے
ہندوتوا رہنماؤں اور ان کے حامیوں کی سوچ اور عمل میں مسلم اور عیسائی مخالفت کُھل کر سامنے آنے لگی ہے۔ وہ ایسے ظلم و ستم کے قصوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن کے ذریعے ان برادریوں سے تعلق رکھنے والے بادشاہوں کو وحشی صفت ظاہر کیا جاسکے۔
دوسری طرف اسی طرح کا ایک غیر مصدقہ قصہ کونارک مندر سے بھی منسوب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مندر کے معمار یعنی مشرقی گنگا خاندان کے بادشاہ نرسمہادیو اول نے مندر کی تعمیر کے حوالے سے ایک ظالمانہ شرط عائد کر رکھی تھی۔ انہوں نے مندر کی تکمیل کے لیے ڈیڈ لائن مقرر کی اور یہ دھمکی دی تھی کہ اگر مقررہ وقت پر تعمیر مکمل نہ ہوئی تو تمام مزدوروں کے سر قلم کردیے جائیں گے۔
بھلا دائیں بازو کے ہندوتوا گروہ مہا بھارت میں موجود اکلویہ کی کہانی پر کیا کہنا چاہیں گے جس کے مطابق درون اچاریہ نے اکلویہ (Ekalavya) سے بطور گروہ دکشنہ (حصول علم کے عوض استاد کو اعزازیہ ادا کرنے کی ہندو روایت) دائیں ہاتھ کا انگوٹھا مانگا تھا، حالانکہ انہوں نے کبھی اکلویہ کو رسمی طور پر تعلیم بھی نہیں دی تھی۔
دراصل انہیں فکر تھی کہ اگر اکلویہ لوگوں کی نظر میں آگئے تو ان کا چیلا ارجن عظیم تیر انداز ہونے کی حیثیت کھو دے گا۔ دراصل ایسی دردناک دکشنہ طلب کرنے کا مقصد ان (اکلویہ) کو تیراندازی کی فطری صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے باز رکھنا تھا۔
ہندو کرداروں کے ظالمانہ عوامل پر مشتمل دیومالائی کہانیاں اور قصے کسی کام نہیں آتے۔ البتہ شاہ جہاں کے حکم پر ہاتھ کاٹے جانے جیسی کہانیاں فرقہ واریت پھیلانے میں کافی مدد دیتی ہیں۔
یہ مضمون 2 جنوری 2022ء کو ڈان، ای او ایس میں شائع ہوا۔
لکھاری موہالی میں موجود انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ میں فلسفہ پڑھاتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔