نقطہ نظر

کمراٹ کی حسین وادی اور نایاب ہوتے مارخور کی فریاد

’میری نسل نایاب ہوچکی ہے۔ میں جس قوم کا فخر ہوں ان کو شاید میرا خیال ہی نہیں۔ کیا ان کی محبت لفظی یا زبانی حد تک ہی محدود ہے؟‘

دنیا میں ہر ملک کی پہچان وہاں کے عظیم انسانوں، پھلوں، پھولوں اور حتیٰ کہ جانوروں سے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کا قومی پھل، پھول اور جانور بھی ہوتا ہے۔

لیکن اس تحریر میں ہم ایک ایسے جانور کی فریاد پیش کررہے ہیں جسے ہم قومی جانور کا اعزاز تو پیش کرتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہمارا سلوک کچھ اچھا نہیں۔


’میں خود کو خوش نصیب تصور کرتا ہوں کہ مجھے اس پاک سرزمین کا قومی جانور سمجھا گیا۔ بلاشبہ مجھ پر پوری قوم نازاں ہے۔ دنیا کی معروف انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے نشان میں بھی مجھے دیکھا جاسکتا ہے۔ مجھے اس بات پر بھی فخر ہے کہ میں ان 72 جانوروں میں شامل ہوں جن کی تصاویر اقوامِ متحدہ کی عالمی تنظیم برائے جنگلی حیات کے 1976ء میں جاری کردہ خصوصی سکہ جات کے مجموعے میں شامل ہے۔ اس طرح کے اعزازات کے باوجود میرا دل بہت غمگین اور آنکھ اکثر پُرنم رہتی ہے کیونکہ میری نسل اس وقت جانوروں کی نایاب نسلوں میں شامل ہوچکی ہے۔ میں جس قوم کا فخر ہوں ان کو شاید میرا خیال ہی نہیں۔ کیا ان کی محبت لفظی یا زبانی حد تک ہی محدود ہے؟

’میں جنگلی بکریوں کی ایک قسم ہوں اور میر انام مارخور ہے۔ فارسی زبان میں مارخور سانپ کھانے والے کو پکارا جاتا ہے۔ مار کا مطلب ہے سانپ اور خور کا مطلب ہے کھانے والا۔ میری خوراک میں سبزی، جنگلی جڑی بوٹیاں اور سانپ شامل ہیں۔ سانپوں کے شکار کی صلاحیت اور سانپوں سے مشابہہ میرے خوبصورت سینگوں کی وجہ سے ہی مجھے یہ نام دیا گیا ہے۔

’مختلف مقامی زبانوں اور مختلف علاقوں میں مجھے دیگر ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ دیر کوہستان اور وادئ کمراٹ کے کوہستانی قبائل اپنی مادری زبان گاوری میں مجھے ’شرہ‘ کہتے ہیں جبکہ بلتی زبان میں ’ریداخ‘، پشتو میں ’مرغومی‘، لداخ کی مقامی زبان میں ’راپوچی‘ (نر مارخور) اور ’رواچی‘ (مادہ مارخور)، ہنزہ کی زبان بروشکی میں ’بوم‘، بروہی زبان میں ’زیکوہ‘، واخی زبان میں مقامی لوگ مجھے ’گھاش‘ اور ’موچ‘، چترالی لوگ مجھے ’ساره‘ اور ’مزہیگھ‘ کہتے ہیں جبکہ بلوچستان کے کچھ قبائل ’پاچن‘ اور ’بزخوئی‘ کے نام سے مجھے پکارتے ہیں۔

’پاکستان میں میری نسل بلند و بالا پہاڑوں کے امین گلگت بلتستان، کشمیر، کمراٹ، چترال اور کیلاش کی سرسبز وادیوں سمیت بلوچستان اور کوہ ہمالیہ کے مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہے جبکہ میرے کم یاب نسل کے کچھ جانور مقبوضہ کشمیر، تاجکستان، ازبکستان اور افغانستان میں موجود گھنے جنگلات و بلند پہاڑوں پر بھی رہتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں میری نسل کی 5 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں کشمیر مارخور، استور مارخور، بخاران مارخور، سلیمان مارخور اور کابل ایف مارخور شامل ہیں۔

’انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر اینڈ نیچرل ریسورسز (آئی یو سی این) نے ہماری نسل کو خطرے سے دوچار نسل کے جانوروں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میری بقا کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل قریب میں ہماری نسل اس زمین سے ختم ہوجائے گی۔

’خیبرپختونخوا کے محکمہ جنگلی حیات کی رپورٹ کے مطابق، 1993ء میں ہمارے پیارے پاکستان میں ہماری نسل کے 275 جانور تھے لیکن بعدازاں کچھ اداروں کی معاونت اور محکمہ جنگلی حیات کے اچھے افسران کی خدمات سے ملک میں مارخوروں کی آبادی 3 ہزار 500 ہوگئی تھی، اس تعداد کو دیکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے آئی یو سی این سے مارخوروں کی نسل کو ریڈ لسٹ سے نکالنے کی درخواست بھی کردی تھی۔

’محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے 2019ء میں کروائے گئے ایک سروے کے مطابق چترال کے گول نیشنل پارک میں مارخوروں کی تعداد 2 ہزار 868 تک پہنچ چکی تھی۔ اس رپورٹ کے اعداد و شمار جان کر نہ صرف میری نسل کے تمام جانور بلکہ تمام جانور دوست انسان خوشی سے سرشار ہوئے ہوں گے۔

’مگر افسوس کے ساتھ بتانا پڑ رہا ہے کہ گزشتہ 2 برسوں میں ہمارے غیر قانونی شکار اور قدرتی آفات جیسے سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ کے باعث صرف چترال کے گول نیشنل پارک میں مارخوروں کی تعداد 2 ہزار تک محدود ہوگئی ہے۔ یہ صورتحال میری نسل کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔ ہم میں سے نر مارخور صرف 9 سال تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی ہے تو اس کا جسم سکڑنا شروع ہوجاتا ہے لہٰذا یہ بھیڑیوں اور برفانی چیتے کے لیے آسان ہدف بن جاتا ہے۔

’تاہم ہمارا سب سے زیادہ شکار انسان ہی کرتے ہیں، اور یہ شکار شمالی علاقوں میں بھی بہت عام ہے۔ ہماری نسل کے شکار کے لیے مختلف علاقوں سے لوگ گلگت اور چترال آتے ہیں۔ مارخور کے شکار میں لوگوں کی دلچسپی کی وجہ ہمارا لذیذ اور صحت بخش گوشت ہے، ساتھ ہی ہماری کھالیں اور سینگ بھی لاکھوں روپے میں بکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ تقریباً ہر شکاری پہلے وار میں ہم کو مار کر ہماری سینگوں کی ٹرافی جیت کر دوسرے کو پیچھے چھوڑ دینے کا جذبہ رکھتا ہے۔

’دوسری جانب وہ جانور جو ہمارے نوجوان مارخور کا شکار کرتے ہیں ان میں گولڈن ایگلز، ہمالیائی لنکس، برفانی چیتے، بھیڑیے اور کالے ریچھ شامل ہیں۔ ہماری نسل کو ایک اور بڑا خطرہ دیر کے کوہستانی قبائل سے تعلق رکھنے والے مقامی شکاریوں سے بھی ہے۔

’چونکہ چترال میں میرا مسکن گول نیشنل پارک ہے اسی لیے موسمِ سرما کے دوران یہاں ہمارے لیے خوراک کا حصول سب سے مشکل کام ہوتا ہے لہٰذا مارخوروں کی بڑی تعداد موسمِ سرما میں دیر کوہستان کی خوبصورت وادی کمراٹ کے دُور افتادہ علاقوں کاشکین، شازور، سالیٹ، کونڑ مائی کا رخ کرتی ہے۔ وہاں خوبصورت جنگلات میں سردیوں کے چند مہینے گزار کر ہم موسمِ بہار کے آغاز پر واپس چترال کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔

’موسمِ بہار تک یہیں ڈیرہ ڈالے رکھنے کی وجہ سے ہمارے زیادہ تر بچے کمراٹ میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیر کوہستان کو اپنی جائے پیدائش پکارتے ہیں۔ میری پیدائش بھی کاشکین میں ہوئی تھی، اس لیے میں کمراٹ کو اپنا دوسرا گھر سمجھتا ہوں۔ موسمی ہجرت کا یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے لیکن گزشتہ چند سال سے وادی کمراٹ سے تعلق رکھنے والے چند مقامی شکاری اس خوبصورت وادی میں ہماری ہجرت کو در اندازی سمجھ کر ہمارا شکار کر رہے ہیں۔

’یہ شکار اتنی بے دردی سے کیا جاتا ہے کہ جس میں نہ بچوں کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی حاملہ مادہ مارخور کا۔ میں اسے شکار بھی نہیں کہتا بلکہ یہ تو ہماری نسل کشی کے مترادف عمل ہے۔ اس خطرے کے پیشِ نظر ہمارے بزرگوں کی طرف سے ہمیں ہدایات ملتی ہیں کہ کمراٹ کی حسین وادی میں ان بھوکے شکاریوں کے ہاتھوں مارے جانے اور ان کے دسترخوان کی زینت بننے سے بہتر ہے کہ چترال میں بھوکے پیٹ ہی سویا جائے۔

’چنانچہ مجھے کمراٹ گئے ہوئے ایک بڑا عرصہ گزر چکا ہے۔ ہمارے خاندان کے چند جانور اب بھی کمراٹ جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہم ٹولیوں کی شکل میں بڑی تعداد میں کاشکین پاس عبور کرکے کمراٹ میں داخل ہوتے تو دیر کوہستان کے چرند و پرند مسکرا کر ہمیں خوش آمدید کہتے تھے۔ کمراٹ کے درخت جھوم جھوم کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے صمد شاہی سے گزرتے ہی ہم ٹولیوں میں بٹ جاتے اور گیت گاتے ہوئے کمراٹ میں داخل ہوتے تھے۔

’ہمارے ساتھ بزرگ مارخور بھی ہوتے تھے۔ وہ ہمیں دیر کوہستان اور یہاں کے باسیوں کے حوالے سے کہانیاں سناتے تھے۔ جب برفباری شروع ہوجاتی تھی تو ہم کسی گھنے جنگل میں دیار کے درخت کے نیچے جمع ہوکر بزرگ مارخور سے مزے مزے کی کہانیاں سنتے تھے لیکن وادئ کمراٹ کو شاید کسی کی نظر لگ گئی۔ کمراٹ کی ہواؤں سے دیار کی مہک کے بجائے خون کی بُو آنے لگی۔ مارخور یہاں سے ایسے غائب ہونے لگے جیسے یہاں کبھی ان کا وجود تھا ہی نہیں۔

’لیکن سچ بتاؤں، آج بھی مجھے وادئ کمراٹ کے خوبصورت جنگلات میں بیتے دنوں کی یاد ستاتی ہے۔ میں نے چھاروٹ بانڈہ (بانال) کے پیچھے درختوں کے ایک جھنڈ میں کئی راتیں گزاری ہیں۔ جب موسم صاف ہوتا تھا تو ہم شازور جھیل کی طرف نکل جاتے تھے، اس کے کنارے میں خوب دھوپ سینکا کرتا تھا، اب جب اس وقت کے بارے میں سوچتا ہوں تو سب کچھ خواب سا لگتا ہے۔

’اس ساری داستان گوئی کا مقصد فقط یہ بتانا ہے کہ ہماری نسل انتہائی قیمتی اور نایاب ہے۔ وائلڈ لائف ڈویژن ہر سال چترال میں بوڑھے آئی بیکس اور مارخور کے شکار کے پرمٹ جاری کرتا ہے۔ غیر ملکی شکاری لاکھوں ڈالر میں یہ پرمٹ خریدتے ہیں اور پھر شکار کے لیے چترال آتے ہیں۔ شکار کے اس پرمٹ سے حاصل شدہ رقم میں تقریباً 80 فیصد حصہ علاقہ مکینوں کو دیا جاتا ہے۔ اس فنڈ سے علاقے میں ترقیاتی کام اور نایاب جانوروں (مارخور اور آئی بیکس وغیرہ) کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔

’ہم چاہتے ہیں کہ دیر کوہستان سمیت کشمیر، بلوچستان اور دیگر علاقوں کے مقامی لوگ صرف پیٹ کی خاطر بے رحمی سے ہماری نسل کشی نہ کریں بلکہ نئی نسل کو تخفظ فراہم کریں۔ بوڑھے یا قریب المرگ جانوروں کے قانونی شکار سے یہاں کے مقامی لوگ بھی کروڑوں ڈالر کی کمائی کرسکتے ہیں۔

’محکمہ جنگلی حیات بھی ہمارے غیر قانونی شکار پر پابندی کے قانون پر سختی سے عمل درآمد کروائے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمیں وادئ کمراٹ سمیت پاکستان کی خوبصورت وادیوں اور بلند و بالا پہاڑی سلسلوں میں آزادی کے ساتھ قدرت کی رعانیوں سے لطف اندوز ہونے دیا جائے۔ اس کے بدلے میں ہم مقامی سیاحت اور ماحول میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں گے جس سے یقیناً ملکی معشیت میں کروڑوں ڈالر کا اضافہ ہوگا۔‘

عظمت اکبر

عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔